غزہ میں جنگ بندی کے روشن امکانات
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
غزہ جنگ بندی ڈیل کے لیے کی جانے والی کوششیں حتمی مراحل میں داخل ہوچکی ہیں۔ دوحہ میں جاری غزہ جنگ بندی معاہدے کے مندرجات سامنے آگئے ہیں جن کا باضابطہ اعلان رواں ہفتے کے اختتام پر کیا جائے گا۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں جارحانہ کارروائیاں جاری رکھیں، حکام کے مطابق خواتین اور بچوں سمیت مزید 61 فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا۔
بلاشبہ غزہ میں جنگ بندی کے امکانات واضح ہوتے جا رہے ہیں، اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی شرائط کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی صدر جوبائیڈن رخصت ہونے والے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھانے والے ہیں۔
ٹرمپ نے پہلے خبردار کیا تھا کہ اگر 20 جنوری کو اقتدار سنبھالنے سے پہلے یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو ’’سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔‘‘ تازہ ترین پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب نیتن یاہو کو ممکنہ معاہدے کے حوالے سے اپنے حکمران اتحاد کے اندر سے شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ نیتن یاہو کی اپنی لیکوڈ پارٹی کے کچھ ارکان کے علاوہ دائیں بازو کے دس ارکان نے انھیں جنگ بندی کی مخالفت کرتے ہوئے ایک خط بھیجا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ حالیہ دنوں میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے دنیا کا ایک ایسا نقشہ پیش کیا تھا، جس میں فلسطین کا کوئی وجود نہیں دکھایا گیا، اس میں ان کے ارادے کو ظاہر کیا گیا ہے۔ تاہم اس وقت دنیا میں تقریبا 16ملین یہودی آباد ہیں اور تقریبا 9 سے 10 ملین یہودی امریکا اور کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں جن کی امریکی پارلیمنٹ میں قابل ذکر تعداد اور نمایندگی ہے، لہٰذا اسرائیلی یہودی آسانی سے امریکا میں مستقل طور پر آباد ہوسکتے ہیں۔ مظلوم فلسطینیوں کو ان کے حقوق دیے جانے چاہئیں، جن میں روشن مستقبل بھی شامل ہے جو دہائیوں سے ظلم و جبر سہہ رہے ہیں۔
ہولو کاسٹ میں سے بچ جانے والے اسرائیلی آباد کار، پناہ گزین کی حیثیت سے فلسطین میں آکر آباد ہوئے تھے ، لیکن انھوں نے مغربی طاقتوں کی پشت پناہی میں فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ حقائق کے برعکس اسرائیلی قبضے کو تاریخی، علاقائی، مذہبی اور سیاسی نقطہ نظر سے غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے زمین، سرحدوں، بستیوں، سلامتی، پناہ گزینوں اور مختلف قومی بیانیوں کے بارے میں تمام اعلانیہ تنازعات جھوٹے من گھڑت اور بلاجواز ہیں۔
حالیہ دنوں اقوام متحدہ نے فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی بحرانوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے انسانی امداد مہیا کرنے کے لیے جنگ میں تھوڑا سا وقفہ کرنے کے لیے سیکیورٹی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی تھی تا کہ انسانی امداد متاثرین کو پہنچ سکے جسے بدقسمتی سے صرف امریکا نے ویٹو کردیا تھا۔ سیکیورٹی کونسل 15 اراکین پر مشتمل ہے جس میں پانچ مستقل اراکین میں امریکا، روس اور چین شامل ہیں جب کہ 10 اراکین ہر دو سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں المیہ یہ بھی ہے پانچ مستقل اراکین میں سے کوئی بھی کسی قرارداد کو ویٹو کر دے یعنی ووٹ خلاف ڈال دے تو وہ منظور نہیں کی جا سکتی۔
