Express News:
2025-08-13@21:47:36 GMT

پاکستان بنگلہ دیش ، میجر ڈیلم کا انٹرویو

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

بھارتی آرمی چیف کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی ویسے تو کئی نئی بات نہیں۔ لیکن فی الحال اس ہرزہ سرائی اور غصہ میں پاکستان اور بنگلہ دیش کی بڑھتی ہوئی قربتیں شامل کر لیں۔ بنگلہ دیش کا اعلیٰ سطح کا فوجی وفد پاکستان کا دورہ کر رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان کا اعلیٰ سطح کا تجارتی وفد بنگلہ دیش میں موجود ہے۔

صاف ظاہر ہے پاکستان بنگلہ دیش سے تجارت بڑھانا چاہتا ہے اس لیے تجارتی وفد بھیجا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کو فوجی مدد چاہیے اس لیے بنگلہ دیش نے فوجیوں کا وفد پاکستان بھیجا ہے۔ یہ سب بھارت کے لیے ناقابل قبول ہے۔ جیسے جیسے بنگلہ دیش اور پاکستان قریب آئیں گے بھارت کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔ دونوں بھارت کے ہمسائے ہیں، دونوں کی بھارت کے ساتھ طویل سرحدیں ہیں اور اگر دونوں بھارت کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں تو بھارت کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔ میں بھارتی آرمی چیف کے بیانات کو خطے کی اس نئی تبدیلی کے تناظر میں ہی دیکھتا ہوں۔

بنگلہ دیش کی سیاست میں بہت تبدیلیاں آرہی ہیں۔ حسینہ واجد کی جماعت اگلے انتخابات میں تو حصہ لیتی بھی نظر نہیں آرہی۔ خالدہ ضیا کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے تمام کرپشن مقدمات سے بری کر دیا ہے۔ ان کی صحت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ کیا وہ اگلے انتخابات میں حصہ لیں گی۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر سے پابندی ختم ہو چکی ہے۔

وہ بھی کئی انتخابات کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کی تیاری کر رہی ہے۔ لیکن سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ جن طلبا ء رہنماؤں نے حسینہ واجد کو اقتدار سے نکالنے کے لیے طلبا ء کی تحریک چلائی تھی وہ بھی اپنی نئی سیاسی جماعت بنا رہے ہیں۔ ایک امید ہے کہ اسے نوجوانوں کی بڑی تعداد میں حمایت حاصل ہوگی اور وہ اگلے انتخابات میں ایک بڑی کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ یہ نئی جماعت ایک نیا سیاسی اسکرپٹ بھی لکھنا چاہتی ہے۔ نئے آئین کی بھی بات ہو رہی ہے۔ موجودہ صدر کو نکالنے کی بات بھی ہو رہی ہے، اس لیے بنگلہ دیش کی سیاست نئی شکل لے رہی ہے۔

بنگلہ دیش کا نوجوان پاکستان سے محبت کرتا ہے۔ ہم نے وہاں پاکستانی فنکار بھیج کر دیکھا ہے نوجوانوں نے بہت پذیرائی کی ہے۔ پاکستان کے لیے محبت حسینہ واجد کے خلاف تحریک میں بھی نظر آئی تھی۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے تب بھی سنائی دیے تھے۔ وہاں بھارت کے خلاف نفرت اور پاکستان کے لیے محبت بڑھ گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے حسینہ واجد کا پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا ان کے جانے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ بنگلہ دیش کے عوام نے کبھی اس پراپیگنڈے کو قبول نہیں کیا۔

مجھے لگتا ہے کہ بنگلہ دیش کی نئی نسل بنگلہ دیش کی پچھلی نسل سے زیادہ پاکستان سے محبت کرتی ہے۔ وہاں اب پاکستان کے لیے بالکل نئی فضا ہے، بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان دوستی اور بھائی چارے کی نئی داستان شروع ہو رہی ہے۔ اگر پاکستان کی حکومت نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا تو بنگلہ دیش اور پاکستان بہترین دوست ہوں گے، تعلقات بہترین ہوں گے، تعاون ہر سطح پر ہوگا۔ دونوں ممالک کو اس وقت ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ بھارت نے حسینہ واجد کے دور میں بنگلہ دیش کی کوئی خاص مدد نہیں کی بلکہ بنگلہ دیش کا مالی اور سیاسی استحصال ہی کیا ہے۔ جس کے نتائج آج بھارت کے سامنے ہیں۔ بھارت جب تک حسینہ واجد کو پناہ دیے رکھے گا، بنگلہ دیش میں بھارت کے لیے نفرت بڑھتی رہے گی۔

