Express News:
2025-07-26@15:00:49 GMT

صیہونیت کی الف ب ت (قسط اول)

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

گزشتہ مضامین میں بارہا اعادہ کیا گیا کہ صیہونیت انیسویں صدی میں یورپ میں پروان چڑھنے والا قوم پرست نسلی برتری کا نظریہ ہے۔ جس طرح نازیت ، فسطائیت ، سیٹلر کولونیل ازم کے نظریات یورپ کی محضوص فضا اور حالات کی کٹھالی میں ڈھلے۔اگرچہ سیکولر ازم ، لبرل ازم اور کیمونزم بھی مغرب میں ہی پروان چڑھے مگر ان تینوں نظریات کی پیدائشی وجوہات ، دائرہ اثر اور عروج و زوال ایک الگ موضوع ہے۔

فی الحال ہم قوم پرستانہ نسل پرستی کے بطن سے جنم لینے والے نظریات پر ہی توجہ مرکوز رکھتے ہوئے دیکھیں گے کہ نازیت ، فسطائیت و صیہونیت کتنے یکساں اور باہم کس قدر معاون ہیں۔

 نسل پرستانہ نظریات کی مماثلتی بحث آگے بڑھانے سے پہلے ایک یہودی نژاد اسرائیلی اسکالر ایلان پاپے کا تعارف کرانا مناسب رہے گا۔آپ برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایگزیٹر میں مرکز برائے مطالعہِ فلسطین کے سربراہ ہیں۔عبرانی ، عربی اور انگریزی پر یکساں دسترس ہے۔مشرقِ وسطی کی سیاست اور اسرائیل فلسطین تنازعے کے موضوع پر پندرہ سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں۔دنیا بھر میں توسیعی لیکچرز اور جامع گفتگو کے لیے بلائے جاتے ہیں۔فلسطین نواز علمی حلقوں میں ان کی بات دھیان سے سنی جاتی ہے۔

گزشتہ ہفتے ایلان پاپے نے الجزیرہ کو ایک تفصیلی انٹرویو میں کہا کہ ’’ حالانکہ وہ مغرب کی تاریخی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں لیکن اس بار الیکٹرونک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر نسل کشی کی براہِ راست تصویر کشی کے باوجود اس سانحے سے مغرب کی مکمل بے تعلقی نے خود مجھے بھی بھونچکا کر دیا ۔

ایلان پاپے کے مطابق اس وقت غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک نئی طرز کی صیہونیت ہے۔یہ پرانے فیشن کی صیہونیت کے مقابلے میں زیادہ متشدد ، انتہاپسند اور بے صبر ہے اور وہ سب کچھ مختصر وقت میں لپکنا چاہتی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے اس کے پرکھے بتدریج پیش قدمی کی حکمتِ عملی پر یقین رکھتے تھے۔

صیہونیوں کی موجودہ نسل انیس سو اڑتالیس کے ایجنڈے کی برق رفتار تکمیل کے لیے بگٹٹ دوڑ رہی ہے اور اپنے تئیں ایک عظیم یہودی سلطنت بننے کی ہوس میں اردگرد کے علاقوں کو سرعت سے ہتھیانے کی عجلت میں ہے۔ فوری ہدف یہ ہے کہ آس پاس والوں کے دل میں اپنی بے مہار طاقت کا اتنا خوف بٹھا دو کہ اگلے کم ازکم پچاس برس تک کوئی بھی علاقائی ریاست اسرائیلی توسیع پسند ایجنڈے کی جانب آنکھ بھر کے نہ دیکھ سکے۔

مگر تاریخ کے تھوڑے بہت مطالعے سے میں نے جو کچھ سیکھا ہے۔اس کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ہم صیہونیت کے بھڑکتے چراغ کی آخری لو دیکھ رہے ہیں ۔جیسے کسی قریب المرگ شخص کا چہرہ موت سے ذرا پہلے ہشاش بشاش سا لگتا ہے۔ صیہونیت کی نئی شکل اسی کیفیت سے گزر رہی ہے۔

