Nai Baat:
2025-06-09@09:54:39 GMT

ٹائم سکیل پروموشن اور عدلیہ کی ذمہ داری

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

ٹائم سکیل پروموشن اور عدلیہ کی ذمہ داری

میں نے دیکھا کہ اپنی عمر کی ساٹھ بہاریں مکمل کرنے کے بعد ’’ ملک صاحب ‘‘ ایک عالم یاس میںمحکمہ سے ریٹائر ہو رہے تھے، ایک تو ان کو اپنی ریٹائرمنٹ اور دوستوں سے بچھڑنے کا غم لاحق تھا تو دوسرا گزشتہ ’’بیس سال ‘‘سے رُکی ان کی محکمانہ پروموشن کا دکھ بھی سوار تھا۔ اپنی روٹین کی پروموشن سے ہٹ کر ، گزشتہ دس سال سے انہوں نے ’’ٹائم سکیل پروموشن‘‘ کا حق لینے کے حوالے سے بڑے جتن کیے تھے۔ اپنے محکمہ کے ارباب اختیار کو زبانی کلامی کہنے سننے اور کہنے، کہلوانے کے علاوہ متعدد ’’تحریری عرض گزاریوں‘‘سے مایوس ہو کر انہوں نے عدالت ہائے کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا مگر ہر طرف سے ایک کے بعد دوسرا اعتراض، دوسرے کے بعد تیسرا بہانہ اور تیسرے کے بعد چوتھا حیلہ ہی ان کا حاصل ٹھہرا تھا اور یوں دل میں ’’گریڈ اٹھارہ سے انیس‘‘ میں ترقی کی حسرت اور سینے میں کسک لیے محکمہ سے الوداع ہوگئے ۔ ۔۔!

دیکھا جائے تو قوائد و ضوابط کی رو سے ٹائم سکیل پروموشن سرکاری ملازمین کا ایک ایسا حق ہے جس کے تحت ایک ہی سکیل میں دس سال یا دس سال سے زائد عرصہ کام کرنے والے ایسے ملازمین، جن کی ریگولر پرموشن نہ ہوسکے، کے لیے ایک راستہ ہے جس کے مطابق وہ وقت کے ساتھ اگلے سکیل میں پروموٹ ہو سکیں ۔اس حوالہ سے وفاقی و صوبائی سطح پرگاہے بگاہے متعد د ’’نوٹیفیکشنز‘‘ جاری ہوتے رہتے ہیں۔۔۔!
تاہم پاکستان میں ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘جیسے جنگل کے قانون کے تحت بیوروکریسی جیسے طاقتوار ادارے فوائد پر فوائد لیے جار ہے ہیں اور کمزور اداروں کے جملہ سرکاری ملازمین اُ ن کا منہ دیکھ رہے ہیں۔دس سال تو بڑی دور کی بات ہے وہاں دو دو تین سال میںاگلے سکیل میں ترقی مل جاتی ہے اور دس سال میں ترقی اور مراعات کا گراف کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے۔

طاقت کے انہی ستونوں میں ایک ستون عدلیہ ہے جہاں ٹائم سکیل پروموشن بلکہ اچھے سے اچھے سکیل میںعام پروموشن بھی ایک تسلسل سے جاری ہے۔ سول جج سے لیکر اعلیٰ عدلیہ تک پروموشن کی ایک مسلسل چین ہے جس پر تسلسل سے کام جاری ہے اور عدلیہ اور اس سے متعلقہ ملازمین ان مراعات سے لطف اٹھا رہے ہیںجبکہ دوسری طرف عدلیہ کے انہی ایوانوں میں عام سرکاری ملازمین کی پروموشن کے مقدمات اور درخواستیں سالہا سال سے شنوائی کی منتظر ہیں۔۔۔!

