ایران اور روس کے درمیان جامع اسٹریٹجک پارٹنر شپ معاہدہ طے پاگیا WhatsAppFacebookTwitter 0 18 January, 2025 سب نیوز

ماسکو (آئی پی ایس )ایران اور روس کے درمیان جامع اسٹریٹجک پارٹنر شپ معاہدہ طے پاگیا۔ غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعہ کو ایران کے صدر مسعود پزشکیان کے دورہ روس کے دوران دونوں ممالک کے صدور نیکریملن میں معاہدیپر دستخط کیے۔معاہدے میں سکیورٹی سروسز، فوجی مشقوں،افسران کی ٹریننگ میں تعاون شامل ہے جبکہ معاہدے کے مطابق ایران اور روس ایک دوسرے کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

معاہدے میں کہا گیا کہ ایران یا روس پر حملہ آور کسی ملک کو فوجی امدادفراہم نہیں کی جائیگی،دونوں ممالک ایک دوسرے کو لاحق فوجی خطرات سے مل کر نمٹ لیں گے۔اس موقع پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایران میں 2 نیوکلیئر پاور پلانٹ لگانے کا اعلان کرتے ہوئیکہا کہ ایران کے لیے نئے جوہری ری ایکٹرز کی تعمیر میں تاخیر کے باوجود مزید جوہری منصوبے شروع کرنے کو تیار ہیں۔ معاہدے سے دوسروں کی پیدا کردہ مشکلات پر قابو پانے اور آگے بڑھنے کے قابل ہوسکیں گے۔روسی صدر کا کہنا تھا کہ طویل عرصے سے ہم بین الاقوامی میدان میں اپنی کوششوں کو مربوط کر رہیہیں،

ہمیں بیوروکریسی کی کم اور ٹھوس اقدامات کی زیادہ ضرورت ہے۔صدر پیوٹن نے کہا کہ ایران کو مسلسل آگاہ کرتے رہے ہیں کہ یوکرین میں کیا ہو رہا ہے، مشرق وسطی میں رونما ہونے والے واقعات پر بھی قریبی مشاورت کرتے رہے ہیں، روس سے آذربائیجان کے راستے ایران تک گیس پائپ لائن پر کام مشکلات کے باوجود آگے بڑھ رہا ہے۔ دوسری جانب ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے کہا کہ آج کے معاہدے ایک کثیر قطبی دنیا کی تشکیل کا محرک ہیں، جنگ مسائل کا حل نہیں، امید ہے یوکرین جنگ مذاکرات کی میز پر ختم ہوگی، روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات اور امن کے حصول کا خیر مقدم کریں گے۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: ایران اور روس کے درمیان روس کے

پڑھیں:

شملہ معاہدہ کی اہمیت و افادیت

وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے پچھلے دنوں شملہ معاہدے کے غیر فعال ہونے پر ایک ایسا بیان دیا جس پر ہمارے یہاں بہت سے تبصرہ نگاروں نے انھیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ موصوف نے شملہ معاہدے کے متعلق صرف اتنا کہا کہ اس معاہدہ کی اب کوئی حیثیت نہیں رہی اور لائن آف کنٹرول اب سیز فائر لائن ہوچکی ہے۔

ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاہدہ پر وہی کچھ اپلائی ہوگا جو سندھ طاس معاہدہ پر ہوگا۔ دیکھا جائے تو یہ ایک حقیقت پسندانہ بیان تھا جسے ہمیں زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھنا چاہیے تھا، مگر تنقید کرنے والوں نے حسب دستور اپنا فرض نبھایا اور بیان کی گہرائی میں جائے بغیر خواجہ آصف کی زبانی خوب عزت افزائی کی۔ دیکھا جائے تو ان کا یہ بیان کوئی غیر ذمے دارانہ ہرگز نہیں تھا۔ پچاس سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے اس معاہدہ کو معرض وجود میں آئے ہوئے۔

اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ازخود بھارت جانے کا فیصلہ کیا اور اندرا گاندھی کو ایک ایسے بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کے لیے راضی اور مجبور کردیا جس کے ذریعے ہمارے قیدیوں کی باعزت رہائی اور واپسی ممکن ہوپائی۔

جواب میں ہمیں اپنے اس مؤقف سے پیچھے ہٹنا پڑا جس پر ہم کئی دہائیوں سے ڈٹے ہوئے تھے یعنی کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی منظور شدہ اس قرارداد سے پیچھے ہٹنا پڑا جس کے تحت کشمیر کا مسئلہ وہاں کے لوگوں کے حق خود ارادی سے حل کیا جانا تھا، مگر شملہ معاہد ے میں اس کا کوئی ذکر نہیں شامل کیا گیا بلکہ یہ کہا گیا کہ اب یہ مسئلہ بھارت اور پاکستان باہم ملکر بات چیت کے ذریعے حل کریں گے۔

