Nai Baat:
2025-11-05@02:01:37 GMT

ٹائم سکیل پروموشن اور عدلیہ کی ذمہ داری

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

ٹائم سکیل پروموشن اور عدلیہ کی ذمہ داری

میں نے دیکھا کہ اپنی عمر کی ساٹھ بہاریں مکمل کرنے کے بعد ’’ ملک صاحب ‘‘ ایک عالم یاس میںمحکمہ سے ریٹائر ہو رہے تھے، ایک تو ان کو اپنی ریٹائرمنٹ اور دوستوں سے بچھڑنے کا غم لاحق تھا تو دوسرا گزشتہ ’’بیس سال ‘‘سے رُکی ان کی محکمانہ پروموشن کا دکھ بھی سوار تھا۔ اپنی روٹین کی پروموشن سے ہٹ کر ، گزشتہ دس سال سے انہوں نے ’’ٹائم سکیل پروموشن‘‘ کا حق لینے کے حوالے سے بڑے جتن کیے تھے۔ اپنے محکمہ کے ارباب اختیار کو زبانی کلامی کہنے سننے اور کہنے، کہلوانے کے علاوہ متعدد ’’تحریری عرض گزاریوں‘‘سے مایوس ہو کر انہوں نے عدالت ہائے کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا مگر ہر طرف سے ایک کے بعد دوسرا اعتراض، دوسرے کے بعد تیسرا بہانہ اور تیسرے کے بعد چوتھا حیلہ ہی ان کا حاصل ٹھہرا تھا اور یوں دل میں ’’گریڈ اٹھارہ سے انیس‘‘ میں ترقی کی حسرت اور سینے میں کسک لیے محکمہ سے الوداع ہوگئے ۔ ۔۔!

دیکھا جائے تو قوائد و ضوابط کی رو سے ٹائم سکیل پروموشن سرکاری ملازمین کا ایک ایسا حق ہے جس کے تحت ایک ہی سکیل میں دس سال یا دس سال سے زائد عرصہ کام کرنے والے ایسے ملازمین، جن کی ریگولر پرموشن نہ ہوسکے، کے لیے ایک راستہ ہے جس کے مطابق وہ وقت کے ساتھ اگلے سکیل میں پروموٹ ہو سکیں ۔اس حوالہ سے وفاقی و صوبائی سطح پرگاہے بگاہے متعد د ’’نوٹیفیکشنز‘‘ جاری ہوتے رہتے ہیں۔۔۔!
تاہم پاکستان میں ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘جیسے جنگل کے قانون کے تحت بیوروکریسی جیسے طاقتوار ادارے فوائد پر فوائد لیے جار ہے ہیں اور کمزور اداروں کے جملہ سرکاری ملازمین اُ ن کا منہ دیکھ رہے ہیں۔دس سال تو بڑی دور کی بات ہے وہاں دو دو تین سال میںاگلے سکیل میں ترقی مل جاتی ہے اور دس سال میں ترقی اور مراعات کا گراف کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے۔

طاقت کے انہی ستونوں میں ایک ستون عدلیہ ہے جہاں ٹائم سکیل پروموشن بلکہ اچھے سے اچھے سکیل میںعام پروموشن بھی ایک تسلسل سے جاری ہے۔ سول جج سے لیکر اعلیٰ عدلیہ تک پروموشن کی ایک مسلسل چین ہے جس پر تسلسل سے کام جاری ہے اور عدلیہ اور اس سے متعلقہ ملازمین ان مراعات سے لطف اٹھا رہے ہیںجبکہ دوسری طرف عدلیہ کے انہی ایوانوں میں عام سرکاری ملازمین کی پروموشن کے مقدمات اور درخواستیں سالہا سال سے شنوائی کی منتظر ہیں۔۔۔!

