ٹائم سکیل پروموشن اور عدلیہ کی ذمہ داری
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
میں نے دیکھا کہ اپنی عمر کی ساٹھ بہاریں مکمل کرنے کے بعد ’’ ملک صاحب ‘‘ ایک عالم یاس میںمحکمہ سے ریٹائر ہو رہے تھے، ایک تو ان کو اپنی ریٹائرمنٹ اور دوستوں سے بچھڑنے کا غم لاحق تھا تو دوسرا گزشتہ ’’بیس سال ‘‘سے رُکی ان کی محکمانہ پروموشن کا دکھ بھی سوار تھا۔ اپنی روٹین کی پروموشن سے ہٹ کر ، گزشتہ دس سال سے انہوں نے ’’ٹائم سکیل پروموشن‘‘ کا حق لینے کے حوالے سے بڑے جتن کیے تھے۔ اپنے محکمہ کے ارباب اختیار کو زبانی کلامی کہنے سننے اور کہنے، کہلوانے کے علاوہ متعدد ’’تحریری عرض گزاریوں‘‘سے مایوس ہو کر انہوں نے عدالت ہائے کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا مگر ہر طرف سے ایک کے بعد دوسرا اعتراض، دوسرے کے بعد تیسرا بہانہ اور تیسرے کے بعد چوتھا حیلہ ہی ان کا حاصل ٹھہرا تھا اور یوں دل میں ’’گریڈ اٹھارہ سے انیس‘‘ میں ترقی کی حسرت اور سینے میں کسک لیے محکمہ سے الوداع ہوگئے ۔ ۔۔!
دیکھا جائے تو قوائد و ضوابط کی رو سے ٹائم سکیل پروموشن سرکاری ملازمین کا ایک ایسا حق ہے جس کے تحت ایک ہی سکیل میں دس سال یا دس سال سے زائد عرصہ کام کرنے والے ایسے ملازمین، جن کی ریگولر پرموشن نہ ہوسکے، کے لیے ایک راستہ ہے جس کے مطابق وہ وقت کے ساتھ اگلے سکیل میں پروموٹ ہو سکیں ۔اس حوالہ سے وفاقی و صوبائی سطح پرگاہے بگاہے متعد د ’’نوٹیفیکشنز‘‘ جاری ہوتے رہتے ہیں۔۔۔!
تاہم پاکستان میں ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘جیسے جنگل کے قانون کے تحت بیوروکریسی جیسے طاقتوار ادارے فوائد پر فوائد لیے جار ہے ہیں اور کمزور اداروں کے جملہ سرکاری ملازمین اُ ن کا منہ دیکھ رہے ہیں۔دس سال تو بڑی دور کی بات ہے وہاں دو دو تین سال میںاگلے سکیل میں ترقی مل جاتی ہے اور دس سال میں ترقی اور مراعات کا گراف کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے۔
طاقت کے انہی ستونوں میں ایک ستون عدلیہ ہے جہاں ٹائم سکیل پروموشن بلکہ اچھے سے اچھے سکیل میںعام پروموشن بھی ایک تسلسل سے جاری ہے۔ سول جج سے لیکر اعلیٰ عدلیہ تک پروموشن کی ایک مسلسل چین ہے جس پر تسلسل سے کام جاری ہے اور عدلیہ اور اس سے متعلقہ ملازمین ان مراعات سے لطف اٹھا رہے ہیںجبکہ دوسری طرف عدلیہ کے انہی ایوانوں میں عام سرکاری ملازمین کی پروموشن کے مقدمات اور درخواستیں سالہا سال سے شنوائی کی منتظر ہیں۔۔۔!
عدلیہ صرف اپنے حقوق کی نہیں بلکہ آئین پاکستان کے تحت عوام النا س سے لیکر جملہ سرکاری اداروں و اہلکاروں تک سب کے حقوق کی محافظ ، نگہبان اور ذمہ دارہے۔ایسے میں دوسرے طاقتور اداروں کی خود غرضی اور بے حسی تو شاید اپنا کوئی جواز رکھتی ہو کہ ذہنی بھوک، افلاس اور اخلاقی باختگی کے دور میں ایسا ممکن ہے کہ لوٹ مار کرنے والے گروہوں کی طرح جس کے جو ہاتھ لگے وہ اُسے چھین جھپٹ کر لے اُڑے مگر عدلیہ کو روٹین سے ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔۔۔! اگر عدلیہ میں ٹائم سکیل پروموشن کے حوالہ سے ایک تسلسل سے ترقیاں ہو سکتی ہیںتو دوسرے محکموں میں کیوں نہیں۔اور دوسرے اداروں کی بے ضابطگیاں اورالجھے معاملات اگر عدلیہ نہیں دیکھے گی تو کون دیکھے گا۔ یہ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک نظر دوسرے محکموں کی طرف بھی دوڑائے اور ان کے اعداد وشمار منگواکر جائزہ لے کہ کون کون ، کب کب، کتنے کتنے، سال سے پروموشن کے انتظار میں سسک رہا ہے اور اس کی شنوائی کہیں نہیں ہو رہی ۔۔۔۔!
