Jasarat News:
2025-07-27@06:24:04 GMT

اسٹیبلشمنٹ کو بھی سیکھنا ہوگا

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

اسٹیبلشمنٹ کو بھی سیکھنا ہوگا

پاکستان کا بنیادی مسئلہ آئین، قانون، سیاست اور جمہوریت پر مبنی نظام ہے۔ مصنوعی یا بڑی طاقتوں کا کنٹرولڈ نظام ہمارے مستقبل کا حل نہیں ہے۔ پاکستان کا حالیہ بحران بھی سیاست اور جمہوریت کی نفی کرتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کمزور جمہوری اور سیاسی اداروں کی موجودگی میں ہمارا داخلی بحران سنگین مسائل کی نشاندہی کررہا ہے۔ بڑا مسئلہ ریاستی اور سیاسی اداروں کے درمیان بداعتمادی اور ٹکرائو کا ہے اور ہر کوئی ادارہ ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کرتا ہے یا اپنی اپنی بالادستی چاہتا ہے۔ اسی بنیاد پر سیاسی نظام میں تعطل بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ حال ہی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پشاور میں سیاسی عمائدین اور علمائے کرام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہماری پالیسی صرف پاکستانی ریاستی ترجیحات ہی نہیں بلکہ قومی سیاست بھی ہے اور غلطیوں سے سبق نہ سیکھنا بھی بڑی غلطی ہوگی۔ اسی طرح ان کے بقول عوام اور فوج کا رشتہ کمزور کرنے کا بیانیہ بیرون ملک سے چلایا جاتا ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ اس ملک میں ماضی یا حال میں ہورہا ہے اس کی ذمے داری کسی ایک فریق کی ہے یا منفی کھیل میں سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں نے مل کر حصہ ڈالا ہے۔ اس وقت بھی ملک میں جمہوری نظام کو جیسے چلایا جارہا ہے اس پر بہت سے سوالات ہیں اور جو جمہوری سیاسی اور حکومتی بندوبست موجود ہے اس کا ریموٹ کنٹرول بھی بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جہاں سیاسی نظام پر تنقید ہورہی ہے وہیں اسٹیبلشمنٹ کو بھی داخلی اور خارجی سطح پر اپنے سیاسی کردار کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مضبوط ریاست اور مضبوط سیاست کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور خود ریاست کی ضرورت بنتی ہے کہ ملک سیاسی، معاشی اور سیکورٹی اور گورننس کے طور پر مستحکم ہو۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب تمام ادارے آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں۔ کیونکہ ملک اگر آئین اور قانون کے دائرہ کار میں چلے گا تو اسی سے ریاست کا مفاد بھی وابستہ ہے۔ یہی سوچ اور فکر ریاست کو دنیا کے سامنے مہذب ریاست کے طور پر پیش کرتی ہے اور ریاستی ادارے ایک دوسرے کو جواب دہ ہوتے ہیں۔ اس وقت ہمیں بنیادی طور پر یہ اپنی قومی ترجیحات کا تعین کرنا ہے اور سیاست کو آزادانہ بنیادوں پر اور خود مختاری کی بنیاد پر چلانے کے لیے موثر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ سیاسی اداروں کو آزادی نہیں دیں گے اور ان کو خود اب کام کرنے نہیں دیں گے تو اس سے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا تاثر عام ہوگا۔ ماضی میں ہماری اسٹیبلشمنٹ سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں اور ان غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مقتدرہ اپنے آپ کو سیاسی امور سے دور رکھے۔ ان کا کام معاونت کا ہونا چاہیے نہ کہ یہ تاثر عام ہو کہ فوج نے بہت سے سیاسی معاملات پر اپنا کنٹرول یا اثر نفوس بڑھا لیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ماضی میں ان کی سیاسی مداخلتوں کی وجہ سے یہ ملک جمہوری ٹریک سے بہت دور چلا گیا ہے۔ اگرچہ اب بھی فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ سیاسی معاملات سے الگ تھلگ ہے لیکن عملی طور پر اس کی جھلک کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر توڑ پھوڑ یا پرانی جماعتوں کے مقابلے میں نئی جماعتوں کی تشکیل یا حکومت کے نظام میں عدم تسلسل کی پالیسی نے ہمارے ملک کے جمہوری نظام پر کئی سوالات کھڑے کیے ہوئے ہیں۔ اسی طرح جب فوج براہ راست سیاسی امور میں دلچسپی لے گی تو اس سے فوج کے اوپر تنقید کا دروازہ کھلے گا اور لوگ باہر ہوں یا اندر فوج کے کردار پر سوالات بھی اُٹھائیں گے۔ یہ جو ہمیں ڈیجیٹل میڈیا کے اندر فوج پر تنقید کا ایک بازار گرم نظر آتا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ لوگ فوج کے سیاسی کردار پر سوالات اٹھاتے ہیں اور فوج کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے بلکہ اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ فوج ہماری طاقت بھی ہے اور ہماری ضرورت بھی۔