عدلیہ صرف اپنے حقوق کی نہیں بلکہ آئین پاکستان کے تحت عوام النا س سے لیکر جملہ سرکاری اداروں و اہلکاروں تک سب کے حقوق کی محافظ ، نگہبان اور ذمہ دارہے۔ایسے میں دوسرے طاقتور اداروں کی خود غرضی اور بے حسی تو شاید اپنا کوئی جواز رکھتی ہو کہ ذہنی بھوک، افلاس اور اخلاقی باختگی کے دور میں ایسا ممکن ہے کہ لوٹ مار کرنے والے گروہوں کی طرح جس کے جو ہاتھ لگے وہ اُسے چھین جھپٹ کر لے اُڑے مگر عدلیہ کو روٹین سے ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔۔۔! اگر عدلیہ میں ٹائم سکیل پروموشن کے حوالہ سے ایک تسلسل سے ترقیاں ہو سکتی ہیںتو دوسرے محکموں میں کیوں نہیں۔اور دوسرے اداروں کی بے ضابطگیاں اورالجھے معاملات اگر عدلیہ نہیں دیکھے گی تو کون دیکھے گا۔ یہ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک نظر دوسرے محکموں کی طرف بھی دوڑائے اور ان کے اعداد وشمار منگواکر جائزہ لے کہ کون کون ، کب کب، کتنے کتنے، سال سے پروموشن کے انتظار میں سسک رہا ہے اور اس کی شنوائی کہیں نہیں ہو رہی ۔۔۔۔!

سرکاری ملازمین کا تحفظ عدلیہ کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے جس سے عہدہ برآء ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر عدلیہ اپنی طاقت و اختیار کے بل بوتے پر اپنے لیے مراعاتی پیکجز منظور کر کے یا کروا کر مطمئن اور مسرور ہو کر بیٹھ جائے گی تو یہ عوام الناس اور دیگر سرکاری ملازمین کے ساتھ ظلم کے مترادف ہوگا۔اگر عدلیہ ہی اپنے خول میں قید ہو کر مطمئن ہو جائے گی تو اردگرد پھیلی ناہمواریوں ، ظلم ، جبر اور استحصال کا خاتمہ کون کرے گا۔ایک ایسے وقت میں جب قانون ساز ادارے لمبی تان کر سور ہے ہیں۔ ملکی پالیسیوں میں تسلسل اور یکسانیت کے لیے عدلیہ کو ہی اپنے کردار کا تعین کرتے ہوئے اس کی ادائیگی کے لیے قدم اٹھانا ہو گا۔بات صرف ٹائم سکیل پروموشن کی نہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ مراعات، مستقل الائونسز اور دیگر سہولیات کے حوالہ سے بھی محکموں میں بہت زیادہ تفاوت اور تقسیم ہے جسے ختم کرنے کے لیے عدلیہ کو اپنے فرائض سمجھنے اور ان کو ادا کرنے کے لیے اپنا بھرپور اور فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔مشکل میں پھنسے اور درماندہ لوگ اگر عدلیہ کی طرف نہ دیکھیں گے تو کدھر جائیں گے۔۔۔!

ایسے کتنے ہی ’’ ملک صاحب ‘‘ ہیں جو سینے میں اگلے سکیل میں ترقی کی حسرتیں سمائے اور دل میں پروموشن کے ارمان لیے، اپنے اپنے محکمہ اور عدلیہ کی طرف امید اور یاس بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے ریٹائر ہو رہے ہیں مگر اسلام کے نام پر بننے والے ’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں استحصال، بے انصافی اور خود غرضی کا بازار گرم ہے۔ اپنے گھر کے آرام دہ بستر پر لیٹے کسی فرد کو بے سرو سامان ’’فٹ پاتھ پر سونے والے‘‘ اور دنیا جہان کی سہولیات اور مراعات کو اپنے لیے سمیٹ لینے والوں کو’’ کھلے آسمان تلے مصروف عمل محروم طبقوں ‘‘ کا خیال تک نہیں آرہا۔۔۔!آخر عدلیہ بھی ان کے لیے سائبان کا فرض ادا نہیں کرے گی تو کون کرے گا۔۔۔!!!