کسی بھی نوآبادیاتی طاقت یا سلطنت کے ناگزیر زوال کی ایک روشن نشانی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آخری دور میں نہائیت سخت گیر رویوں اور اندھا دھند خواہشات کے جال میں پھنس جاتی ہے اور پھر یہ ناقابلِ برداشت بوجھ سنبھالتے سنبھالتے آخری بار گڑ پڑتی ہے۔یہ آخری مرحلہ کتنا قلیل یا طویل ہوتا ہے اس کا دارو معروضی حالات کی رفتار پر ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اختتام بیس دن میں ہو جائے گا یا بیس برس میں۔مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سفر زوال کی شاہراہ پر ہی ہو رہا ہے۔

اس وقت اسرائیل اور صیہونیت کا مستقبل امریکا کے اندرونی و بیرونی مستقبل سے نتھی ہے۔ میں اسے اچھی خبر کہوں گا کہ حالات کا سنبھالنا ٹرمپ جیسے مسخروں اور ایلون مسک جیسے پاگلوں کے بس سے باہر ہے۔ایسے لوگ امریکی معیشت اور اس کے بین الاقوامی اثر و رسوخ کے تیئے پانچے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے زوال کے تاریخی عمل کو تیزتر کر دیتے ہیں۔دونوں صورتوں میں مشرقِ وسطی کے معاملات میں امریکی کردار اور اثر و نفوذ سکڑتا جائے گا۔اس کی پہلی قیمت اسرائیل کی نئی صیہونی سوچ اور پالیسیاں ادا کریں گے۔مگر یہ ایک طویل المیعاد نتیجہ ہے۔فی الحال اگلے دو تین برس خطے میں خوب دھماچوکڑی مچے گی اور اختتامی باب خاصا برا ہو گا۔

یہ مسئلہ محض غزہ میں جنگ بندی وغیرہ وغیرہ سے حل ہونے والا نہیں۔ابھی تو ہمیں یورپ میں فسطائیت اور نیونازی تحریک کا احیا دیکھنا ہے۔ عربوں کی اخلاقی و مادی کرپشن کا نتیجہ بھگتنا ہے۔ یہ صورتِ حال مختصر مدت کے لیے اسرائیلی صیہونیت کے لیے بھی سازگار ہے۔جوں جوں موجودہ طاقت ور شمالی کرے ( مغربی دنیا ) کے مقابلے میں جنوبی کرہ زور پکڑتا جائے گا طاقت کے توازن کا ناگزیر بدلاؤ اسرائیل کو اور تنہا کرتا چلا جائے گا۔ابھی جنوبی کرے میں پنپنے والی مزاحمتی تحریک منظم نہیں ہے مگر بدلتے وقت کے تاریخی تقاضے اسے منظم ہونے پر مجبور کر دیں گے۔

اب آپ یہ دیکھیے کہ مغرب میں یہود دشمنی کی احیائی تحریک اور نئے صیہونی اس پر متفق ہیں کہ یہودیوں کے لیے مغرب میں رہتے رہنے سے کہیں بہتر ہے کہ وہ فلسطین میں آباد ہو جائیں۔دونوں تحریکیں اسلاموفوبیا کے معاملے پر بھی ہمقدم و ہم آواز ہیں۔یورپ میں انتہاپسندوں کی ریلیوں میں اب نازی پرچموں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی جھنڈے بھی نظر آتے ہیں۔

ہالوکاسٹ کے نازی تجربے کی روشنی میں بیس برس پہلے تک ایسے کسی نازی صیہونی اتحاد کے بارے میں سوچنا بھی پاگل پن سمجھا جاتا۔انھی تضادات کے سبب امریکا میں آباد یہودیوں کی موجودہ جوان نسل اسرائیل کے حق میں اب وہ جذبات نہیں رکھتی جو ان کے والدین کے تھے یا ہیں۔آخر ٹرمپ اور ایلون مسک کے بعد بھی تو کوئی آئے گا۔ضروری تو نہیں کہ وہ اسرائیل کی صیہونیت پرست توسیع پسندانہ پالیسیوں کا ہی حامی ہو۔

