پاکستان بنگلہ دیش ، میجر ڈیلم کا انٹرویو
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
بھارتی آرمی چیف کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی ویسے تو کئی نئی بات نہیں۔ لیکن فی الحال اس ہرزہ سرائی اور غصہ میں پاکستان اور بنگلہ دیش کی بڑھتی ہوئی قربتیں شامل کر لیں۔ بنگلہ دیش کا اعلیٰ سطح کا فوجی وفد پاکستان کا دورہ کر رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان کا اعلیٰ سطح کا تجارتی وفد بنگلہ دیش میں موجود ہے۔
صاف ظاہر ہے پاکستان بنگلہ دیش سے تجارت بڑھانا چاہتا ہے اس لیے تجارتی وفد بھیجا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کو فوجی مدد چاہیے اس لیے بنگلہ دیش نے فوجیوں کا وفد پاکستان بھیجا ہے۔ یہ سب بھارت کے لیے ناقابل قبول ہے۔ جیسے جیسے بنگلہ دیش اور پاکستان قریب آئیں گے بھارت کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔ دونوں بھارت کے ہمسائے ہیں، دونوں کی بھارت کے ساتھ طویل سرحدیں ہیں اور اگر دونوں بھارت کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں تو بھارت کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔ میں بھارتی آرمی چیف کے بیانات کو خطے کی اس نئی تبدیلی کے تناظر میں ہی دیکھتا ہوں۔
بنگلہ دیش کی سیاست میں بہت تبدیلیاں آرہی ہیں۔ حسینہ واجد کی جماعت اگلے انتخابات میں تو حصہ لیتی بھی نظر نہیں آرہی۔ خالدہ ضیا کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے تمام کرپشن مقدمات سے بری کر دیا ہے۔ ان کی صحت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ کیا وہ اگلے انتخابات میں حصہ لیں گی۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر سے پابندی ختم ہو چکی ہے۔
وہ بھی کئی انتخابات کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کی تیاری کر رہی ہے۔ لیکن سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ جن طلبا ء رہنماؤں نے حسینہ واجد کو اقتدار سے نکالنے کے لیے طلبا ء کی تحریک چلائی تھی وہ بھی اپنی نئی سیاسی جماعت بنا رہے ہیں۔ ایک امید ہے کہ اسے نوجوانوں کی بڑی تعداد میں حمایت حاصل ہوگی اور وہ اگلے انتخابات میں ایک بڑی کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ یہ نئی جماعت ایک نیا سیاسی اسکرپٹ بھی لکھنا چاہتی ہے۔ نئے آئین کی بھی بات ہو رہی ہے۔ موجودہ صدر کو نکالنے کی بات بھی ہو رہی ہے، اس لیے بنگلہ دیش کی سیاست نئی شکل لے رہی ہے۔
بنگلہ دیش کا نوجوان پاکستان سے محبت کرتا ہے۔ ہم نے وہاں پاکستانی فنکار بھیج کر دیکھا ہے نوجوانوں نے بہت پذیرائی کی ہے۔ پاکستان کے لیے محبت حسینہ واجد کے خلاف تحریک میں بھی نظر آئی تھی۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے تب بھی سنائی دیے تھے۔ وہاں بھارت کے خلاف نفرت اور پاکستان کے لیے محبت بڑھ گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے حسینہ واجد کا پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا ان کے جانے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ بنگلہ دیش کے عوام نے کبھی اس پراپیگنڈے کو قبول نہیں کیا۔
