لڑکیوں کی تعلیم اور قومی ترجیحات کا تعین
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
کسی بھی معاشرے کی ترقی، خوشحالی،سیاسی، سماجی،انتظامی اور معاشی ترقی کے امکانات کا براہ راست تعلق دنیا میں جدید تعلیمی تصورات اور لوگوں کی تعلیم تک رسائی ہے۔ا س عمل میں ایک بڑا مسئلہ لڑکیوں کی پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک رسائی بھی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک یا جنوبی ایشیا میں لڑکیوں کی تعلیم و ترقی پر سنجیدہ سوالات موجود ہیں۔
ایک مسئلہ جہاں حکومتی ترجیحات کا ہے تو دوسری طرف ہمارا سیاسی ،سماجی اور انتظامی ڈھانچہ ہے جو تعلیم کی اہمیت اور رسائی کو کم کرتا ہے۔حال ہی میں پاکستان میںجو عالمی کانفرنس لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے منعقد ہوئی ہے اس کے مشترکہ اعلامیہ میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہم سب کو پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں لڑکیوں کی تعلیم میں موجود تمام تر رکاوٹوںکو ختم کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔عالمی کانفرنس رابطہ اسلامی اور مسلم ورلڈ لیگ کے زیر اہتمام مسلم دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم،چیلنجز اور مواقع کی دو روزہ کانفرنس نے اس نقطہ پر بھی زور دیا کہ مسلم معاشرے میں انتہا پسند خیالات ، سیاسی اور سماجی فتوؤں سے لڑکیوں کی تعلیم کو بدنام نہ کیا جائے۔
اسی طرح اس نقطہ پر بھی زور دیا گیا کہ مسلم معاشرے تعلیمی بجٹ میں اضافہ کریں اور افغان طالبان حکومت کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم دشمن پالیسیوں کی شدید مذمت کی گئی اور کہا کہ طالبان افغان عورتوں کو انسان نہیں سمجھتے۔پاکستان میں بھی ڈھائی کروڑ سے زیادہ بچے اسکول نہیں جاتے جن میں سوا کروڑ بچیاں بھی شامل ہیں۔
اعلان اسلام آباد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پڑھی لکھی عورت دنیا میں امن،سماج کو انتہا پسندی ،تشدد اور جرائم سے بچانے میں معاون ثابت ہوگی۔ عورتوں کی تعلیم ان کا بنیادی حق اور ریاست کی بنیادی ذمے داری بھی ہے۔آج کے ریاستی نظام میں موجود جدید تصورات میں ہم لڑکیوں کی تعلیم کو نظر انداز کرکے ان کی ترقی کو ممکن نہیں بنا سکتے ہیں۔پاکستان ہو یا جنوبی ایشیا میں لڑکیوں کی تعلیم پر سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ پرائمری تعلیمی بجٹ میں مسلسل کٹوتی اور صوبائی سطح پر اٹھارویں ترمیم کے باوجود ہم پہلے سے طے شدہ اہداف لڑکیوں کی تعلیم میں مکمل نہیں کرسکے۔
2000-15 اور 2016 - 30 میں ہم عالمی سطح پر ملینیم ترقی اہداف میں بھی لڑکیوں کی تعلیم میں پیچھے کھڑے ہیں۔مضبوط گورننس کے نظام کی عدم موجودگی اور مقامی حکومتوں سے انحراف پر مبنی پالیسی بھی ہمیں مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام ثابت ہورہی ہے۔ہم تو آج بھی لڑکیوں کی تعلیم کے تناظر میں بہت سے فکری مغالطوں کا شکار ہیںجن میں ان کی تعلیم کی اہمیت سے انکار بھی ہے۔
اس کی ایک وجہ ہم لڑکیوں کی معاشی سرگرمیوں میں شرکت کے حامی نہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں کو روزگار کی بجائے گھروں تک محدود رہنا چاہیے۔بالخصوص دیہی اور پسماندہ یا قبائلی علاقوں میں آج بھی تعلیم ایک بنیادی مسئلے کے طور پر موجود ہے۔پاکستان میں تعلیمی ایمرجنسی کی باتیں بڑی شدت کے ساتھ کی جاتی ہیں اور اس پر سیاسی نعرے بھی لگتے ہیں لیکن عملی طور پرہم وہ کچھ نہیں کرسکے جو ہمیں کرنا چاہیے تھا۔تعلیم کی ترقی اور اس کے اہداف کا کام سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں اور یہ عمل ریاست کے تمام فریقین کی مشترکہ کوششوں سے ہوگا۔
