مودی حکومت حقائق کو چھپا رہی ہے، جے رام رمیش
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
کانگریس لیڈر کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے گزشتہ 21 دنوں میں کئی بار دعویٰ کیا کہ انہوں نے جنگ بندی کروائی، یہاں تک کہ آپریشن سندور کو بھی رکوانے کا کریڈٹ لیا۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس کے سینیئر لیڈر اور رکنِ پارلیمان جے رام رمیش نے چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) جنرل انیل چوہان کے سنگاپور میں دئے گئے انٹرویو پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مودی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو باتیں جنرل چوہان نے سنگاپور میں کہیں، وہ دراصل وزیرِ دفاع کو کل جماعتی اجلاس میں کرنی چاہیئے تھیں اور ان پر باقاعدہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا جانا چاہیئے تھا۔ جے رام رمیش نے کہا کہ جو معلومات جنرل چوہان نے فراہم کیں، وہ نہایت اہم اور سنجیدہ نوعیت کی ہیں۔ ان کا تعلق صرف فوجی حکمتِ عملی سے نہیں بلکہ خارجہ پالیسی، معاشی اور سفارتی حکمتِ عملی سے بھی ہے، یہ افسوسناک ہے کہ ہمیں یہ سب سنگاپور سے معلوم ہوا۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ دفاع نے دو مرتبہ آل پارٹی میٹنگ کی صدارت کی، مگر اس میں ان باتوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سنگاپور سے سی ڈی ایس کی گفتگو کا انتظار کیوں کرنا پڑا، کیا یہ مادرِ جمہوریت ہونے کے دعوے کے خلاف نہیں۔ جے رام رمیش نے کہا کہ تین دن بعد کرگل جنگ ختم ہوئی تو اس وقت کے وزیرِاعظم اٹل بہاری واجپئی نے فوری طور پر کرگل ریویو کمیٹی قائم کی تھی، جس کی رپورٹ نہ صرف پارلیمنٹ میں پیش کی گئی بلکہ اسے عام بھی کیا گیا۔ اس رپورٹ میں شامل ایک رکن ڈاکٹر ایس جے شنکر (موجودہ وزیرِ خارجہ) کے والد بھی تھے۔
کانگریس لیڈر نے "آپریشن سندور" کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس دوران چین اور پاکستان کے درمیان گہرے روابط ابھر کر سامنے آئے، جس پر مکمل سیاسی تجزیہ ضروری ہے۔ ان کے مطابق یہ صرف فوجی معاملہ نہیں ہے، یہ قومی سلامتی، سفارت کاری اور سیاست سے جڑا معاملہ ہے، جس پر پارلیمان اور وزیراعظم کی قیادت میں آل پارٹی میٹنگ میں تبادلہ خیال ہونا چاہیئے۔ جے رام رمیش نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متواتر بیانات پر بھی وزیرِ اعظم کی خاموشی پر سوال اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے گزشتہ 21 دنوں میں کئی بار دعویٰ کیا کہ انہوں نے جنگ بندی کروائی، یہاں تک کہ آپریشن سندور کو بھی رکوانے کا کریڈٹ لیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ہندوستان کو امریکہ سے تجارت بڑھانی ہے تو جنگ بندی کرنی ہوگی۔ جے رام رمیش کے مطابق ٹرمپ نے ہندوستان اور پاکستان کو ایک ہی کشتی میں بٹھا دیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
کیا مودی حکومت نے امریکی دباؤ میں آکر "آپریشن سندور" روکا، کانگریس
پون کھیڑا نے پہلگام کے متاثرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت واقعی امریکی دباؤ میں آکر آپریشن روک بیٹھی ہے تو یہ نہ صرف ایک کمزور خارجہ پالیسی کا ثبوت ہے بلکہ ملک کی خودمختاری پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پھر اس دعویٰ کے بعد کہ انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان ممکنہ نیوکلیئر جنگ کو تجارت کے ذریعے روک دیا، کانگریس کے سینیئر لیڈر پون کھیڑا نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے پھر کئی سوالات پوچھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا "میرے خیال میں جس معاہدے پر مجھے سب سے زیادہ فخر ہے، وہ یہ ہے کہ ہم نے ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ گفت و شنید کی اور ہم نے گولیاں چلانے کے بجائے تجارت کے ذریعے ایک ممکنہ نیوکلیئر جنگ کو روکا"۔ پون کھیڑا نے اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ نریندر مودی اب تو خاموشی توڑیں۔
پچھلے 20 دنوں میں 11 بار اور صرف گزشتہ 10 گھنٹوں میں 2 بار امریکی صدر یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے تجارت کے ذریعے "آپریشن سندور" رکوایا۔ پون کھیڑا نے وزیراعظم سے براہ راست سوالات کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ امریکہ کے دباؤ میں آ کر پہلگام کی بیواؤں کو انصاف نہیں دلوا سکے، کیا آپ نے تجارت کے خوف سے گھٹنے ٹیک دئے اور آپریشن سندور کا سودا کر بیٹھے، کیا آپ امریکی دباؤ اور ٹرمپ کے دعووں کے خوف سے ان کو کوئی جواب نہیں دے پا رہے۔ انہوں نے کہا کہ ان جنگ بندی کے بدلے ہم نے کیا شرائط طے کیں۔
دریں اثنا کانگریس کی سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی چیئرمین سپریہ شرینیت نے بھی وزیراعظم نریندر مودی پر طنز کرتے ہوئے ایکس پر لکھا کہ لو بھائی 10ویں مرتبہ بھی بول دیا لیکن مجال ہے کہ مودی کے منہ سے ایک لفظ بھی نکل جائے۔ بھارت کی وزارت خارجہ پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ سیزفائر دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز کی باہمی گفتگو کے نتیجے میں ہوا تھا، جس کی ابتداء پاکستان کی جانب سے کی گئی تھی لیکن اب جب ٹرمپ مسلسل اس کا کریڈٹ لے رہے ہیں، اپوزیشن نے حکومت سے جواب طلب کرنا شروع کر دیا ہے۔ پون کھیڑا نے خاص طور پر پہلگام کے متاثرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت واقعی امریکی دباؤ میں آ کر آپریشن روک بیٹھی ہے تو یہ نہ صرف ایک کمزور خارجہ پالیسی کا ثبوت ہے بلکہ ملک کی خودمختاری پر بھی سوالیہ نشان ہے۔