انگلینڈ کے بلے باز جیمز ونس نے پی ایس ایل کے لیے فرسٹ کلاس کرکٹ چھوڑ دی
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
انگلینڈ کے بلے باز جیمز ونس نے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں کھیلنے کے لیے فرسٹ کلاس کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا۔
انہوں نے یہ فیصلہ بدھ کے روز کیا جس کی وجہ یہ ہے کہ انگلینڈ کرکٹ بورڈ اپنے کرکٹرز کو ٹی 20 مقابلوں میں شرکت کے لیے این او سی دینے کو تیار نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے اپنے کھلاڑیوں کو پاکستان سپر لیگ میں شرکت سے کیوں روکا؟ وجہ سامنے آگئی
انگلینڈ بورڈ نے نومبر 2024 میں فیصلہ کیا تھا کہ اس سیزن میں اپریل سے مئی میں شیڈول پی ایس ایل میں کھیلنے کے لیے تمام فارمیٹ کے کھلاڑیوں کو این او سی جاری کرنے سے گریز کیا جائے کیونکہ لیگ کا کاؤنٹی چیمپئن شپ کے ابتدائی راؤنڈز سے ٹکراؤ ہورہا ہے۔
جیمز ونس نے 13 ٹیسٹ کھیلے ہیں۔ وہ اس سیزن میں بھی ہیمپشائر کی قیادت کرنے والے تھے لیکن پی ایس ایل ڈرافٹ سے قبل کراچی کنگز نے انہیں اپنی ٹیم میں شامل رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں ہیمپشائر سے محبت کرتا ہوں کیوں کہ یہ 16 سال سے میرا کلب اور گھر رہا ہے اس لیے میں ٹی20 کرکٹ میں ہیمپشائر کے لیے اپنی بہترین کارکردگی کو برقرار رکھنے کے قابل ہونا چاہتا ہوں۔
مزید پڑھیے: پی ایس ایل 10 پلیئرز ڈرافٹنگ، کون سی ٹیم نے کس کھلاڑی کو چنا؟
33 سالہ جیمز سنہ 2015 سے ہیمپشائر کی قیادت کر رہے ہیں اور اس وقت وہ متحدہ عرب امارات میں ہونے والے آئی ایل ٹی 20 ٹورنامنٹ میں گلف جائنٹس کے لیے کھیل رہے ہیں۔
ہیمپشائر کے کرکٹ ڈائریکٹر جائلز وائٹ نے کہا کہ وہ ونس کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔
جائلز وائٹ نے کہا کہ جیمز 20 سالوں سے کلب کے لیے عمدہ پرفارم کر رہے ہیں جنہوں میدان میں اور اس کے باہر بھی بطور سرکردہ بلے باز اور کپتان کے طور پر مکمل عزم ظاہر کیا۔
مزید پڑھیں: پی ایس ایل 10 کی ڈرافٹنگ تقریب کا آغاز، کس کھلاڑی نے کیا لباس پہنا؟
ان کا کہنا تھا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ اعلان بہت سے شائقین کے لیے مایوسی کا باعث بنے گا لیکن امید ہے کہ ہر کوئی کلب کو دیے جیمز کے کئی سالوں پر انہیں سراہے گا۔
216 فرسٹ کلاس میچوں میں جیمز ونس نے 30 سینچریوں کے ساتھ 40 کی اوسط سے 13340 رنز بنائے ہیں۔
دریں اثنا انگلینڈ کے بلے باز ٹام کوہلرکیڈمور نے بھی پی ایس ایل میں پشاور زلمی کے لیے کھیلنے کے لیے کاؤنٹی کرکٹ چھوڑ دی ہے اور اس سلسلے میں وہ سمرسیٹ سے بات چیت کر رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انگلینڈ کرکٹ بورڈ پشاور زلمی پی ایس ایل جیمز ونس کاؤنٹی کرکٹ کراچی کنگز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انگلینڈ کرکٹ بورڈ پشاور زلمی پی ایس ایل کاؤنٹی کرکٹ کراچی کنگز پی ایس ایل بلے باز رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
آئی سی سی اور بھارت کا دوغلا پن