بدقسمتی سے مسلم معاشروں اور مسلم حکمرانوں نے اپنے اپنے معاشروں میں ان تعصبات اور تفریق کے عمل کی حوصلہ افزائی کی جو عورتوں کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔لڑکیوں کی تعلیم کو محض مذہبی فریضہ نہیں بلکہ یہ اب دنیا بھر میں معاشرتی اور معاشی سطح کی ضرورت بن گئی ہے۔ بہت ترقی کی لیکن علمی اور سماجی تحریکوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ہم نے عورتوں کے سماجی کردار کو قومی ترقی کے دھارے میں دیکھنے کی بجائے سیاسی سطح پر دیکھا ہے۔
مسلم حکمران سمجھتے ہیں کہ ترقی مادی ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ علم اور ترقی کی بجائے انتظامی ڈھانچوں کی ترقی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔اسی وجہ سے انسانی وسائل پر جو کام ہونا چاہیے وہ نہیں ہو پاتا۔ہم نے علم و تحقیق کے ادارے بنانے کی بجائے اپنی توجہ ایسے منصوبوں پر رکھی جس سے لوگوں کے اندر نمود و نمائش کا کلچر عام ہو۔انسانی وسائل پر زیادہ سرمایہ کاری کرنے کی بجائے ہم نے محدود وسائل ان پر خرچ کیے۔آج کی گلوبل دنیا میں عورتوں کی تعلیم اور ترقی کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔جو مسلم معاشرے عورتوں کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں یا ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کا مقصد عورتوں کو روایتی طرز سیاست کے اندر محدود کرنا ہے وہ عورتوں کی ترقی کے امکانات کو مزید محدود کر دے گا۔
مسلم معاشروں میں عورتیں آگے بڑھنا چاہتی ہیں اور اپنے لیے ترقی کے مواقع تلاش کرنا چاہتی ہیں۔کیونکہ ان کو اندازہ ہو چکا ہے کہ تعلیم اور ترقی ان کو معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر شعور بھی دے گی۔اور وہ اس شعور کی بنیاد پر نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے خاندان کے لیے بھی ترقی کے مواقع تلاش کر سکیں گی۔ہم جب یورپ کی ترقی کا راز دیکھتے ہیں تو انھوں نے خاص طور پہ لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی ہے۔
تعلیم سے مراد محض رسم الخط نہیں یا لکھنا اور پڑھنے کی صلاحیت نہیں بلکہ اب تو تعلیم اور تربیت کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم پر بھی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ہم نے اگر آگے بڑھنا ہے تو کم سے کم پرائمری ایجوکیشن کمیشن کی ضرورت ہے جہاں صوبائی سطح پر صوبائی حکومتیں ایک ایسا جواب دہی کا نظام بنائیں جو لڑکیوں کی تعلیم کے اہداف کے مکمل کرنے میں حکومت کا ساتھ دے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں لڑکیوں کی تعلیم تعلیم اور عورتوں کی کی بجائے تعلیم کی دنیا میں کی اہمیت ترقی کے کی ترقی
پڑھیں:
اقتصادی سروے: پاکستان نے آئی ٹی، ٹیلی کام، صحت اور تعلیم کے شعبے میں کیا کیا؟
حکومت نے اقتصادی سروے 2025-26 جاری کردی ہے جس میں صحت کے اخراجات کا جی ڈی پی میں تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے اقتصادی سروے 2025-26 جاری کردیا، جی ڈی پی میں اضافہ ریکارڈ
رپورٹ کے مطابق تعلیم حاصل نہ کرنے والوں بچوں کی تعداد 38 فیصد ہے۔ بلوچستان کے 69 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ پنجاب سے 4 لاکھ 4 ہزار 345 افراد نوکری کی غرض سے بیرون ملک گئے ہیں۔ آئی ٹی برآمداد میں 23.7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