مجھے لگتا ہے کہ بنگلہ دیش کی نئی نسل بنگلہ دیش کی پچھلی نسل سے زیادہ پاکستان سے محبت کرتی ہے۔ وہاں اب پاکستان کے لیے بالکل نئی فضا ہے، بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان دوستی اور بھائی چارے کی نئی داستان شروع ہو رہی ہے۔ اگر پاکستان کی حکومت نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا تو بنگلہ دیش اور پاکستان بہترین دوست ہوں گے، تعلقات بہترین ہوں گے، تعاون ہر سطح پر ہوگا۔ دونوں ممالک کو اس وقت ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ بھارت نے حسینہ واجد کے دور میں بنگلہ دیش کی کوئی خاص مدد نہیں کی بلکہ بنگلہ دیش کا مالی اور سیاسی استحصال ہی کیا ہے۔ جس کے نتائج آج بھارت کے سامنے ہیں۔ بھارت جب تک حسینہ واجد کو پناہ دیے رکھے گا، بنگلہ دیش میں بھارت کے لیے نفرت بڑھتی رہے گی۔
بنگلہ دیش کے ایک سابق ہیرو میجر ڈیلم بھی کئی سال کی گمنامی کے بعد سامنے آئے ہیں۔ میجر ڈیلم وہاں کی آزادی کے ہیرو بھی ہیں اور حسینہ واجد نے انھیں پھانسی کی سزا بھی سنائی ہوئی تھی، وہ غائب تھے، کسی کو نہیں معلوم تھا وہ کہاں ہیں۔ امریکا میں مقیم ایک بنگلہ دیشی صحافی نے یوٹیوب پر ان کا ایک انٹرویو کیا ہے۔چند دن پہلے ہوئے اس انٹرویو کو اب تک ایک کروڑ 24لاکھ لوگ دیکھ چکے ہیں۔ اس نے بنگلہ دیش کے سیاسی انٹرویوز میں ایک نیا ریکارڈ بنایا ہے۔
میجر ڈیلم کو بنگلہ دیش کا سب سے بڑا فوجی اعزاز بھی دیا گیا تھا۔ وہ بنگلہ دیش کی آزادی کے ہیرو کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ میجر ڈیلم نے کہا ہے کہ نیا ملک بننے کے بعد بنگلہ دیش کی آزادی اور خود مختاری بھارت کے قبضہ میں چلی گئی تھی۔ ہم نے بنگلہ دیش بھارت کی گود میں جانے کے لیے نہیں بنایا تھا۔ انھوں نے حسینہ واجد کے خلاف تحریک کو بنگلہ دیش کی بھارتی تسلط سے آزادی کی تحریک قرار دیا ہے۔
میجر ڈیلم کے مطابق بھارت نے جان بوجھ کر بنگلہ دیش کو عسکری طور پر کمزور رکھا ہے۔ بھارت نہیں چاہتا کہ بنگلہ دیش کی مضبوط فوج ہو۔ بنگلہ دیش کی فوج کو بھارت اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ آج بنگلہ دیش کو سب سے پہلے عسکری طور پر اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ بھارت کے تسلط سے نکل سکے۔ بھارت بنگلہ دیش کو اپنی کالونی بنانا چاہتا تھا اور چاہتا ہے۔ اسی لیے میجر ڈیلم کے مطابق حسینہ کے خلاف تحریک دراصل بھارتی تسلط کے خلاف تحریک تھی۔بنگلہ دیشی عوام سے حسینہ کو شکست نہیں ہوئی بھارت کو شکست ہوئی ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شیخ مجیب کے خلاف جب بغاوت ہوئی تھی تو اس بغاوت کی قیادت بھی میجر ڈیلم نے کی تھی۔ اسی بغاوت میں شیخ مجیب قتل ہوئے تھے اور ان کے قتل کا اعلان میجر ڈیلم نے ڈھاکہ ریڈیو سے کیا تھا۔ تب بھی میجر ڈیلم شیخ مجیب کی بھارت نواز پالیسی کے خلاف تھے اور ان کا موقف تھا کہ شیخ مجیب بنگلہ دیش کو بھارت کی کالونی بنا رہا تھا، بنگلہ دیش میں بھارتی تسلط قائم کر رہا تھا، اس لیے وہ بغاوت بنگلہ دیش کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھی۔میجر ڈیلم کے مطابق پاک فوج پر بنگالی خواتین کو ریپ کرنے کے الزامات بھارتی پراپیگنڈا ہیں۔
ایسی کوئی بات بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد سامنے نہیں آئی، یہ سب پاک فوج کو بدنام کرنے کے لیے پراپیگنڈا کیا گیا تھا۔ میجر ڈیلم نے طلبا ء اتحاد کے ساتھ چلنے کا اعلان کیا ہے، انھوں نے جہاں بنگلہ دیش واپسی کی خواہش کا اظہار کیا ہے وہاں مستقبل میں طلبا ء اتحاد کی حمایت کا اعلان بھی کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نوجوان بنگلہ دیش کو اس بحران سے نکال سکتے ہیں۔ میجر ڈیلم نے اپنے اس انٹرویو میں کہا ہے کہ 14دسمبر کو بنگالی دانشوروں کے قتل کا دن منایا جاتا ہے۔
