Nai Baat:
2025-09-18@21:28:16 GMT

اچھی معیشت گڈ گورننس کے لیے ناگزیر

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

اچھی معیشت گڈ گورننس کے لیے ناگزیر

معاشیات کا قدیم تصور یہ ہے کہ اسے دولت کا علم قرار دیا جاتا تھا۔ ہمارے معاشرے میں یہ تصور آج بھی کافی حدتک موجود ہے جس کی وجہ سے ایک عام آدمی معیشت کے بنیادی عقائد کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا علاوہ ازیں ریاستی ماہرین کی طرف سے معاشی معاملات کی وضاحت کے لیے جو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں وہ عوام الناس کے لیے ناقابل فہم ہیں لہٰذا کوئی سمجھنا چاہیے بھی تو یہ اس کے لیے آسان نہیں ہوتا بلکہ یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ معیشت کی بات آتی ہے تو اعداد و شمار عام صارفین کا راستہ روک لیتے ہیں حالانکہ حکومتیں تحریف کردہ اعداد و شمار کے ذریعے عام آدمی کو قائل کرنے کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں۔ عوامی نفسیات یہ ہے کہ انسان جب کنفیوژہو جاتا ہے تو پھر وہ غیر حقیقی معلومات کا بھی قائل ہو جاتا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ آج کے دور میں عوام کا معیشت کے بنیادی اصولوں سے واقف ہونا ناگزیر ہے تا کہ انہیں سرمایہ داروں کا رپوریٹ طبقے اور حکومتوں کی حیلہ بازیوں کا علم ہو سکے کہ کس کس طرح عوام کا استحصال جاری رہتا ہے اور انہیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا ہے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) کے سابق پروفیسر ڈاکٹر فہد رحمن کا شمار ان ماہرین معاشیات میں ہوتا ہے جن کا فوکس یہ ہے کہ عام آدمی کے لیے معیشت کی ABC سمجھے بغیر قطعی طور پر کوئی چارہ نہیں۔ جب تک وہ نہیں سمجھیں گے وہ سیاسی قیادت کی معاشی پالیسی اور سیاستدانوں کی عوام سے متعلق خیر خواہی کا پردہ چاک نہیں کر سکیں گے۔ ہر الیکشن کے موقع پر ووٹرز اگر پارٹیوں کی معاشی کارکردگی یا اگلے الیکشن کے لیے سیاسی منشور کی کسوٹی بنائیں تو یقینا اس سے ملک میں عوام دوست قیادت اقتدار میں آسکتی ہے۔
محترم ڈاکٹر فہد رحمن نے یونیورسٹی آف نیو ساو¿تھ ویلز آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی کی ہے اس سے پہلے انہوں نے جاپان کی معتبر یونیورسٹی GRIPS سے پالیسی سٹیڈیز میں ماسٹرز کیا اور کافی عرصہ تک پاکستان کے سرکاری ادارے سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈویلپمنٹ اتھارٹی SMEDA میں فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کی حال ہی میں شائع ہونے والی انگریزی کتاب "Pakistan Structural Economic Problems in the Era of Financial Globalization عکس پبلی کیشن لاہور نے شائع کی ہے۔ یہ کتاب غیر روایتی انداز میں سادہ اور عام فہم زبان میں ہے جس میں بھاری بھر کم معاشی اصطلاحات سے گریز کیا گیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے قاری کا اکانومسٹ یا ریسرچر ہونا ضروری نہیں۔ کتاب کے شروع میں جی سی یونیورسٹی لاہور کے ہسٹری کے پروفیسر ڈاکٹر محترم عرفان وحید عثمانی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی انڈیا کے پروفیسر امیت بہادری کے خیالات درج کیے گئے ہیں جنہیں پڑھ کر اس کتاب کا مطالعہ کرنے کا فطری تجسس پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ Grips جاپان کے پروفیسر ڈاکٹر امداد حسین نے کتاب پر اپنا مختصر تجزیہ رقم کیا ہے۔
ڈاکٹر فہد رحمن کہتے ہیں کہ عام طور پر کسی ملک کی معاشی پرفارمنس کا اندازہ لگانے کے لیے ملک کی جی ڈی پی یا فی کس قومی آمدنی کو ایک indicator سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اگر جی ڈی پی بڑھ رہی ہے تو ملک ترقی کر رہا ہے لیکن اس کے برعکس کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ درست نہیں ہے کیونکہ حکومتیں اعداد و شمار کے بارے میں سمجھ مبالغہ آمیزی کام لیتی ہیں لہٰذا اس کی بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ کوئی حکومت تعلیم صحت نکاسی¿ آب اور سماجی ڈھانچے پر کتنا خرچ کر رہی ہے۔ ڈاکٹر فہد رحمن کے مطابق انہوں نے کوشش کی ہے کہ فنانشل گلوبلائزیشن کے اس دور میں معیشت کے سٹرکچرل ایشوز کو منظر عام پر لایا جائے۔