گزشتہ شب دبئی کے میدان میں پاک بھارت میچ نے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔ ایک طرف میدان کے اندر بھارتی ٹیم کی جیت کو فوج اور پہلگام متاثرین کے نام کیا گیا، تو دوسری جانب اسٹیڈیم میں موجود پاکستانی اور بھارتی شائقین کے گلے ملنے اور ایک دوسرے کے لیے محبت بھرے نعروں نے سوشل میڈیا پر دھوم مچائی۔
یہ منظر واضح کر رہا تھا کہ عوامی سطح پر تعلقات کی خواہش کچھ اور ہے اور کھیل کے منتظمین کے ایجنڈے کچھ اور۔ بھارت کا رویہ یہاں سب سے نمایاں ہے۔ ایک طرف وہ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ سیریز کھیلنے سے انکار کرتا ہے، فنکاروں اور موسیقاروں پر پابندیاں لگاتا ہے، حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کے ساتھ تعاون کرنے والے اپنے شہریوں کو بھی نشانہ بناتا ہے۔
دوسری طرف جب بات آئی سی سی یا ایشین کرکٹ کونسل کے ٹورنامنٹس کی آتی ہے تو اربوں ڈالر کے نشریاتی معاہدوں اور اشتہارات کی خاطر کھیلنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہی وہ تضاد ہے جسے ماہرین ’محبت اور منافقت‘ کا امتزاج قرار دیتے ہیں۔
کرکٹ کو ’جنٹلمینز گیم‘ کہا جاتا ہے، مگر جب یہ کھیل قومی وقار اور ریاستی سیاست سے جڑ جائے تو پھر ’بیٹ اور بال‘ کے بیچ طاقت، انا اور بیانیے کی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ کل کے پاک بھارت میچ کے بعد پیدا ہونے والا ’ہینڈ شیک تنازع‘ اس بحث کو ایک بار پھر زندہ کر گیا ہے کہ کھیل کو سیاست سے کیسے الگ رکھا جائے اور آئی سی سی اس ضمن میں کیا کردار ادا کرتی ہے؟
ایشیا کپ کے دبئی میچ کے بعد بھارتی ٹیم کا پاکستان کے کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانے سے گریز کھیل کی اسپرٹ سے انحراف تھا۔ بھارتی کپتان سوریا کمار یادیو نے اسے حکومتی و بورڈ پالیسی کے مطابق قرار دے کر یہ تاثر مزید پختہ کر دیا کہ یہ فیصلہ کھیل کا نہیں بلکہ سیاسی تھا۔
پاکستان نے بھی احتجاجاً اپنا کپتان پریزنٹیشن کے لیے نہ بھیج کر اس رویے پر ردعمل دیا۔ کوچ مائیک ہیسن اور سابق فاسٹ باؤلر شعیب اختر نے واضح کہا کہ کھیل کو سیاست میں گھسیٹنا ناقابل قبول ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ محض کھیل نہیں، تاہم پاکستان نے ہمیشہ اسپورٹس اسپرٹ کا مظاہرہ کیا۔ 1999 کے لاہور ٹیسٹ میں کارگل کے پس منظر کے باوجود پرویز مشرف اور بھارتی ٹیم کی مسکراہٹیں یادگار ہیں مگر اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔
2019 میں بھارت نے ورلڈ کپ میں پاکستان سے میچ کھیلنے کے خلاف مہم چلائی، مگر آئی سی سی نے دباؤ قبول نہیں کیا۔ اس کے برعکس، پاکستان نے بارہا بھارت کے ان اقدامات پر اعتراض کیا جن سے کھیل کو سیاست میں گھسیٹا گیا، لیکن اکثر شکایات نظرانداز ہوئیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ یہ کھیل سیاست، نسلی امتیاز اور عالمی تنازعات سے بارہا متاثر ہوا ہے۔ آئی سی سی بارہا مؤقف اپناتی رہی کہ کھیل کو سیاست سے الگ رکھا جائے، مگر اس میں تضاد بھی نمایاں رہا ہے۔ چند اہم مثالیں:
1968: جنوبی افریقہ