14دسمبر کو پاک فوج کو تو فرصت ہی نہیں تھی کہ وہ بنگالی دانشوروں کے قتل کی منصوبہ بندی کرتی، وہاں سرنڈر کی تیاری تھی، پاک فوج مشکل میں تھی۔ یہ لوگ بھی بھارت نے مارے اور الزام پاکستانی فوج پر ڈال دیا۔ بھارت جانتا تھا کہ یہ دانشور بنگلہ دیش میں بھارتی کا تسلط نہیں قائم ہونے دیں گے۔ میجر ڈیلم کے اس انٹرویو کو بنگلہ دیش کے تمام اخبارات اور ٹی وی نے بعد میں دکھایا ہے اور شائع کیا ہے۔ اس انٹرویو کی پذیرائی بھی بنگلہ دیش میں پاکستان کے حوالے سے بدلتی سوچ کی عکاس ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بنگلہ دیش کی ا زادی کے خلاف تحریک بنگلہ دیش میں انتخابات میں بنگلہ دیش کے کو بنگلہ دیش بنگلہ دیش کا بنگلہ دیش کو میجر ڈیلم نے بھارت کے لیے میجر ڈیلم کے اور پاکستان اس انٹرویو پاکستان کے حسینہ واجد میں بھارت پاک فوج رہی ہے اس لیے کیا ہے
پڑھیں:
ہانیہ عامر کے مبینہ جعلی بالوں پر تنازع
اداکارہ ہانیہ عامر کی جانب سے جعلی بالوں کے ساتھ ملٹی نیشنل شیمپو کمپنی کی تشہیر کے لیے بنگلہ دیش جانے پر تنازع پیدا ہوگیا، بنگلہ دیشی سوشل میڈیا صارفین نے اداکارہ کے انتخاب پر سوالات اٹھا دیے۔
ہانیہ عامر حال ہی میں پہلی بار بنگلہ دیش گئی تھیں، وہ ملٹی نیشنل کمپنی کے شیمپو کی تشہیر کے سلسلے میں وہاں گئی تھیں۔
ہانیہ عامر کی بنگلہ دیش میں شیمپو کی تشہیر کی متعدد تقریبات میں شرکت اور وہاں مداحوں سے بات چیت کرنے کی ویڈیوز بھی وائرل ہوئی تھیں۔
علاوہ ازیں اداکارہ کی جانب سے بنگلہ دیش کے مشہور سیاحتی مقامات کے دورے اور معروف یوٹیوبرز کے ساتھ وہاں کے روایتی کھانے کی ویڈیوز بھی وائرل ہوئی تھیں۔
اداکارہ کو بنگلہ دیشی دورے کے دوران شیمپو کی تشہیر کے وقت گھنے اور سیاہ بالوں کے ساتھ دیکھا گیا جب کہ عام طور پر ان کے بال اتنے لمبے اور گھنے دکھائی نہیں دیتے۔
اداکارہ کی جانب سے گھنے اور لمبے بالوں کے ساتھ بنگلہ دیشی دورے کے دوران ہی وہاں کے صارفین نے اداکارہ کے بالوں پر سوالات اٹھائے تھے اور پوچھا تھا کہ ان کے بال اصلی یا جعلی ہیں؟
جعلی بالوں کے ساتھ ہانیہ عامر کو شیمپو کی تشہیر کے لیے منتخب کیے جانے پر اب بنگلہ دیش کے سوشل میڈیا صارفین نے صرف اداکارہ کو آڑے ہاتھوں لیا بلکہ کمپنی کی ساکھ پر بھی سوالات اٹھا دیے۔
بنگلہ دیش کے سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے فیس بک گروپس، انسٹاگرام پیجز سمیت ایکس پوسٹس میں شیمپو بنانے والی ملٹی نیشنل کمپنی اور ہانیہ عامر کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے۔
بنگلہ دیشی سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ شیمپو کمپنی دعویٰ کرتی ہے کہ ان کے شیمپو استعمال کرنے سے لڑکیوں کے بال گھنے، سیاہ اور لمبے ہوتے ہیں لیکن انہوں نے اپنی ہی تشہیر میں جعلی بالوں والی ماڈل کا انتخاب کیا۔
اسی طرح بعض صارفین نے ہانیہ عامر کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور لکھا کہ انہیں اپنے بالوں کو دیکھتے ہوئے تشہیری مہم کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا یا پھر اصلی بالوں کے ساتھ ہی مہم کا حصہ بنتیں، انہیں جعلی بال (وگ) لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