طالبان اور خطے کے ممالک: ایک نئی تزویراتی حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
(گزشتہ سےپیوستہ)
پاکستان بھی چاہتاہے کہ اس کے کابل کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں،لیکن افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پرکارروائیاں بھی اس کی مجبوری بن چکی ہیں کیونکہ افغان طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھارہی ہے ۔ادھرافغانستان کے سابق سفارتکاروں نے انڈیااورافغانستان کے درمیان بڑھتے روابط پر تحفظات کااظہارکیاہے۔ سری لنکا،انڈیااور امریکامیں افغانستان کے سابق سفیرایم اشرف حیدری نے وکرم مصری اورطالبان کے درمیان ملاقات پرسخت الفاظ میں لکھاہے کہ ’’یہ افغانستان کے عوام کے ساتھ غداری ہے کیونکہ یہ افغان جمہوریت،آزادی اورانسانی حقوق کی صورتحال کے لئے تشویشناک ہے۔ پاکستان کی طرح انڈیابھی جلدیابدیراپنی اقداراورمفادات سے غداری پرپچھتائے گا۔یہ مت بھولیں کہ طالبان کہتے ہیں کہ ہندوؤں نے اس کے بھائیوں اوربہنوں کے کشمیرپرقبضہ کررکھاہے اوروہ کشمیرکی آزادی کے لئے لڑیں گے۔ آپ کویہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بامیان میں بدھاکے مجسموں کوطالبان نے تباہ کردیاتھا اوریہ مجسمے ہماری ثقافت کااثاثہ تھے‘‘۔انڈیامیں افغانستان کے سابق سفیر فریدماموندزئی نے کہاہے کہ’’ان لوگوں کونظرانداز کیے بغیرطالبان حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں کیے جا سکتے جووہاں مسلسل مظالم کاشکارہورہے ہیں۔کسی بھی مذاکرات میں افغان خواتین اوربچوں کے مفادات کوترجیح دینی ہوگی۔وہاں کے انسانی بحران کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ انڈیاوہاں طالبان کے مظالم کوجائزنہ بنائے جوکل خودانڈیا کے گلے کاپھندہ بن جائے‘‘۔
کابل میں ایک انڈین وفدکی طالبان حکام سے ملاقات کوخاصی دلچسپی سے دیکھاجارہاہے اوربعض مبصرین اسے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی طرف ایک اشارہ سمجھ رہے ہیں۔ دراصل گزشتہ دنوں انڈین وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ اہلکار جے پی سنگھ نے ایک انڈین وفدکے ہمراہ کابل میں افغانستان کے عبوری وزیردفاع ملامحمدیعقوب اورقائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی اورافغانستان کے سابق صدرحامد کرزئی سے ملاقات کی۔یہ انڈین وزارت خارجہ کے کسی اعلی اہلکارکی ملامحمد یعقوب سے پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔ ملایعقوب طالبان تحریک کے بانی ملاعمرکے بیٹے ہیں اورموجودہ حکومت میں وہ ایک بااثررہنمامانے جاتے ہیں۔وزارت دفاع نے ایکس پرملایعقوب اور انڈین وزارت خارجہ کے نمائندے جے پی سنگھ کی ملاقات کی تصویرپوسٹ کی اورتعلقات بہتر کرنے کا ذکر کیاہے۔انڈیابھی اب طالبان سے تعلقات بہترکرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتاکہ افغانستان میں صرف چین اورپاکستان کااثر رہے۔ ملایعقوب اس سے پہلے بھی انڈیاسے مضبوط رشتے قائم کرنے کی باتیں کرتے رہے ہیں اوردفاع کے شعبے میں بھی اشتراک کی امید کررہے ہیں۔
طالبان سے پہلے کی حکومتوں کے دوران انڈیا افغانستان کی فوج کوٹریننگ فراہم کیاکرتاتھاجبکہ افغانستان کے فوجی اہلکارانڈیاکی فوجی اکیڈمی میں تربیت حاصل کرنے کے لئے بڑی تعدادمیں انڈیا آتے تھے۔ پروفیسربلقیس کہتی ہیں کہ افغانستان سے انڈیاکے تعلقات تاریخی طورپراچھے رہے ہیں۔ طالبان کی حکومت کے قیام کے بعدانڈیانے افغانستان کے شہریوں کے لئے ویزا محدود کردیاہ ے۔ 4 اور 5نومبرکوہونے والی اس بات چیت میں طلباء ،تاجروں اورعلاج ومعالجہ کے لئے آنے والے افغان شہریوں کے لئے ویزاجاری کرنے کے سوال پر بھی مفصل بات ہوئی ہے۔اب انڈیابھی تعلقات کی بحالی میں زیادہ دلچسپی دکھارہاہے۔انڈیاکے تعلقات چاروں طرف اپنے پڑوسیوں سے اچھے نہیں ہیں۔یہ انڈیاکے مفادمیں ہے کہ وہ طالبان سے تعلقات بہتر کرے کیونکہ وہ یہ نہیں چاہے گاکہ طالبان بھی اس کے خلاف ہوجائیں۔وہ نہیں چاہے گاکہ چین اورپاکستان افغانستان کوانڈیاکے خلاف استعمال کریں۔