عدلیہ صرف اپنے حقوق کی نہیں بلکہ آئین پاکستان کے تحت عوام النا س سے لیکر جملہ سرکاری اداروں و اہلکاروں تک سب کے حقوق کی محافظ ، نگہبان اور ذمہ دارہے۔ایسے میں دوسرے طاقتور اداروں کی خود غرضی اور بے حسی تو شاید اپنا کوئی جواز رکھتی ہو کہ ذہنی بھوک، افلاس اور اخلاقی باختگی کے دور میں ایسا ممکن ہے کہ لوٹ مار کرنے والے گروہوں کی طرح جس کے جو ہاتھ لگے وہ اُسے چھین جھپٹ کر لے اُڑے مگر عدلیہ کو روٹین سے ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔۔۔! اگر عدلیہ میں ٹائم سکیل پروموشن کے حوالہ سے ایک تسلسل سے ترقیاں ہو سکتی ہیںتو دوسرے محکموں میں کیوں نہیں۔اور دوسرے اداروں کی بے ضابطگیاں اورالجھے معاملات اگر عدلیہ نہیں دیکھے گی تو کون دیکھے گا۔ یہ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک نظر دوسرے محکموں کی طرف بھی دوڑائے اور ان کے اعداد وشمار منگواکر جائزہ لے کہ کون کون ، کب کب، کتنے کتنے، سال سے پروموشن کے انتظار میں سسک رہا ہے اور اس کی شنوائی کہیں نہیں ہو رہی ۔۔۔۔!

سرکاری ملازمین کا تحفظ عدلیہ کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے جس سے عہدہ برآء ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر عدلیہ اپنی طاقت و اختیار کے بل بوتے پر اپنے لیے مراعاتی پیکجز منظور کر کے یا کروا کر مطمئن اور مسرور ہو کر بیٹھ جائے گی تو یہ عوام الناس اور دیگر سرکاری ملازمین کے ساتھ ظلم کے مترادف ہوگا۔اگر عدلیہ ہی اپنے خول میں قید ہو کر مطمئن ہو جائے گی تو اردگرد پھیلی ناہمواریوں ، ظلم ، جبر اور استحصال کا خاتمہ کون کرے گا۔ایک ایسے وقت میں جب قانون ساز ادارے لمبی تان کر سور ہے ہیں۔ ملکی پالیسیوں میں تسلسل اور یکسانیت کے لیے عدلیہ کو ہی اپنے کردار کا تعین کرتے ہوئے اس کی ادائیگی کے لیے قدم اٹھانا ہو گا۔بات صرف ٹائم سکیل پروموشن کی نہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ مراعات، مستقل الائونسز اور دیگر سہولیات کے حوالہ سے بھی محکموں میں بہت زیادہ تفاوت اور تقسیم ہے جسے ختم کرنے کے لیے عدلیہ کو اپنے فرائض سمجھنے اور ان کو ادا کرنے کے لیے اپنا بھرپور اور فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔مشکل میں پھنسے اور درماندہ لوگ اگر عدلیہ کی طرف نہ دیکھیں گے تو کدھر جائیں گے۔۔۔!

ایسے کتنے ہی ’’ ملک صاحب ‘‘ ہیں جو سینے میں اگلے سکیل میں ترقی کی حسرتیں سمائے اور دل میں پروموشن کے ارمان لیے، اپنے اپنے محکمہ اور عدلیہ کی طرف امید اور یاس بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے ریٹائر ہو رہے ہیں مگر اسلام کے نام پر بننے والے ’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں استحصال، بے انصافی اور خود غرضی کا بازار گرم ہے۔ اپنے گھر کے آرام دہ بستر پر لیٹے کسی فرد کو بے سرو سامان ’’فٹ پاتھ پر سونے والے‘‘ اور دنیا جہان کی سہولیات اور مراعات کو اپنے لیے سمیٹ لینے والوں کو’’ کھلے آسمان تلے مصروف عمل محروم طبقوں ‘‘ کا خیال تک نہیں آرہا۔۔۔!آخر عدلیہ بھی ان کے لیے سائبان کا فرض ادا نہیں کرے گی تو کون کرے گا۔۔۔!!!

