آج کل کی تیز رفتار دنیا میں، واٹس ایپ گروپس کا استعمال بات چیت کے لیے ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ فوری رابطے اور معلومات کی تیز تر ترسیل کے لیے ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ تاہم، ایک رجحان سامنے آ یا ہے جس میں اہم سرکاری نوٹیفیکیشنز اور سرکولر وائس نوٹس کے ذریعے شیئر کیے جا رہے ہیں۔ کیا یہ واقعی بہترین طریقہ ہے یا ہم صرف ایک آسان شارٹ کٹ اختیار کر رہے ہیں؟

رسمی رابطے کی روایات ہمیشہ تحریری شکل میں رہی ہیں، چاہے وہ میمو، ای میل یا سرکاری خطوط کی صورت میں ہوں یا کسی اور صورت میں۔ تحریری پیغامات میں ایک خاص نوعیت کی حاکمیت اور شفافیت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، وائس نوٹس اگرچہ ذاتی طور پر سہولت بخش ہوتے ہیں، لیکن وہ اتنے باضابطہ نہیں ہوتے۔ ایک وائس نوٹ فوری طور پر سنا جا سکتا ہے، مگر اس کا ریکارڈ برقرار نہیں رہتا۔جبکہ  سرکاری نوٹیفیکیشنز کو واضح اور شفاف ہونا چاہیے۔

اگرچہ وائس نوٹس فوری اور آسان ہوتے ہیں، لیکن کیا وہ سرکاری نوٹیفیکیشنز کے لیے مناسب ہیں؟ مختصر جواب ہے۔ نہیں۔ وائس نوٹس ایک غیر رسمی ذریعہ ہیں، جو اکثر ذاتی یا ٹیم کی سطح پر استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں وہ سرکاری انداز اور اہمیت نہیں ہوتی جو تحریری پیغامات میں پائی جاتی ہے۔ جب اہم باتیں وائس نوٹ میں کہی جاتی ہیں، تو ان کے غلط سمجھنے یا نہ سنے جانے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ تحریری نوٹیفیکیشنز میں یہ خطرات بہت کم ہوتے ہیں، کیونکہ ان میں ہر بات واضح طور پر درج کی جاتی ہے۔

علاوہ ازیں، وائس نوٹس کا ریکارڈ ختم بھی ہو سکتا ہے، اور جب کسی وضاحت کی ضرورت ہو، تو اصل پیغام کو دوبارہ تلاش مشکل ہو تا ہے ۔تحریری نوٹیفیکیشنز ہمیشہ ایک مربوط ریکارڈ فراہم کرتے ہیں، جس سے کسی بھی وقت رجوع کیا جا سکتا ہے۔

وائس نوٹس ایک وقتی پیغام ہوتا ہے۔ جیسے ہی آپ اس کو سن لیتے ہیں، اس کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے، اور دوبارہ اس کا حوالہ لینا مشکل ہوتا ہے۔ سرکاری نوٹیفیکیشنز کو محفوظ اور باآسانی قابل رسائی ہونا چاہیے۔ وائس نوٹس میں آپ کے لہجے، انداز یا کسی اور تفصیل کو غلط سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک چھوٹا سا فرق بات  کے مفہوم کو مکمل طور پر تبدیل کر سکتا ہے۔ تحریری نوٹس میں ایسا کوئی خطرہ نہیں ہوتا، کیونکہ ہر بات واضح اور درست ہوتی ہے۔ ہر شخص وائس نوٹس سننے کے قابل نہیں ہوتا، خاص طور پر ان حالات میں جہاں وہ شور شرابے میں یا عوامی جگہوں پر ہو۔ اسی طرح، جو لوگ سننے میں مشکل کا سامنا کرتے ہیں، ان کے لیے وائس نوٹس بالکل ناقابل رسائی ہوتے ہیں۔ تحریری نوٹیفیکیشنز ہر کسی کے لیے آسانی سے قابل رسائی ہوتے ہیں۔ وائس نوٹس کی غیر رسمی نوعیت سرکاری رابطے کے سنجیدہ انداز کو متاثر کر تی ہے۔ سرکاری نوٹیفیکیشنز کو اہمیت اور سنجیدگی کے ساتھ پیش کیا جانا چاہیے، جو وائس نوٹس میں ممکن نہیں۔ وائس نوٹس بہت تیز اور آسان لگتے ہیں، مگر جب مختلف افراد ایک کے بعد ایک وائس نوٹس بھیجنے لگتے ہیں، تو اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ضروری معلومات ضائع ہو جاتی ہیں۔ تحریری نوٹیفیکیشنز سے آپ چند لمحوں میں اہم باتوں کو دیکھ سکتے ہیں۔