انڈین اہلکارسے ملاقات کے بعدطالبان حکومت کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہاکہ اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے باہمی رشتوں کووسعت دینے اوردونوں ملکوں کے درمیان روابط بڑھانے پرزور دیاہے۔بعض افغان اہلکاروں کے حوالے سے انڈین میڈیا نے خبردی ہے کہ یہ ملاقات اس بات کااشارہ ہے کہ سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجودانڈیااب انسانی بنیادوں پردی جانے والی امدادسے آگے کی راہ دیکھ رہاہے۔ آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کے بیچ تعلقات میں مزید پیشرفت کاامکان ظاہرکیاگیا ہے ۔
انڈیاکی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے جمعرات کومیڈیابریفنگ میں بتایاکہ افغان رہنماؤں سے بات چیت میں دیگرباتوں کے علاوہ ایران کی چابہاربندرگاہ کے راستے افغانستان کوتجارت کی پیشکش کی ہے۔ان کے بقول انڈین اہلکاروں نے طالبان کوبتایاکہ کس طرح ایران کے تاجراوربزنس مین ایران کی چابہاربندرگاہ سے اپنے مال کی برآمداور درآمداور دیگرکاموں کے لئے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ ایران میں چابہار بندرگاہ انڈیاتعمیرکررہاہے جسے پاکستان کے ساحلی شہرگوادر میں چین کے ذریعے تعمیرکی جانے والی بندرگاہ کے متبادل کے طورپربھی دیکھاجاتاہے۔کابل میں اس ملاقات سے چندہفتے قبل طالبان کے بعض اہلکاردلی کادورہ کرچکے ہیں۔ کچھ عرصے سے انڈیاافغانستان کی طالبان حکومت سے اپنے تعلقات رفتہ رفتہ استوارکرنے کی طرف قدم بڑھارہاہے۔
افغانستان میں2021ء میں طالبان کے آنے بعدانڈیانے طالبان کی حکومت کوتسلیم نہیں کیا ہے۔دلی میں افغانستان کے سفارتخانے میں گزشتہ حکومت کے جو سفارتکار تھے وہ یہاں سے جاچکے ہیں۔ کسی بھی ملک نے اگرچہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کوتسلیم نہیں کیاتاہم علاقائی ممالک بشمول چین، روس،پاکستان،ایران اورقطر کا سفارتخانے اب بھی کابل میں موجودہیں۔حال ہی میں انڈیانے کابل میں سفارتی مشن بحال کیا۔ طالبان ایک عرصے سے انڈیاپرزوردے رہے ہیں کہ وہ طالبان کی وزاراتِ خارجہ کے سفارت کاروں کویہاں مامورکرنے کی اجازت دے۔اس ملاقات میں بھی طالبان نے سفارتکاروں کی تقرری سے متعلق سوال اٹھایاتھا۔اب ایسی اطلاعات آرہی ہیں کہ انڈیاطالبان کے سفارتکاروں کودلی میں مامورکرنے کی اجازت دینے پرغورکررہاہے۔ طالبان انڈیاکو کئی باریہ یقین دہانی کراچکے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کوانڈیامخالف سرگرمیوں کے لئے استعمال نہیں ہونے دیاجائے گا۔ گزشتہ برسوں کے دوران پاکستان اورطالبان کے درمیان تعلقات میں اتارچڑھاؤآتارہاہے۔پاکستانی دفتر خارجہ نے بارہااپنے بیانات میں افغان طالبان سے یہ مطالبہ کیاہے کہ اس کی سرزمین پاکستان پرحملوں کے لئے استعمال نہ کی جائے جبکہ طالبان حکام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ افغان سرزمین پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لئے استعمال نہیں ہورہی۔
رواں سال انڈیااورمالدیپ کے درمیان سرد مہر ی رہی تھی تاہم اکتوبرمیں انڈیانے مالدیپ کی معاشی بحالی کے لئے ہزاروں ڈالرقرض دینے پررضامندی ظاہرکی۔ مئی میں نیپال کے نئے نقشے کے ساتھ جاری کیے جانے والے100روپے کے نیپالی نوٹ کے اجراپر انڈین حکام نے ناراضی ظاہرکی تھی جبکہ ماضی قریب میں بھوٹان کی طرف سے چین سے بہتر سفارتی تعلقات استوار کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔یادرہے کہ سری لنکامیں ستمبرکوبائیں بازوکی جانب جھکاؤرکھنے والے سیاست دان انوراکماراڈسانائیکے نئے صدربنے ہیں جنہیں چین کاحامی سمجھاجاتاہے۔بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ اپنی حکومت جانے کے بعدسے انڈیامیں موجودہیں جہاں انہیں سیاسی پناہ دینے کامعاملہ زیرِبحث ہے۔
ادھرانڈین خارجہ امورکے ماہرین کے مطابق انڈیااورطالبان کی حکومت،دونوں کے درمیان باہمی اعتمادکی کمی ہے۔انڈیانے طالبان کوتسلیم نہیں کیالیکن اگروہ دلی میں افعان سفارتخانے میں طالبان کے سفارتکاروں کومامور کرنے کی اجازت دیتاہے تویہ تعلقات کی باضابطہ بحالی کی جانب ایک بڑاقدم ہوگالیکن انڈیاابھی تک طالبان کوتسلیم کرنے سے پہلے’’ویٹ اینڈواچ‘‘کی پالیسی پرعمل پیرارہاہے۔ دوسری طرف پاکستانی دفترخارجہ کی ترجمان نے اگست کے دوران کہاتھاکہ اگرعبوری افغان حکومت اپنے شہریوں اوربین الاقوامی برادری سے کیے گئے وعدوں کویقینی بنائے گی کہ اس کی سرزمین اس کے پڑوسیوں کے خلاف استعمال نہیں کی جا رہی تب ہی اسے تسلیم کرنے میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔
