کراچی(رپورٹ:حماد حسین) بی جے پی اپنی حکومت کو برقرار رکھنے اور اپنے سیاسی عزائم کو ممکن بنانے کے لیے مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنا تاکہ ہندو قوم پرستوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرکے اپنی سیاست اور حکومت کو استحکام دے سکے۔ان خیالات کا اظہار وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے شعبہ بین القوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں اورسندھ ہائی کورٹ کی ممتاز وکیل ڈاکٹر عنبر مہرایڈووکیٹ نے جسارت کے سوال’’ بھارت میں بڑھتی ہو ئی مسلم دشمنی کے محرکات کیا ہیں‘‘؟میں کیا۔پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں کا کہنا تھا کہ بھارت میں اکثر اوقات فسادات اور جھڑپیں تشویش کا باعث ہیں‘ اس کی بنیادی وجہ حکمران جماعت بی جے پی اور ہندو قوم پرست ہیں‘ پچھلے دنوں ریاست ہریانہ میں قوم پرست ہندوؤں کے ایک گروپ نے مسلم اکثریتی ضلع نوح میں مذہبی جلوس کے دوران فسادات کو بھڑکایا ‘اس تازہ واقعے میں نوح کے علاقے کا تشدد دیگر مختلف علاقوں تک پھیل گیا تھا، جہاں ایک ہندو ہجوم نے مسجد کو آگ لگا دی تھی اورامام مسجد کو شہید کر دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ جبکہ دوسری طرف حکومت کا یہ دعویٰ تھا کہ جن املاک کو نقصان پہنچا ہے وہ غیر قانونی طور پر بنائے گئے مکانات تھے جن کا انہدام کیا گیاہے۔ عام طور پر بی جے پی حکومت میں اس طرح کا اقدام فسادات کے بعد
کیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کو معاشی طور پر نقصان پہنچایا جاسکے۔ انہدام کی جانے والی عمارتوں کی تعداد تقریباً 750 سے زائد ہو گئی تھی جس کے بعد ریاست کے ہائی کورٹ نے کارروائی روکنے کا حکم دیا۔ سخت گیر ہندو تنظیموں کی جانب سے بار بار ایسے واقعات دہرانے کا مطلب مسلمانوں کو اکسانا اور انہیں دہشت زدہ کرنا ہے۔ خاص طور پر جلوسوں میں ایسے نعروں کا استعمال کیا جاتا ہے جس میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔بی جے پی بھارت کو ایک ایسی ریاست بنانا چاہتی ہے جس میں ہندوؤں کو تمام حقوق حاصل ہوں اور اقلیت ان کے ماتحت ہو۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی 2023 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ بی جے پی حکومت نے دیگر اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ منظم امتیازی سلوک جاری رکھا ہوا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کی ممتاز وکیل ڈاکٹر عنبر مہرایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اگر زمانہ ماضی کی طرف نظر ڈالیں تو ”مغل بادشاہوں کی حکومت کو ہندو قوم پرست حلقے ”غاصبانہ” تصور کرتے ہیں”۔1947 میں برصغیر کی تقسیم کے دوران ہندو ؤں اور مسلمانوں کے درمیان جونفرت کا ایسابیج، بویا گیاو جو آج بھی بھارت میں بعض جگہوں پر برقرار ہے۔مسلمانوں کی یہ ذہنیت بن گئی ہے یا بنا دی گئی ہے کہ انڈیا ایک سیکولر ملک ہے۔ چونکہ بٹوارہ مذہب کی بنیاد پر ہوا تھا اس لیے جو مسلمان انڈیا میں رہ گئے ان میں یہ احساس اچھی طرح سے تھا کہ انھیں ہندوؤں کی مختلف سیاسی پارٹیوں کے ساتھ رہنا ہے۔اور اگر مسلمان اپنی آبادی کے گمان پر ایک اور مسلم پارٹی بناتے ہیں تو اس کا حشر پھر سے ایک اور پاکستان ہو سکتا۔اسی لیے مسلمانوں کے سرکردہ رہنما اور مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی کو بھی ملک بھر کے مسلمانوں کی جانب سے حمایت حاصل نہیںہے۔ بھارتی مسلم نے بھارت کی ترقی وتعمیر اوربھلائی کے لیے مختلف پارٹیوں”جنتادل ”،لالو پرشاد کی پارٹی،کانگریس پارٹی،مودی کی بھارتی جنتا پارٹی کا ساتھ دیالیکن وہ اپنی ذات برادری کے لیے سیاست کرتے رہے اور مسلم پر مذہب کی چھاپ گہری ہوتی گئی،اور آج مودی جیسا لیڈر ہی ان کا مخالف ہے۔ کیونکہ بڑی وجہ ہندو قوم پرستی پر مبینہ نظریہ، جس کی قیادت آر ایس ایس اور نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کرتی ہیں،وہ بھارت کو ایک ”ہندو ریاست” بنانے پر زور دیتی ہے۔ اس نظریے کے تحت مسلمانوں کو ”غیرمکی” یا ”دوسرے درجے کے شہری” کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اور انڈیا کے 20 کروڑ مسلمانوں کا جینا دشوار ہے۔خاص طور پر دیہاتی پسماندہ علاقوں میں حالات بہت کشیدہ ہیں۔بھارت کے مسلمان تعلیمی اور اقتصادی طور پر پسماندہ ہیں، جس سے امتیاز اور تعصب میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کے خلاف منفی تصورات کو بڑھایا دیا جاتا ہے۔ تین طلاق، حجاب، اور دیگر مسائل کو اکثر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ مسلم کمیونٹی کو بدنام کیا جاسکے۔ مسلم کی علیحدہ ثقافتی اور مذہبی شناخت کو ایک خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، نفسیاتی طور پر ہندوؤں کو ڈرانا کہ مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے وہ مستقبل میں”ہندو اکثری” کو اقلیت میں بدل دیں گے۔ جس سے ان میں قوم پرستی کے جذبات بھڑکتے ہیں۔ مسلمانوں کو ”ریڈیکل اسلام” کے نمائندہ کے طور پر پیش کرکے خوف کی فضا پیدا کی جاتی ہے۔ بھارتی میڈیا چینلز میں مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا پھیلانے میں، دہشت گردی، غداری، یا ملکی سلامتی کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کرنا عام ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی نفرت انگیز مواد کی بھرمار ہے، جو مسلم دشمنی کو ہوا دیتا ہیں یہاں تک کہ ان کے تعلیمی نظام میں تاریخ کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو ”غاصب” اور”ظالم” کے بتایا جاتا ہے جس سے بچپن ہی سے ہندوؤں کے دل ودماغ میں مسلمانوں کے لیے نفرت جیسا جذبہ فروغ پاتا چلا جاتا ہے۔ اور بچے اپنے ہم جماعت مسلمان کو ”نالی کا کیڑا” یاگائے کے گوشت کو کاروبار کے حوالے سے تاجر حضرات کو تشددکا نشانہ بنانا، بابری مسجدکی جگہ مندر ہونے کا دعوی دائر کرنا، مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر سے منسوب سنبھل کی جامع مسجدکے نیچے مندر، بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ کے ساتھ ساتھ اجمیر کی درگاہ پر بھی مندر ہونے کا دعوی کرنا، اور تو اور ریاست اتر پردیش کے شہر مراد آباد میں مسلمان ڈاکٹر میاں بیوی کا ہندو ہمسائیوں کے احتجاج کے باعث اپنا مکان بیچنا، مسلمانوں کو قتل کرتے وقت وڈیو بنانا اور وائرل کرنا بھارتیوں کی مسلمانوں سے شدید نفرت کی واضح مثالیں ہیں۔ فرقہ ورانہ فسادات میں بھارتی پولیس اکثرمسلم مخالف رویہ اختیار کرتی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا اثر بھارتی مسلمانوں پر بھی پڑتا ہے، اور انہیں اکثر ”پاکستانی” یا ”غدار” کے طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جس کے حل کے لیے مربوط اقدامات اور تمام سماجی، سیاسی، اور تعلیمی سطحوں پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر عوامی شعور، قانون کی حکمرانی، اور بین المذاہب ہم آہنگی پر کام کیا جائے تو اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے طور پر پیش مسلمانوں کو مسلمانوں کے بھارت میں بی جے پی کے خلاف کے ساتھ کے لیے اور ان تھا کہ