یہ طے ہونا یقینا بھارت کے لیے بہت ہی خوش آیند اور ایک اور بڑی کامیابی تھی، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ حق خود ارادی یا خود اختیاری کے ذریعے اگر یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی گئی تو اُسے یقینا شکست کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ معاہدہ اس کے لیے ایک بڑی نعمت ثابت ہوا اورجس کے بعد پاکستان اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے جانے کے قابل نہیں رہا۔

پاکستانی عوام نے اس شملہ معاہدہ کو اس وقت اس لیے قبول اور منظور کرلیا کیونکہ پاکستان اس وقت سقوط ڈھاکا کے بعد اس پوزیشن میں ہرگز نہ تھا کہ اپنی مرضی چلاسکے۔ ہمیں اپنے 90 ہزار قیدیوں کی رہائی چاہیے تھی اور ہمارے جن علاقوں پر بھارت قابض ہوچکا تھا انھیں اس سے آزاد کروانا بھی مقصود تھا۔ لٰہذا پوری قوم نے اس معاہدے کو طوعا وکرہاً قبول کرلیا۔ ہم اگر اپنے سخت مؤقف پر اس وقت ڈٹے رہتے تو شاید مزید پریشانیوں میں الجھ جاتے ، مگر وقت گزرتا رہا اور بھارت ہمارے سروں پر سوار ہوتا رہا۔ وہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے انکار کرتا رہا اور شملہ معاہدے کے مطابق باہم مل جل کر بھی حل کرنے پر رضامند نہ ہوا۔

وہ اپنی من مانیاں کرتا رہا اور ہمیں ہر طرح سے اپنے دباؤ میں لانے کی کوششیں کرتا رہا۔ 1974 میں اس نے ایٹمی دھماکے کرکے خود کو ہماری نسبت مزید طاقتور ثابت کرکے عالمی طاقت کا روپ دھار لیا۔ ہم اس وقت اس پوزیشن میں ہرگز نہ تھے کہ اسے کشمیر کے حل پر راضی کرپائیں۔ ہم خاموش رہے اور یہ مسئلہ آج تک حل نہ ہوسکا۔

ہم شملہ معاہدے کے تحت اس مسئلے کو یو این او میں بھی دوبارہ نہیں لے جاسکتے تھے اور بھارت کو بھی مجبور نہ کرسکے کہ وہ اس معاہدہ کے تحت ہی اس مسئلہ کو حل کردے۔ بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹا رہا اور پچاس برس تک ٹال مٹول کرتا رہا۔ وہ نہ باہم مل جل کراس مسئلہ کو حل کرنے پر راضی ہوا اور نہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیریوں کے حق خود اختیاری کے لیے رضامند ہوا۔

 2019 میں تو اس نے اپنے دستور میں ترمیم کرکے کشمیر کی حیثیت ہی بدل ڈالی اور اسے اپنے ملک کا ایک حصہ قرار دے دیا۔ اب پاکستان کے پاس کون سا آپشن باقی رہ گیا۔ بھارت نہ یو این اور کے قرارداد کے مطابق اس کا حل تلاش کرنا چاہتا تھا اور نہ شملہ معاہدہ کے تحت۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے محاورے پر عمل کرتے ہوئے وہ اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے دفن کردینا چاہتا تھا اور اب بھی یہی چاہ رہا ہے۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم نہ اس مسئلہ کو شملہ معاہدے کے تحت حل کروا سکے اور نہ یو این او کی منظور شدہ قرارداد کے مطابق۔ ہماری مجبوری ہماری کمزوری بن گئی۔

کیونکہ بھار ت ہمارے مقابلے میں ایک بہت بڑا ملک ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑی معیشت بھی بن چکا ہے۔ ہمیں اس کے ہم پلہ بننے میں ابھی بہت وقت درکار ہے۔ دفاعی لحاظ سے تو ہم نے اس وقت برتری حاصل کرلی ہے لیکن معاشی طور پر ہم ابھی اس سے بہت پیچھے ہیں، دنیا اس وقت مفادات کی غلام بنی ہوئی ہے ۔ وہ اس ملک کے خلاف ہرگز نہیں جاسکتی ہے جس سے اس کے مالی اور تجارتی معاملات جڑے ہوئے ہیں۔