اسرائیلی نظامِ تعلیم اپنے بچوں کو پہلے سے زیادہ نسل پرست ، انسان دشمن اور انتہاپسند بنا رہا ہے اور اس نظامِ تعلیم سے پیدا ہونے والی نسل اپنے اور دوسروں کے لیے یکساں خطرناک ہے۔ محض یہ فرض کرنے سے اب کام نہیں چلے گا کہ اس نسل کا دل سوشل میڈیا پر تیرتی نسل کشی کی وڈیوز دیکھ کے پسیج جائے گا۔اسرائیل چونکہ نفرت کی بنیاد پر بنا ہے لہٰذا اس کا نفرتی ڈی این اے ایک سے دوسری نسل میں کامیابی سے منتقل کیا گیا ہے اور اسی سبب ریاست کا زوال پذیر ہونا ایک لازمی حقیقت ہے ‘‘۔

آپ نے ایلان پاپے کے خیالات پڑھے۔ اگلے چند مضامین میں ہم اس پر دھیان دیں گے کہ کیسے ایک نظریہ اچھے بھلے انسانوں کو غیر انسان یا نیم انسان بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔یہ سب ہم صیہونی نظریے کے ارتقا اور عالمی و علاقائی سیاست پر اس کے اثرات کے عدسے سے دیکھیں گے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جائے گا اور اس ہے اور کے لیے

پڑھیں:

غزہ کو بھوکا مارنے کا منصوبہ، مجرم کون ہے؟

اسلام ٹائمز: انروا کے کمشنر جنرل فیلیپ لازارینی نے ایک المناک بیان میں کہا کہ غزہ میں قحط نے ہر گھر کی دہلیز پر دستک دے دی ہے، اب کوئی محفوظ نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر، نرسیں، صحافی اور امدادی کارکن سب کے سب شدید بھوک میں مبتلا ہیں۔ لازارینی نے کہا کہ "اب تو وہ لوگ بھی جنہیں دوسروں کی دیکھ بھال کرنی تھی، خود کسی نگہداشت کے محتاج ہوچکے ہیں۔” انہوں نے بتایا کہ کئی افراد بھوک، کمزوری اور تھکن کے باعث دورانِ کام بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ کچھ صحافی ہیں، جو ظلم و جور کی رپورٹنگ کے دوران گِر پڑتے ہیں، کچھ ڈاکٹر ہیں، جو اپنی سانسیں بچاتے بچاتے دوسروں کا علاج چھوڑ دیتے ہیں۔ افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ساری صورتحال میں مسلم دنیا کے حکمران کہاں ہیں۔؟ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اس بات کو کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ غزہ کے قاتلوں میں اسرائیلی غاصب فوج کیساتھ ساتھ یہ سب حکمران بھی برابر کے شریک جرم ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

پاکستان بھر کے سوشل میڈیا اور میڈیا پر ایک مرتبہ پھر غزہ کی داستان ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ یہ ابال سات اکتوبر کے بعد بھی دیکھنے میں آیا تھا، لیکن آج کل یہ ایک اور زاویہ کے ساتھ نظر آرہا ہے۔ یعنی غزہ میں بھوک اور قحط کے مسائل پر ہے۔ جی ہاں یہ مسئلہ غزہ میں آج نہیں بلکہ گذشتہ چند ماہ سے جاری ہے۔ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل نے 2 مارچ سے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے، جس کے نتیجے میں کوئی خوراک، دوا، ایندھن یا امداد اندر نہیں جانے دی جا رہی۔ نتیجتاً پورے علاقے میں قحط، بھوک، پیاس اور بیماریوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ راقم نے متعدد جلسوں اور تحریروں میں ہمیشہ اس اہم مسئلہ طرف توجہ مبذول کروانے کی کوشش جاری رکھی ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر غزہ کی بھوک اور پیاس کو بیان کیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا کے اثرات سے یہ بات بھی بیان ہو رہی ہے کہ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کی قاتل فوج غزہ میں امدادی سرگرمیوں کے مقامات پر جمع ہونے والے مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کو اس وقت اپنی نشانہ بازی کا شکار کرتے ہیں، جب وہ ایک چھوٹی سی آٹے کی تھیلی یا تھوڑا سا پینے کا پانی حاصل کرکے اپنے پیاروں کی طرف جا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں اچانک غاصب صیہونی درندہ فوجی ان کو گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کو اپنے پیاروں سے دور کر دیتے ہیں۔ اس عمل کو صیہونی غاصب حکومت اسرائیل کا میڈیا لوگوں کی انٹرٹینمنٹ کے لئے پیش کرتا ہے۔ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کی درندہ صفت فوج جو اپنے آپ کو فوج کہتی ہے، بچوں کو قتل کرنے کی ویڈیوز اس انداز میں جاری کرتی ہے، جیسے وہ کھیل اور تفریح کا سامان ہوں۔

آج ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ بچوں کے حقوق، انسانی حقوق اور وہ تمام نعرے جو مغربی دنیا بلند کرتی ہے، وہ سب کہاں چھپ گئے ہیں؟ کیا انسانیت کا معیار صرف مخصوص قوموں کے لیے ہے۔؟ بہرحال غزہ کی موجودہ صورتحال یہی ہے۔ بھوک اور پیاس سے بچے مر رہے ہیں۔ ان کو قتل کرنے والی صرف غاصب اسرائیلی فوج ہی ذمہ دار تو نہیں ہے بلکہ یہی غاصب صیہونی فوج جب ان لوگوں کو قتل کرتی ہے، اس کے بعد جو منرل واٹر پینے کا استعمال کرتی ہے، وہ ہمارے ہی مسلمان ممالک کی حکومتوں کی جانب سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ ایسی اور متعدد اشیاء ہیں، جو کہ مسلسل اسرائیلی فوج کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مسلمان ممالک کی جانب سے سپلائی کی جا رہی ہے۔ یہ جو مسلمان ممالک اسرائیل کو کھانے پینے اور روز مرہ استعمال کی اشیاء سپلائی کر رہے ہیں، ابھی تک ایک روٹی کا آٹا بھی غزہ کے مظلوموں تک نہیں بھیجا گیا ہے۔

حقیقت میں اسرائیلی غاصب فوج تو فلسطینیوں کی نسل کشی کی ذمہ دار ہے ہی، لیکن اس غاصب فوج کے ساتھ ساتھ یہ سارے مسلمان حکمران کہ جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں، اشیائے خورد و نوش اسرائیل کے لئے بھیج رہے ہیں، یہ غاصب صیہونی فوج کی طرح فلسطینیوں کی نسل کشی کے برابر کے ذمہ دار اور شریک جرم ہیں۔ آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، یعنی غزہ میں غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کی طرف سے عام شہریوں، بالخصوص حاملہ خواتین اور ضعیف العمر افراد پر ڈھائے جانے والے مظالم پوری انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ غزہ میں حاملہ خواتین اور بزرگوں کی حالت زار دل دہلا دینے والی ہے۔ روزانہ درجنوں خاندان نیست و نابود ہو رہے ہیں۔ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، وہ انتہائی وسیع پیمانے پر ہولناک نسل کشی ہے۔

انسانی حقوق کا واویلا کرنے والی مغربی حکومتیں خاموش ہیں۔ عالمی ادارے بے بس نظر آرہے ہیں۔ اس صورتحال میں عرب اور مسلمان حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اور چشم پوشی غزہ کے عوام کو دانستہ قحط کا شکار بنانے میں شراکت دار ہے۔ مسلم دنیا کے اقوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ممالک میں ایسے خیانت کار حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری خاموشی توڑے اور قابض اسرائیل کے جرائم پر کارروائی کے لیے فوری اقدامات کرے۔بصورت دیگر یہ نسل کشی ختم نہ ہو پائے گی۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اور اس کا دہشت گرد وزیراعظم نیتن یاہو ایک انسان کش درندہ ہے۔ دوسری جانب غزہ کی اس ساری صورتحال پر اقوام متحد ہ نے بھی تصدیق کی ہے اور اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کی ذمہ دار ایجنسی "انروا" کے ترجمان عدنان ابو حسنہ نے انتہائی دل سوز الفاظ میں کہا ہے کہ غزہ کی صورت حال مکمل طور پر قابو سے باہر ہوچکی ہے۔

