Daily Ausaf:
2025-04-26@01:47:40 GMT

دنیا کی امیر ترین مصنفہ

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

دنیا کے کچھ عظیم لوگ اپنی غربت اور کسمپرسی کا بدلہ اپنی خفیہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر لیتے ہیں۔ یہ فطری بات ہے کہ پوشیدہ طاقت ظاہر ہی تب ہوتی ہے جب کوئی مشکل پیش آئے یا اسے کسی چیلنج کا سامنا کرنا پڑے۔ ایسی کسی انتہائی نازک صورتحال میں انسان اپنی بقاء کی آخری جنگ لڑتا ہے جس میں وہ کامیاب ہو جائے تو پوری دنیا اس کی عظمت اور ہمت کو سلام کرتی ہے۔انگلینڈ کی دبلی پتلی خاتون مصنفہ جے کے رولنگ کو 80 کی دہائی تک غربت اور کسمپرسی کا سامنا تھا اس کا گزر بسر سوشل بینیفٹس پر چل رہا تھا تب اسے ایک سکول میں ٹیچنگ کی نوکری مل گئی۔ لیکن رولنگ کے اندر ایک سکول ٹیچر کی روح سے زیادہ طاقتور تخیل موجود تھا جسے اس نے اپنے سلسلہ وار ’’ہیری پوٹر‘‘ناول کی شکل میں ڈھالنے کا فیصلہ کیا۔ رولنگ نے ناول کی تاریخ میں ایسا منفرد اور مافوق الفطرت تخیلاتی کارنامہ انجام دیا جو آج تک دنیا کی کوئی دوسری خاتون مصنفہ نہیں دے سکی ہے۔یہ 1990 ء کی ایک دھندلی شام تھی جب جے کے رولنگ مانچسٹر سے لندن جانے کے لئے اسٹیشن کے ایک بنچ پر بیٹھ کر ٹرین کا انتظار کر رہی تھی کہ اچانک اس کے دماغ میں ہیری پوٹر کا خیال آیا اور اس کے لئے وقت جیسے تھم سا گیا، سرد ہوائوں کی سرگوشیاں اس کی سوچوں کو گہرا کرنے لگیں، ٹرین تاخیر کا شکار تھی اور وہ خاموشی سے بینچ پر بیٹھی لوگوں کے ہجوم کو دیکھ رہی تھی اور ساتھ میں اچانک دماغ میں آنے والے کردار ’’ہیری پوٹر‘‘پر بھی غوروفکر کر رہی تھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب اچانک کسی جادوئی کیفیت نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ کوئی خواب نہیں تھا بلکہ ایک الہام تھا جسے آنے والے دنوں میں رولنگ کے قلم سے حقیقت کا روپ دھارنا تھا۔ رولنگ نے ایک خیالی منظر دیکھا اور اس محسوس کیا کہ جیسے اس کے اندر کوئی دروازہ کھل گیا۔ اسی دوران اس نے ایک لڑکے کو دیکھا جو اعتماد سے اسے کہہ رہا تھا کہ وہ ’’وزرڈ‘‘ ہے ایک جادوئی وجود ہے اور وہ کرشماتی صلاحیتوں کا مالک ہیری پوٹر ہے بس اسی جگہ سے سلسلہ وار ناول ہیری پوٹر کی ابتدا ہوئی۔
جدید دنیا کے پرتخیل ادب میں جے کے رولنگ کو وہی مقام و مرتبہ حاصل ہوا جو یونانی فلسفہ و دانش میں افلاطون کو ملا تھا۔ وہی رولنگ جس کی زندگی مالی مشکلات کے گہرے سایوں میں گھری ہوئی تھی اور امید کی روشنی کہیں دور دھندلا رہی تھی۔ یہ لڑکا، اس کے تخیل کی دنیا کا مہکتا کردار بن گیا۔ اس کی موجودگی نے اس کے اندر چھپی ہوئی تخلیقی چنگاری کو شعلے میں بدل دیا۔ وہ لمحہ ایک انقلاب کی ابتدا ثابت ہوا۔ ایک ایسی کہانی کا آغاز، جس نے نہ صرف اس کی زندگی بلکہ دنیا بھر کے قارئین کے دلوں کو مسخر کر لیا۔وہ لڑکا رولنگ کے تخیل کا شہزادہ، ’’ہیری پوٹر‘‘کی صورت میں دنیا کے سامنے آیا۔ آج دنیا اس انگلش ٹیچر کو ’’جے کے رولنگ‘‘ کے نام سے جانتی ہے، جس نے غربت و فقر سے عروج تک کا سفر اپنے تخیل اور قلم کی طاقت سے طے کیا۔انسان کے اندر جو صلاحیت ہو اسی کو اپنی طاقت بنا کر کام کیا جائے تو زندگی میں انسان کو غیر معمولی کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں۔ رولنگ کا پورا نام جوآنے کیتھلین رولنگ ہے وہ 31 جولائی 1965ء کو برطانیہ کے شہر برسٹل کے نزدیک ییٹ جنرل ہسپتال میں پیدا ہوئیں اور انگلینڈ کے سائوتھ ایسٹ ویلز گلوسٹر شائر اور چیپسٹو میں پلی پڑھیں۔ رولنگ کو بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے اور سنانے کا شوق تھا۔ وہ اپنی چھوٹی بہن کے لئے اکثر فیری ٹیلز یعنی مافوق الفطرت اور ماورائی کہانیاں لکھا کرتی تھیں۔ آغاز میں انہوں نے رابرٹ گلبرتھ کے نام سے کرائم فکشن کی کہانیاں لکھیں۔ انہوں نے 1986ء میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایکسیٹرسے انگریزی اور فرانسیسی زبان میں بیچلر ڈگری حاصل کی اور تب وہ ہیری پوٹر لکھنے کی طرف مائل ہو گئیں۔رولنگ نے پہلی بار 1990 ء میں ’’ہیری پوٹر‘‘لکھنے کا آغاز کیا جب وہ زبان دانی کے محقق کے طور پر ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے لئے کام کر رہی تھیں۔ چونکہ ان کی مالی حالت بہت خراب تھی، اس لئے ان کے پاس لکھنے کے لئے سہولتیں بھی بہت محدود تھیں یعنی لکھنے کے لئے بعض دفعہ ان کے پاس کاغذ اور پنسل تک نہیں ہوتی تھی۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: جے کے رولنگ کے اندر رہی تھی کے لئے

پڑھیں:

مکار ،خون آشام ریاست

دنیا نے دہشت گردی کے بے شمار واقعات دیکھے ہوں گے، لیکن ایسا کوئی ملک نہیں جو خود اپنے شہریوں کو قتل کرکے الزام دشمن پر تھوپنے کی مہارت رکھتا ہو — سوائے بھارت کے۔ یہ وہ ریاست ہے جو اپنے فالس فلیگ آپریشنز سے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کا امن خطرے میں ڈال چکی ہے۔ کشمیر کے پہاڑوں سے لے کر ممبئی کی سڑکوں تک، جہاں کہیں خون بہا، وہاں بھارت کی بزدل، مکار اور منافق حکومت کا ہاتھ نظر آیا۔فالس فلیگ بھارت کی پرانی اور شرمناک روائت ہے ، جو ایک بار پھر 26بے گناہوں کا خون پی گئی ۔ بھارتی درندگی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ، ابھی کل کی بات ہے ، جب ابھی نندن کو چپیڑیں پڑی تھیں ، وہ بھی ایک فالس فلیگ ہی کا نتیجہ تھا ، یعنی پلوامہ کا حملہ جب فروری 2019 میںچالیس سے زائد بھارتی فوجی مارے گئے۔ مودی حکومت نے چند گھنٹوں میں الزام پاکستان پر تھوپ دیا۔ بعد ازاں خود بھارتی فوج کے سابق افسران اور ماہرین نے اشارہ دیا کہ یہ “اندرونی سازش” تھی تاکہ انتخابات سے قبل ہمدردی حاصل کی جائے۔ مودی نے اس کا خوب سیاسی فائدہ اٹھایا۔ اڑی حملہ،ستمبر 2016،خود ہی ایک فوجی کیمپ پر حملہ کیا، الزام پاکستان پر لگا کر دنیا کو گمراہ کیا۔ مگر بعد میں بی بی سی سمیت کئی بین الاقوامی ادارے اس حملے کی مشکوک نوعیت پر سوال اٹھاتے رہے۔بدنام زمانہ ممبئی حملے 26/11 – 2008، بھارت نے اسے بھی پاکستان سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن کئی سوالیہ نشان اٹھتے رہے، بھارتی انٹیلی جنس کی ناکامی؟ حملہ آوروں کے داخلی نیٹ ورکس؟ یہاں تک کہ معروف بھارتی افسر “ہیمنت کرکرے” جو ان حملوں کی آزاد تحقیق کر رہے تھے، انہیں بھی مشکوک انداز میں قتل کر دیا گیا۔ سمجھوتا ایکسپریس آتش زدگی 2007، یہ وہ واقعہ ہے جو بھارت کے لیے سب سے بڑا طمانچہ بنا۔ 68 افراد، جن میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی، کو زندہ جلا دیا گیا۔ ابتدائی الزام پاکستان پر لگا، مگر بعد میں کرنل پروہت، سادھوی پرگیہ اور دیگر انتہاپسند ہندو رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔ یعنی یہ خالصتاً اندرونی بھارتی دہشت گردی تھی، جس میں بھارتی عدالتوں نے ثابت کیا کہ بھارتی فوج کے حاضر ڈیوٹی افسران خود ملوث تھے ، ابھی کل کی بات ہے ، خون آشام مودی نے ان تمام دہشت گردوں کو عام معافی دے کر رہا کیا ۔ اسی پر بس نہیں ، ڈانڈلی (کشمیر) میں خودساختہ حملے، بھارتی افواج نے خود ہی دہشت گردی کے واقعات کروائے تاکہ تحریک آزادی کو بدنام کیا جا سکے۔
بھارت کا سب سے بڑا فالس فلیگ نہ پلوامہ تھا، نہ اڑی، بلکہ سب سے خطرناک فالس فلیگ وہ ہے جو آج بھی مسلسل کشمیر کی گلیوں میں جاری ہے،’’ریاستی دہشت گردی کا نام جمہوریت رکھ کر دنیا کو دھوکہ دینا‘‘۔مقبوضہ کشمیر میں ہر روز بے گناہ نوجوان لاپتہ ہوتے ہیں، ان کے جسم جعلی انکاؤنٹر میں گولیوں سے چھلنی کر دیے جاتے ہیں، اور پھر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ’’دہشت گرد‘‘ تھے۔ ان کے جنازے بھی گھر والوں کو نصیب نہیں ہوتے۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟ کیا یہی سیکولر ازم ہے؟ کیا یہی وہ ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ہے جس کے نعرے سے بھارت دنیا کو دھوکہ دیتا ہے؟
سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ عالمی برادری، خاص طور پر مغربی طاقتیں، بھارت کے ان جرائم پر خاموش ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے؟ یا اس لیے کہ بھارت نے تہذیب” کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے؟ لیکن یہ لبادہ خون آلود ہے، اس کے اندر وہ درندہ چھپا ہے جو اپنے فائدے کے لیے اپنے ہی شہریوں کی لاشوں پر سیاست کرتا ہے۔ہر وہ وقت جب کوئی امریکی یا یورپی وفد بھارت آتا ہے، بھارت ایک جعلی دہشت گرد حملہ کروا کر خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے — اور الزام پاکستان پر لگا کر دنیا کو گمراہ کرتا ہے۔پاکستان نے ہر بار بھارت کی فریب کاریوں کا مؤثر جواب دیا، مگر ہمیشہ اخلاقی دائرے میں رہ کر۔ پاکستان نے کبھی بچوں کی لاشوں پر سیاست نہیں کی، کبھی اپنے لوگوں کو مار کر الزام دوسروں پر نہیں لگایا۔ لیکن بھارت؟ وہ ایک ایسا شیطانی ذہن رکھتا ہے جو اپنے ہی خون سے اپنے چہرے کو دھو کر اسے دشمن کا رنگ دیتا ہے۔پاکستان کے دفتر خارجہ، عسکری قیادت اور سفارتی اداروں کے لئے اب مزید خاموشی کی گنجائش نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ان فالس فلیگ حملوں کی اقوام متحدہ میں باقاعدہ تحقیقات کا مطالبہ کیا جائے۔ ہر جعلی حملے کی بین الاقوامی نگرانی میں انکوائری ہو تاکہ بھارت کی ننگی حقیقت دنیا کے سامنے بے نقاب ہو۔
بھارتی میڈیا، جو کبھی صحافت تھا، اب محض جنگی پروپیگنڈے کا آلہ بن چکا ہے۔ “ریپبلک ٹی وی”، زی نیوز”، اور “ٹائمز ناؤ” جیسے چینلز اپنے سٹوڈیوز میں بیٹھ کر پاکستان پر جنگ مسلط کر دیتے ہیں۔ ان کے اینکرز صحافی نہیں، غصے سے چیختے سپاہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہی میڈیا ہے جس نے پلوامہ جیسے حملے کو فلمی اسکرپٹ بنا کر پیش کیا، اور بھارتی عوام کو جنگ کے جنون میں مبتلا کر دیا، جواب میں جب پاکستان نے بھارتی وکاس کو دھو کر رکھ دیا تو میڈیا کو چپ لگ گئی ۔ سوال یہ ہے کہ بھارت جو پاکستان کی معاشی بحالی اور اپنی کٹھ پتلیوں کی ناکامی پر انگاروں پر لوٹ رہاہے ، کیا آگے چپ رہے گا ؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے ۔ وہ ایک بار پھر فالس فلیگ سازشوں کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ کشمیر میں حالیہ سیاحوں پر حملہ اسی شیطانی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بھارت اس وقت بلوچستان میں اپنی پراکسیز کے خاتمے، ایران میں نیٹ ورک کی بے نقابی، اور افغانستان میں رسائی ختم ہونے سے سخت بوکھلایا ہوا ہے۔ ان تمام محاذوں سے توجہ ہٹانے کے لیے کوئی نیا ڈرامائی حملہ” خارج از امکان نہیں۔ حالیہ حملہ جس میں غیر ملکی سیاح مارے گئے، اس بات کا عندیہ ہے کہ بھارت اب عالمی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ یہ ایک سفاک حکومت کی بدترین مثال ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ ہر فالس فلیگ آپریشن کا مکمل فیکٹ فائل تیار کرے، جس میں واقعات، مشکوک پہلو، انٹیلی جنس رپورٹس، میڈیا پراپیگنڈا اور بھارتی بیانات کو جمع کر کے اقوام متحدہ، او آئی سی، ہیومن رائٹس کونسل اور انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے رکھا جائے۔ ہر پاکستانی سفارت خانے کو یہ ہدف دیا جائے کہ وہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی پر ایک ایک رپورٹ متعلقہ ملک کے دفتر خارجہ، تھنک ٹینکس، اور میڈیا ہاؤسز کو فراہم کرے۔دوسری جانب یہ بھی لازم ہے کہ ہمارے ادارے جو پہلے ہی چوکس ہیں ، ریڈ الرٹ پر آجائیں ، متحرک اور متحد ہو کر بھارت کی ہر ممکنہ چال پر نظر رکھیں، پیشگی وارننگ اور پروف کے ساتھ دنیا کو بتایا جائے کہ بھارت کیا کرنے والا ہے، اور اگر ابھی نندن جیسی کوئی دوسری حماقت کرے تو پھر یہ اس کی آخری حماقت ہونی چاہئے ۔
بھارت ایک بار پھر چالاکی، سازش اور ظلم کا جال بُن رہا ہے — مگر ہم جاگ رہے ہیں۔ ہمیں ایک قوم بن کر، ایک مؤقف کے ساتھ، ایک آواز میں دنیا کو بتانا ہوگا:
ہم خاموش ضرور ہیں، مگر کمزور نہیں۔
ہم امن چاہتے ہیں، مگر بزدل نہیں۔
ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سمجھو —
کیونکہ جب پاکستان بولتا ہے، دنیا سنتی ہے۔
اور جب ہم وار کرتے ہیں،
دشمن کی سانسیں بند ہو جاتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ​​​​​​​امیر جماعت اسلامی کی اپیل پر جمعة المبارک اسرائیل، بھارت کے خلاف یوم مذمت کے طور پر منایا گیا
  • کل کی ہڑتال اسرائیل‘ بھارت‘ امریکہ پر مشتمل شیطانی ٹرائی اینگل کیخلاف: حافظ نعیم
  • امن اور مکالمہ ہماری ترجیح  ، قومی سلامتی یا وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے،امیر مقام
  • 26 اپریل کی ہڑتال امریکا، اسرائیل، بھارت کیخلاف ہے: حافظ نعیم الرحمٰن
  • مکار ،خون آشام ریاست
  • پاکستان دنیا کا 5 واں سب سے زیادہ آب و ہوا کا شکار ملک قرار
  • اہل غزہ سے یکجہتی پرسوں دیہات، گلی محلوں کی دکانیں بھی بند ہونی چاہئیں: حافظ نعیم 
  • اسلام آباد، وفاقی وزیر امیر مقام سے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی ملاقات
  • اسلام آباد، جی بی کونسل سیکرٹریٹ آفس کی تعمیر کے حوالے سے امیر مقام کی زیر صدارت اجلاس
  • اسٹیبلشمنٹ فیڈریشن کو ون یونٹ نظام نہ بنائے: لیاقت بلوچ