ہم بھی دنیا کی ایک بڑی معیشت بن سکتے تھے اگر ہم سن ساٹھ والی دہائی کو تسلسل دے رہے ہوتے ۔ اس وقت ہم بھارت سے بہت آگے نکل چکے تھے اور دنیا کے بہت سے ملک ہماری معاشی پالیسیوں سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ وہ انھیں اپنے یہاں بھی اپنانا چاہ رہے تھے، مگر ہمیں اپنے لوگوں نے ہی برباد کرکے رکھ دیا۔ وہ دن ہے اورآج کا دن ہم ابھی تک اپنی معیشت سدھارنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

 بھارت کو ہم فی الحال کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے مجبور نہیں کرسکتے ہیں لیکن جس طرح اس نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کردیا ہے ہم بھی شملہ معاہدہ کی پابندیوں سے باہر نکل سکتے ہیں۔ شملہ معاہدہ ابھی صرف کاغذوں تک ہی محدود رہ گیا ہے۔ اس کی کسی شق پر بھی عمل نہیں ہو پارہا اور نہ آیندہ اس کی کوئی امید ہے تو پھر ہم اگر اس سے لاتعلق ہوجائیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے ساتھ تو دیگر ممالک بھی دستخط کنندہ ہیں جب کہ شملہ معاہدہ میں تو صرف ہم دو ملک ہی شامل ہیں۔ جب ایک فریق اس پر عمل درآمد سے انکاری ہے تو پھر ایسی صورت میں دوسرا فریق کیا کرے ۔

خواجہ آصف کے بیان پر تنقید کرنے کے بجائے ہمیں اس معاہدہ کی حالیہ حیثیت پر غور کرنا ہوگا۔ صرف آنکھیں بند کرکے اس معاہدے کو سینے سے لگا کر رکھنے کا اگر کوئی فائدہ باقی ہے تو بتایا جائے۔ پچاس سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے اور شاید مزید پچاس سال اور گزر جائیںگے، مگر ہم کیا اس معاہدہ کو یونہی ایک مقدس معاہدہ سمجھ کر وقت ضایع کرتے رہیںگے۔ تنقید کرنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ ہمیں اس پر مکمل عملدرآمد کا طریقہ بھی بتادیں۔ کیا بھارت مسئلہ کشمیر پرکوئی بات سننے کے لیے راضی ہے، وہ جب خود ہی اس مسئلہ کے باہمی حل سے گریزاں ہے تو ہمیں اس سے چھٹکارا حاصل کرکے دوبارہ اقوام متحدہ سے رجوع کرنے میں کیا قباحت ہے۔

ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان کو لے کر جس میں انھوں نے مسئلہ کشمیر کے لیے ثالثی کردار ادا کرنے کی پیش کش کی ہے عالمی فورم پراٹھا کر بھارت کو بات چیت کی میز پرلانے کی کوشش کرنی چاہیے، بھارت کسی اور ملک کی ثالثی سے جتنا دور بھاگتا ہے ہمیں اتنا ہی اسے مجبور کرنا چاہیے کہ وہ اس مسئلہ کے حل کے لیے کسی بھی غیر جانبدار ملک کی ثالثی کو قبول کرلے ۔ وہ اس وقت سفارتی محاذ پر بہت دباؤ میں ہے ہمیں اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پر مزید دباؤ بڑھانا چاہیے، یہ ایک سنہری موقعہ ہے ۔ دیر کردی تو پھر یہ موقع ہاتھ نہیں آئے گا۔

متعلقہ مضامین

  • حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری مذاکرات میں ایران بھی شریک ہے‘امر یکی صدر
  • شملہ معاہدہ کی اہمیت و افادیت
  • یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے جاری مذاکرات میں ایران بھی شامل ہے.صدرٹرمپ
  • حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری مذاکرات میں ایران بھی شریک ہے، ٹرمپ
  • چین اور جنوبی کوریا کی اسٹریٹجک تعاون کی شراکت داری کو  مزید بلندی تک لے جانا چاہئے، چینی صدر
  • پاکستان اور چین کے درمیان بڑا دفاعی معاہدہ: پاکستان کتنے ’خاموش قاتل‘ جے-35 اسٹیلتھ طیارے خریدے گا
  • یوکرین: تازہ حملوں میں روس نے کییف اور اوڈیسا کو نشانہ بنایا
  • روس کا یوکرین پر حملہ‘ 5افراد ہلاک ‘ 20 زخمی
  • روس کا یوکرین پر سب سے بڑا ڈرون حملہ، 479 ڈرون برسادیے
  • آئی این ایف معاہدہ ختم، روس کی جانب سے میزائل پابندی ختم کرنے کا عندیہ