قومی اقتصادی سروے 2025-26 کے مطابق ملک میں 7 لاکھ 50 ہزار افراد کے لیے صرف ایک ڈالر میسر ہے، ایک سال میں ڈاکٹرز کی تعداد میں 20 ہزار سے زائد اضافہ ہوا ہے جس کے بعد رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد 3 لاکھ 19 ہزار جبکہ ڈینٹسٹس کی تعداد 39 ہزار 88 تک پہنچ گئی ہے، ملک میں نرسز کی تعداد ایک لاکھ 38 ہزار، دائیوں کی تعداد 46 ہزار 801 اور لیڈی ہیلتھ ورکز کی تعداد 29 ہزار ہو گئی ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں اسپتالوں کی تعداد 1696 اور بیسک ہیلتھ یونٹس کی تعداد 5 ہزار 434 ہو گئی ہے۔
مالی سال کے دوران پاکستان کے آئی ٹی شعبہ نے ترقی کی ہے، آئی ٹی برآمدات میں 23.7 فیصد اضافہ ہوا ہے اور برآمدات 2.825 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ مارچ 2025 میں آئی ٹی ایکسپورٹ 342 ملین ڈالر تھی، ماہانہ 12.1 فیصد اضافہ رہا ہے، آئی ٹی خدمات میں سب سے زیادہ تجارتی سرپلس 2.4 ارب ڈالر رہے، مالی سال میں فری لانسرز نے 400 ملین ڈالر کا زرمبادلہ ملک میں لایا گیا ہے، 1900 سے زائد اسٹارٹ اپس نے نیشنل انکیوبیشن سینٹرز سے تربیت حاصل کی جبکہ ٹیلی کام سیکٹر کی آمدن 803 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے، ملک بھر میں 199.9 ملین ٹیلی کام صارفین موجود ہیں۔
مزید پڑھیے: بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو 50 ارب روپے کا ریلیف ملنے کا امکان ہے، مہتاب حیدر
اقتصادی سروے کے مطابق مالی سال کے دوران ملک میں کرنسی سرکولیشن میں اضافہ ہو گیا اور کرنسی سرکولیشن 12.1 فیصد بڑھ گئی، ایک ہزار 108 ارب روپے کی کرنسی سرکولیشن میں رہی جو کہ گزشتہ مالی سال 498 ارب روپے تھی۔
اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال پاکستان سے لاکھوں افراد بیرون ملک کام کے لیے گئے ہیں، پنجاب سے ایک سال کے دوران 4 لاکھ 4 ہزار 345 افراد بیرون ملک گئے، خیبر پختونخوا سے بیرون ملک کام کے لیے جانے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ 87 ہزار، سندھ سے 60 ہزار 424 افراد، قبائلی علاقوں سے 29 ہزار 937 افراد، آزاد کشمیر سے بیرون ملک جانے والی لیبر کی تعداد 29 ہزار 591، اسلام آباد سے 8 ہزار 621، بلوچستان سے 5 ہزار 668، جبکہ شمالی علاقہ جات سے بیرون ملک جانے والے افراد کی تعداد 1692 ہے۔
اقتصادی سروے رپورٹ 25-2024 کے مطابق پاکستان میں تعلیم حاصل نہ کرنے والے بچوں کی تعداد 38 فیصد ہے۔ بلوچستان میں اس وقت 69 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، پنجاب میں اس وقت 32 فیصد ، سندھ میں 47 فیصد، خیبرپختونخوا میں سب سے کم 30 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان کی 79 فیصد آبادی بینک اکاؤنٹ یا موبائل منی تک رسائی سے محروم ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک
اقتصادی سروے کے مطابق مالی سال کے دوران تعلیم کے شعبے پر مجموعی قومی پیداوار کا محض 0.8 فیصد خرچ کیا گیا۔ ملک میں مجموعی طور پر شرح خواندگی 60.6 فیصد رہی، ملک میں مرد خواتین سے 16 فیصد زیادہ تعلیم یافتہ ہیں اور مردوں کی شرح خواندگی 68 فیصد، خواتین میں شرح خواندگی 52.8 فیصد ریکارڈ کی گئی، ملک بھر میں اس وقت یونیورسٹیوں کی کل تعداد 269 ہے جن میں سے 160 سرکاری اور 109 نجی یونیورسٹیاں ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقتصادی سروے 2025 ملک میں تعلیم کی صورتحال ملک میں صحت کی صورتحال