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سرکاری ملازمین پروموشن کے سکیل میں عدلیہ کی کے لیے کے بعد سال سے ہے ہیں دس سال

پڑھیں:

پنجاب حکومت کا بڑا فیصلہ، مستقل ملازمت کا قانون منسوخ

 ویب ڈیسک : پنجاب حکومت نے نئے آرڈیننس کے تحت سرکاری ملازمین کی بھرتی کا طریقہ کار تبدیل کر دیا ہے، اب انہیں بنیادی تنخواہ کے اسکیل کے بجائے یکمشت پیکیج پر بھرتی کیا جائے گا، جس کے باعث یہ ملازمین پنشن کے اہل نہیں ہوں گے۔
 
رپورٹ کے مطابق  پنجاب ریگولرائزیشن آف سروس (ری پیل) آرڈیننس 2025، 31 اکتوبر کو نافذ کیا گیا ہے، تاکہ پنجاب ریگولرائزیشن آف سروس ایکٹ 2018 کو منسوخ کیا جا سکے، اور یہ آرڈیننس پیر کے روز پنجاب اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے۔

پاکستان سپورٹس بورڈ نے ویٹ لفٹنگ کے کھلاڑیوں و عہدیداروں پر پابندیاں لگادیں

اس آرڈیننس کے پیچھے وجہ یہ بتائی گئی کہ صوبائی حکومت بنیادی تنخواہ کے اسکیل سے یکمشت تنخواہ کے نظام کی طرف جانا چاہتی ہے تاکہ پنشن کی صورت میں سرکاری خزانے پر پڑنے والے مالی بوجھ کو کم کیا جا سکے۔

2018 کے قانون کے خاتمے کے ساتھ ہی، نیا آرڈیننس فوری طور پر کنٹریکٹ ملازمین کی 4 سالہ ملازمت کے بعد مستقل ہونے کے عمل کو روک دیتا ہے۔

تاہم آرڈیننس نے منسوخ شدہ قانون کے تحت کیے گئے تمام فیصلوں اور اقدامات کو تحفظ فراہم کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ “منسوخ شدہ قانون کے تحت کیا گیا کوئی بھی عمل یا اقدام ایسے ہی مؤثر رہے گا جیسے کہ وہ قانون منسوخ نہ ہوا ہو۔

لاہور: سیف سٹی اتھارٹی کا پولیس ڈرونز پائلٹ پروجیکٹ کا آغاز

نیا آرڈیننس
پنجاب ریگولرائزیشن آف سروس ایکٹ 2018 کے تحت وہ تمام افراد جو اس قانون کے نفاذ سے قبل کنٹریکٹ پر کام کر رہے تھے، ان کی تعیناتی کو قانونی تصور کیا گیا تھا اور اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا تھا۔

منسوخ شدہ قانون کے مطابق، کوئی بھی کنٹریکٹ ملازم جو 4 سال تک مسلسل خدمات انجام دے رہا ہو، اسے مستقل تقرری کے لیے اہل سمجھا جاتا تھا، بشرطیکہ اس کے لیے باقاعدہ اسامی موجود ہو، ملازم متعلقہ قابلیت رکھتا ہو، اور اس کی کارکردگی تسلی بخش ہو۔

لاہور: 4 افراد کی ہلاکت، ٹرک ڈرائیور کے خلاف مقدمہ درج

اس منسوخ شدہ قانون میں کنٹریکٹ ملازمین کی مستقل تعیناتی کے طریقہ کار کی بھی وضاحت کی گئی تھی، اس کے مطابق، کنٹریکٹ ملازم کو ایک مخصوص کمیشن کی سفارش پر تعینات کرنے والی اتھارٹی کے سامنے پیش کیا جانا تھا۔