آج کے جدید دور میں ریاستیں آئین اور قانون کی حکمرانی سے جڑی ہوئی ہے اور جہاں جہاں آئین اور قانون سے انحراف کیا جاتا ہے وہاں وہاں ریاستوں کی ذات پر سوالیہ نشان موجود ہے۔ اس لیے ہماری ریاست کی بقا اور تحفظ اسی میں ہے کہ ہم اسی انداز میں ملک کو چلانے کی کوشش کریں جیسے جدید ریاستوں کا تصور دنیا بھر میں موجود ہے، ماضی میں ہم سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے بھی کافی کنفیوژن کا شکار رہے ہیں۔ سول ملٹری تعلقات کا مقصد کسی ایک ادارے پر دوسرے ادارے کا قبضہ نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ مدد اور تعاون کا رویہ ہونا چاہیے۔ فوج اور سیاست دانوں کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ آج کی جدید دنیا میں جہاں سیاست اور جمہوریت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے وہیں انسانی حقوق کی بحالی اور خاص طور پر اداروں کے استحکام کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا وقت کی ضرورت ہے۔ یہ سوچ و فکر کہ سیاست دان ساری صورتحال کے ذمے دار ہیں مکمل سچ نہیں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ خود اسٹیبلشمنٹ بھی یہ سیکھے کہ ماضی کے تجربات سے ہم جمہوری سیاست سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ منصفانہ اور شفاف انتخابات اور عوامی مینڈیٹ پر مبنی حکومتیں ہمارا مستقبل ہیں۔ سیاسی مہم جوئی اور ایڈونچرز کی سیاست سے ہمیں دور رہنا چاہیے اور سیاست دانوں کو موقع دینا چاہیے کہ وہ سیاسی معاملات و سیاسی حکمت عملیوں کو طے کریں۔ سیاست دانوں کو یہ موقع کم ملنا چاہیے کہ وہ اس بات کا تاثر دیں کہ ہمارے کام نہ کرنے کی وجہ اسٹیبلشمنٹ کا رویہ ہے۔ سیاسی اداروں کا استحکام اسی صورت میں ممکن ہوگا جب سیاسی ادارے اپنی بالادستی کو یقینی بنائیں اور پارلیمانی بالادستی کو بنیاد بنا کر قومی فیصلے کریں۔ جو کچھ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ، حکومت، اپوزیشن، عدلیہ اور اداروں کے تناظر میں ہو رہا ہے وہ کسی بھی صورت میں پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ محض سیاسی بحران نہیں بلکہ ایک بڑے خطرناک ریاستی بحران کی نشاندہی کرتا ہے، اس بحران سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے پہلے یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ سمیت سب لوگ موجودہ حالات کے ذمے دار ہیں، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ صورتحال کا ذمے دار نہیں بلکہ دوسرے فریق ہیں تو یہ حالات سے نظریں چرانے کے مترادف ہوگا، اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کی سیاسی نظام کب بوجھ اٹھانے کے بجائے یہ ذمے داری سیاست دانوں پر اور حکومتوں پر ڈالنی ہوگی کہ وہ حالات کا خود مقابلہ کریں اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی متنازع بنانے سے گریز کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خود اسٹیبلشمنٹ بھی سیاست دانوں پر اعتماد اور اعتبار کرے کیونکہ اعتماد اور اعتبار کے بغیر سیاسی نظام کو مستحکم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ سیاست دانوں کو جواب دہ اسی صورت میں بنایا جا سکتا ہے جب ان کے اوپر مکمل ذمے داری ہوگی اور وہی ذمے داری کو قبول کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ سیاسی نظام میں مداخلت اور تعطل پیدا کرنا یا اس کے اندر ایڈونچرز کرنے سے قومی سیاست کسی بھی صورت میں ایک کامیاب جمہوری ریاست میں تبدیل نہیں ہو سکے گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسٹیبلشمنٹ کو بھی کے لیے ضروری ہے ا ئین اور قانون سیاست دانوں کو سیاسی اداروں سیاسی نظام نہیں بلکہ ایک دوسرے کی وجہ بھی یہ ہے اور

