سلطان راہی اپنی مثال آپ تھے
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
ہر سال جنوری کا مہینہ فلم اسٹار سلطان راہی کی یاد دلاتا ہے، ان کی زندگی کا چراغ بجھا تو کئی گھرانوں پر اس کا اثر پڑا، دراصل وہ خاموشی سے لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ سلطان راہی تو فن کے شہید تھے، ان کی کسی شخص سے کوئی عداوت نہیں تھی وہ اپنے لیے نہیں بلکہ لوگوں کے لیے شب و روز اسٹوڈیو میں کام کرتے تھے پھر فلم انڈسٹری پر زوال آ گیا، فلم پروڈیوسر، ڈرامہ پروڈکشن میں آ کر ڈرامہ سیریل بنانے لگے۔
ایک دن ایسا بھی آیا کہ اردو فلمیں بننا بند ہوگئیں۔ سلطان راہی انڈسٹری کے اکلوتے فنکار تھے جن کی وجہ سے ایورنیو اور شباب اسٹوڈیو میں دن رات شوٹنگ ہوتی۔ سلطان راہی نے کولہو کے بیل کی طرح کام کیا کہ مزدوروں اور ناداروں کے گھر آباد رہیں کبھی کسی فلم ساز سے معاوضے کے حوالے سے بحث یا ناراضگی کا اظہار نہیں کیا جس نے جو دیا خاموشی سے لے لیا، کبھی کسی پروڈیوسر سے بقایا واجبات کا تقاضا نہیں کیا۔
وہ پاکستان کے واحد اداکار تھے جو عمر رسیدہ ہونے کے باوجود کم عمر ہیروئن کے مقابل بڑی کامیابی سے کام کرتے۔ 1970 سے لے کر 1996 تک انھوں نے پنجابی فلموں کے سپر اسٹارکی حیثیت کو برقرار رکھا، انھوں نے پنجاب میں پنجابی فلموں کے حوالے سے انڈسٹری پر راج کیا۔ پروڈیوسر حضرات ان کی بہت عزت کرتے تھے مگر انھوں نے کبھی تکبرکا مظاہرہ نہیں کیا۔ انتہائی نیک انسان تھے شکل اور جسمانی لحاظ سے وہ ہیرو نہیں لگتے تھے۔ 1990 کے بعد عمر رسیدہ بھی ہوگئے تھے مگر پاکستان میں ان کے پرستاروں کی تعداد لاکھوں میں نہیں،کروڑوں میں تھی، جس میں صوبہ پنجاب قابل ذکر تھا۔
سلطان راہی بھارت کے صوبے یوپی (سہارن پور) میں پیدا ہوئے، پیار سے انڈسٹری میں لوگ انھیں ’’آغا جی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ راقم کی ان سے تفصیلی ملاقاتیں لاہور اورکراچی میں کئی مرتبہ ہوئیں۔ کراچی میں بننے والی فلم ’’سڑک‘‘ کے حوالے سے ان سے کراچی کے ایک بڑے مقامی ہوٹل میں ہوئی، ان ہی دنوں میں ایک ناخوشگوار واقعہ کراچی میں ہوگیا تھا جس کی وجہ سے ’’سڑک‘‘ کی شوٹنگ نہ ہو سکی اور ہماری ان سے تقریباً 2 گھنٹے طویل ملاقات ہوئی دوپہرکا کھانا ہم نے سلطان راہی کے ساتھ کھایا انھوں نے اپنے ایک خاص پرستار اقبال راہی کو بزنس روڈ بھیجا اور وہاں سے پائے اور نہاری منگوائی۔
سلطان راہی ہر لحاظ سے بہترین انسان تھے دوران انٹرویو خوش گفتاری اور خوبصورت اردو سننے کے بعد حیرت زدہ تھا کہ پنجابی فلم کے سپرہٹ ہیرو اور اردو اتنی لاجواب کہ ہم نے ان سے برجستہ پوچھ لیا کہ ’’ راہی صاحب ! آپ کی اردو اتنی لاجواب ہے کہ بیان سے باہر‘‘ زور سے ہنستے ہوئے کہا کہ ’’ بیٹا کمال کرتے ہو جب پاکستان بنا تو میں دس سال کا تھا میری مادری زبان اردو ہے اور میرا تعلق یوپی سے ہے۔ ہجرت کرکے والدین راولپنڈی آگئے تھے میرا ایک غریب گھرانے سے تعلق تھا۔ اچھے نمبروں میں میٹرک کیا۔ راولپنڈی کے صدر بازار میں ایک دکان میں سیل مین کی حیثیت سے کام کرتا تھا، دکان کے مالک فرحت صاحب تھے جو بہت نیک آدمی تھے اور میرا بہت خیال رکھا کرتے تھے۔