بنگلہ دیش کے ایک سابق ہیرو میجر ڈیلم بھی کئی سال کی گمنامی کے بعد سامنے آئے ہیں۔ میجر ڈیلم وہاں کی آزادی کے ہیرو بھی ہیں اور حسینہ واجد نے انھیں پھانسی کی سزا بھی سنائی ہوئی تھی، وہ غائب تھے، کسی کو نہیں معلوم تھا وہ کہاں ہیں۔ امریکا میں مقیم ایک بنگلہ دیشی صحافی نے یوٹیوب پر ان کا ایک انٹرویو کیا ہے۔چند دن پہلے ہوئے اس انٹرویو کو اب تک ایک کروڑ 24لاکھ لوگ دیکھ چکے ہیں۔ اس نے بنگلہ دیش کے سیاسی انٹرویوز میں ایک نیا ریکارڈ بنایا ہے۔

میجر ڈیلم کو بنگلہ دیش کا سب سے بڑا فوجی اعزاز بھی دیا گیا تھا۔ وہ بنگلہ دیش کی آزادی کے ہیرو کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ میجر ڈیلم نے کہا ہے کہ نیا ملک بننے کے بعد بنگلہ دیش کی آزادی اور خود مختاری بھارت کے قبضہ میں چلی گئی تھی۔ ہم نے بنگلہ دیش بھارت کی گود میں جانے کے لیے نہیں بنایا تھا۔ انھوں نے حسینہ واجد کے خلاف تحریک کو بنگلہ دیش کی بھارتی تسلط سے آزادی کی تحریک قرار دیا ہے۔

میجر ڈیلم کے مطابق بھارت نے جان بوجھ کر بنگلہ دیش کو عسکری طور پر کمزور رکھا ہے۔ بھارت نہیں چاہتا کہ بنگلہ دیش کی مضبوط فوج ہو۔ بنگلہ دیش کی فوج کو بھارت اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ آج بنگلہ دیش کو سب سے پہلے عسکری طور پر اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ بھارت کے تسلط سے نکل سکے۔ بھارت بنگلہ دیش کو اپنی کالونی بنانا چاہتا تھا اور چاہتا ہے۔ اسی لیے میجر ڈیلم کے مطابق حسینہ کے خلاف تحریک دراصل بھارتی تسلط کے خلاف تحریک تھی۔بنگلہ دیشی عوام سے حسینہ کو شکست نہیں ہوئی بھارت کو شکست ہوئی ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شیخ مجیب کے خلاف جب بغاوت ہوئی تھی تو اس بغاوت کی قیادت بھی میجر ڈیلم نے کی تھی۔ اسی بغاوت میں شیخ مجیب قتل ہوئے تھے اور ان کے قتل کا اعلان میجر ڈیلم نے ڈھاکہ ریڈیو سے کیا تھا۔ تب بھی میجر ڈیلم شیخ مجیب کی بھارت نواز پالیسی کے خلاف تھے اور ان کا موقف تھا کہ شیخ مجیب بنگلہ دیش کو بھارت کی کالونی بنا رہا تھا، بنگلہ دیش میں بھارتی تسلط قائم کر رہا تھا، اس لیے وہ بغاوت بنگلہ دیش کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھی۔میجر ڈیلم کے مطابق پاک فوج پر بنگالی خواتین کو ریپ کرنے کے الزامات بھارتی پراپیگنڈا ہیں۔

ایسی کوئی بات بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد سامنے نہیں آئی، یہ سب پاک فوج کو بدنام کرنے کے لیے پراپیگنڈا کیا گیا تھا۔ میجر ڈیلم نے طلبا ء اتحاد کے ساتھ چلنے کا اعلان کیا ہے، انھوں نے جہاں بنگلہ دیش واپسی کی خواہش کا اظہار کیا ہے وہاں مستقبل میں طلبا ء اتحاد کی حمایت کا اعلان بھی کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نوجوان بنگلہ دیش کو اس بحران سے نکال سکتے ہیں۔ میجر ڈیلم نے اپنے اس انٹرویو میں کہا ہے کہ 14دسمبر کو بنگالی دانشوروں کے قتل کا دن منایا جاتا ہے۔