پڑھیں:

شادی میں فائرنگ؛ فرسٹ ایئر امتحان کی تیاری  کرتی 19 سالہ طالبہ گولی لگنے سے جاں بحق

کراچی:

شادی کی تقریب میں فائرنگ سے فرسٹ ایئر کے امتحان کی تیاری کرتی 19 سالہ طالبہ گولی لگنے سے جاں بحق ہو گئی۔

نیوکراچی کے علاقے میں شادی کی تقریب میں ہوائی فائرنگ کی زد میں آکر 19 سالہ لڑکی جاں بحق ہوگئی ، مقتولہ کی لاش 3 گھنٹے سے زائد دیر تک گھر کی چھت پر پڑی رہی ہے اور کسی کو پتا نہیں چلا  جب کہ باراتی فائرنگ کرتے ہوئے بارات لے کر حیدرآباد چلے گئے ۔

پولیس کے مطابق سیکٹر الیون ڈی مکان نمبر 70 /06 کی چھت پر فائرنگ کی زد میں آکر 19 سالہ لڑکی جاں بحق ہوگئی ، جس کی لاش عباسی شہید اسپتال منتقل کی گئی ، جہاں اس کی شناخت 19 سالہ لائبہ دختر احمد علی کے نام سے کی گئی ۔

ایس ایچ او نے بتایا کہ جاں بحق ہونےو الی لڑکی کے گھر سے دو گھر چھوڑ کر احمد رضا نامی شخص کی شادی تھی  اور بدھ کی شب تقریباً ساڑھے 9 بجے بارات حیدرآباد جا رہی تھی ۔

بارت میں شریک چند افراد فائرنگ کر رہے تھے  جب کہ لائبہ گھر کی چھت پر فرسٹ ائیر کے پریکٹیکل کی تیاری کر رہی تھی اور ہوائی فائرنگ کی زد میں آکر سر پر گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئی اور وہیں چھت پر گر گئی  جب کہ باراتی فائرنگ کرتے ہوئے حیدرآباد چلے گئے ۔

طالبہ کی چھت پر گولی لگنے سے ہلاکت کا کسی کو پتا نہیں چلا ۔ رات تقریباً ساڑھے بارہ بجے گھر والے لائبہ کو کھانا کھانے کے لیے بلانے گئے تو اس کی خون میں لت پت لاش پڑی ہوئی تھی ۔

ڈاکٹروں نے اسپتال میں موت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اسی کی ہلاکت کو 4 گھنٹے گزر چکے ہیں جب کہ مقتولہ کے سر پر سامنے سے گولی لگی جو دماغ پھاڑتے ہوئے باہر نکل گئی ۔

مقتولہ کے ورثا نے میڈیا کو کوریج سے روک دیا ۔ پولیس نے قانونی کارروائی کے بعد لاش ورثا کے حوالے کر دی ۔

متعلقہ مضامین

  • محصولات کا ہدف پورا کرنے کیلیے نئے ٹیکس کا ارادہ نہیں،حکومت
  • بھارت ہمیشہ خود ہی مدعی، خود ہی گواہ اور جج بن جاتا ہے
  • پی ٹی آئی بھارت کے بے بنیاد الزامات کی شدید مذمت کرتی ہے، بیرسٹر گوہر
  • شادی میں فائرنگ؛ فرسٹ ایئر امتحان کی تیاری  کرتی 19 سالہ طالبہ گولی لگنے سے جاں بحق
  • نہری منصوبہ کسان دشمنی ہے، حکومت آئینی حدود سے تجاوز کر رہی ہے، پیپلز پارٹی
  • بھارت میں حقوق کیلیے احتجاج کرنا جرم قرار؛ پولیس کا مسلمانوں کیخلاف کریک ڈاؤن
  • مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری
  • جو نام ہم بھجواتے وہ جیل انتظامیہ قبول نہیں کرتی، نعیم حیدر
  • مودی حکومت وقف کے تعلق سے غلط فہمی پیدا کررہی ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
  • کراچی میں ہیٹ ویو کب تک برقرار رہے گی؟ محکمہ موسمیات کی نئی پیشگوئی