1968 تک زندگی بہت محنت طلب رہی پھر فلمی صنعت کا رخ کیا اور یہاں اخلاق احمد انصاری نے مجھے رہائش دی جو عمر رسیدہ تھے اور ہمارے والد صاحب کے جاننے والے تھے، ان کا تعلق دہلی سے تھا، انھوں نے مجھے رہنے کے لیے ایک بہت خوبصورت کمرہ دیا اور پھر لاہورکا ہوکر ہی رہ گیا۔ فلم ’’باغی‘‘ میں مسرت نذیر اور سدھیر کے ساتھ کام کیا۔ سدھیر بہت پیارے انسان تھے جونیئر سے بہت محبت سے پیش آتے تھے، سدھیر نے ہی اقبال کاشمیری سے تعارف کروایا اور میں فلم ’’بابل‘‘ میں کاسٹ ہوگیا فلم ریلیز ہوئی اور سپرہٹ ہوئی جس نے میری زندگی بدل دی۔
میں سدھیر کی محبت کا مقروض ہوں وحید مراد نے میری ملاقات ہدایت کار اسلم ڈار سے کروائی انھوں نے فلم ’’بابل‘‘ میں میری کارکردگی دیکھتے ہوئے فلم ’’بشیرا‘‘ میں مرکزی کردار دیا۔ اس فلم نے میری تقدیر بدل دی۔ میں اسلم ڈار کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا پھر ’’ مولا جٹ‘‘ ہٹ ہوئی۔
سدھیر بہت اچھے انسان تھے پیار میں ڈانٹ بھی دیا کرتے تھے۔ اقبال یوسف کی فلم ’’ان داتا‘‘ میں ان سے کئی مرتبہ ڈانٹ کھانے کا اتفاق ہوا۔ اداکار محمد علی اپنی مثال آپ تھے آسیہ نے میرے ساتھ بحیثیت ہیروئن کے کام کیا ۔ آسیہ نے مجھے سدھیر، علی بھیا کو رات کے کھانے پر مدعوکیا۔ ان کی اردو بھی بہت اچھی تھی اور خوب مشکل الفاظ استعمال کرتی تھیں میں نے ایک دن آسیہ سے پوچھ لیا کہ ’’ اردو بہت ہی خوبصورت بولتی ہو واہ ! کیا بات ہے‘‘ تو آسیہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’ میری مادری زبان اردو ہے‘‘ ان کے والدین نے لکھنو سے پاکستان ہجرت کی تھی۔
ممتاز رنگ کے حوالے سے بہت گوری اداکارہ تھیں انھوں نے جب فلم ’’کالیا‘‘ میں کام کیا تو لوگ ہنستے تھے کہ گوری لڑکی کالیا میں کام کر رہی ہے ۔ علی سفیان کے مطابق سلطان راہی نمازی پرہیزگار انسان تھے، انھوں نے اسٹوڈیو میں مسجد بنوائی اکثر امامت کے فرائض انجام دیتے، قرأت بہت اچھی تھی۔ رمضان المبارک میں اسٹوڈیو میں بڑی افطاری کا اہتمام کرتے گھر پر تراویح پڑھایا کرتے تھے۔ یہ بات اداکار یوسف خان نے راقم کو بتائی تھی۔ سلطان راہی نے 500 کے قریب فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے حوالے سے سلطان راہی انسان تھے انھوں نے کام کیا کام کر
پڑھیں:
صرف 22 سال کی عمر میں 3نوجوانوں کو دنیا کے کم عمر ترین ارب پتی بننے کا اعزاز حاصل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا بھر میں نوجوانوں کے لیے یہ خبر کسی خواب کی تعبیر سے کم نہیں کہ صرف 22 سال کی عمر میں تین دوستوں نے اپنی ذہانت، محنت اور ٹیکنالوجی کے شوق سے ارب پتی بننے کا ریکارڈ قائم کر دیا۔