ٹرائیکاکی مکمل کوشش ہے کہ’’سی پیک‘‘کو کسی بھی صورت میں مکمل نہ ہونے دیاجائے،اس حکمت عملی کے لحاظ سے افغانستان کی اہمیت موجودہ علاقائی پس منظرمیں بہت زیادہ ہے اوراس سے تعلقات پوری طرح بحال کرنے کے لئے انڈین حکومت اب اسی طرف قدم بڑھارہی ہے لیکن یہ یادرکھنابہت ضروری ہے کہ جوطالبان اس وقت انڈیاکواپنی سرزمین انڈیامخالف سرگرمیوں کے لئے استعمال نہیں کرنے کی یقین دہانیاں کروارہے ہیں،اس سے قبل وہ ایسی ہی تحریری یقین دہانیاں دوحہ میں اقوام عالم کوکروا چکے ہیں اورجس پاکستان کی قربانیوں کی بدولت وہ اس مقام پرپہنچے ہیں، اگراس کے ساتھ یہ سلوک روارکھاجا رہا ہے توکل انڈیا کو بھی یقیناایسے سلوک کامنتظررہناہوگا جو شائداس سے کہیں زیادہ شدید اورناقابل یقین ہوگااور طالبان کی موجودہ قیادت کوبھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے کہ رب کریم نے واضح طورپرارشادفرمایاہے کہ ’’نیکی کا بدلہ نیکی کے سوااورکیاہے‘‘۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: افغانستان کے سابق میں افغانستان کے طالبان کی حکومت کے لئے استعمال وزارت خارجہ کے افغانستان میں استعمال نہیں طالبان حکومت افغانستان کی کہ افغانستان کے درمیان طالبان سے میں افغان طالبان کے کہ افغان کابل میں کے لئے ا نہیں کی کرنے کی کے ساتھ رہے ہیں ہیں کہ
پڑھیں:
افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، ذبیح اللہ مجاہد
قابل (ویب ڈیسک )پاکستان کو یقین دلایا کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، ذبیح اللہ مجاہد
افغانستان کی طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں۔
افغان خبر رساں ادارے طلوع نیوز کو انٹریو میں ترجمان طالبان نے اس عمل کو افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ جس طرح پاکستان یہ مطالبہ کرتا ہے کہ افغان سرزمین اس کے خلاف استعمال نہ ہو، اسی طرح ہم نے بھی استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستان سے کہا ہے کہ وہ اپنی زمین اور فضائی حدود افغانستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔
ترجمان طالبان نے بتایا ’’یہ درست ہے کہ امریکی ڈرون افغانستان کی فضاؤں میں داخل ہو رہے ہیں اور یہ ڈرونز پاکستانی فضائی حدود سے گزر کر آتے ہیں۔ یہ ناقابلِ قبول ہے۔
انھوں نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ کچھ عناصر جو ماضی میں افغانستان کے مخالف رہے یا بگرام پر قابض ہونے کے خواہاں تھے اب خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ترجمان طالبان نے کہا کہ یہ قوتیں براہِ راست سامنے نہیں آتیں بلکہ دوسروں کے ذریعے اشتعال انگیزی اور دباؤ ڈالتی ہیں۔ ہم کسی بھی سازش کے مقابلے میں مضبوطی سے کھڑے ہیں اور خطے میں کسی غلط عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
استنبول مذاکرات سے متعلق انھوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ دوحہ اور استنبول کی ملاقاتوں میں پاکستان کا مؤقف یہی رہا کہ ٹی ٹی پی کو قابو کیا جائے جو پاکستان میں داخل ہوکر کارروائیاں کر رہے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد کے بلوچ نے طالبان وفد نے پاکستانی وفد کو یقین دلایا کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جاتی اور پاکستان کے اندر کے معاملات پاکستان کو خود دیکھنا ہوں گے۔
خیال رہے کہ آج ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں افغانستان میں ڈرون حملوں کے حوالے سے سوال پر کہا کہ ہمارا امریکا سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔
انھوں نے امریکی ڈرونز کے پاکستان سے افغان فضائی حدود میں جانے کے الزام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم نے خود اب تک کوئی باضابطہ شکایت بھی نہیں کی ہے۔