پڑھیں:

تعلیم برائے فروخت

کسی بھی ملک کی ترقی کا دارو مدار وہاں کے تعلیمی نظام پر منحصر ہوتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو اسکولوں میں داخلے اسی لیے دلواتے ہیں تاکہ اُن کے بچے آگے جا کر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، اعلیٰ کردارکے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان اور اپنے ملک کی ترقی کا سبب بھی بنیں، ایسے ہی اسکولوں میں بھی بچوں کو تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت بھی دی جاتی ہے۔

اساتذہ طلبہ کو اچھی تعلیم دینے کے ذمے دار ہوتے ہیں جس سے آگے جا کر وہی طلبہ اپنے ملک کے معمار بنتے ہیں۔ بے شک تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں تعلیم ایک قابل فروخت حقیقت بنتی جا رہی ہے جہاں معیار تعلیم دولت سے جڑا ہوا ہے۔

پاکستان میں موجود ہ تعلیمی نظام پر پرائیویٹ اسکولوں کا راج ہے۔ پاکستان میں پرائیویٹ اسکولز ایسو سی ایشن ہونے کے باوجود پاکستان کے مختلف شہروں میں موجود پرائیویٹ اسکول اپنے اپنے حساب سے تعلیمی نظام چلا رہے ہیں۔ جیسا کہ کئی نجی اسکولوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ بچے کے داخلے کے وقت پہلے والدین کی تعلیم اور اُنکا انٹرویو بھی لیا جاتا ہے جب کہ اگر والدین پڑھے لکھے نہ ہوں یا اُن کے اسکول کے معیار پر بچے کے والدین پورا نہ اُتریں تو بچے کو بھی داخلہ نہیں دیا جاتا۔

مطلب اگر کوئی والدین پڑھے لکھے نہیں ہیں تو اُنکے بچے بھی اچھے اور معیاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے قابل نہیں سمجھے جاتے۔ ایسے ہی تعلیمی اداروں نے پاکستان میں تعلیم کو مختلف حصوں میں بانٹ دیا ہے جیسا کہ اے لیول، اولیول، کیمبرج اسکول سسٹم اور دیگر ایسے ہی کئی نظام رائج ہیں جن پر تکیہ کر کے پرائیویٹ اسکولز اپنے کاروبار چمکا رہے ہیں۔

ذرایع کے مطابق اس وقت پاکستان میں 198000 کے قریب پرائیویٹ اسکولز رجسٹرڈ ہیں، جن میں 200,00000 طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جب کہ اس کے علاوہ جو چھوٹے چھوٹے گلی محلوں میں اسکول کھولے گئے ہیں یا اُن میں زیر ِ تعلیم طلبا کی شماریات کہیں درج ہی نہیں ہے۔