ان تینوں نے امریکی شہر سان فرانسسکو میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس سے متعلق اپنی کمپنی Mercor کی بنیاد رکھی، جو چند ہی برسوں میں دنیا کی معروف اے آئی ریکروٹنگ کمپنیوں میں شمار ہونے لگی۔
فوربز کی تازہ رپورٹ کے مطابق Mercor کے شریک بانی برینڈن فوڈی، آدرش ہیرمیت اور سوریا مدھیہ اب دنیا کے کم عمر ترین سیلف میڈ بلینئرز بن چکے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان تینوں کی عمر صرف 22 برس ہے، یعنی اس عمر میں جب زیادہ تر لوگ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرتے ہیں، یہ تینوں نوجوان اپنے خوابوں کی سلطنت قائم کر چکے ہیں۔
Mercor نے حال ہی میں 35 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی ہے، جس کے بعد کمپنی کی مجموعی مالیت 10 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ کمپنی کی اس زبردست ترقی نے نہ صرف ٹیکنالوجی کی دنیا کو حیران کیا بلکہ ان تینوں بانیوں کو براہِ راست ارب پتیوں کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔
آدرش ہیرمیت اور سوریا مدھیہ کی دوستی سان فرانسسکو کے Bellarmine College Preparatory میں ہوئی تھی، جہاں دونوں نے تقریری مقابلوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔ سوریا کے والدین بھارت سے امریکا منتقل ہوئے تھے جب کہ ان کی پیدائش امریکا میں ہوئی۔ دوسری جانب آدرش تعلیم کے لیے بھارت سے امریکا گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
ان دونوں کی ملاقات بعد میں برینڈن فوڈی سے اس وقت ہوئی جب آدرش ہارورڈ یونیورسٹی اور سوریا جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں داخلے کی تیاری کر رہے تھے۔ تینوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر Mercor کی بنیاد رکھی اور چند ہی برسوں میں اپنی محنت سے دنیا کو حیران کر دیا۔
انہیں معروف سرمایہ کار پیٹر تھیل نے اپنی فیلوشپ کے ذریعے مالی معاونت فراہم کی، جس کا مقصد نوجوانوں کو تعلیم کے بجائے عملی اختراع کی ترغیب دینا تھا۔ آدرش کے مطابق میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چند ماہ قبل میں محض ایک طالب علم تھا اور آج میری زندگی مکمل طور پر بدل چکی ہے۔
ان سے پہلے 27 سالہ پولی مارکیٹ کے بانی شین کوپلن دنیا کے کم عمر ترین سیلف میڈ بلینئر قرار پائے تھے جب کہ اس سے قبل اسکین اے آئی کے بانی الیگزینڈر وانگ یہ اعزاز 18 ماہ تک سنبھالے ہوئے تھے۔ ان کی شریک بانی لوسی گیو 30 سال کی عمر میں دنیا کی کم عمر ترین سیلف میڈ خاتون ارب پتی بنی تھیں۔
کامیابیوں کی یہ کہانی ثابت کرتی ہے کہ تخلیقی سوچ، ٹیکنالوجی اور جرات مندانہ فیصلے نوجوان نسل کے لیے دنیا کے دروازے کھول سکتے ہیں ۔