مصنف کا خیال ہے کہ غیر مستحکم معاشی اور سیاسی حالات کی وجہ سے روزگار کے حصول کے لیے دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت سماجی ڈھانچے پر دو طرح سے اثر انداز ہو رہی ہے ایک تو شہری زندگی پر دباو¿ بڑھتا جا رہا ہے دوسرا اہل افرادی قوت کی نقل مکانی سے دیہات میں ترقی اور بہتری کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر فہد رحمن پہلے معیشت دان بھی جو برین ڈرین کے مقامی اثرات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
کتاب کے شروع میں معیشت کے روایتی اور غیر روایتی Formal & Informal شعبوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملازمتوں کے ضمن میں 72 فیصد سے زیادہ افرادی قوت informal سیکٹر میں کام کر رہی ہے۔ یہ 2021 ءکے اعداد و شمار ہیں۔
ڈاکٹر فہد رحمن کی کتاب کا سب سے اہم موضوع فنانشل گلوبلائزیشن ہے جو ہماری قومی معیشت پر سب سے زیادہ گہرے اثرات مرتب کیے ہوئے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اس گلوبلائزیشن کا حصہ بن رہے ہیں جبکہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے لیے اس میں رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایکسچینج ریٹ اور شرح سود اس کی مثالیں ہیں جو گلوبلائزیشن کی وجہ سے کافی تغیر پذیر ہیں اس سے زرعی شعبے میں منفی اثرات پڑتے ہیں۔
Multiple Financial Institutions یا MFIs کو مصنف نے کافی تفصیل سے ان کی معاشی مداخلت کو اجاگر کیا ہے ان سے مراد بین الاقوامی قرضہ دینے والے ادارے بشمول آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک شامل ہیں جو ایسی پالیسیاں زبردستی تھوپ دیتے ہیں جو طویل مدتی طور پر بجائے فائدے کے نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ ڈاکٹر فہد رحمن کا کہنا ہے کہ قومی معاشی مسائل کے حل کے لیے ہمیں MFis کی بجائے مقامی ماہرین پر انحصار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سٹرکچرل ریفارمز کے نتیجے میں عوام کی زندگی پر آنے والے منفی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر فہد رحمن کہتے ہیں کہ ہر ملٹری اور سول حکومت آئی ایم ایف کے پاس قرضہ لینے پر مجبور ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ جب حکومت قرضہ لیتی ہے تو اپوزیشن اس کی مخالفت کرتی ہے اور کشکول جیسے الفاظ استعمال کرتی ہے۔ حالانکہ ان کے بغیر ادائیگیوں کا توازن ناممکن ہے البتہ میکرو اکنامک ریفارم کے نام پر کیے گئے اقدامات معیشت کی نشوونما کا عمل بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔
کتاب کے دوسرے حصے میں انہوں نے پاکستان کے سٹرکچرل معاشی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے 5 شعبوں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے جس میں ناقابل برداشت حد تک مہنگی بجلی، زوال اور جمود پذیری کا شکار زرعی شعبہ، اوسط درجے کا انڈسٹریل سیکٹر، زرمبادلہ کے حصول میں رکاوٹیں اور لاقانون رئیل سٹیٹ سیکٹر شامل ہیں۔ مذکورہ بالا ہر شعبے پر الگ سے تفصیلی بحث درکار ہے۔ ڈاکٹر فہد رحمن نے ان سب شعبوں پر اپنی گراں قدر تجاویز دی ہیں جن پر حکومت کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
سٹرکچرل یا ڈھانچہ جاتی مسائل اور ان کے حل کے فقدان کے نتائج کو انہوں نے الگ چیپٹر میں رقم کیا ہے جس میں ادائیگیوں کا بحران، افراط زر اور جائیداد کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ شامل ہیں۔
اگر حکومتی وزراءیا مشیران حکومت میں سے کوئی شخصیت اس کتاب کا غیر جانبداری اور غیر سیاسی انداز میں مطالعہ کرتے تو اس میں مذکورہ تمام پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے واضح تجاویز دی گئی ہیں۔ معیشت حکمرانی کا اہم ترین شعبہ ہے۔ ملک میں معاشی حالت تبدیل کیے بغیر حقیقی تبدیلی کا تصور بے معنی ہے اور معیشت کو سمجھنے کے لیے آپ ماہرین کی رائے کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کی معاشی معیشت کے انہوں نے یہ ہے کہ رہی ہے کے لیے