14دسمبر کو پاک فوج کو تو فرصت ہی نہیں تھی کہ وہ بنگالی دانشوروں کے قتل کی منصوبہ بندی کرتی، وہاں سرنڈر کی تیاری تھی، پاک فوج مشکل میں تھی۔ یہ لوگ بھی بھارت نے مارے اور الزام پاکستانی فوج پر ڈال دیا۔ بھارت جانتا تھا کہ یہ دانشور بنگلہ دیش میں بھارتی کا تسلط نہیں قائم ہونے دیں گے۔ میجر ڈیلم کے اس انٹرویو کو بنگلہ دیش کے تمام اخبارات اور ٹی وی نے بعد میں دکھایا ہے اور شائع کیا ہے۔ اس انٹرویو کی پذیرائی بھی بنگلہ دیش میں پاکستان کے حوالے سے بدلتی سوچ کی عکاس ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بنگلہ دیش کی ا زادی کے خلاف تحریک بنگلہ دیش میں انتخابات میں بنگلہ دیش کے کو بنگلہ دیش بنگلہ دیش کا بنگلہ دیش کو میجر ڈیلم نے بھارت کے لیے میجر ڈیلم کے اور پاکستان اس انٹرویو پاکستان کے حسینہ واجد میں بھارت پاک فوج رہی ہے اس لیے کیا ہے

پڑھیں:

عالمی سطح پر پاکستان کے حق میں دو اہم فیصلے

عالمی مستقل ثالثی عدالت نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے، بھارت مغربی دریاؤں کا پانی پاکستان کے بلا روک ٹوک استعمال کے لیے چھوڑ دے، بھارت نے حال ہی میں سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس سے قبل ثالثی عدالت کی کارروائی کا بائیکاٹ بھی کیا تھا۔ یہ فیصلہ پاکستانی موقف کی فتح ہے۔

 پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ جنوبی ایشیاء میں آبی وسائل کی تقسیم کا ایک نادر اور دیرپا بین الاقوامی معاہدہ رہا ہے جس نے عشروں سے دونوں ممالک کے درمیان پانی کے حوالے سے تنازعات کو کسی حد تک روک کر رکھا ہے۔ تاہم، وقتاً فوقتاً اس معاہدے کی روح اور اس کے اطلاق کے حوالے سے مختلف نوعیت کے اختلافات جنم لیتے رہے ہیں۔

حال ہی میں عالمی مستقل ثالثی عدالت کی جانب سے پاکستان کے حق میں سنایا گیا فیصلہ، ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے جو نہ صرف پاکستان کے قانونی موقف کی توثیق کرتا ہے بلکہ بین الاقوامی قانون اور معاہدات کی پاسداری کے اصولوں کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

اس فیصلے کی جڑیں انیس اگست دو ہزار سولہ میں اس وقت پیوست ہیں جب پاکستان نے بھارت کے خلاف عالمی عدالت سے رجوع کیا تھا۔ پاکستان کا مؤقف تھا کہ بھارت مغربی دریاؤں پر ایسے منصوبے تعمیر کررہا ہے جو سندھ طاس معاہدے کی روح کے منافی ہیں اور پاکستان کے آبی حقوق پر کاری ضرب ہیں۔

پاکستان کی طرف سے عدالت سے یہ استدعا کی گئی کہ بھارت کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ معاہدے کی مکمل پاسداری کرے اور مغربی دریاؤں جن میں دریائے سندھ، جہلم اور چناب شامل ہیں، کے پانی کو پاکستان کے بلا روک ٹوک استعمال کے لیے چھوڑ دے۔ آٹھ اگست دو ہزار پچیس کو عالمی مستقل ثالثی عدالت کی طرف سے سنایا گیا فیصلہ، پاکستان کے اس مؤقف کی تصدیق کرتا ہے کہ بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کی کوشش کی اور پاکستان کے قانونی حقوق کو پامال کرنے کے اقدامات کیے۔

عدالت نے واضح الفاظ میں کہا کہ بھارت ان دریاؤں کے پانی کو نہیں روک سکتا اور اسے معاہدے کے مطابق پاکستان کو یہ پانی مہیا کرنا ہوگا۔ یہ فیصلہ نہ صرف پاکستان کی قانونی، اخلاقی اور سفارتی کامیابی ہے بلکہ یہ اس امر کا بھی اظہار ہے کہ عالمی برادری بھارت کی جانب سے معاہدوں کی خلاف ورزی پر خاموش نہیں رہے گی۔

