Express News:
2025-07-26@19:43:30 GMT

دو راستے، فیصلہ آپ کا

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

مجموعی طور پر انسانوں کی اکثریت اپنی زندگی میں مشکلات کے مقابلے میں آسانیوں کو ترجیح دیتی ہے لیکن اپنی زبان سے اس بات کا اقرار کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے کیونکہ کوئی انسان اگر محنت پسند نہ ہو تو بھی دنیا کے سامنے ’’ محنت میں عظمت ہے‘‘ کا راگ الاپنا بطورِ انسان اپنا فرض سمجھتا ہے۔

ہر انسان کو دنیا کی سرزمین پر اپنی کامیابی کا جھنڈا گاڑنے کے لیے ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کی محنت درکار ہوتی ہے۔ ذہنی تھکاوٹ بہ نسبت جسمانی مشقت انسان کے اعصاب کو زیادہ متاثرکرتی ہے۔ انسان کی طاقت کا سارا انحصار اُس کے اعصاب پر منحصر ہوتا ہے، اعصابی طور پرکمزور انسان کو کسی صورت طاقتور تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اپنی پیدائش سے لے کر دنیا سے رخصت ہونے تک زندگی کے تمام ادوار میں انسان کے قابلِ توجہ ہر ادھورے کام کو تکمیلی مراحل تک پہنچانے کے لیے دو طرح کے راستے اُس کے منتظر ہوتے ہیں، ایک آسان تو دوسرا تندہی کا تقاضا کرنے والا۔

اکثر انسانوں کا ایسا ماننا ہے کہ صرف کٹھن راہوں کی منزل ہی کامیابی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ جب اُن کا کوئی مقصد یا مطلوبہ شے باآسانی حاصل ہو جائے تو اُنھیں اُس کو پانے کے عمل پر ہی شک ہونے لگتا ہے۔ دراصل قومِ انسانی کی بڑی تعداد کا دشواریوں سے پاک راستوں کی منزل کو ناکامی کی دلدل سمجھنا ایک غلط سوچ کے سوا کچھ نہیں ہے۔

 آسان اور مشکل راستے آگے قدم بڑھاتے ہوئے صحیح اور غلط میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ صحیح اور غلط یا اچھے اور برے راستوں کے کئی معنی نکلتے ہیں، ہر انسان کا صحیح اور غلط کے حوالے سے اپنا ایک الگ نظریہ ہوتا ہے جب کہ یہاں اخلاقی اعتبار سے کیا اچھا اورکیا برا ہے پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انسان بن کر زندگی جینا، انسانی حدود کی خلاف ورزی سے گریز کرنا، اپنے ذاتی فائدے کے لیے دوسرے انسانوں کے حقوق کو ہرگز پامال نہ کرنا، انسانیت کی عالمگیر تعریف ہے۔ صحیح اور غلط دراصل ہر اچھائی اور برائی کی بنیاد بنتے ہیں، وجود کی خوبصورتی اور بدصورتی کا سارا دارومدار اُس کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے۔

صحیح اور غلط راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے، اس معاملے میں دوسرے کا دخل بالکل حیثیت نہیں رکھتا ہے۔ انسان اپنی زندگی قاعدے اور ضابطے کے مطابق گزارنا چاہے تو راہوں کے کنکر بے معنی ہو جاتے ہیں، لیکن اگر وہ خاردار جھاڑیوں سے اپنے وجود کو زخمی کرنے پر تُلا ہو تو اُسے کوئی روک بھی نہیں سکتا ہے۔

انسان اپنی عادتوں کا غلام ہے، انسان کی عادات ہی اُس کی فطرت کو تشکیل دیتی ہیں۔ اچھی اور بری عادتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں اور ہر ایک قسم میں شدت کے اعتبار سے کمی اور زیادتی کا عنصر پایا جاتا ہے۔

صحیح اور غلط راستوں کو اچھے اور برے میں منتقل کرنے کی پہلی سیڑھی سچ اور جھوٹ ہے اور یہی دونوں انسانی زندگی میں رمق یا افلاس لانے کا باعث بھی ثابت ہوتے ہیں۔ سچ زندگی میں ہمیشہ خیر لاتا ہے، ہمارے دینِ اسلام میں سچ کہنا اور سچائی کا ساتھ دینا فرض قرار دیا گیا ہے۔