پڑھیں:

صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) دنیا میں صنفی مساوات کی جانب پیشرفت سنگین مسائل کا شکار ہے اور اس کی قیمت انسانی جانوں، حقوق، اور مواقع کی صورت میں ادا کی جا رہی ہے۔ اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو رواں دہائی کے آخر تک 351 ملین سے زیادہ خواتین اور لڑکیاں شدید غربت کا شکار ہوں گی۔

اقوام متحدہ کے شعبہ معاشی و سماجی امور اور خواتین کے لیے ادارے 'یو این ویمن' کی جانب سے پائیدار ترقی کے اہداف سے متعلق شائع کردہ رپورٹ کے مطابق اس وقت صنفی مساوات کے بارے میں کسی بھی ہدف کا حصول ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین میں غربت کی شرح گزشتہ پانچ برس میں تقریباً 10 فیصد پر ہی برقرار ہے۔ اس غربت سے سب سے زیادہ متاثرہ خواتین ذیلی صحارا افریقہ اور وسطی و جنوبی ایشیا میں رہتی ہیں۔

(جاری ہے)

گزشتہ سال ہی 67 کروڑ 60 لاکھ خواتین اور بچیاں ایسے علاقوں میں یا ان کے قریب رہتی تھیں جو مہلک تنازعات کی زد میں تھے۔ یہ 1990 کی دہائی کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔

جنگ زدہ علاقوں میں پھنس جانے والی خواتین کے لیے صرف بے گھر ہونا ہی مسئلہ نہیں بلکہ ان کے لیے خوراک کی قلت، طبی خطرات اور تشدد میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد اب بھی دنیا بھر میں سب سے بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔گزشتہ سال ہر آٹھ میں سے ایک خاتون کو اپنے شریکِ حیات کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ہر پانچ میں سے ایک نوجوان لڑکی 18 سال کی عمر سے پہلے بیاہی گئی۔

علاوہ ازیں، ہر سال تقریباً 40 لاکھ بچیوں کو جنسی اعضا کی قطع و برید کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں سے نصف کی عمر پانچ سال سے کم ہوتی ہے۔ UN Photo/Manuel Elías بہتری کی مثال

مایوس کن اعداد و شمار کے باوجود، رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب حکومتیں صنفی مساوات کو ترجیح دیتی ہیں تو کیا کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔

2000 سے اب تک زچگی کے دوران اموات میں تقریباً 40 فیصد کمی آئی ہے اور لڑکیوں کے لیے سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے امکانات پہلے سے کہیں بڑھ گئے ہیں۔

یو این ویمن میں پالیسی ڈویژن کی ڈائریکٹر سارہ ہینڈرکس نے یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب وہ 1997 میں زمبابوے منتقل ہوئیں تو وہاں بچے کی پیدائش زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتی تھی۔

تاہم، آج وہاں یہ صورتحال نہیں رہی اور یہ صرف 25 یا 30 سال کے عرصے میں ہونے والی شاندار پیش رفت ہے۔صنفی ڈیجیٹل تقسیم

صنفی مساوات کے معاملے میں جدید ٹیکنالوجی نے بھی امید کی کرن دکھائی ہے۔آج 70 فیصد مرد انٹرنیٹ سے جڑے ہیں جبکہ خواتین کی شرح 65 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اگر یہ ڈیجیٹل فرق ختم کر دیا جائے تو 2050 تک مزید 34 کروڑ 35 لاکھ خواتین اور بچیاں انٹرنیٹ سے مستفید ہو سکتی ہیں اور 3 کروڑ خواتین کو غربت سے نکالا جا سکتا ہے۔

اس طرح 2030 تک عالمی معیشت میں 1.5 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہو گا۔

یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث کا کہنا ہے کہ جہاں صنفی مساوات کو ترجیح دی جاتی ہے وہاں معاشرے اور معیشتیں ترقی کرتے ہیں۔ صنفی مساوات پر کی جانے والی مخصوص سرمایہ کاری سے معاشروں اور معیشتوں میں تبدیلی آتی ہے۔ تاہم، خواتین کے حقوق کی مخالفت، شہری آزادیوں کو محدود کیے جانے اور صنفی مساوات کے منصوبوں کے لیے مالی وسائل کی کمی نے برسوں کی محنت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

معلومات میں کمی کا مسئلہ

یو این ویمن کے مطابق، اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو خواتین پالیسی سازی اور ڈیٹا میں نظروں سے اوجھل رہیں گی کیونکہ جائزوں کے لیے مہیا کیے جانے والے مالی وسائل میں کمی کے باعث اب صنفی امور پر دستیاب معلومات میں 25 فیصد کمی آ گئی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے اقتصادی و سماجی امور لی جن ہوا نے کہا ہے کہ اگر نگہداشت، تعلیم، ماحول دوست معیشت، افرادی قوت کی منڈی اور سماجی تحفظ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تیز رفتار اقدامات کیے جائیں تو 2050 تک شدید غربت میں مبتلا خواتین اور بچیوں کی تعداد میں 11 کروڑ کی کمی ممکن ہے اور اس کے نتیجے میں 342 ٹریلین ڈالر کے معاشی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔

© UNICEF/Maldives امن، ترقی اور حقوق کی بنیاد

تاہم اس حوالے سے موجودہ پیش رفت غیر متوازن اور تکلیف دہ حد تک سست ہے۔

دنیا بھر میں خواتین کے پاس صرف 27.2 فیصد پارلیمانی نشستیں ہیں جبکہ مقامی حکومتوں میں ان کی نمائندگی 35.5 فیصد پر آ کر تھم گئی ہے۔ انتظامی عہدوں میں خواتین کا حصہ صرف 30 فیصد ہے اور موجودہ رفتار سے دیکھا جائے تو حقیقی مساوات حاصل کرنے میں تقریباً ایک صدی لگ سکتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنفی مساوات کوئی نظریہ نہیں بلکہ یہ امن، ترقی، اور انسانی حقوق کی بنیاد ہے۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اہم ترین ہفتہ شروع ہونے سے قبل جاری کردہ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اب صنفی مساوات کے لیے فیصلہ کن اقدام کا وقت آ پہنچا ہے۔ اب یا تو خواتین اور لڑکیوں پر سرمایہ کاری کی جائے گی یا ایک اور نسل ترقی سے محروم رہ جائے گی۔

سارہ ہینڈرکس نے عالمی رہنماؤں کو 'یو این ویمن کا پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ تبدیلی ممکن ہے اور نیا راستہ بھی موجود ہے لیکن یہ خودبخود حاصل نہیں ہو گی۔

یہ تبھی ممکن ہے جب دنیا بھر کی حکومتیں سیاسی عزم اور پختہ ارادے کے ساتھ صنفی مساوات، خواتین کے حقوق اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے کام کریں گی۔

رپورٹ میں 2030 تک تمام خواتین اور لڑکیوں کے لیے صنفی مساوات کی خاطر چھ ترجیحی شعبوں میں کام کی سفارش کی گئی ہے جن میں ڈیجیٹل انقلاب، غربت سے آزادی، تشدد سے مکمل تحفظ، فیصلہ سازی میں برابر شرکت، امن و سلامتی اور ماحولیاتی انصاف شامل ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • فارم 47 والے پی پی کی کرپشن اور بیڈ گورننس کا نوٹس لے کر کراچی کو تباہ ہونے سے بچائیں، آفاق احمد
  • ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا پاک سعودی دفاعی معاہدے کا خیر مقدم
  • لیڈی ڈاکٹر نے نالے میں چھلانگ لگا لی، وجہ کیا بنی؟
  • مساوی محنت پھر بھی عورت کو اجرت کم کیوں، دنیا بھر میں یہ فرق کتنا؟
  • زائد پالیسی ریٹ سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے،امان پراچہ
  • پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح صفر ہو جانے کا خدشہ
  • معیشت کی مضبوطی کےلیے ڈیجیٹائزیشن ناگزیر ہے،وزیراعظم شہباز شریف
  • صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ
  • پاکستان اور ایران میں دو طرفہ تجارت بڑھانا ناگزیر ہے، رحمت صالح بلوچ
  • بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا گھٹیا حرکت، اسرائیل کا محاسبہ ناگزیر ہوگیا ہے، محمود عباس