قانون میں بھرتی، معاہدے کی منسوخی، سنیارٹی کا تعین، تنخواہ کا تعین، ریگولرائزیشن کے اختیارات، قانونی فریم ورک، اپیل یا نظرثانی، قواعد، مشکلات کے ازالے اور تحفظات کے حوالے سے مکمل ضوابط درج تھے۔

سپریم کورٹ؛ خانپور ڈیم آلودہ پانی فراہمی کیس میں ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس جاری

نئے مجوزہ قانون کے تحت، جسے پنجاب اسمبلی سے منظور کیا جانا ہے، محکمانہ بھرتیاں اب بنیادی تنخواہ کے اسکیل کے بجائے یکمشت تنخواہ پیکیج پر ہوں گی۔

فیصلے کے مطابق، کنٹریکٹ پر بھرتی ہونے والے ملازمین پوری سروس کنٹریکٹ پر ہی رہیں گے۔

 سرکاری حکام کے مطابق، کنٹریکٹ پر بھرتی ہونے والے ملازمین پنشن کے اہل نہیں ہوں گے، کیوں کہ یہ اقدام صوبائی خزانے پر پنشن کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ 

پنجاب کے 3 حلقوں میں ضمنی انتخابات کی نئی تاریخ مقرر

آرڈیننس کے نفاذ کے بعد، پہلے سے کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کے مستقبل کے حوالے سے کچھ ابہام بھی پیدا ہو گیا ہے۔

 حکام کا کہنا ہے کہ نیا آرڈیننس ان پر اثر انداز نہیں ہوتا، جب کہ دیگر کا مؤقف ہے کہ یہ اقدام موجودہ ملازمین کی مستقل ہونے کی اہلیت پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔

سیکریٹری قانون آصف بلال لودھی سے متعدد بار رابطے کی کوشش کے باوجود کوئی جواب نہیں ملا، جب کہ سیکریٹری ریگولیشنز میاں ابرار احمد نے تصدیق کی کہ قانون منسوخ کر دیا گیا ہے، تاہم انہوں نے نئے آرڈیننس کے اثرات کے بارے میں تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کیا۔

ایک سینئر سول سرونٹ نے کہا کہ حکومت کو یا تو مستقل ملازمت کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں یا مارکیٹ کے مطابق مسابقتی تنخواہیں دینی چاہئیں، کیوں کہ اس طرح کے اقدامات سے انسانی وسائل کے معیار میں بہتری آئے گی۔
 

متعلقہ مضامین

  • 27ویں ترمیم عدلیہ پر حکومتی اجارہ داری کی کوشش ہے ،قبول نہیں کریں گے ٗ حافظ نعیم
  • 27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ، این ایف سی اور فوجی کمان سے متعلق کون سی اہم ترامیم تجویز کی جائیں گی؟
  • 27ویں آئینی ترمیم عدلیہ پر حکومتی قبضے کی کوشش ہے، صورت قبول نہیں ،حافظ نعیم الرحمن
  • 27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے ادارہ جاتی ڈھانچے کو مضبوط بنانے پر مشاورت جاری ہے، عطا تارڑ
  • وفاقی سرکاری ملازمین کیلئے کرایہ داری سیلنگ میں 85 فیصد اضافہ
  • وفاقی ملازمین کیلئے کرایہ داری سیلنگ میں 85فیصد اضافہ ،نوٹیفکیشن سب نیوز پر
  • پنجاب حکومت کا بڑا فیصلہ، مستقل ملازمت کا قانون منسوخ
  • مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
  • واشنگٹن میں عجائب گھروں کی بندش‘ ہزاروں ملازمین کو برطرفی کے نوٹس
  • 27ویں آئینی ترمیم عدلیہ پر ایگزیکٹو کے اثر و رسوخ میں اضافے کی کوشش ہے، اسد قیصر