اس فیصلے کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب اسے بھارت کی حالیہ حرکات و سکنات کے تناظر میں دیکھا جائے۔ حال ہی میں بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کر کے نہ صرف بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کی کوشش کی بلکہ اس نے عالمی ثالثی عدالت کی کارروائی کا بائیکاٹ بھی کیا۔

اس بائیکاٹ کا مقصد شاید یہ تھا کہ وہ عدالت کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرے یا کارروائی کو غیر مؤثر بنا سکے، لیکن عدالت نے اس رویے کو نظر انداز کرتے ہوئے میرٹ پر فیصلہ سنایا، جو بھارت کے لیے ایک بین الاقوامی تنبیہ بھی ہے کہ قانون سے بالاتر کوئی ریاست نہیں ہوتی۔

اس فیصلے کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک جانب تو یہ فیصلہ جنوبی ایشیائی خطے میں پانی کے مسئلے پر موجود غیر یقینی صورتحال کو کسی حد تک واضح سمت دے گا، اور دوسری جانب بین الاقوامی برادری کو بھی یہ پیغام دے گا کہ پانی جیسے قیمتی اور حساس وسائل کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی معاہدات کا احترام لازم ہے۔ بھارت کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنی داخلی سیاست یا علاقائی بالادستی کے جنون میں بین الاقوامی اصولوں کو پامال نہ کرے کیونکہ ایسا طرزِ عمل نہ صرف خطے کے امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے بلکہ خود بھارت کے عالمی تشخص کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ایک اور اہم پہلو جس پر غور کیا جانا چاہیے وہ ماحولیاتی تبدیلی اور پانی کے بڑھتے ہوئے عالمی بحران کا ہے۔

دنیا بھر میں آبی ذخائر پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور بارشوں کے نظام میں بے ترتیبی پیدا ہو چکی ہے۔ ایسے میں دریاؤں کا بہاؤ روکنا، ان پر بند باندھنا یا ان کے قدرتی نظام میں مداخلت عالمی ماحولیاتی نظام پر بھی منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ سندھ طاس معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک فریم ورک ہے بلکہ یہ ایک ماحولیاتی توازن قائم رکھنے کا ذریعہ بھی ہے۔

بھارت کے منصوبے نہ صرف پاکستان کے لیے خطرناک ہیں بلکہ پورے خطے کے ماحول اور زراعت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔پاکستان کو بھی اس کامیابی کے بعد اپنی سفارتی کوششوں کو مزید مؤثر بنانا ہوگا تاکہ یہ عدالتی فیصلہ نہ صرف کاغذی حد تک محدود رہے بلکہ اس پر مکمل عملدرآمد بھی یقینی بنایا جا سکے۔

دوسری جانب امریکا کی جانب سے بی ایل اے (بلوچ لبریشن آرمی) اور مجید بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر کے دہشت گرد قرار دینا، ایک پیش رفت ہے ۔ یہ فیصلہ پاکستان سمیت ان خطوں میں استحکام، امن اور قانون کی حکمرانی کے قیام کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔

بی ایل اے ایک مسلح دہشت گرد گروپ ہے، جو بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے ۔ دوسری جانب، مجید بریگیڈ نے اپنے آپریشنز میں جہاں حکومتی تنصیبات کو نشانہ بنایا، وہاں سیکیورٹی فورسز، عام شہریوں اور سرکاری اہلکاروں کے خلاف کارروائیاں بھی کیں، جس سے انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور ملک کے اندرونی امن کو دھچکا لگا۔

دہشت گردی ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ جب ایک ریاست خود اپنی داخلی سیکیورٹی کے لیے کارروائی کرتی ہے، تو اسے کبھی کبھی بین الاقوامی سطح پر الجھنوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے، جب ایک بین الاقوامی طاقت جیسے امریکا اس معاملے میں واضح موقف اختیار کرتی ہے، تو اس سے پاکستان کو نہ صرف قانونی اور اخلاقی حمایت ملتی ہے بلکہ اسٹرٹیجک اعتبار سے بھی ایک مضبوط موقف پر قائم رہنے کی قوت ملتی ہے۔

یہ فیصلہ اُن حکومتوں اور انھیں گروہوں کی پالیسیوں کو ایک عالمی سطح پر جھٹکا دیتا ہے جو دہشت گردی کو ایک سیاسی اوزار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بعض حلقے ان گروہوں کو آزادی پسند تحریکیں قرار دیتے آئے ہیں، لیکن امریکی موقف نے ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے کہ یہ گروہ دہشت گرد تنظیموں کی ہی شاخ ہیں، اور ان کے اہداف میں عوام کی حفاظت شامل نہیں، بلکہ انتشار، نفرت اور تشدد کو فروغ دینا شامل ہے۔