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سرکاری ملازمین پروموشن کے سکیل میں عدلیہ کی کے لیے کے بعد سال سے ہے ہیں دس سال

پڑھیں:

اے اللہ! فلسطینیوں کی مدد فرما!

ریاض احمدچودھری

مسجد الحرام کے امام شیخ ڈاکٹر صالح بن عبد اللّٰہ نے خطبہ حج میں دعا کی کہ اے اللہ فلسطین کے بھائیوں کی مدد فرما، ان کے شہدا کو معاف فرما، زخمیوں کو شفا دے اور ان کے دشمنوں کو تباہ و برباد کر دے، فلسطین کے دشمن بچوں کے قاتل ہیں، ان قاتلوں کو تباہ کر دے۔حج کے رکن اعظم وقوف عرفہ کے دوران میدان عرفات کی مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے شیخ ڈاکٹر صالح بن عبد اللّہ نے کہا کہ اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو، تقویٰ اختیار کرنا ایمان والوں کی شان ہے، اے ایمان والوں عہد کی پاسداری کرو، اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
زمین اور آسمان کا مالک صرف رب ہے، تقویٰ اختیار کرنے والوں کو جنت کی نوید سنائی گئی ہے، اے ایمان والوں اپنے ہمسائیوں کے حقوق کا خیال رکھو، شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اس سے دور رہو، اللہ اور اس کے دین پر قائم رہو، اللہ اور اس کے رسول ۖ کی تعلیمات پر عمل کرو۔’بدعت اور غیبت سے دور رہو۔ رب کے سوا غیر کو مت پکارو۔ رب کے سوا کسی غیر کی عبادت مت کرنا۔ نبی اکرم ۖ اللہ کے آخری رسول ہیں، وہ خاتم النبین ہیں۔ اللہ اور بندے کا تعلق نجات کا ذریعہ ہے۔ اللہ نے فرمایا تعاون کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔ اپنے والدین سے نیکی کرنا اور سچ بولنا ہے۔’خطبہ حج میں کہا گیا کہ یتیموں، مساکین، بیواؤں اور ہمسایوں کے ساتھ شفقت فرماؤ، اللہ کسی تکبر اور غرور کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، اے ایمان والوں عہد کی پاسداری کرو، شیطان تمہارے درمیان دوریاں ڈالتا ہے۔’نماز قائم کرو، زکوة ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور حج کرو۔ روزہ صبر اور برداشت کا درس دیتا ہے۔ ضرورت مندوں کو کھانا کھلاؤ، اللہ تمہارا حج قبول کرے۔ خادم الحرمین شریفین نے ضیوف الرحمان کیلیے بہترین انتظامات کیے۔ حجتہ الوداع میں نبی پاک ۖ نے حج کرنے کا طریقہ سکھایا۔ حضرت محمد ۖ نے مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے قیام کیا۔ حضرت محمد ۖ نے شیطان کو کنکریاں مار کر تزکیہ نفس کے بارے میں بتایا۔’امام مسجد الحرام نے کہا کہ ان دنوں میں اللہ کا تذکرہ کرو یہی تمہارے دن ہیں، اللہ خوش ہوتا ہے کہ میری خاطر جمع ہوئے ہیں، آپ اس مقام پر ہیں جس میں دعا قبول ہوگی، اللہ ہمارے مناسک حج کو قبول فرما، اے اللہ ہمارے گھروں میں عافیت فرما وطن کی حفاظت فرما۔ امت مسلمہ اسی صورت میں بام عروج تک پہنچ سکتی ہے جب قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامے اورہرپہلومیں انہیں سرچشموں سے راہ ہدایت حاصل کریں ۔ امت مسلمہ اپنے اصلی منصب تبلیغ و دعوت کی طرف پلٹ کر اورجہادوقتال کے راستے کواپناکر اس دنیامیں اپنا ایک مقام حاصل کر سکتی ہے۔