تلخ سچ محض آغاز میں انسان کے لیے دقت پیدا کرتا ہے مگر بعد میں راحت ہی راحت پہنچاتا ہے جب کہ جھوٹ صرف وقتی طور پر مصیبت سے بچاتا ہے لیکن زندگی بھر بے چینی اور بے سکونی اعصاب پر سوار رکھتا ہے۔ جس انسان کو جھوٹ کا سہارا لینے کی لت پڑ جائے تو وہ نادانستہ بات بہ بات بِلا ضرورت غلط بیانی کرتا پھرتا ہے۔

ایک جھوٹ سو جھوٹ کی وجہ بنتا ہے اور زندگی سے خیرکو رخصت کرتا ہے ساتھ کئی دوسری برائیوں کو جنم دیتا ہے۔ سچ اور جھوٹ جب اپنی حدوں سے تجاوزکر جائیں تو وہ انسان کی فطرت کو ایمانداری یا بے ایمانی کا چوغہ پہنا دیتے ہیں۔ سچائی کے در سے گزرکر جب انسان ایمانداری کے اصول کو دل و جان سے اپناتا ہے تو اُس کے وجود پر ہمہ وقت سکون کا ڈیرا اور زندگی میں روشنی کا راج رہتا ہے۔

دوسری جانب جھوٹ کا کم مدتی سحر کب بے ایمانی کے اندھیرے میں ضم ہو جاتا ہے انسان کو معلوم ہی نہیں چلتا ہے اور جب اُسے ہوش آتا تب تک وہ اندھیرا وحشت ناک ذہنی اذیت میں بدل چکا ہوتا ہے۔

روشنی اور اندھیرے کی یہ جنگ ستائش اور حسد کی خلق کی وجہ بنتی ہے۔ ستائش کی شروعات رشک سے ہوتی ہے جو خالصتاً ایک مثبت احساس ہے۔ ستائش، رشک، سراہنا اور دوسروں کی خوشیوں میں مسرور ہونا انسانیت کی حقیقی ترجمانی کرتا ہے جب کہ حسد انسان کا منتخب کیا گیا ہیجان خیز تجربہ ثابت ہوتا ہے جو اُس کے وجود میں آگ کو سُلگائے رکھتا ہے، دماغ میں آتش فشاں کو مسلسل دہکتا ہے اور وہ سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے۔

اپنے ذات سے ہٹ کر ارد گرد کے لوگوں کی امنگوں کو اہمیت دینا انسان کے ظاہر و باطن کو معطر کرتا ہے، اس کے برعکس اپنا محل تیارکرنے کے چکر میں دوسروں کے مسکن کو تباہ و برباد کرنا خوشنما ظاہرکو بھی بدنما بنا دیتا ہے۔

 قرآنِ پاک میں خالقِ کائنات انسانوں کو صحیح اور غلط کا فرق بتلاتے ہوئے فرماتے ہیں، ’’ اے ایمان والو! شیطان کے راستوں پر نہ چلو اور جو شخص شیطان کے نقوشِ قدم پر چلتا ہے تو وہ یقیناً بے حیائی اور برے کاموں (کے فروغ) کا حکم دیتا ہے، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی (اس گناہِ تہمت کے داغ سے) پاک نہ ہو سکتا لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک فرما دیتا ہے، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘ محبوبِ ربِ جہاں اور خاتم النبیین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سچ اور جھوٹ سے متعلق ارشادِ گرامی ہے، ’’ نیکی اور سچائی جنت میں لے جانے والی چیزیں ہیں جب کہ برائی اور جھوٹ جہنم میں لے جانے والی چیزیں ہیں۔‘‘

عظیم صوفی بزرگ، عالمی شہرتِ یافتہ فارسی شاعر اور مذہب اور فقہ کے بڑے عالم جلال الدین رومی کا جزوی و ابدی استراحت کے بارے میں ایک سنہری قول ہے، ’’ دنیا حاصل کرنا کوئی برائی نہیں لیکن جب دنیا کو آخرت پر ترجیح دی جائے تو پھر سراسر خسارہ ہی ہے۔‘‘ حضرت رومی آسودگی اور دشواری کے موضوع پر شاعری کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