نسلی امتیاز (اپارتھائیڈ) کی پالیسی کے باعث جنوبی افریقہ کو بین الاقوامی کرکٹ سے باہر کر دیا گیا اور پروٹیز کئی دہائیوں تک عالمی کرکٹ کھیلنے سے محروم رہے۔
1996: بھارت بمقابلہ سری لنکا
ورلڈ کپ کے دوران بھارت نے تامل شورش کے باعث سری لنکا میں کھیلنے سے انکار کیا۔ آئی سی سی نے اسے کھیل کے اصولوں کے منافی قرار دے کر میچ سری لنکا کو دے دیا۔
2003: زمبابوے
زمبابوے کے کھلاڑی اینڈی فلاور اور ہنری اولونگا نے سیاہ پٹیاں پہن کر انسانی حقوق کی پامالی پر احتجاج کیا، جس پر آئی سی سی نے انہیں وارننگ جاری کی۔ اسی ورلڈ کپ میں انگلینڈ نے زمبابوے میں میچ کھیلنے سے انکار کیا تو آئی سی سی نے پوائنٹس کاٹ لیے۔
2009: لاہور حملہ
سری لنکن ٹیم پر دہشتگرد حملے کے بعد پاکستان برسوں تک اپنے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ سے محروم رہا اور نیوٹرل وینیو پر کھیلنے پر مجبور ہوا۔
2019: پلوامہ واقعہ
بھارتی ٹیم نے آسٹریلیا کے خلاف فوجی ٹوپیاں پہن کر میچ کھیلا۔ پاکستان نے احتجاج کیا مگر آئی سی سی نے صرف تنبیہ کے ساتھ معاملہ ختم کر دیا۔
2023: عثمان خواجہ کا احتجاج
آسٹریلوی اوپنر عثمان خواجہ نے فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے نعرے درج جوتے پہننے کا ارادہ کیا، مگر آئی سی سی نے ضوابط کی خلاف ورزی قرار دے کر روک دیا۔ بعدازاں انہوں نے بازو پر سیاہ پٹی باندھی تو ان پر چارج عائد کر دیا گیا۔
اس سے قبل جنوبی افریقہ کے اسپنر کیشو مہاراج کو مذہبی نشان کے استعمال کی اجازت دی گئی تھی، جو آئی سی سی کے متضاد رویے کو اجاگر کرتا ہے۔
2025: ایشیا کپ ہینڈ شیک تنازع
14 ستمبر کو دبئی میں بھارتی کھلاڑیوں نے پاکستانی ٹیم سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا۔ یہ واقعہ اسپرٹ آف کرکٹ کی خلاف ورزی کے طور پر دنیا بھر میں زیر بحث آیا، مگر تاحال آئی سی سی کا کوئی باضابطہ مؤقف سامنے نہیں آیا۔
پاکستانی کوچ مائیک ہیسن نے کہا کہ ہم کھیل کو کھیل سمجھتے ہیں، سیاست اس میں شامل نہیں ہونی چاہیے۔ سابق فاسٹ باؤلر شعیب اختر نے مؤقف اپنایا کہ بھارت نے کھیل کی روح کو مجروح کیا۔ ویسٹ انڈیز کے سابق کپتان ڈیرن سیمی نے بھی زور دیا کہ آئی سی سی کو سب کے لیے یکساں اصول اپنانے ہوں گے۔
آئی سی سی کے پاس کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے جو کھیل میں سیاسی یا مذہبی علامت کے استعمال کو روکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اصول سب پر یکساں لاگو ہوں گے یا بڑے بورڈز کے اثر و رسوخ کے آگے ضابطے کمزور پڑتے رہیں گے؟
دبئی کے اسٹیڈیم میں عوام نے ثابت کر دیا کہ تعلقات اور بھائی چارے کی خواہش سیاست سے زیادہ مضبوط ہے۔ اب یہ فیصلہ آئی سی سی اور کرکٹ بورڈز کو کرنا ہے کہ وہ کھیل کو سیاست کے بوجھ سے آزاد رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
آئی سی سی کے لیے بھی یہ ایک امتحان ہے۔ اگر وہ کھیل کو سیاست سے بالاتر رکھنے کے اپنے اصول پر قائم ہے تو اسے بھارت سمیت سب پر یکساں ایکشن لینا ہوگا۔ بصورت دیگر کھیل بزنس اور بیانیے کی بھینٹ چڑھتا رہے گا اور اس کی اصل روح کھو جائے گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں