کراچی ایئرپورٹ سے کتے پکڑنے کیلئے ایدھی فاؤنڈیشن سے مدد طلب
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی (پی اے اے) نے کراچی ایئرپورٹ سے کتے پکڑنے کےلیے ایدھی فاؤنڈیشن سے مدد طلب کرلی۔
پی اے اے نے ایئرپورٹ کے مختلف حصوں میں آوارہ کتوں کی بہتات اور انہیں روکنے کےلیے ایدھی فاؤنڈیشن کو مراسلہ ارسال کیا ہے۔
کراچی ایرپورٹ کے منیجر ایئر سائیڈ اکرام بیگ کی جانب سے ایدھی فاونڈیشن کو لکھے گئے خط میں جنرل ایوی ایشن ایریا سمیت ایئرپورٹ کے اطراف گھس آنے والے آوارہ کتوں کے خاتمے کیلئے ایدھی فاؤنڈیشن سے مدد کی درخواست کی گئی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کا عملہ ایئرپورٹ کی حدود میں موجود کتوں کو پکڑ کر لے جائے۔
خط میں بتایا گیا کہ کتے فلائٹ سیفٹی اور طیاروں کے لئے بڑا خطرہ ہیں، ایئرپورٹ ایریا میں کتے انسانی جانوں کےلیے بھی خطرہ ہیں۔
جیو نیوز نے چند دن قبل کراچی ایئرپورٹ کے جنرل ایوی ایشن ایریا اور اطراف میں کتوں کی موجودگی کی خبر دی تھی۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
کراچی کی میڈیسن مارکیٹ اور اردو بازار سیوریج نالے بن گئے، طالبات اور حاملہ خواتین کیلئے مشکلات
—جنگ فوٹوزکراچی میں بارش کو ختم ہوئے ایک ہفتے سے زائد گزر گیا مگر شہر کے بیشتر علاقوں میں بارشوں کے بعد اب سیورج کا پانی وبالِ جان بن گیا۔
کراچی میونسپل کارپوریشن کے ہیڈ آفس کے پڑوس میں میریٹ روڈ پر واقع ہول سیل میڈیسن مارکیٹ کی کچھی گلی نمبر 1 اور 2 سیوریج نالے میں بدل چکی ہیں، جہاں گٹر ابل کر سیوریج کا پانی بائی پاس ہو کر دوسرے گٹر میں نکلنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔
ہول سیل کراچی فارما آرگنائزیشن کے جنرل سیکریٹری اسلم پولانی کے مطابق گزشتہ 15 دنوں سے وہ اپنی مدد آپ کے تحت پرائیویٹ طور پر گٹر کھلوانے کی بھرپور کوشش کر چکے ہیں مگر گٹرز میں بھاری بھرکم پتھر اور دیگر اشیاء ہونے کی وجہ سے انسانی ہاتھوں سے یہ کام کرنا ممکن نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گٹر کھلوانے کے لیے کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے ایم ڈی سے لے کر نچلے عہدے کے تمام افسران تک رابطے کر چکے ہیں، انہیں ویڈیوز بھی بھیجی گئی ہیں، فون پر بھی رابطے کیے گئے ہیں مگر ہر روز نئی یقین دہانیوں کے بعد رات آ جاتی ہے اور اگلے دن پھر نئی کوششیں کرتے ہوئے ایک ہفتے سے زائد گزر گیا ہے مگر سیوریج کا پانی صاف نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی گٹر کھولے گئے۔
علاقے کے ایک بزرگ دکاندار نے بتایا کہ تحریکِ لبیک کے یونین کونسل چیئرمین یاسر اختری کی جانب سے بھی سیوریج کا پانی نکلوانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر متعلقہ اداروں کی جانب سے گٹر نہیں کھولے جا رہے تاکہ ان کی قیادت کو ناکام ظاہر کیا جا سکے۔
دکانداروں نے بتایا کہ اس میڈیسن مارکیٹ سے ناصرف سندھ بلکہ پاکستان کے مختلف شہروں کے لیے بھی ادویات سپلائی کی جاتی ہیں، بیشتر ادویات سیوریج کے پانی میں خراب ہو چکی ہیں۔
اسی طرح کی گمبھیر صورتِ حال کراچی کے مصروف ترین اردو بازار کی بھی ہے جہاں کی گلیوں میں سیوریج کا پانی بہتا دکھائی دے رہا ہے، اردو بازار میں جس جگہ پر سب سے زیادہ سیوریج کا پانی جمع ہے وہ گورنمنٹ گرلز اسکول کا گیٹ ہے جہاں سے صبح شام طالبات گزر کر اسکول جاتی ہیں، ایسی صورتِ حال میں کئی طالبات کے کپڑے خراب ہو جاتے ہیں۔
یہی نہیں اس کے ساتھ واقع سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا سوبھراج اسپتال بھی ہے جہاں علاج کے لیے آنے والی خواتین خاص طور پر حاملہ خواتین کے لیے انتہائی مشکلات ہیں۔
دکانداروں نے بتایا کہ وہ اپنے طور پر کافی کوشش کر چکے ہیں مگر گٹرز کے اندر پتھر اور بوریاں ہونے کی وجہ سے سیوریج کا پانی نکل نہیں پا رہا بلکہ دوسرے گٹر سے بائی پاس ہو کر ان گلیوں میں جمع ہوتا ہے اور اس سے پورا دن تعفن پھیلا رہتا ہے۔