حماس کے ساتھ معاہدے پر اسرائیل کی قومی سلامتی کے وزیر سمیت 3 وزرا مستعفی
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
اسرائیل کے سخت گیر قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر اور ان کی قوم پرست مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے 2 دیگر وزرا نے غزہ جنگ بندی معاہدے پر وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
سعودی نشریاتی ادارے عرب نیوز کے مطابق ’اوٹزما یہودت‘ پارٹی اب حکمران اتحاد کا حصہ نہیں ہے، لیکن اس نے کہا ہے کہ وہ نیتن یاہو کی حکومت کو گرانے کی کوشش نہیں کرے گی۔
ایک بیان میں اوٹزما یہودت نے جنگ بندی کے معاہدے کو ’حماس کے سامنے ہتھیار ڈالنے‘ کا نام دیا اور غزہ میں ’سیکڑوں قاتلوں کی رہائی‘ اور ’جنگ میں (اسرائیلی فوج کی) کامیابیوں کو ترک کرنے‘ کی مذمت کی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اپنے وزرا کے استعفے کے باوجود اسرائیلی پارلیمنٹ میں معمولی اکثریت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی حکومت سے یہودی سخت گیر پارٹی کے نکلنے سے نہ تو اتحاد میں کمی آئے گی، اور نہ ہی جنگ بندی متاثر ہوگی، لیکن اتحادی وزرا کے جانے سے اتحاد غیر مستحکم ہو گیا ہے۔
قبل ازیں قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے جمعرات کی شام کو کہا تھا کہ اگر کابینہ غزہ کی پٹی میں حماس کے ساتھ یرغمالیوں کی جنگ بندی کے معاہدے کی منظوری دی تو ان کی پارٹی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے حکمران اتحاد سے دستبردار ہو جائے گی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو
پڑھیں:
تم پر آٹھویں دہائی کی لعنت ہو، انصاراللہ یمن کا نیتن یاہو کے بیان پر سخت ردِعمل
بہت سے اسرائیلی دانشوروں اور مبصرین کے درمیان آٹھویں دہائی کے متعلق یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی عمر 80 سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی جانب سے انصاراللہ یمن کو اسرائیل کے خلاف ایک بڑا خطرہ قرار دینے کے بعد، اس تحریک کے سیاسی دفتر کے رکن حزام الاسد نے نہایت سخت لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں کے ہاتھ بچوں اور عورتوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، وہ جلد ہی ہمارے خطے سے باہر نکال دیے جائیں گے۔ نیتن یاہو کے حالیہ بیان جس میں انہوں نے انصاراللہ کو اسرائیل کے لیے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک کہا اور وعدہ کیا کہ اس خطرے کے خاتمے کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑا، کیا جائے گا۔
صیہونی وزیراعظم کے جواب میں انصاراللہ کے رہنما نے ان بیانات کو مجرمانہ لفاظی قرار دیا ہے۔ حزام الاسد نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ لوگ جلد ہی اس خطے سے نکال دیے جائیں گے جنہیں اعلانِ بالفور کے ذریعے یہاں لایا گیا تھا، وہ غاصب جو معصوم بچوں اور عورتوں کے خون میں اپنے ہاتھ رنگ چکے ہیں۔ انہوں نے یمنی عوام کی مزاحمت کے تسلسل پر زور دیتے ہوئے کہا تم پر آٹھویں دہائی کی لعنت ہو، ہم اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں تاکہ مستضعفوں کو تمہارے ظلم و فساد سے نجات دلائیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ برا انجام کس کا ہوتا ہے، حق رکھنے والے مظلوموں کا یا مجرم غاصبوں کا؟ قابلِ ذکر ہے کہ بہت سے اسرائیلی دانشوروں اور مبصرین کے درمیان یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی عمر 80 سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔ چونکہ اسرائیل نے اپنی ریاست کا اعلان 14 مئی 1948 کو، برطانوی قیمومیت کے خاتمے کے بعد کیا تھا، اس لحاظ سے یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس کی زوال پذیری کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے، اور 2028 سے پہلے اس کا انجام متوقع ہے۔