اقوام متحدہ میں اس مذکورہ پیش کی گئی قرارداد میں چین اور فرانس نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالا جب کہ روس برطانیہ نے ووٹ ڈالنے سے اجتناب کیا اس کے علاوہ تمام عارضی10 ممبران نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور امریکا نے اسے ویٹو کردیا۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ حماس 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے خلاف ایک بار پھر جوابی کارروائی کرنے پر کیوں مجبور ہوا حالانکہ اسرائیل فلسطین تنازعہ امریکا اور مغرب کی جانب سے کئی دہائیوں سے من گھڑت ڈرامہ جاری ہے لیکن 2021 کے بعد سے یہ شدت اختیار کر رہا تھا اور اب نئے سرے سے اپنے عروج کو چھو رہا ہے اور مظلوم فلسطینی منظم نسل کُشی، جبری حراستوں، اپنے علاقوں سے بے دخلی اور ناکہ بندی جیسی غیر معمولی مصیبتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
اس وقت اسرائیل غزہ میں ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ اسرائیل کا مسلسل اسپتالوں پر حملے کرنا جنگی جرم اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دراصل اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے اسرائیل طبی مراکز کو نشانہ بنا رہا ہے، غزہ کے کسی بھی اسپتال کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ فلسطینی علاقوں میں حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی خصوصی نمایندہ فرانسسکا البانی نے انکشاف کرچکی ہیں کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث ہے۔ انھوں نے اپنی ایک رپورٹ ’’ نسل کشی کی اٹانومی‘‘ میں کہا کہ اس بات کے معقول شواہد موجود ہیں کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی متعدد کارروائیاں کی ہیں۔
اس بات کے واضح اشارے ملے ہیں کہ اسرائیل نے نسل کشی کے بین الاقوامی کنونشن کے تحت درج پانچ میں سے تین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیلی فوج غزہ میں مختلف گروپ کے ارکان کو قتل کرنے اور انھیں شدید جسمانی یا ذہنی اذیت پہنچانے میں ملوث رہی ہے۔ سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی قرارداد منظور ہونے کے باوجود اسرائیل بلا ناغہ بے گناہ پریشان حال غزہ کے فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے۔
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ یہ قتل عام کیسے رکے گا؟ اگر امریکا اور مغربی ممالک، جو اسرائیلی جارحیت میں مددگار بنتے ہیں، دل سے چاہیں تو اسرائیل جنگ بندی کے لیے مجبور ہوجائے گا، کیونکہ اسرائیلی حکام نے اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ وہ غزہ میں حماس کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے مقصد میں ناکام رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ تمام مغربی ممالک اوریہاں تک کہ اسرائیل میں بھی صیہونی جارحیت کے خلاف عوام سڑکوں پر آگئے ہیں لیکن چند ممالک کو چھوڑ کر ان سبھی ممالک کے حکام کا ضمیر مرچکا ہے۔
ان صہیونیوں کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت میں جنگی جرائم اور فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کے ارتکاب پر فوری بنیادوں پر مقدمہ چلایا جائے اور ان کے مطابق انھیں سزا دی جائے۔ مزید برآں انھیں فلسطین پر غیر قانونی، قبضے کو فوری طور پر ختم کرنا ہوگا۔ اسرائیل میں بسنے والے فلسطینی افراد، خاص طور پر اسرائیل کے عرب شہری، جو اسرائیل کے تقریبا 23 فیصد آبادی پر مشتمل ہیں، برسوں سے مختلف قسم کے امتیازی سلوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین مسلمانوں کی سرزمین ہے چاہے فلسطینی علاقوں میں حکومت کی موجودہ تقسیم دو الگ الگ سیاسی پارٹیوں یا گروہوں جیسے غزہ کی پٹی میں حماس اور مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کی طرف سے کی جائے۔ یہ کچھ معمولی اندرونی تاریخی، سیاسی اور نظریاتی عوامل کا نتیجہ ہے جنھیں امریکا، اسرائیل اور مغرب کی جانب سے غلط انداز میں پیش کیا جاتا ہے تا کہ دنیا کے سامنے فلسطینی مسلمانوں کے فلسطین پر حق کے دعوے کو کمزور کیا جا سکے۔