ایسے ہی مختلف اسکولوںمیں تعلیمی نظام بکھرا پڑا ہے جسکی وجہ بٹا ہوا تعلیمی نظام ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کو چلانیوالوں نے جہاں تعلیمی نظام کو بانٹا ہے وہیں تعلیم کی قیمتیں بھی لگا رکھی ہیں، مختلف اسکولوں کی مختلف فیسیں ہیں، کسی کی کم تو کسی کی زیادہ تو کچھ اسکول کی بہت زیادہ۔ جیسے گلی محلوں میں کھولے جانے والے اسکولوں کی اُس علاقے کے حساب سے فیسیں ہیں، پھر شہر کے بورڈز سے تعلق رکھنے والے اسکولوں کی فیسیں مختلف ہوں گی، جب کہ نامور اسکولوں نے جو غیر ملکی نظام تعلیم چلا رکھے ہیں ایسے اسکولوں تک ہر شخص کی رسائی تو ممکن ہی نہیں ہے۔

ان اسکولوں کی فیسیں لاکھوں روپے ماہانہ ہوتی ہیں جب کہ ان اسکولوں میں صرف اپر کلاس سے تعلق رکھنے والے بچے ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ درمیانہ طبقے سے تعلق رکھنے والے یا گلی محلوں کے نجی اسکولوں کی فیسیں کچھ کم ہوں گی اُن کی فیسیں بھی ماہانہ 5000 سے کم نہیں ہیں۔

جنکی ادائیگی والدین کو بہت مہنگی پڑتی ہے، جب کہ نجی اسکولوں نے والدین کو لوٹنے کے نت نئے طریقے اپنا رکھے ہیںجو صرف ماہانہ فیسوں پرہی ختم نہیں ہوتے، داخلے کے وقت میں داخلہ فیس، تعلیمی سال کے شروع ہونے پر سالانہ فیس، ٹیوشن فیس، سیکیورٹی ڈیپوزٹ، کاپیوں، کتابوں اور اسکول یونیفارم بھی اسکولوں سے ہی لینے کی شرط، پھر سال بھرمیں اسکولوں میںمنائے جانے والے مختلف دنوں کے اخراجات جیسے گرمی کی شروعات ہونے پر سمر ڈے، سردی کی شروعات پر ونٹر ڈے، رنگوں، پھولوںاور پھلوں کے دن، کھیلوں کے دن اور اُن کھیلوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے یونیفارمزکی خریداری کے اخراجات، مختلف تہواروں کو منانے کے لیے الگ اخراجات، جیسے عید ملن پارٹی، ویلکم پارٹی، فئیر ویل پارٹی کے نام پر لی جانیوالی رقوم، پھر پکنک کے نام پر لی جانیوالی اچھی خاصی رقم۔ 

حتی کہ سال بھر میں بچوں کے استعمال کی اسٹیشنری بھی اسکولوں سے ہی خریدنی پڑتی ہے، جب کہ اسکول انھی اشیاء کو مارکیٹ کی نسبت زیادہ مہنگی کر کے بیچتے ہیں۔

اُس پر بھی نجی اسکولوں کا والدین کو لوٹنے سے پیٹ نہیں بھرتا تو گرمی کی ہونے والی تعطیلات یعنی جون، جولائی کی فیسوں کے ذریعے والدین کی جیب کو خالی کیا جاتا ہے۔ پھر گرمیوں کی تعطیلات میں نجی اسکول انھی اسکولوں میں سمر کیمپ کی شکل میں ایک اور بڑا خرچہ والدین کی نذر کر دیتے ہیں چاہے حالانکہ یہ والدین پر منحصر کرتا ہے کہ آیا وہ اپنے بچوں کو اس کیمپ میں بھیجنے کے لیے آمادہ ہوتے بھی ہیں یا نہیں لیکن زیادہ تر بچوں کے والدین اسکولوں کے زور دینے پر بچوں کو سمر کیمپ میں بھیجنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

پھر یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ کیا مہنگی فیسوں سے بہترین تعلیم کی ضمانت ملتی ہے؟ تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ مہنگے اسکولوں کی ہزاروں روپے فیسیں بھی اچھی اور معیاری تعلیم کی ضمانت نہیں دے سکتیں کیونکہ پاکستان کے نجی اسکولوں کا تعلیمی نظام بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان اسکولوں میں میٹرک، انٹریا بہت ہوا تو گریجویٹ کیے ہوئے اساتذہ کو کم سے کم تنخواہ پر رکھا جاتا ہے، جو سالوں سے نسل در نسل پڑھائے جانے والے نصاب کی پرانی کاپیوں سے دیکھ کر طلبا کو بورڈ پر کام لکھوا دیتے ہیں،

