اسٹیبلشمنٹ کو بھی سیکھنا ہوگا
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
پاکستان کا بنیادی مسئلہ آئین، قانون، سیاست اور جمہوریت پر مبنی نظام ہے۔ مصنوعی یا بڑی طاقتوں کا کنٹرولڈ نظام ہمارے مستقبل کا حل نہیں ہے۔ پاکستان کا حالیہ بحران بھی سیاست اور جمہوریت کی نفی کرتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کمزور جمہوری اور سیاسی اداروں کی موجودگی میں ہمارا داخلی بحران سنگین مسائل کی نشاندہی کررہا ہے۔ بڑا مسئلہ ریاستی اور سیاسی اداروں کے درمیان بداعتمادی اور ٹکرائو کا ہے اور ہر کوئی ادارہ ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کرتا ہے یا اپنی اپنی بالادستی چاہتا ہے۔ اسی بنیاد پر سیاسی نظام میں تعطل بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ حال ہی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پشاور میں سیاسی عمائدین اور علمائے کرام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہماری پالیسی صرف پاکستانی ریاستی ترجیحات ہی نہیں بلکہ قومی سیاست بھی ہے اور غلطیوں سے سبق نہ سیکھنا بھی بڑی غلطی ہوگی۔ اسی طرح ان کے بقول عوام اور فوج کا رشتہ کمزور کرنے کا بیانیہ بیرون ملک سے چلایا جاتا ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ اس ملک میں ماضی یا حال میں ہورہا ہے اس کی ذمے داری کسی ایک فریق کی ہے یا منفی کھیل میں سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں نے مل کر حصہ ڈالا ہے۔ اس وقت بھی ملک میں جمہوری نظام کو جیسے چلایا جارہا ہے اس پر بہت سے سوالات ہیں اور جو جمہوری سیاسی اور حکومتی بندوبست موجود ہے اس کا ریموٹ کنٹرول بھی بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جہاں سیاسی نظام پر تنقید ہورہی ہے وہیں اسٹیبلشمنٹ کو بھی داخلی اور خارجی سطح پر اپنے سیاسی کردار کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مضبوط ریاست اور مضبوط سیاست کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور خود ریاست کی ضرورت بنتی ہے کہ ملک سیاسی، معاشی اور سیکورٹی اور گورننس کے طور پر مستحکم ہو۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب تمام ادارے آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں۔ کیونکہ ملک اگر آئین اور قانون کے دائرہ کار میں چلے گا تو اسی سے ریاست کا مفاد بھی وابستہ ہے۔ یہی سوچ اور فکر ریاست کو دنیا کے سامنے مہذب ریاست کے طور پر پیش کرتی ہے اور ریاستی ادارے ایک دوسرے کو جواب دہ ہوتے ہیں۔ اس وقت ہمیں بنیادی طور پر یہ اپنی قومی ترجیحات کا تعین کرنا ہے اور سیاست کو آزادانہ بنیادوں پر اور خود مختاری کی بنیاد پر چلانے کے لیے موثر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ سیاسی اداروں کو آزادی نہیں دیں گے اور ان کو خود اب کام کرنے نہیں دیں گے تو اس سے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا تاثر عام ہوگا۔ ماضی میں ہماری اسٹیبلشمنٹ سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں اور ان غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مقتدرہ اپنے آپ کو سیاسی امور سے دور رکھے۔ ان کا کام معاونت کا ہونا چاہیے نہ کہ یہ تاثر عام ہو کہ فوج نے بہت سے سیاسی معاملات پر اپنا کنٹرول یا اثر نفوس بڑھا لیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ماضی میں ان کی سیاسی مداخلتوں کی وجہ سے یہ ملک جمہوری ٹریک سے بہت دور چلا گیا ہے۔ اگرچہ اب بھی فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ سیاسی معاملات سے الگ تھلگ ہے لیکن عملی طور پر اس کی جھلک کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر توڑ پھوڑ یا پرانی جماعتوں کے مقابلے میں نئی جماعتوں کی تشکیل یا حکومت کے نظام میں عدم تسلسل کی پالیسی نے ہمارے ملک کے جمہوری نظام پر کئی سوالات کھڑے کیے ہوئے ہیں۔ اسی طرح جب فوج براہ راست سیاسی امور میں دلچسپی لے گی تو اس سے فوج کے اوپر تنقید کا دروازہ کھلے گا اور لوگ باہر ہوں یا اندر فوج کے کردار پر سوالات بھی اُٹھائیں گے۔ یہ جو ہمیں ڈیجیٹل میڈیا کے اندر فوج پر تنقید کا ایک بازار گرم نظر آتا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ لوگ فوج کے سیاسی کردار پر سوالات اٹھاتے ہیں اور فوج کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے بلکہ اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ فوج ہماری طاقت بھی ہے اور ہماری ضرورت بھی۔
