عامر خان کی 91 سالہ والدہ نے بھی فلمی دنیا میں قدم رکھ دیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, June 2025 GMT
بالی وڈ کے معروف اداکار عامر خان کی نئی فلم ’ستارے زمین پر‘ اپنی کہانی کی وجہ سے تو خبروں میں ہے ہی، اب ایک خوشگوار حیرت بھی مداحوں کا انتظار کر رہی ہے، عامر خان کی 91 سالہ والدہ زینت خان اس فلم میں پہلی بار اسکرین پر نظر آئیں گی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق زینت خان فلم کے شادی کے گانے میں بطور مہمان اداکارہ جلوہ گر ہوں گی، یہ ان کا پہلا فلمی تجربہ ہوگا اور عامر خان کے لیے ایک خاص جذباتی لمحہ بھی۔
عامر خان نے انکشاف کیا کہ ایک دن ان کی والدہ نے اچانک شوٹنگ پر آنے کی خواہش ظاہر کی۔ ’امی نے صبح فون کر کے پوچھا کہ کہاں شوٹنگ ہو رہی ہے، ہمیں بھی آنا ہے، ہم نے فوراً گاڑی بھیجی ‘اور بہن انہیں لے کر آئیں۔
شوٹنگ کے دوران جب فلم کے ہدایتکار آر ایس پرسانا نے زینت خان کو گانے میں شامل کرنے کی تجویز دی، تو عامر خان پہلے تو ہچکچائے، مگر جب ان کی والدہ سے بات کی گئی تو وہ خوشی خوشی راضی ہو گئیں۔
عامرخان نے کہا کہ مجھے یقین نہیں آیا کہ امی مان گئیں، ان کی موجودگی نے اس فلم کو میرے لیے اور بھی خاص بنا دیا ہے۔
فلم میں عامرخان کی بہن نکہت خان بھی ایک کردار ادا کر رہی ہیں، عامرخان کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب وہ اور ان کی بہن ایک ساتھ کام کر رہے ہیں، اور ممکن ہے آئندہ بھی مشترکہ فلمی پروجیکٹس میں نظر آئیں۔
فلم ’ستارے زمین پر‘ جون کے وسط میں سینما گھروں کی زینت بنے گی، اور مداح اب صرف کہانی ہی نہیں بلکہ عامر خان کی فیملی کی جھلک دیکھنے کے لیے بھی بے حد پُرجوش ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
زینت خان ستارے زمین پر عامر خان نکہت خان والدہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ستارے زمین پر والدہ عامر خان کی
پڑھیں:
مودی کے انتہاپسند بھارت میں 150 سالہ قدیم اور تاریخی درگاہ کی بیحرمتی
بھارتی ریاست بہار میں تاریخی حیثیت کی حامل درگاہ کی بیحرمتی کی گئی جس میں ایک بزرگ مسلم ہستی مدفون ہیں اور ملک بھر سے زائرین کی بڑی تعداد یہاں آتی ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق نامعلوم افراد نے رات کی تاریکی میں تاریخی درگاہ کو مسمار کرنے کی کوشش میں شدید نقصان پہنچایا۔ جس پر علاقہ مکینوں نے احتجاج کیا۔
شدید عوامی احتجاج کے باجود تاحال نہ تو ایف آئی آر درج کی گئی اور نہ ہی ملزمان کا تعین کرنے کے لیے کوئی کوشش کی گئی۔
بہار کی مقامی حکومت نے بھی اس واقعے پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا جس سے عوام میں غم اور غصے کی لہر دوڑ گئی۔
اس 150 سالہ قدیم درگاہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے بھی بڑے تعداد میں آتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ درگاہ کا اتحاد بین المذاہب کا مرکز اور امن کی علامت سمجھا جاتا ہے اور آس پاس کی آبادی میں تمام مذاہب کے افراد مل جل کر رہتے ہیں۔
تاہم مودی سرکار کے دورِ اقتدار میں ہندوتوا کو فروغ دیا گیا جس کے باعث ملک میں نہ اقلیتیں محفوظ ہیں اور نہ ہی ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ حاصل ہے۔
مودی سرکار کی اس نفرت آمیز پالیسیوں کا عروج اُس وقت دیکھنے میں آیا جب تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کیا گیا۔
اس کے بعد سے متعدد تاریخی مساجد اور درگاہوں کو ہندو دیوتاؤں کی جنم بھومی یا سابق مندر قرار دیکر مسمار کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
بھارت میں مساجد اور درگاہوں کے علاوہ چرچ بھی محفوظ نہیں رہے ہیں۔ مشنری اسکولوں اور اسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