سب سے اہم سوال یہ ہےکہ کیا وائس نوٹس کے ذریعے سرکاری نوٹیفیکیشنز شیئر کرنا سرکاری سمجھا جا سکتا ہے؟ زیادہ تر پیشہ ورانہ ماحول میں اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ سرکاری نوٹیفیکیشنز واضح، قابل اعتماد اور ریکارڈ میں محفوظ ہونے چاہئیں—ایسی خصوصیات جو تحریری پیغامات خود بخود فراہم کرتے ہیں۔ وائس نوٹس ان ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

یہ رجحان شروع میں تو آسان لگتا ہے، مگر اس کے طویل المدتی نتائج پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، وائس نوٹس کے ذریعے اہم پیغامات کو سمجھنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ لوگ بار بار ایک ہی پیغام کو سننے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بعض تفصیلات کو سمجھے بغیر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، معلومات کی درست ترسیل میں کمی آتی ہے۔

اگر ہمارے اداروں، یونیورسٹیز، کالجز، دفاتر اور پیشہ وارانہ ماحول میں یہ رجحان جاری رہا تو ہم سرکاری نوٹیفیکیشنز کی سنجیدگی اور شفافیت کو کھو دیں گے۔ اگر نوٹیفیکیشنز سرکاری نہیں لگیں گے تو ان کا اثر بھی کم ہو سکتا ہے۔ اس سے ادارے یا اداروں کی پیشہ ورانہ ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔

اس رجحان کو درست کرنے کے لیے ہمیں کچھ اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وائس نوٹس کا استعمال ختم کر دینا چاہیے۔ ان کا استعمال غیر رسمی اپ ڈیٹس یا کسی اضافی وضاحت کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ مگر اہم سرکاری نوٹیفیکیشنز کے لیے تحریری رابطے کو ترجیح دینی چاہیے۔

سرکاری نوٹیفیکیشنز تحریری طور پر بھیجے جائیں، چاہے وہ ای میل کے ذریعے ہوں یا کسی آفیشل پلیٹ فارم کے ذریعے۔ تحریر میں وضاحت، سنجیدگی اور ریکارڈ رکھنے کی وہ تمام خصوصیات موجود ہوتی ہیں جو ایک سرکاری نوٹیفیکیشن میں ہونی چاہیے۔ اداروں کو واضح طور پر یہ تعین کرنا چاہیے کہ کون سا پلیٹ فارم رسمی نوٹیفیکیشنز کے لیے استعمال ہوگا۔ واٹس ایپ گروپوں کو غیر رسمی گفتگو کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن سرکاری نوٹیفیکیشنز ہمیشہ تحریری شکل میں ہونے چاہئیں۔ وائس نوٹس کا استعمال صرف غیر رسمی اپ ڈیٹس یا اضافی معلومات کے لیے کیا جانا چاہیے۔ اگر انہیں استعمال کیا جائے، تو ان کے ساتھ ایک تحریری خلاصہ بھی دیا جانا چاہیے تاکہ پیغام واضح اور دستاویزی ہو۔ادارے آفیشل نوٹیفیکیشنز کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز جیسے ای میل یا ادارتی سسٹمزکا استعمال کریں، یہ پلیٹ فارمز تحریری پیغامات کی ترسیل کے لیے بہترین طریقہ ہیں۔

واٹس ایپ وائس نوٹس کا استعمال سرکاری نوٹیفیکیشنز کے لیے ایک آسان شارٹ کٹ لگتا ہے، لیکن یہ پیشہ ورانہ معیار اور شفافیت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ وائس نوٹس کی سہولت کے باوجود، تحریری نوٹیفیکیشنز وہ واحد طریقہ ہیں جو معلومات کی درستگی، دستاویزات اور پیشہ ورانہ ساکھ کو برقرار رکھتے ہیں۔ لہذا، سرکاری رابطوں کے لیے ہمیں تحریری پیغامات پر واپس جانا چاہیے تاکہ ہر پیغام کی اہمیت، سنجیدگی اور شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل

پڑھیں:

پہلگام فالس فلیگ کے بعد بھارت کا ایک اور خطرناک منصوبہ بے نقاب

پہلگام فالس فلیگ کے بعد بھارت کا ایک اور مذموم اور خطرناک منصوبہ بے نقاب ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق پہلگام میں فالس فلیگ آپریشن کے بے نقاب ہونے  پر بھارت نے نیا ڈراما رچانے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔

ذرائع  کے مطابق 2003ء سے بھارتی جیلوں میں قید 56 بے گناہ پاکستانیوں کو استعمال کرنے کا بھارتی منصوبہ بے نقاب ہوگیا۔ 56 بے گناہ قیدیوں میں زیادہ تر ماہی گیر اور غلطی سے ایل او سی پار کرنے والے شامل ہیں اور بھارت تشدد کے ذریعے ان 56 قیدیوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

بھارت پاکستانی قیدیوں سے تشدد کے ذریعےزبر دستی پاکستان کے خلاف زہر اگلوا سکتا ہے ۔ ان قیدیوں کو جعلی انکاونٹر میں دہشتگرد ظاہر کر کے شہید بھی کرسکتا ہے۔

یاد رہے کہ محمد ریاض 25 جون 1999 سے کوٹ بھلوال جیل میں قید ہے، اسی طرح ملتان کےمحمد عبداللہ مکی 8 اگست 2002 سے کوٹ بھلوال جیل میں قید ہیں ، تفہیم اکمل ہاشمی 28 جولائی 2006 سے ادھم پور جیل میں قید ہیں  اور ظفر اقبال 11 اگست 2007 سے کوٹ بھلوال جیل میں قید ہیں ۔

ان کے علاوہ عبد الرزاق شفیق نومبر  2010 سے کوٹ بھلوال جیل، نوید الرحمن 17 اپریل 2013 سے ادھم پور جیل، محمد عباس 12 مارچ 2013 سے کٹھوا جیل، صدیق احمد 7 نومبر 2014 سے کٹھوا جیل، محمد زبیر 14 جنوری 2015 سے کوٹ بھلوال، عبد الرحمن 15 مئی 2015 سے کوٹ بھلوال میں جیل میں قید ہیں ۔

علاوہ ازیں سجاد بلوچ 14 جولائی 2015 سے کٹھوا جیل، وقاص منظور 2015 سے کٹھوا جیل، نوید احمد 2015 سے کوٹ بھلوال جیل، محمد عاطف 7 فروری 2016 سے کٹھوا جیل، حنظلہ 20 جون 2016 سے کٹھوا جیل، ذبیح اللہ 22 مارچ 2018 سے کوٹ بھلوال جیل، محمد وقار اپریل 2019 سے بارہ مولہ جیل، اماد اللہ عرف بابر پترا 26ستمبر 2021 سے کوٹ بھلوال جیل میں قید ہیں ۔
اسی طرح عبدالحنان اکتوبر 2021 سے ادھم پور جیل، سلمان شاہ اکتوبر 2021 سے کٹھوا جیل، حبیب خان نومبر 2021 سے کوٹ بھلوال جیل، امجد علی 28 مارچ 1994 سے تہاڑ جیل، نذیر احمد یکم دسمبر 1994 سے تہاڑ جیل، خالد محمود 1994 سے تہاڑ جیل ، عبدالرحیم 28 مئی 1995 سے تہاڑ جیل میں  میں قید ہیں۔

علاوہ ازیں عبد المتین 7 مئی 1997 سے راجستھان کی جے پور جیل، ذوالفقار علی 27 فروری 1998 سے تہاڑ جیل، محمد رمضان 25 جون 1999 سے جودھپور جیل، محمد عارف 26 دسمبر سن 2000 سے تہاڑ جیل، شاہنواز 27 مئی 2001 سے احمد آباد کی جیل، ارشد خان 29 اکتوبر 2001 سے کولکتہ کی علی پور جیل اور محمد نعیم بٹ 18 اپریل 2003 سے تہاڑ جیل میں قید ہیں ۔