آج کے جدید دور میں ریاستیں آئین اور قانون کی حکمرانی سے جڑی ہوئی ہے اور جہاں جہاں آئین اور قانون سے انحراف کیا جاتا ہے وہاں وہاں ریاستوں کی ذات پر سوالیہ نشان موجود ہے۔ اس لیے ہماری ریاست کی بقا اور تحفظ اسی میں ہے کہ ہم اسی انداز میں ملک کو چلانے کی کوشش کریں جیسے جدید ریاستوں کا تصور دنیا بھر میں موجود ہے، ماضی میں ہم سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے بھی کافی کنفیوژن کا شکار رہے ہیں۔ سول ملٹری تعلقات کا مقصد کسی ایک ادارے پر دوسرے ادارے کا قبضہ نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ مدد اور تعاون کا رویہ ہونا چاہیے۔ فوج اور سیاست دانوں کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ آج کی جدید دنیا میں جہاں سیاست اور جمہوریت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے وہیں انسانی حقوق کی بحالی اور خاص طور پر اداروں کے استحکام کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا وقت کی ضرورت ہے۔ یہ سوچ و فکر کہ سیاست دان ساری صورتحال کے ذمے دار ہیں مکمل سچ نہیں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ خود اسٹیبلشمنٹ بھی یہ سیکھے کہ ماضی کے تجربات سے ہم جمہوری سیاست سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ منصفانہ اور شفاف انتخابات اور عوامی مینڈیٹ پر مبنی حکومتیں ہمارا مستقبل ہیں۔ سیاسی مہم جوئی اور ایڈونچرز کی سیاست سے ہمیں دور رہنا چاہیے اور سیاست دانوں کو موقع دینا چاہیے کہ وہ سیاسی معاملات و سیاسی حکمت عملیوں کو طے کریں۔ سیاست دانوں کو یہ موقع کم ملنا چاہیے کہ وہ اس بات کا تاثر دیں کہ ہمارے کام نہ کرنے کی وجہ اسٹیبلشمنٹ کا رویہ ہے۔ سیاسی اداروں کا استحکام اسی صورت میں ممکن ہوگا جب سیاسی ادارے اپنی بالادستی کو یقینی بنائیں اور پارلیمانی بالادستی کو بنیاد بنا کر قومی فیصلے کریں۔ جو کچھ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ، حکومت، اپوزیشن، عدلیہ اور اداروں کے تناظر میں ہو رہا ہے وہ کسی بھی صورت میں پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ محض سیاسی بحران نہیں بلکہ ایک بڑے خطرناک ریاستی بحران کی نشاندہی کرتا ہے، اس بحران سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے پہلے یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ سمیت سب لوگ موجودہ حالات کے ذمے دار ہیں، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ صورتحال کا ذمے دار نہیں بلکہ دوسرے فریق ہیں تو یہ حالات سے نظریں چرانے کے مترادف ہوگا، اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کی سیاسی نظام کب بوجھ اٹھانے کے بجائے یہ ذمے داری سیاست دانوں پر اور حکومتوں پر ڈالنی ہوگی کہ وہ حالات کا خود مقابلہ کریں اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی متنازع بنانے سے گریز کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خود اسٹیبلشمنٹ بھی سیاست دانوں پر اعتماد اور اعتبار کرے کیونکہ اعتماد اور اعتبار کے بغیر سیاسی نظام کو مستحکم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ سیاست دانوں کو جواب دہ اسی صورت میں بنایا جا سکتا ہے جب ان کے اوپر مکمل ذمے داری ہوگی اور وہی ذمے داری کو قبول کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ سیاسی نظام میں مداخلت اور تعطل پیدا کرنا یا اس کے اندر ایڈونچرز کرنے سے قومی سیاست کسی بھی صورت میں ایک کامیاب جمہوری ریاست میں تبدیل نہیں ہو سکے گی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسٹیبلشمنٹ کو بھی کے لیے ضروری ہے ا ئین اور قانون سیاست دانوں کو سیاسی اداروں سیاسی نظام نہیں بلکہ ایک دوسرے کی وجہ بھی یہ ہے اور
پڑھیں:
وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست
سیلابی ریلے وسطی و جنوبی پنجاب میں تباہی مچا کر سندھ میں داخل ہونے پر پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں کو بھی خیال آگیا کہ انھیں اور کچھ نہیں تو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا خالی ہاتھ دورہ ہی کر لینا چاہیے۔