غزہ کی پٹی 2007 سے حماس کے زیر کنٹرول ہے۔ مغربی کنارے پر صدر محمود عباس کی سربراہی میں فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کا کنٹرول ہے۔ پی اے اوسلو معاہدے کے حصے کے طور پر قائم کیا گیا تھا اور اس میں حق حکمرانی محدود ہے۔دوسری جانب غزہ میں فلسطینیوں کی بڑی تعداد میں اموات اور تباہی اسرائیلی فوجیوں کو نفسیاتی طور پر متاثر کر رہی ہے، حال ہی میں درجنوں اسرائیلی فوجیوں نے غزہ میں لڑنے سے انکار کردیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق تقریباً 200 فوجیوں نے ایک خط پر دستخط کیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اگر حکومت جنگ بندی کو یقینی نہیں بناتی تو وہ لڑائی بند کردیں گے۔
اسرائیلی فوجیوں نے 15 ماہ سے جاری غزہ جنگ کے دوران مختلف کارروائیوں کو غیر اخلاقی قرار دیا ہے جب کہ کچھ نے بیگناہ فلسطینیوں کی اموات اور گھروں کی تباہی کی گواہی دی ہے۔ اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج میں خود کشیوں کے واقعات اور ذہنی دباؤ کی شکایات میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا مستقل حل نکالا جائے کیونکہ اسرائیل نے نسل کشی کے گھناؤنے اقدامات کے بعد فلسطینیوں کے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ موجودہ صورتحال میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو روکنا ساری دنیا کی مشترکہ ذمے داری ہے کیونکہ اسرائیل سنگین جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ عام شہریوں، آبادیوں، اسپتالوں، صحافیوں کو نشانہ بنانا کھلم کھلا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے ضابطوں کی خلاف ورزی ہے، اگر اسرائیل کی دہشت گردی کو نہ روکا گیا تو فلسطین کے بعد اردگرد کے دوسرے ممالک بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔
غزہ میں متوقع عارضی جنگ بندی کو مستقل جنگ بندی کا پیش خیمہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ضروری ہے کہ اسرائیل کی اس بر بریت کے خاتمے کے لیے عالمی طاقتیں اور اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرے ۔ جب تک عالمی طاقتیں مستقل جنگ بندی کے لیے کوششیں نہیں کرتیں، غزہ میں مظالم نہیں رک سکتے اور صہیونی طاقتیں اپنے منصوبے جاری رکھیں گی۔
دنیا کی بڑی اور اثر و رسوخ رکھنے والی حکومتوں کا اس وقت اسرائیل پر دباؤ ڈالنا انتہائی ضروری ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کرے اور وہاں موجود شہریوں کے لیے آنے والی بیرونی امداد کا راستہ نہ روکے، اگر فلسطینیوں کی جاری نسل کشی نہ روکی جا سکی تو یہ انسانیت کی ناکامی ہوگی۔ عالمی انصاف، پرامن بقائے باہمی اور ہم آہنگی ناگزیر ہے، اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کی مکمل از سر تنظیم نو کی ضرورت ہے کیونکہ لامحدود طاقتوں کا ارتکاز کچھ ہاتھوں میں ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ جنگ بندی کے کہ اسرائیل میں فلسطین خلاف ورزی کے مطابق ا گیا ہے کے لیے ا رہے ہیں کیا گیا رہا ہے پیش کی ہیں کہ
پڑھیں:
ناقص منصوبہ بندی کے نقصانات
بلوچستان صدیوں سے پسماندہ علاقہ رہا ہے۔ سندھ کا دارالحکومت کراچی بلوچستان کے شہر ضلع لسبیلہ سے متصل ہے۔ کراچی سے کوئٹہ کا فاصلہ 631 کلومیٹر ہے۔ بلوچستان کے سرحدی شہر حب کے بعد دشوار گزار پہاڑی راستہ شروع ہوجاتا ہے، یہ ایک قدیم راستہ ہے۔ کراچی سے کوئٹہ کے راستے پرکئی شہر آباد ہیں جن میں بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر خضدار بھی شامل ہے۔
سابق صدر جنرل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں جب پاکستان، ایران اور ترکی آر سی ڈی معاہدے میں منسلک ہوئے تو آر سی ڈی ہائی وے کے نام پر ایک چھوٹی سی سڑک تعمیر ہوئی، یوں کراچی سے نہ صرف کوئٹہ بلکہ افغانستان اور ایران جانے کے لیے بھی یہ سڑک اہم بن گئی، مگر یہ سڑک یک طرفہ ہے، اس لیے ٹریفک بڑھنے کے ساتھ اس سڑک پر حادثات کی اوسطاً تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی۔
