پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو ملٹری ٹرائل کیوں نہیں ہوا،کیا پارلیمنٹ خود پر حملے کو توہین نہیں سمجھتی،جسٹس جمال مندوخیل
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائلز کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پرسماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو ملٹری ٹرائل کیوں نہیں ہوا، پارلیمنٹ سب سے سپریم ہے،کیا پارلیمنٹ خود پر حملے کو توہین نہیں سمجھتی۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ آئینی بنچ میں سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائلز کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی لارجر بنچ سماعت کررہا ہے،وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ احتجاج اور حملے میں فرق ہے، جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ 21جولائی 2023 کے آرڈر میں صرف9مئی کی بات کی گئی ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ 9مئی کا جرم تو ہوا ہے،عدالتی فیصلے میں 9مئی جرم پر کلین چٹ نہیں دی گئی،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ جرائم قانون کی کتاب میں لکھے ہیں،اگر جرم آرمی ایکٹ میں فٹ ہوگا تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا، خواجہ حارث نے کہاکہ سیاسی سرگرمی کی ایک حد ہوتی ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ 21ویں ترمیم کے بغیر دہشتگردوں کے خلاف کیا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا تھا،خواجہ حارث نے کہاکہ 21ویں ترمیم میں قانون سازی دیگر مختلف جرائم اور افراد پر مبنی تھی،جسٹس حسن رضوی نے کہاکہ پولیس اہلکار کی وردی پھاڑنا جرم ہے،یہاں کور کمانڈر لاہور کا گھر جلایا گیا،ایک دن ایک ہی وقت مختلف جگہوں پر حملے ہوئے،عسکری کیمپ آفسز پر حملے ہوئے،پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جلایا گیا، ماضی میں لوگ شراب خانوں یا گورنر ہاؤس پر احتجاج کرتے تھے،پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ مختلف شہروں میں ایک وقت پر حملے ہوئے،جرم سے انکار نہیں ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو ملٹری ٹرائل کیوں نہیں ہوا، پارلیمنٹ سب سے سپریم ہے،کیا پارلیمنٹ خود پر حملے کو توہین نہیں سمجھتی،جسٹس حسن رضوی نے کہاکہ سپریم کورٹ پر بھی حملہ وہ بھی سنگین تھا، اسے بھی شامل کریں،وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ یہاں بات 2ون ڈی ون کی ہے۔
بالی ووڈ اداکار سیف علی خان پر حملہ: ملزم نے 1 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا، تحقیقات میں انکشاف
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ خواجہ حارث نے کہاکہ ملٹری ٹرائل پر حملہ پر حملے کورٹ ا
پڑھیں:
عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر حکومت پنجاب کی اپیلیں نمٹا دیں جب کہ دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دائر حکومت پنجاب کی اپیلوں پر سماعت کے دوران کہا کہ پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، بانی پی ٹی آئی کے وکلا دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے کہا کہ ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں، جسمانی ریمانڈ کی تھی۔
جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ کسی عام قتل کیس میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ڈیڑھ سال بعد جسمانی ریمانڈ کیوں یاد آیا، اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے مؤقف اپنایا کہ ملزم بانی پی ٹی آئی نے تعاون نہیں کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ جیل میں زیر حراست ملزم سے مزید کیسا تعاون چاہیے، میرا ہی ایک فیصلہ ہے کہ ایک ہزار سے زائد سپلیمنٹری چلان بھی پیش ہو سکتے ہیں، ٹرائل کورٹ سے اجازت لیکر ٹیسٹ کروا لیں۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ استغاثہ قتل کے عام مقدمات میں اتنی متحرک کیوں نہیں ہوتی۔
اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے استدلال کیا کہ 14 جولائی 2024 کو ٹیم بانی پی ٹی آئی سے تفتیش کرنے جیل گئی لیکن ملزم نے انکار کردیا، ریکارڈ میں بانی پی ٹی آئی کے فیس بک، ٹیوٹر اور اسٹاگرام پر ایسے پیغامات ہیں جن میں کیا گیا اگر بانی پی ٹی کی گرفتاری ہوئی تو احتجاج ہوگا۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ اگر یہ سارے بیانات یو ایس بی میں ہیں تو جاکر فرانزک ٹیسٹ کروائیں، اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے مؤقف اپنایا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں ہمارے ساتھ تعاون کیا جائے۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے، 26 گواہان کے بیانات قلمبند ہو چکے ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اگر ہم نے کوئی آبزرویشن دیدی تو ٹرائل متاثر ہوگا، ہم استغاثہ اور ملزم کے وکیل کی باہمی رضامندی سے حکمنامہ لکھوا دیتے ہیں۔
زوالفقار نقوی نے کہا کہ میں اسپیشل پراسیکیوٹر ہوں، میرے اختیارات محدود ہیں، میں ہدایات لیے بغیر رضامندی کا اظہار نہیں کر سکتا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ چلیں ہم ایسے ہی آرڈر دے دیتے ہیں، ہم چھوٹے صوبوں سے آئے ہوئے ججز ہیں، ہمارے دل بہت صاف ہوتے ہیں، پانچ دن پہلے ایک فوجداری کیس سنا،
نامزد ملزم کی اپیل 2017 میں ابتدائی سماعت کیلئے منظور ہوئی۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ کیس میں نامزد ملزم سات سال تک ڈیتھ سیل میں رہا جسے باعزت بری کیا گیا، تین ماہ کے وقت میں فوجداری کیسز ختم کر دیں گے۔
عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر کی گئی اپیلیں دو بنیادوں پر نمٹائی جاتی ہیں، استغاثہ بانی پی ٹی آئی کے پولی گرافک ٹیسٹ، فوٹو گرافک ٹیسٹ اور وائس میچنگ ٹیسٹ کیلئے ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے میں آزاد ہے۔
حکمنامہ کے مطابق بانی پی ٹی کی قانونی ٹیم ٹرائل کورٹ میں ایسی درخواست آنے پر لیگل اور فیکچویل اعتراض اٹھا سکتی ہے۔