کلائیو اسمتھ کی ڈاکٹر عافیہ سے امریکی جیل میں 4 گھنٹے طویل ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
کراچی‘ واشنگٹن (اسٹاف رپورٹر‘ آن لائن) امریکی وکیل کلائیو اسٹفورڈ اسمتھ نے 4 گھنٹے ایف ایم سی کارسویل جیل میں عافیہ کے ساتھ گزارے۔ جیل میں ملاقات کے بعدتفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ ہمیشہ کی طرح ہمت کا دامن مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے، ان کی خواہش تھی کہ میں ان کی طرف سے دنیا بھرمیں موجود ان کے تمام سپورٹرز کاان کی شاندار حمایت کے لیے شکریہ ادا کروں۔
میں نے عافیہ کو بتایا کہ امریکی بھی حقیقت میں ان کی رہائی کے معاملے میں بہت مدد کر رہے ہیں۔ کلائیو اسمتھ نے مزید کہا کہ آج عافیہ نے خاص طور پر کہا کہ میں مسلسل اور شاندار حمایت کرنے پر امام عمر سلیمان، سینیٹر مشتاق احمد خان، سینیٹر طلحہ محمود، اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا (ICNA) اور عافیہ موومنٹ کے سپورٹرز کا شکریہ ضرور ادا کروں۔ کلائیو اسمتھ نے کہا کہ ڈاکٹرعافیہ پیر کی دوپہر سے پہلے پہلے امریکی صدرجو بائیڈن کی جانب سے اپنی رحم کی درخواست (Clemency Petition) کی منظوری ملنے کی شدت سے منتظر ہیں۔ عافیہ موومنٹ کے ترجمان محمد ایوب نے کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن پیر کے روز اپنے عہدے کی معیاد مکمل ہونے پر سبکدوش ہو رہے ہیں، جس پر فرینڈز آف عافیہ کے زیراہتمام کل شام 4 بجے کراچی پریس کلب کے باہر پرامن مظاہرے میں ڈاکٹر عافیہ کے سپورٹرز امریکی صدر سے اپیل کریں گے کہ ڈاکٹر عافیہ کی رحم کی پٹیشن کو منظور کر کے انہیں رہا کردیں۔علاوہ ازیںامریکی حراست میں قید پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امید ظاہر کی ہے کہ ان کے خلاف مقدمے کے حوالے سے ان کے حق میں نئے شواہد سامنے آنے کے بعد انہیں رہا کر دیا جائے گا۔برطانوی میڈیا کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے اپنے وکیل کے توسط سے خود کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجھے امید ہے کہ مجھے بھلایا نہیں گیا، ایک دن جلد ہی مجھے رہا کر دیا جائے گا، میں ناانصافی کا شکار ہوں، ہر دن اذیت ناک ہے، یہ آسان نہیں، ایک دن میں اس اذیت سے آزاد ہو جاؤں گی۔.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر عافیہ عافیہ صدیقی امریکی صدر جو بائیڈن اسمتھ نے کہا کہ
پڑھیں:
بھارت کے فالس فلیگ آپریشنز کی تاریخ طویل: پاکستان کو بدنام کرنے کی سازشیں بے نقاب
بھارت کی جانب سے فالس فلیگ آپریشنز کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے بارہا جھوٹے الزامات کے ذریعے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کی۔
ایسے کئی واقعات تب پیش آئے جب بھارت کو اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانی تھی یا اہم سفارتی لمحات درپیش تھے۔
جنوری 1971 میں انڈین ایئرلائنز کا ایک طیارہ اغواء کر کے لاہور لے جایا گیا تو بھارت نے فوراً پاکستان پر الزام لگا کر اس کی مشرقی پاکستان کے لیے فضائی پروازوں پر پابندی عائد کر دی۔
اسی طرح 20 مارچ 2000 کو امریکی صدر بل کلنٹن کے بھارتی دورے کے دوران مقبوضہ کشمیر میں 36 سکھوں کا قتل عام ہوا، جس پر ابتدا میں الزام پاکستان پر عائد کیا گیا، تاہم بعد میں شواہد سے ثابت ہوا کہ یہ واقعہ بھارتی فورسز کی کارستانی تھی، جس کا مقصد کلنٹن کے دورے کے دوران پاکستان کو بدنام کرنا تھا۔
بعد ازاں 13 دسمبر 2001 کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا، جس کا الزام بغیر کسی واضح ثبوت کے پاکستان پر لگا۔ اس واقعے کو بھی بھارت نے سرحد پر فوجی نقل و حرکت اور جنگی ماحول پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔
علاوہ ازیں فروری 2007 میں سمجھوتا ایکسپریس میں بم دھماکوں کے نتیجے میں 68 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی۔ اس کا الزام بھی پاکستان پر لگا لیکن بعد میں بھارتی ہندو شدت پسند تنظیموں کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے۔ اس حملے کا مقصد پاکستان اور بھارت کے درمیان امن عمل کو سبوتاژ کرنا تھا۔
ممبئی میں 2008 کے حملے فوراً پاکستان کے سر تھوپ دیے گئے، تاہم تحقیقات میں تضادات اور اے ٹی ایس کے سربراہ ہیمنت کرکرے کی مشکوک ہلاکت نے حملے کے اصل محرکات واضح کردیے۔
دسمبر 2015 میں مودی کے اچانک پاکستان دورے کے بعد جنوری 2016 میں پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملہ کیا گیا اور بھارت نے ایک بار پھر بغیر ٹھوس شواہد کے پاکستان پر الزام عائد کیا جبکہ تحقیقات سےیہ واقعہ سفارتی روابط کو سبوتاژ کرنے کی سازش ثابت ہوا۔
فروری 2019 میں پلواما میں خودکش دھماکے میں 40 بھارتی اہلکار مارے گئے۔ یہ واقعہ ایسے وقت پر پیش آیا جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کے دورے پر آنے والے تھے اور بھارت نے فوری طور پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا۔ بعد ازاں تحقیقات نے بھارت کے اس پروپیگنڈے کو بھی جھوٹا ثابت کیا۔
جنوری 2023 میں پاکستانی انٹیلیجنس نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ضلع پونچھ میں ایک جعلی کارروائی کا منصوبہ بے نقاب کیا، جسے بھارت یومِ جمہوریہ کے موقع پر انجام دینا چاہتا تھا تاکہ پاکستان پر جھوٹے دہشتگردی کے الزامات لگا سکے۔
یہ تمام واقعات ایک منظم اور مسلسل طرزعمل کی نشان دہی کرتے ہیں، جس میں بھارت نے اہم سفارتی مواقع پر پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے لیے جھوٹی کارروائیوں کا سہارا لیا۔
ان اقدامات سے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہوئے بلکہ خطے کے امن کو بھی شدید خطرات لاحق ہوئے۔