آنحضرت محمد ۖ محسن انسانیت ہیں، انسان کامل ہیں اور ہر لحاظ سے قابلِ تقلید ہیں۔ آپۖ کی زندگی قیامت تک کے انسانوں کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ بطور مسلمان ہمیں ہر وقت اللہ کریم کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ اْس نے ہمیں آپۖ کا اْمتی بنایا۔ جو شخص دنیا میں آپۖ پر ایمان لائے گا اور آپۖ کی اطاعت و پیروی کرے گا اْسے دونوں جہانوں میں آپۖ کی رحمت سے حصہ ملے گا۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم سیرتِ نبوی ۖکا مطالعہ کریں اور اپنی زندگی کے ہر پہلو میں نبی کریم ۖ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوں۔ آپ ۖکی سیرتِ طیبہ کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیں تا کہ ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔اسلام کی اس سچائی اور عظمت شان کی وجہ یہ ہے کہ اس کا پیغام اور اس کا انداز ِفکر انسانوں تک دنیا کے مفکر ین وعقلاء کے واسطہ سے ،دنیا کے قانون دانوں اور حقوق کی آواز بلند کرنے والے انسانوں کے ذریعہ یا فلاسفہ وخیالی تانے بانے جوڑنے والوں یا سیاسی قائدین ورہنمائوں کے ذریعہ یا سماجی کارکنوں اور تجربات سے گزرنے والے ماہر نفسیات کی جانب سے نہیں پہنچا بلکہ نبیوں اور رسولوں کے واسطہ سے پہنچا ہے جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی آتی تھی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ « بیشک آپ کو اللہ حکیم وعلیم کی طرف سے قرآن سکھایا جارہا ہے۔”(النمل6)
آج امت کی زبوں حالی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ اشرافیہ کی غفلت، نادانی، عیاشی اور ملت فراموشی ہی ہے۔ جہاں تک متوسط و نادار طبقے کا تعلق ہے تو یہ بے چارے کسی طرح دو وقت کی روٹی کما کر باعزت زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں اور حتیٰ الامکان اپنے معاملات کو اسلامی نہج پر ڈھالنے کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ انہیں نہ تو بڑے بڑے مذہبی فلسفوں سے غرض ہے نہ دین کے مقابلے میں دولت کا گھمنڈ، نہ ہی سیاست کے نام پر دین و ملت کی سودا گری کا ڈھنگ۔ اسلام کا سب سے بہتر گروہ عام مسلمان ہیں ،یعنی مسلمان عوام۔ وہ اسلام سے متعلق بحیثیت دین اور فلسفہ کے بہت کم جانتے ہیں اور ان کی بہت سی چیزیں اسلام سے مطابقت نہیں رکھتیں، لیکن وہ ایک قابلِ شناخت اسلامی زندگی گزارتے ہیں ،جس کا سبب ان کا اسلام پر پختہ یقین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • بانی کی رہائی کیلئے تحریک کی تیاری کر رہے ہیں، علی امین گنڈاپور
  • علی ظفر کی بے دردی سے قتل کی گئی ٹک ٹاکر ثنا کے نام جذباتی نظم وائرل
  • فلسفۂ قربانی
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • بجٹ 2025-26: سرکاری ملازمین کو تنخواہ اور پنشن میں کتنے اضافے کی توقع رکھنی چاہیے؟
  • ملک بھر میں عیدالاضحیٰ مذہبی جوش وجذبے سے منائی جا رہی ہے
  • آئی ایم ایف کی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کیلئے سخت شرائط
  • اے اللہ! فلسطینیوں کی مدد فرما!
  • سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی تیاری، بجٹ میں ریلیف پیکیج متوقع
  • وفاقی بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کی 4 تجاویز تیار