اے! تیری ملاقات ہر سوال کا جواب

بے شک تجھ سے ہر مشکل حل ہوتی ہے

مولانا رومی اچھائی اور برائی کے تضاد کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔

ہم خدا سے ادب کی توفیق چاہتے ہیں

بے ادب خدا کے فضل سے محروم رہا

مختلف شکلوں کے صحیح و غلط کا درمیانی فرق اور اُن سے منسوب راحت و دشواری کی مثبت و منفی طبیعت جو زندگی میں اُجالے یا تاریکی لانے کا اصل فیصلہ کرتی ہے جس کی بدولت انسان کو کلی راحت یا اضطراب نصیب ہوتا ہے۔

انسان کو زندگی میں قدم قدم پر سیاہ اور سفید کی پہچان کروائی جاتی ہے، فائدے اور نقصان سے روبروکیا جاتا ہے، پھولوں کی نرمی اور کانٹوں کی چبھن کو محسوس کروایا جاتا ہے اور بار بارگرنے پر اُٹھنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے لیکن ان سب کے باوجود وہ جنت کی آرائش کے سامنے جہنم کی تپش کا انتخاب کرے تو اُس کی عقل پر ماتم کرنے کے علاوہ اور کچھ کیا بھی نہیں جاسکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: صحیح اور غلط زندگی میں اور جھوٹ انسان کو انسان کے کرتا ہے ہوتا ہے جاتا ہے کے لیے ہے اور

پڑھیں:

جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟

عطاء اللہ ذکی ابڑو

آپ شرابی کے ساتھ چند منٹ گزاریں آپ محسوس کریں گے کہ زندگی بہت آسان ہے ، فقیروں، سادھوؤں یا سنیاسی بابوں کے پاس چلے جائیں ،آپ کو اپنا سب کچھ کسی کو تحفے میں دینے کی خواہش جاگے گی؟ کسی لیڈر سے مل لیں آپ محسوس کریں گے کہ آپ نے اتنا کچھ پڑھ کرابتک جھک ہی ماری ہے ؟ لائف انشورنس ایجنٹ کے سامنے چند منٹ بیٹھیں آپ محسوس کریں گے کہ مرنا کتنا سود مند ہے ؟ تاجروں کی سنیں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کی کمائی آٹے میں نمک کے برابر ہے ؟ سائنسدانوں کی تحقیق دیکھیں گے تو آپ کو اپنی لاعلمی کا احساس ہوگا؟ ایک اچھے استاد سے ملیں گے تو آپ کو دوبارہ طالب علمی کا شوق جاگے گا ؟ غرض کہ آپ جیسی عینک پہنیں گے ویسا ہی آپ کو دکھائی دینے لگے گا ؟ وقت کا یہی تقاضا جو اس واقعے پر بھی پورا اترتا ہے ؟جسے آج آپ کے سامنے پیش کرنے جارہا ہوں ۔یہ واقعہ کوئٹہ کے نواحی گاوں ڈیگاری میں جون کے مہینہ میں پیش آیا، 37 سالہ خانو بی بی اور احسان اللہ نامی لڑکے کی سوشل میڈیا پر ایک جرگہ کے ہاتھوں قتل کی وڈیو وائرل ہوتے ہی ٹی وی پرچند ٹکرز چلے ، خبر گرم ہوئی اورہم نے اسے حقیقت مان کر بنا کچھ سوچے ،سمجھے اس واقعہ کو اپنے اپنے نظریہ سے پرکھنا شروع کردیا کسی نے اس ادھوری کہانی کا پورا سچ جاننے کی جستجو ہی نہیں کی؟ کہتے ہیں آدھا سچ پورے وجود کو برباد کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اسی طرح اس واقعے کا بھی پورا سچ سامنے آنا ابھی باقی ہے ؟ تن تنہا بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں کے بیچ کھڑی نہتی لڑکی اورصرف اس کا آشنا ہی جرگے والوں کی بندوقوں کا نشانہ نہیں تھے دونوں کے قتل کی خبرسننے کے لیے اس کے پیچھے دو قبائل بانو اوراحسان اللہ کی موت کے منتظرتھے۔ اب یہ صرف ایک اکیلی خانو بی بی کی زندگی کا سوال نہیں تھا۔ اس کے پیچھے دونوں قبائل کے لوگوں کی زندگی داؤ پرلگی تھی اس لیے خانو نے ہنسی خوشی بندوق کی گولی سینے سے لگانے کو اپنے لیے تمغہ سمجھا اوراسے گلے لگاکر اپنے قبیلے کے کئی پیاروں کی زندگی بچالی ۔جی ہاں اس کڑی دھوپ تلے تپتے صحرا میں اکیلی خانو بی بی نہیں کھڑی تھی اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بچوں،بھائی، بہن،ماں اورباپ سمیت خاندان کے ایک ایک فرد کا چہرہ سامنے تھا جن کا قرض چکانے اپنے گھر کی دہلیز سے اس صحرا تک آئی تھی ؟ اورہاں شاید یہ اس کے عشق کا امتحان تھا ؟ وہ پہلے سے اپنے عقد میں ایک شوہراورکئی بچوں کو گھر میں اکیلا چھوڑ کراحسان کے ساتھ آئی تھی ؟ خانو پریہ بھی الزام تھا کہ وہ تین ماہ سے اپنے عاشق احسان اللہ کے ساتھ بغیر کسی نکاح کے یعنی کسی بھی ازدواجی تعلق کے بغیر شریعت کے حکم کی نفی کرتے ہوئے دن، رات بسرکررہی تھی ۔خانو اپنے اس عشق کے امتحان میں تو پوری اتر گئی مگر اپنے پیچھے اپنے مجازی خدا،پھول سے کھیلتے پانچ بچوں،ماں، باپ، بہن ،بھائی اوراپنے عاشق کی پہلی بیوی جس سے چار بچے بھی ہیں ۔اس کے قبیلے والوں کو بھی ساری زندگی کے لیے کڑے امتحان میں ڈال گئی؟
خانو نے جرگہ کا فیصلہ تو سنا تھا مگر لگتا ہے وہ آج بھی اپنے دل کے فیصلے پراٹل تھی؟ کیونکہ خانو نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بندوق اٹھائے جرگہ کے کارندوں کو للکارا اورانہیں اپنی زبان میں کہا کہ ( صرسم ائنا اجازت اے نمے ) تمہیں صرف گولی مارنے کی اجازت ہے ؟ یعنی وہ کہہ رہی تھی کہ خبردار یہ جسم اب اس کے محبوب کی امانت ہے بعد مرنے کے اس کی بے حرمتی نہ کرنا؟ ڈیگاری کے صحرا میں خانو پر بندوقیں تانے کھڑے جرگہ کے کارندے 37سالہ خانو کو موت کے گھاٹ اتارنے کا یہ اقدام نہ اٹھاتے تو پیچھے احسان اللہ کا قبیلہ خانو بی بی کے پورے قبیلے کو موت کی گھاٹ اتارنے کے لیے گھات لگائے بیٹھا تھا؟ یہی وجہ تھی کہ خانوکے کنبے والوں نے ایک اکیلی لڑکی کو قبیلے کی بھینٹ چڑھاکر پہ در پہ سات گولیاں چلاکرکا اسے مٹی کا ڈھیر بنادیا؟ لاش کیلئے گڑھا کھودا اورخانو کو اسی صحرا کی مٹی کے سپرد کرکے چلتے بنے؟ دونوں قبائل کے سرکش لوگ شاید یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ بات منوں مٹی تلے دفن ہوگئی؟اوردونوں قبائل نے اپنا اٹل فیصلہ سناکراپنی اپنی زندگیاں بچالیں؟ یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوئی؟ ان کا اصل امتحان توتب شروع ہوا جب ٹھیک ایک ماہ بعد سوشل میڈیا پران کے اپنے ہی کسی گروہ کے کارندے نے اس سبق آموزواقعے کی وڈیو کو سوشل میڈیا پراپ لوڈ کردی آناً فاناً ناک پر رومال رکھ غریبوں ، مسکینوں اور محتاجوں کا دم بھرنے والی فلاحی تنظیمیں باہر نکل آئیں؟حکومت سمیت پورا ملک حرکت میں آگیا ۔یہ واقعہ ایک ہولناک خبربن کر سوشل میڈیا کی زینت بن چکا تھا۔ پوری دنیا میں ہمارے سماجی رویوں کی عکاسی کر رہا تھا ؟فوٹیج نے دنیا میں پاکستان کے امیج اورانسانی رویوں کوخاک میں ملادیا تھا ؟ ادھرجوڈیشری بھی حرکت میں آچکی تھی اورمجسٹریٹ نے کوئٹہ واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے مارے جانے والے دونوں لڑکے اور لڑکی کی قبر کشائی کا حکم دیا ۔جرگہ میں قتل کا حکم دینے والا سردار شیر ستکزئی سمیت 13 افراد آج ریمانڈ پر ہیں اور ان پر اے ٹی سی ایکٹ کے تحت ایس ایچ او ہنہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان جرگہ میں کیا جانے والا یہ پہلا فیصلہ تھا یا پھر حکومت پہلی بار اس فیصلے سے آشنا ہوئی ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
آج بھی کئی قبائلی جرگے ہوتے ہیں اور ان جرگہ کے فیصلوں کا حکومت کو بھی انتظار رہتا ہے کیونکہ یہ اس ملک کے کئی قبیلوں کا رسم رواج ہے، کسی قبیلے میں یہ عورت ونی کے نام پر بھیڑیوں کی بھینٹ چڑھادی جاتی ہے تو کہیں کارو اور کاری غیرت کے سوال پر ابدی نیند سلادیا جاتا ہے تو کہیں اس حوا کی بیٹی کو زمینوں کا بٹوارہ بچانے کے لیے قرآن سے شادی کرنا پڑتی ہے ؟ اور جب بات پگدار کا سربچانے کی ہو تو وہ اپنی جان بخشی کے لیے اپنی جان سے پیاری کمسن بیٹی کو کسی کے باپ پر نچھاور کرتے دیر نہیں کرتے ؟ یہی پگدار سامنے والے کواپنی بیٹیاں بطور بیوی کے پیش کرکے اپنا سر بچاتے ہیں تب ان کی عزت ؟ غیرت کہاں چلی جاتی ہے ؟ یہ وہی قبائلی نظام ہے جو فاٹا میں بھی نافذالعمل تھا ،بلوچستان کے قبائل بھی اسی پر چلتے ہیں ؟ پنجاب اور سندھ میں بھی ان قبائلی سرداروں اور بھوتاروں کے آگے کسی کی ایک نہیں چلتی؟ ہمارے ملک کے حکمراں اگر ان سرداروں، وڈیروں اور جاگیرداوں کی نہیں سنیں گے تو پھر یہ تخت نشیں کیسے بنیں گے ؟آج بھی اس مملکت خداد میں تین الگ الگ قانون نافذ ہیں جہاں جرگہ کے فیصلے ہوتے ہیں ،وہاں حکومتی رٹ کہیں دکھائی نہیں دیتی ؟ اور جہاں حکومت اپنی رٹ قائم کرنا چاہتی ہے وہاں شریعت کورٹ کا قانون ہے ؟ الغرض کوئی شخص ملکی قوانین پر عمل نہیں کرتا ؟ جب ایک ریاست کے ہوتے ہوئے ایک ہی ملک میں تین الگ الگ قانون ہوں گے تو پھر اس طرح کی لاقانونیت کو کون روک سکتا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • یہ غلط ہو رہا ہے
  • کرشمہ کپور اور آنجہانی سنجے کپور کے تعلقات پر سنیل درشن کے حیران کن انکشافات
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  •  ٹک ٹاک کے جنون نے ایک اور زندگی نگل لی
  • ججز بھی انسان، دیکھ بھال کی ضرورت، ایماندار جوڈیشل افسر کیساتھ کھڑا ہوں: چیف جسٹس
  • ویسٹ انڈیز میں دنیا کا سب سے چھوٹا انوکھا سانپ 20 برس بعد دوبارہ دریافت
  • جھیل سیف الملوک کے راستے میں پھنسے 500 سیاح بحفاظت ریسکیو کرلیے گئے
  • فساد قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے۔۔۔۔۔ ! 
  • شوگر کے مریضوں کے لیے زندگی بچانے والا معمول کیا ہوسکتا ہے؟
  • جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