عمران خان صدر زرداری سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں، وزیر قانون
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہاہے کہ عمران خان صدر زرداری سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ 190 ملین پاؤنڈز کیس ایک قانونی معاملہ ہے اور تحریک انصاف میں اتنی سیاسی پختگی ہونی چاہیے کہ عدالتی معاملات کو سیاسی معاملات سے نہ جوڑا جائے۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت اس پوزیشن میں نہیں کہ 190 ملین پاؤنڈز کیس میں 14 سال قید کی سزا کے بعد عمران خان کیلیے حکمنانہ جاری کرے مگر ہاں ایک شخص کے پاس یہ اختیار ہے۔ وزیر قانون نے کہا کہ قیدی اور سربراہ مملکت یعنی صدر کے درمیان یہ معاملہ ہوسکتا ہے۔ اگر عمران خان صدر آصف زرداری کو رحم کی اپیل دیں تو وہ انہیں معافی دلا سکتے ہیں۔ آرٹیکل 45 کے تحت سربراہ مملکت کے پاس یہ اختیار ہے اور اس پر عدالتی فیصلے بھی ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
عرب اسلامی سربراہ اجلاس!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-3
9 ستمبر کو دوحا پر اسرائیلی حملے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قطر کے دارالحکومت میں ہونے والا عرب اسلامی سربراہ اجلاس حسب ِ توقع، نشستند، گفتند، برخواستند ثابت ہوا۔ 15 ستمبر کو منعقد ہونے والا عرب اسلامی سربراہ اجلاس عرب شیوخ کی جھاگ اُڑاتی تقریروں، مسلم حکمرانوں کی شعلہ بیانی، لقلقہ لسانی، اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی حسرتِ ناتمام اور ایک مردہ اعلامیے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اجلاس میں قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت اور قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان کیا گیا۔ اجلاس سے قبل عرب اور اسلامی وزرائے خارجہ کا اجلاس بھی ہوا جس میں حملے کو اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی قراردیا گیا۔ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد اَل ثانی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے 25 نکاتی مشترکہ اعلامیے میں سوائے مذمت اور مطالبات کے کچھ بھی نہیں، یہ اجلاس نہ امت مسلمہ کے احساسات و جذبات کا ترجمان ثابت ہوا نہ ہی نہتے مظلوم فلسطینیوں کے دکھوں کا مداوا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ 25 نکات پر مشتمل مشترکہ اعلامیے میں کہیں بھی کھل کر غزہ پر اسرائیل جارحیت اور قتل وغارت گری کی مذمت نہیں کی گئی اور نہ ہی حماس اور غزہ کے دیگر مزاحمت کاروں سے یکجہتی کا اظہار کیا گیا، انتہائی مبہم انداز میں صرف اتنا کہا گیا کہ: ’’اسرائیلی پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہیں جنہوں نے فلسطینی عوام کے خلاف انسانی تباہی کا ایک ناقابل یقین منظر پیش کیا ہے‘‘۔ اعلامیے میں نیو یارک ڈیکلریشن کی حمایت کی گئی جس کے تحت دو ریاستی حل کا فارمولا پیش کیا گیا تھا، اعلامیے میں امریکا کی ثالثی کی کوششوں کی بھی تعریف کی گئی۔ یہ اْس اجلاس کا حال ہے جس کے انعقاد سے قبل یہ امید کی جارہی تھی کہ دنیا بھر کے مسلم حکمران اب اسرائیل کے دانت کھٹے کردیں گے، مبصرین بھی یہ خیال کیے بیٹھے تھے کہ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد وہ اسرائیل کے خلاف فیصلہ کن ردِعمل دیں گے، مگر نتیجہ! وہی ڈھاک کے تین پات۔ حقیقت یہ ہے کہ وہن کے مرض میں مبتلا ان حکمرانوں سے غیرت و حمیت کی توقع کارِ عبث کے سوا کچھ نہیں، ان کا حال اس الہامی حقیقت کا ترجمان ہے کہ ’’انہیں دیکھو تو اِن کے جْثّے تمہیں بڑے شاندار نظر آئیں۔ بولیں تو تم ان کی باتیں سْنتے رہ جاؤ۔ مگر اصل میں یہ گویا لکڑی کے کْندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چْن کر رکھ دیے گئے ہوں‘‘۔ اجلاس میں غزہ میں جاری اسرائیل درندگی کے سدباب، اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدام اور شام، یمن، ایران، لبنان اور قطر میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف کوئی عملی ٹھوس، سنجیدہ اور ممکنہ اقدامات کا اعلان نہیں کیا۔ آج شہر ِ تہذیب کے پیچ چوراہے پر اسرائیلی درندگی کا برہنہ رقص جاری ہے اور مسلم حکمران منہ کھولے ہونقوں کی طرح اس پر محو ِ تماشا ہیں۔ حماس مزاحمت کی وہ آخری دیوار ہے جو خاکم بدہمن زمیں بوس ہوئی تو اسرائیل جنگلی بھینسے کی طرح ڈکراتا ہوا عرب ریاستوں کی آزادی اور خودمختاری کو روند ڈالے گا، اس حقیقت ادارک جنتی جلد ممکن ہو کر لینا چاہیے اور اس طوفانِ بلاخیر کا راستہ روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات اقدامات اٹھانے چاہییں، خالی خولی زبانی دعوؤں، مذمت، قرارداد اور مطالبات سے کبھی بھی جارح کے آگے بند نہیں باندھا جاسکتا، جارح صرف آہنی پنجوں کا احترام ہی جانتا ہے۔