ایسے اساتذہ کو تعلیمی سال کے ختم ہونے سے پہلے جماعت کا نصاب پورا کروانے کی جلدی ہوتی ہے، بچوں کو جماعت میں نصاب کی دہرائی اور صرف رٹے لگوائے جاتے ہیں، پھر چاہے بچوں کو سمجھ آئے یا نہیں اس بات سے اُن کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اور جو چیز اساتذہ کو خود سمجھ نہیں آتی وہ گھر کے لیے کام دے دیا جاتا ہے۔ نصاب میں کوئی جدیدتبدیلی نہیں ہوتی تو بچے بھی پھر صرف نصاب کو رٹہ لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ایسے نصاب بچوں کو تعلیم سے دور کرنے اور اُنکی تعلیمی دلچسپی میں کمی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ اسکولوں کے اساتذہ کا اسکول کے ہی بچوں کو ٹیوشن پڑھانے پر پابندی لگائی جائے کیوں کہ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اساتذہ ایسے طلبہ کو خاص توجہ دیتے ہیں جو اُن کے پاس ٹیوشن پڑھنے آتے ہیں جس سے فیورازم پیدا ہوتا ہے جب کہ دوسرے بچے کی زیادہ قابلیت یا زیادہ نمبر آتے ہوئے بھی اُن کے نمبرز کاٹ لیے جاتے ہیں اور بچے کا رینک کم کر دیا جاتا ہے۔

جب کہ ایسے کئی دیگر معاملات اور تبدیلیاں ہیں جو کہ نجی اسکولوں میں ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے سبسڈی والے نجی اسکولوں کا قیام بھی ایک اچھا اقدام ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ حکومتی سطح پر ایسے پیشہ ورانہ اور جدید اسکولوں کا قیام بھی ہونا چاہیے جہاں امیر ہو یا غریب سب کے لیے مساوی تعلیمی مواقعے میسر ہوں جس سے ترقی اور خوشحالی کا راستہ بھی ممکن ہو سکے گا۔

اسکولوں میں جب ایسے سخت قوانین ہوں گے تو زیادہ طلبہ کے لیے قابل رسائی بھی ممکن ہو سکے گی، جب کہ لوگوں کا تعلیم کی جانب رجحان بھی بڑھے گا۔ نظامِ تعلیم کے بہتر ہونے سے بیرونِ ممالک پڑھنے کے لیے جانے والے طلبہ بھی اپنے ہی ملک میں تعلیم حاصل کر سکیں گے جب کہ جیسے چند سال قبل بیرون ممالک سے لوگ پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے ویسے ہی پاکستان کے معیارِ تعلیم کو دیکھتے ہوئے دوبارہ بیرونِ ممالک سے طلبہ پاکستان میں پڑھنے آسکیں گے۔ جس سے ملک کا معاشی نظام بھی بہتر ہو گا اور ملک پھر سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • تعلیم برائے فروخت
  • صدر زرداری کی 70ویں سالگرہ؛ لاہور میں پروقار تقریب کا انعقاد، 70 پاؤنڈ وزنی کیک کاٹا جائیگا
  • بانی پی ٹی آئی سیاست میں آنے سے پہلے چندے کیلئے میرے پاس آتے تھے: اسحاق ڈار
  • آصف زرداری کے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا، مفاہمت کی سیاست کی مثال ہیں: شرجیل انعام میمن
  • علاقائی سیاست اور باہمی تعلقات
  • عوام اس نظام سے سخت تنگ ہے
  • پی ٹی آئی تشدد کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی: بیرسٹر گوہر
  • سیاسی اختلافات کو نفرت میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے)حافظ نعیم (
  • ملک بھر میں پلاٹس کی آن لائن تصدیق کا جدید نظام تیار
  • عمران خان مجبوری میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے، ان کا کوئی اصولی موقف نہیں: اقرارالحسن