انہوں نے تصدیق کی کہ غزہ میں انسانی امداد کا پورا نظام زمین بوس ہوچکا ہے اور اس وقت لاکھوں انسان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمائندہ نے واضح کیا ہے کہ یہ انسانی بحران قدرتی آفت نہیں بلکہ قابض اسرائیل کے سیاسی فیصلے کا نتیجہ ہے۔ عدنان ابو حسنہ کا کہنا تھا کہ اگر قابض اسرائیل چاہے تو روزانہ سات سو ٹرک غزہ میں داخل ہوسکتے ہیں، مگر دانستہ طور پر انسانی امداد کو روکا جا رہا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا ہے کہ غزہ کے کراسنگ پوائنٹس کو فی الفور کھولا جائے اور انسانی تنظیموں خصوصاً انروا کو اپنا کام کرنے کی اجازت دی جائے، تاکہ کم از کم جانیں تو بچائی جا سکیں۔ دوسری جانب انروا کے کمشنر جنرل فیلیپ لازارینی نے ایک المناک بیان میں کہا کہ غزہ میں قحط نے ہر گھر کی دہلیز پر دستک دے دی ہے، اب کوئی محفوظ نہیں رہا۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر، نرسیں، صحافی اور امدادی کارکن سب کے سب شدید بھوک میں مبتلا ہیں۔ لازارینی نے کہا کہ "اب تو وہ لوگ بھی جنہیں دوسروں کی دیکھ بھال کرنی تھی، خود کسی نگہداشت کے محتاج ہوچکے ہیں۔” انہوں نے بتایا کہ کئی افراد بھوک، کمزوری اور تھکن کے باعث دورانِ کام بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ کچھ صحافی ہیں، جو ظلم و جور کی رپورٹنگ کے دوران گِر پڑتے ہیں، کچھ ڈاکٹر ہیں، جو اپنی سانسیں بچاتے بچاتے دوسروں کا علاج چھوڑ دیتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ساری صورتحال میں مسلم دنیا کے حکمران کہاں ہیں۔؟ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اس بات کو کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ غزہ کے قاتلوں میں اسرائیلی غاصب فوج کے ساتھ ساتھ یہ سب حکمران بھی برابر کے شریک جرم ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • دودھ نہ ملنے پر غزہ میں 40 ہزار بچوں کی اموات کا خدشہ
  • بارہ روزہ جنگ نے ایران کو دوبارہ متحد کر دیا، فرانسیسی ماہر
  • حماس رہنما جنگ بندی پر راضی نہیں، وہ مرنا چاہتے ہیں اور اسکا وقت آگیا؛ ٹرمپ کی دھمکی
  • فرانس؛ اسرائیل کیخلاف لبنانی مزاحمت کے ہیرو ابراہیم عبداللہ 40 سال بعد قید سے رہا
  • غزہ میں اب صحافی بھی بھوک سے مرنے لگے ہیں، عالمی نشریاتی ادارے اسرائیل پر برس پڑے
  • غزہ کو بھوکا مارنے کا منصوبہ، مجرم کون ہے؟
  • کچھ حقائق جو سامنے نہ آ سکے
  • تنازعہ فلسطین اور امریکا
  • امریکہ و اسرائیل امن کیبجائے فلسطین کی نابودی کے درپے ہیں، سید عبدالمالک الحوثی
  • اسرائیل کیساتھ جنگ کیلئے تیار، پر امن مقاصد کیلئے جوہری پروگرام جاری رہے گا، ایرانی صدر