سرکاری ملازمین کا تحفظ عدلیہ کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے جس سے عہدہ برآء ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر عدلیہ اپنی طاقت و اختیار کے بل بوتے پر اپنے لیے مراعاتی پیکجز منظور کر کے یا کروا کر مطمئن اور مسرور ہو کر بیٹھ جائے گی تو یہ عوام الناس اور دیگر سرکاری ملازمین کے ساتھ ظلم کے مترادف ہوگا۔اگر عدلیہ ہی اپنے خول میں قید ہو کر مطمئن ہو جائے گی تو اردگرد پھیلی ناہمواریوں ، ظلم ، جبر اور استحصال کا خاتمہ کون کرے گا۔ایک ایسے وقت میں جب قانون ساز ادارے لمبی تان کر سور ہے ہیں۔ ملکی پالیسیوں میں تسلسل اور یکسانیت کے لیے عدلیہ کو ہی اپنے کردار کا تعین کرتے ہوئے اس کی ادائیگی کے لیے قدم اٹھانا ہو گا۔بات صرف ٹائم سکیل پروموشن کی نہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ مراعات، مستقل الائونسز اور دیگر سہولیات کے حوالہ سے بھی محکموں میں بہت زیادہ تفاوت اور تقسیم ہے جسے ختم کرنے کے لیے عدلیہ کو اپنے فرائض سمجھنے اور ان کو ادا کرنے کے لیے اپنا بھرپور اور فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔مشکل میں پھنسے اور درماندہ لوگ اگر عدلیہ کی طرف نہ دیکھیں گے تو کدھر جائیں گے۔۔۔!
ایسے کتنے ہی ’’ ملک صاحب ‘‘ ہیں جو سینے میں اگلے سکیل میں ترقی کی حسرتیں سمائے اور دل میں پروموشن کے ارمان لیے، اپنے اپنے محکمہ اور عدلیہ کی طرف امید اور یاس بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے ریٹائر ہو رہے ہیں مگر اسلام کے نام پر بننے والے ’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں استحصال، بے انصافی اور خود غرضی کا بازار گرم ہے۔ اپنے گھر کے آرام دہ بستر پر لیٹے کسی فرد کو بے سرو سامان ’’فٹ پاتھ پر سونے والے‘‘ اور دنیا جہان کی سہولیات اور مراعات کو اپنے لیے سمیٹ لینے والوں کو’’ کھلے آسمان تلے مصروف عمل محروم طبقوں ‘‘ کا خیال تک نہیں آرہا۔۔۔!آخر عدلیہ بھی ان کے لیے سائبان کا فرض ادا نہیں کرے گی تو کون کرے گا۔۔۔!!!
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سرکاری ملازمین پروموشن کے سکیل میں عدلیہ کی کے لیے کے بعد سال سے ہے ہیں دس سال
پڑھیں:
ایک کمزور پاسورڈ نے 158 سال پرانی کمپنی تباہ کر دی، 700 ملازمین بے روزگار
برطانیہ کی ایک 158 سال پرانی ٹرانسپورٹ کمپنی صرف ایک کمزور پاسورڈ کی وجہ سے ایک خطرناک حملے کا شکار ہو کر مکمل طور پر بند ہو گئی۔ اس واقعے میں کمپنی کا تمام ریکارڈ ضائع ہو گیا اور تقریباً 700 افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
کمپنی کے منتظم پال ایبٹ کے مطابق اندازہ ہے کہ حملہ آوروں نے ایک ملازم کا خفیہ کوڈ معلوم کر لیا، جس کے بعد وہ نظام میں داخل ہوئے اور سارا ریکارڈ ہیک کرلیا۔ حملہ آوروں نے کمپنی کے تمام اندرونی نظام کو جام کر دیا اور پیغام دیا کہ اگر ریکارڈ واپس چاہیے تو رقم ادا کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد سیف سٹی سسٹم پر ہیکرز کا حملہ، حساس نوعیت کا ڈیٹا چوری
حملے میں ملوث گروہ کا نام ’اکیرا‘ بتایا جارہا ہے۔ اگرچہ انہوں نے رقم کا واضح مطالبہ نہیں کیا، لیکن ماہرین کے مطابق مانگی جانے والی رقم 5 کروڑ روپے سے زائد ہوسکتی تھی۔ کمپنی کے پاس اتنی رقم نہیں تھی، اس لیے وہ ریکارڈ واپس نہ لے سکی اور مکمل طور پر بند ہوگئی۔
یہ واقعہ برطانیہ میں تیزی سے بڑھتے ہوئے ان حملوں کی ایک مثال ہے۔ حالیہ دنوں میں بڑے ادارے جیسے مارکس اینڈ اسپینسر، کوآپریٹو سوسائٹی اور ہیروڈز بھی ایسے حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ کوآپریٹو کے سربراہ کے مطابق تقریباً 65 لاکھ افراد کا ذاتی ریکارڈ چوری کیا گیا ہے۔