ان کے علاوہ محمد ایاز کھوکھر 6 مارچ 2004 سے کولکتہ کی جیل، محمد یاسین 14 ستمبر 2006 سے لکھنؤ جیل، محمد فہد 27 اکتوبر 2006 سے کرناٹک کی بنگلور جیل، محمد فہد 10 نومبر 2006 سے کرناٹک کی بنگلور جیل، عبداللہ اصغر علی 31 مارچ 2007 سے کولکتہ جیل، محمد یونس 31 مارچ 2007 سے کولکتہ کی جیل میں قید ہیں ۔

محمد حسن منیر 21 اپریل 2007 سے دہلی میں قید ہیں ۔ مرزا راشد بیگ 17 نومبر 2007 سے الٰہ آباد جیل، محمد عابد 17 نومبر 2007 سے الٰہ آباد جیل، سیف الرحمن 17 نومبر 2007 سے الٰہ آباد جیل، عمران شہزاد 10 فروری 2008 سے اتر پردیش کی لکھنؤ جیل، فاروق بھٹی 10 فروری 2008 سے اتر پردیش کی لکھنؤ جیل، شہباز اسماعیل قاضی 5 اکتوبر 2008 سے کولکتہ جیل میں قید ہیں ۔

شہباز اسماعیل نومبر 2008 سے کولکتہ جیل، محمد عادل 24 نومبر 2011 سے تہاڑ جیل، بہادر علی 25 جولائی 2016 سے دہلی کی مندولی جیل، محمد عامر 21 نومبر 2017 سے تہاڑ جیل، خیام مقصود 24 اگست 2021 سے بھارتی جیل، دلشن 28 فروری 2022 سے بھارت کی جیل میں قید ہیں۔

اسی طرح عثمان ذوالفقار 16 مئی 2023 سے، ابو وہاب علی 7 اگست 2023 سے، محمد ارشاد 13 اکتوبر 2023 سے، محمد یعقوب 25 جنوری 2025 سے  اور قادر بخش 19 مارچ 2025 سے بھارت کی جیل میں قید ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت بالا کوٹ طرز پر نام نہاد دہشتگرد کیمپوں کا بیانیہ بنا کر حملہ کرسکتا ہے۔

دریں اثنا دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستان کے اندر کسی قسم کا دہشت گرد کیمپ موجود نہیں ہے۔ اگر بھارت جھوٹے بیانیے کی بنیاد پر پاکستان میں کسی فرضی کیمپ کو نشانہ بنانے کی کوشش کرے گا تو پاکستان بھرپور جواب دے گا۔ پہلگام کا جعلی ڈراما بے نقاب ہو چکا ہے کیونکہ اس میں کئی واضح خامیاں سامنے آئی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بھی وہاں موجود 9 لاکھ بھارتی فوج کی ناکامی پر سوالات اٹھا  دیے ہیں۔ بھارت کسی دہشتگرد کی لاش تک نہیں دکھا سکا جو ثابت کرتا ہے کہ پہلگام حملہ بھی ماضی کے فالس فلیگ آپریشنز کی طرح کا ڈراما ہے۔ پاکستان کسی بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • واٹس ایپ نے صارفین کی پرائیویسی کیلئے اہم فیچر متعارف کرادیا
  • واٹس ایپ کا نیاحیران کن فیچر آپ کے میسجز کو زیادہ پرائیویٹ بنا دے گا، استعمال کا طریقہ جانیں
  • آرمی چیف کیخلاف واٹس ایپ گروپ میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر کھرمنگ کا نوجوان گرفتار
  • پہلگام فالس فلیگ کے بعد بھارت کا ایک اور خطرناک منصوبہ بے نقاب
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں منفی رجحان، 1553 پوائنٹس کی کمی
  • پاکستان کیخلاف اقدامات،بھارتی عجلت خطے کیلئے خطرناک
  • خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ
  • پاکستان میں منشیات فروشوں کے رابطے کس ملک کے سمگلروں سے ہیں؟ تہلکہ خیز انکشافات
  • اداکارہ امر خان کو ڈانس کی ویڈیو شیئر کرنا مہنگا پڑ گیا
  • پاکستان سمیت بین الاقوامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں مسلسل اضافے کا رجحان