یہ حقیقت عوام کے شعور کو بیدار کرنے میں مددگار ہے، اور انھیں سمجھنے میں معاون ہے کہ معاشرتی ترقی، امن اور خوشحالی دہشت گردی کے خاتمے سے ممکن ہے، دہشت گردی کے پھیلاؤ سے نہیں۔یہاں ایک اور پہلو قابلِ ذکر ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف عسکری محاذ پر محدود نہیں رہنی چاہیے۔ اس میں سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ، نوجوانوں میں نظریاتی تربیت، تعلیم اور معاشرتی شعور میں اضافہ، معاشی مواقع کی فراہمی، اور سیاسی شمولیت کے راستوں کو بھی مستحکم کرنا ضروری ہے۔ دہشت گردی کے خلاف مقابلہ اگر تمام جہتوں سے کیا جائے۔

عسکری، معاشی، نظریاتی، تعلیمی اور سیاسی تو اس سے نہ صرف وہ گروہ جو تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں ختم ہو سکتے ہیں، بلکہ اس کا اثر دیگر ریاست دشمن رجحانات پر بھی پڑے گا۔ دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے ہمیں اپنے گھروں اور معاشروں کو پہلے محفوظ بنانا ہوگا۔ پاکستان کا مضبوط ہونا، معاشرتی انصاف کی بنیاد پر، ہی عالمی امن کی ضمانت ہے۔

امریکا کا فیصلہ ایک با معنی پیغام بھی دیتا ہے کہ دہشت گردی ایک ایسی وبا ہے جو صرف علاقائی یا مخصوص ریاستی مسئلے کا نام نہیں، بلکہ یہ بین الاقوامی سطح پر ایک مشترکہ جرم ہے۔ اس کا مقابلہ صرف اپنے عسکری یا سیاسی نقطہ نظر سے نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اس جنگ میں علاقے کے امن، قانون کی حکمرانی، معاشرتی شمولیت اور بین الاقوامی اتحاد کو بطور اساسی اوزار اختیار کرنا ہوگا۔

بلاشبہ یہ فیصلہ پاکستان کی قربانیوں، عسکری و سیاسی جدوجہد اور مسلسل کوششوں کا اعتراف ہے۔ اب وقت ہے کہ پاکستان اس اعتراف کو عملی اقدامات میں ڈھالے۔ بلوچستان میں تعمیری ترقیاتی پروگرام، نوجوانوں کی شمولیت، سیاسی شفافیت، انسانی حقوق کی پاسداری اور بین الاقوامی تعاون کو بنیاد بنا کر اس تشدد آمیز تاریخ کو تبدیل کیا جائے۔ ایک ایسا پاکستان جس کا ہر حصہ امن، ترقی، انصاف اور شمولیت کا پیامبر ہو، ہی دنیا کو زیادہ محفوظ اور خوشحال بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • محسن نقوی کی شہید میجر رضوان طاہر کی رہائش گاہ آمد، اہل خانہ سے دلی ہمدردی کا اظہار
  • ماں تجھے سلام ۔ عثمان ڈار کا دلچسپ انٹرویو، خالد بٹ اور مصطفیٰ چوہدری کے ساتھ
  • ایڈووکیٹ ہادی علی چھٹہ کا لاپتہ افراد اور احتجاج پر خصوصی انٹرویو
  • عالمی سطح پر پاکستان کے حق میں دو اہم فیصلے
  • علامہ شبیر میثمی کا اربعین حسینی اور پنجاب حکومت کے رویے پر خصوصی انٹرویو
  • وزیرخارجہ اسحاق ڈار 23اگست کو بنگلہ دیش کے دورے پر روانہ ہونگے
  • اسحاق ڈار 23 اور 24 اگست کو بنگلہ دیش کادورہ کرینگے
  • وادی کشمیر کی موجودہ صورتحال پر سیاسی و سماجی کارکن سید عامر سہیل کا خصوصی انٹرویو
  • ممالک پاکستان کے کروڑوں ڈالرز کے ڈیفالٹر ہیں. آڈٹ حکام کا انکشاف
  • سری لنکا ، بنگلہ دیش، عراق ، سوڈان اور گنی بساؤ پاکستان کے مقروض نکلے