اس سڑک کے اطراف میں کئی سابق وزراء اعلیٰ کے آبائی گاؤں بھی ہیں۔ ماضی میں وزرائے اعلیٰ نے اس سڑک کو توسیع دینے اور جدید ہائی وے میں تبدیل کرنے کے اعلانات کیے ہیں۔ ایسے ہی اعلانات وفاقی وزراء اور برسر اقتدار آنے والے وزرائے اعظم نے بھی کیے۔ بلوچستان سے منتخب ہونے والے اراکینِ قومی اسمبلی، سینیٹ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے بھی اس سڑک کی صورتحال پر توجہ دلائی۔ کبھی اس سڑک کی توسیع کے لیے فنڈز مختص کرنے کے اعلانات بھی ہوئے مگر عملی طور پر یہ سڑک خونی سڑک ہی رہی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دورِ اقتدار میں سی پیک کا بڑا منصوبہ شروع ہوا۔
سی پیک کے جاری کردہ لے آؤٹ کے تحت چین کو بلوچستان کی تمام اہم سڑکوں کو جدید سڑکوں میں تبدیل کرنا تھا۔ سی پیک کے تحت کراچی سے گوادر تک ہائی وے تعمیر ہوئی۔ گوادر، خضدار اور رتوڈیرو سے چین تک ایک جدید ترین ہائی وے کی تعمیر مکمل ہوئی۔ منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال جو سی پیک کو گیم چینجر قرار دیتے ہیں وہ بار بار یہ اعلان کرتے رہے کہ بلوچستان میں اب سڑکوں کا جال بچھ جائے گا مگر پھر مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہوئی تو تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی۔
اس حکومت کے وزراء بھی یہ نعرے لگاتے رہے ۔ اس دوران بلوچستان میں بد امنی بڑھ گئی۔ سڑکوں کا بند ہونا اور بلوچستان کے شہروں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا، پھر مسلم لیگ ن کی حکومت آگئی۔ اب پھر پروفیسر احسن اقبال نے یہ بیانیہ اختیار کیا ۔ یہ خبریں شائع ہونے لگیں کہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں سی پیک کے تحت کئی منصوبے مکمل ہوگئے۔
جس پر بلوچستان کے کچھ باشعور افراد کا یہ مفروضہ درست لگنے لگا کہ سی پیک منصوبہ کا دائرہ کار بلوچستان میں مخصوص سڑکوں کی تعمیر تک محدود ہے۔ صدر ٹرمپ کے عالمی معیشت کو تہہ و بالا کرنے والے فیصلوں کی بناء پر تیل کی مارکیٹ بری طرح متاثر ہوئی اور پوری دنیا میں تیل کی قیمتیں بڑی حد تک کم ہوگئیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پیٹرول اور HSP کی قیمتیں 6 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 5 بیرل تک پہنچ گئیں اور بعض ممالک نے تیل کی قیمتوں میں مزید کمی کردی۔
حکومتِ پاکستان نے پہلے تو یہ اعلان کیا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی بناء پر اس ماہ پیٹرولیم کی مصنوعات میں کوئی کمی نہیں ہوگی بلکہ حکومت کو اس کمی سے جو فائدہ ہوگا، اس سے بجلی کے بلوں میں کمی کی جائے گی، یوں اس بات کا امکان ہے کہ عام صارف کو چند ماہ تک بجلی کے بلوں میں 6 روپے کا ریلیف ملے گا۔ صدر آصف زرداری نے پیٹرولیم لیوی ترمیمی آرڈیننس جاری کیا۔ اس آرڈیننس کے تحت پیٹرولیم لیوی آرڈیننس سے ترمیم نمبر پانچ کو نکال دیا گیا اور پیٹرولیم پر لیوی 8 روپے 72 پیسے بڑھا دی گئی۔ پٹرولیم پر لیوی 70 روپے سے بڑھا کر 78 روپے 72 پیسے کردی گئی۔
ڈیزل لیوی پر بھی لیوی بڑھا دی گئی۔ یہ بھی خبر ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پٹرول پر فی بیرل 5 روپے کی لیوی نافذ کی جائے گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ دنوں بلوچستان کے عوام کو یہ خوش خبری سنائی کہ حکومت اس بچت کو بلوچستان میں سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کرے گی۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اس رقم سے بلوچستان کی بہت سے اہم شاہراہیں تعمیر ہونگی، جن میں چمن،کوئٹہ، قلات، خضدار اورکراچی شاہراہ کی تعمیر شامل ہے اور اس سڑک کو دو رویہ کیا جائے گا۔ اسی رقم سے کچھی کنال کا فیز 2 بھی مکمل کیا جائے گا۔ اسی طرح M-6 اور M-9 کو بھی مکمل کیا جائے گا۔