اس لیے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان اور سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے ملتان، شجاع آباد اور جلال پور پیروالا کا دورہ کیا اور حکومتی امدادی سرگرمیوں پر عدم اطمینان کا اظہارکیا۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ سیاست کا وقت تو نہیں، اس لیے عوام کو اپنے سیلاب سے متاثرہ بہن بھائیوں کی مدد کے لیے آگے آنا ہوگا۔
انھوں نے ایک ریلیف کیمپ کے دورے پر کہا کہ پی ٹی آئی اس مشکل گھڑی میں متاثرین کے ساتھ ہے مگر انھوں نے متاثرین میں سلمان اکرم راجہ کی طرح کوئی امدادی سامان تقسیم نہیں کیا اور زبانی ہمدردی جتا کر چلتے بنے۔ سلمان اکرم راجہ نے اپنے دورے میں کہا کہ اس وقت جنوبی پنجاب سیلاب کی زد میں ہے اور سرکاری امداد محدود ہے، اس لیے میری عوام سے اپیل ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور سیلاب متاثرین کی مدد کریں۔
سابق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے باز نہیں آئے ، موصوف نے کہا کہ ٹک ٹاکر حکومتیں سیلاب زدگان کی مدد کرنے والے والنٹیئرز پر امدای سامان پر فوٹو نہ لگانے کی پاداش میں ایف آئی آر کاٹ رہی ہیں۔
پی ٹی آئی کے حامی اینکرز اور وی لاگرز نے بھی اس موقع پر سیاست ضروری سمجھی اور انھوں نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو اپنے وی لاگ اور انٹرویوز میں بٹھا کر یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ (ن) لیگ کی وفاقی اور صوبائی حکومت نے سیلاب متاثرین کو لاوارث چھوڑ رکھا ہے اور صرف دکھاوے کی امداد شروع کر رکھی ہے اور سیلاب متاثرین کو بچانے پر توجہ ہی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا ہے اور متاثرین کو بروقت محفوظ مقامات پر پہنچانے کی کوشش نہیں کی اور جب سیلابی پانی ان کے گھروں اور کھیتوں میں داخل ہوا تو ریلیف کا کام شروع کیا گیا۔
متاثرہ علاقوں میں ضرورت کے مطابق کشتیاں موجود تھیں نہ ریلیف کا سامان اور نہ ضرورت کے مطابق حفاظتی کیمپ قائم کیے گئے۔ یہ رہنما اس موقعے پر بھی سیاست کرتے رہے اور کسی نے بھی حکومتی کارکردگی کو نہیں سراہا بلکہ حکومت پر ہی تنقید کی۔ جب کہ وہ خود کوئی ریلیف ورک نہیں کرتے۔
پنجاب کے ریلیف کمشنر نے قائم مقام امریکی ناظم الامور کو پنجاب ہیڈ آفس کے دورے میں بتایا کہ پنجاب کو تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا ہے جس سے ساڑھے چار ہزار موضع جات متاثر 97 شہری جاں بحق اور تقریباً 45 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جن کے لیے متاثرہ اضلاع میں 396 ریلیف کیمپس، 490 میڈیکل کیمپس اور 405 وزیٹری کیمپس قائم کیے گئے جہاں سیلاب متاثرین کو ٹھہرا کر ہر ممکن امداد فراہم کی جا رہی ہے اور شمالی پنجاب کے متاثرہ اضلاع کے بعد جنوبی پنجاب کی سیلابی صورتحال پر حکومتی توجہ مرکوز ہے اور سیلاب متاثرین کے لیے تمام سرکاری وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے قدرتی آفت پر صوبائی حکومتوں کی امدادی کارروائیوں کو قابل ستائش قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے کسانوں، مزدوروں، خواتین اور بچوں نے غیر معمولی ہمت دکھائی ہے اس قدرتی آفت سے بے پناہ مسائل و چیلنجز نے جنم لیا ہے مگر حکومت متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کا موازنہ پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکوتوں سے کیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خیبر پختونخوا کے برعکس پنجاب و سندھ کی حکومتوں نے سیلابی صورت حال دیکھتے ہوئے تیاریاں شروع کردی تھیں اور حفاظتی انتظامات کے تحت متاثرہ علاقوں میں سیلاب آنے سے قبل خالی کرنے کی اپیلیں کی تھیں مگر اپنے گھر فوری طور خالی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
غریب اپنے غیر محفوظ گھر خالی کرنے سے قبل بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں، انھیں حکومت اور انتظامیہ پر اعتماد نہیں ہوتا کہ وہ واپس اپنے گھروں کو آ بھی سکیں گے یا نہیں اور انھیں سرکاری کیمپوں میں نہ جانے کب تک رہنا پڑے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر قدرتی آفت پر حکومتی اور اپوزیشن دونوں طرف سے سیاست ضرور کی جاتی ہے اور غیر حقیقی دعوے کیے جاتے ہیں اور عوام کو حقائق نہیں بتائے جاتے۔ حکومت نے بلند و بانگ دعوے اور اپوزیشن نے غیر ضروری تنقید کرکے اپنی سیاست بھی چمکانا ہوتی ہے اور دونوں یہ نہیں دیکھتے کہ یہ وقت سیاست کا ہے یا نہیں۔