ملک کے قومی مرکز برائے آن لائن تحفظ کے سربراہ رچرڈ ہورن کے مطابق ادارے روزانہ ایسے حملے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اکثر کمپنیاں اپنی معلوماتی حفاظت کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب اداروں کو ہر فیصلے میں معلوماتی تحفظ کو ترجیح دینی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی ہیکرز کی کارروائی، بھارت کی حساس معلومات ڈارک ویب پر برائے فروخت
ان حملوں کو روکنے کے لیے ایک اور سرکاری ادارہ مجرموں کو تلاش کرنے میں مصروف ہے۔ وہاں کام کرنے والی افسر سوزین گرمر کے مطابق یہ حملے پہلے سے دگنے ہو چکے ہیں، اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ سال ان حملوں کے لحاظ سے سب سے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
بعض حملہ آور صرف کسی دفتر کو فون کر کے یا مدد کے بہانے معلومات حاصل کر لیتے ہیں، اور پھر نظام میں داخل ہو کر اسے بند کر دیتے ہیں۔ ان میں سے اکثر نوجوان ہوتے ہیں جو کھیل کود کے ذریعے اس راستے پر آتے ہیں۔
ایک بار اندر داخل ہونے کے بعد، یہ لوگ مخصوص پروگرام استعمال کر کے ادارے کے ریکارڈ کو چوری یا بند کر دیتے ہیں، اور بدلے میں رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حملے اب صرف اداروں کا نہیں، بلکہ پورے ملک کی حفاظت کا مسئلہ بن چکے ہیں۔ پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی اور قومی جانچ کے دفتر نے بھی خبردار کیا ہے کہ ایسے خطرناک حملے کسی بھی وقت بڑے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ملازمت کے متلاشی پیشہ ور افراد ہیکرز کے نشانے پر، احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟
پال ایبٹ، جن کی کمپنی ختم ہو گئی، اب دوسرے اداروں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اپنی معلوماتی حفاظت کو بہتر بنائیں اور ایسے حملوں سے بچنے کے لیے لازمی اقدامات کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر ادارے کو اپنے نظام کی جانچ کروانی چاہیے تاکہ کمزوریاں سامنے آسکیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر ادارے ایسے حملے چھپا لیتے ہیں اور رقم ادا کر کے جان چھڑاتے ہیں، جو مجرموں کو مزید حوصلہ دیتا ہے۔ یہ ایک منظم جرم ہے اور اس کے خلاف مکمل تیاری اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔
برطانیہ کے ایک اور اہم ادارے، قومی جرائم کے ادارے میں کام کرنے والی سوزین گرمر، جو کہ ایک تجربہ کار افسر ہیں، نے ان حملوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سوزین گرمر اُس شعبے کی سربراہ ہیں جو معلوماتی جرائم کی ابتدائی جانچ کرتا ہے، اور انہی کی ٹیم نے مارکس اینڈ اسپینسر پر ہونے والے حالیہ حملے کی جانچ کی تھی۔
سوزین گرمر کہتی ہیں کہ جب سے انہوں نے یہ شعبہ سنبھالا ہے، ہفتہ وار حملوں کی تعداد تقریباً دوگنا ہوچکی ہے اور اب ہر ہفتے 35 سے 40 حملے ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو یہ سال ملک میں معلوماتی بلیک میلنگ کے لحاظ سے بدترین ثابت ہوسکتا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اب ایسے حملے کرنا آسان ہو چکا ہے، کیونکہ بہت سے مجرم کسی خاص مہارت کے بغیر بھی مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کر لیتے ہیں، جیسے کسی دفتر کے مدد مرکز کو فون کر کے اندرونی تفصیلات معلوم کرنا۔
سوزین گرمر نے بتایا کہ یہ جرائم اب نوجوانوں میں بھی عام ہورہے ہیں، جو ویڈیو گیمز کے ذریعے اس طرف مائل ہو رہے ہیں، اور پھر مختلف طریقوں سے اداروں کے نظام میں داخل ہوکر نقصان پہنچاتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news برطانیہ دیوالیہ کاروبار بند کمپنی ہیک کمزور پاسورڈ ملازمتیں ختم ہیکرز