وزیر اعظم کے اس اعلان کا بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے بھرپور خیر مقدم کیا۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے اشیائے صرف کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ حکومت نے عام آدمی کو چند ماہ کے لیے بجلی کے بلوں میں جو ریلیف دیا ہے وہ بھی پھیکا پڑ جائے گا۔ بلوچستان کے دانشوروں کا یہ سوال اہمیت اختیارکرگیا ہے کہ سی پیک کے منصوبے میں بلوچستان کی اہم شاہراہیں شامل نہیں۔ کیا ملک کے دیگر صوبوں میں حکومت نے جو ترقیاتی منصوبے شروع کیے ہیں، اس کے لیے بھی پیٹرولیم مصنوعات کی عالمی منڈیوں میں کمی پر انحصارکیا جاتا ہے۔
بلوچستان کے امور کے ماہر عزیز سنگھور اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو پاکستان کی تقدیر بدلنے والا منصوبہ قرار دیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت گوادر کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور بلوچستان کو ’’ گیٹ وے‘‘ قرار دیا گیا تھا، مگر بدقسمتی سے سی پیک کے عملی ثمرات کا رخ ر چند دوسرے شہروں کی جانب ہوا، جہاں جدید سڑکیں، انڈسٹریل زونز اور دیگر منصوبے مکمل ہوئے، جب کہ بلوچستان آج بھی بنیادی انفرا اسٹرکچر سے محروم ہے۔
شاہراہ این 25، جو کوئٹہ کو کراچی سے ملاتی ہے، کو ’’ قاتل شاہراہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ سڑک نہ صرف خستہ حال ہے بلکہ روزانہ کئی قیمتی جانیں حادثات کی نذر ہو جاتی ہیں، اگر واقعی سی پیک کے تحت بلوچستان میں ترقیاتی کام ہوئے ہوتے تو این25 جیسے اہم ترین راستے کی حالت زار ایسی نہ ہوتی۔ یہ فیصلہ بذاتِ خود اس بات کا اعتراف ہے کہ سی پیک کے اعلانات کے باوجود بلوچستان میں زمینی سطح پر کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں ہوئی۔ یہ امر باعثِ تشویش ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے حاصل ہونے والی بچت کو عوامی ریلیف کے بجائے ایک ایسی سڑک کی مرمت پر خرچ کیا جا رہا ہے، جس کی تعمیر گزشتہ دہائیوں سے نظرانداز کی گئی۔
بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا مگر سب سے زیادہ نظر اندازکیا گیا صوبہ ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود یہاں کے عوام کو نہ گیس میسر ہے، نہ صاف پانی، نہ تعلیم، نہ صحت اور نہ ہی روزگار۔ اگر سی پیک واقعی ’’ گیم چینجر‘‘ ہوتا تو سب سے پہلے بلوچستان میں تعلیم، صحت، صنعت و حرفت، روزگار اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ہوتی۔ مگر زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کا بھی عکاس ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے جو فیصلے کیے جاتے ہیں وہ بغیر مقامی نمایندوں، ماہرین یا عوامی مشاورت کے ہوتے ہیں۔
یہ رویہ جمہوری اصولوں کے خلاف ہے ۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا بیانیہ ہے کہ حکومت نے گزشتہ 2 ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات میں رعایت دینے کے بجائے 34 ارب روپے ماہانہ ٹیکس بڑھا دیا۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ حکومت نے مارچ میں پیٹرولیم کی مصنوعات 10 روپے اور اپریل میں مزید 10 روپے کا اضافہ کیا، یوں پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی 80 روپے تک پہنچ گئی۔
مفتاح اسماعیل حکومت کے اس دعویٰ کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ یہ رقم بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوگی۔ پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے پھر عام آدمی کی زندگی درگور ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں ہر صورت سڑکیں تعمیر ہونی چاہئیں مگر ایسی ناقص منصوبہ بندی جس سے خود بلوچستان کے عوام میں احساسِ محرومی گہرا ہوجائے اور باقی صوبوں کے غریب عوام اور بلوچستان کے عوام کے درمیان تضادات پیدا ہوجائیں، نقصان دہ رہے گی۔