کتاب ’تاریخِ پاکستان۔ چند حقائق جو منظرِ عام پر نہیں آئے‘ کی تقریبِ رونمائی
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کراچی میں سید قیام نظامی مرحوم کی تصنیف کردہ کتاب کی تقریب اجراء کا انعقاد کیا گیا۔
چانسلر جاوید انوار نے کہا کہ تاریخ پاکستان ایک بہترین کتاب ہے جس میں برصغیر کی پوری تاریخ اکھٹی کی گئی ہے۔
صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور ممتاز دانشور ڈاکٹر اقبال محسن نے کہا کہ ہم ناامیدی میں نہیں جی سکتے۔
سرسید احمد خان اور قائداعظم دونوں قوم سے مایوس ہوگئے تھے اور کنارہ کشی اختیار کرلی تھی مگر بعد میں یہی دنوں شخصیات انقلابی تبدیلی لے کر آئیں۔۔
ہندوستان کی تقسیم کے بعد جب پہلی فلائیٹ پاکستان میں اتری تو ہم سوچ رہے تھے کہ لوگ جہاز سے اتر کر پاکستان کی سرزمین پر سجدہ ریز ہوں گے مگر وہ اپنے سامان کو تلاش کررہے تھے اور آج تک یہ قوم سامان کی تلاش میں ہے۔
شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن کے چیئرپرسن ڈاکٹر عماد الحق نے سرسید یونیورسٹی کے چانسلر جاوید انوار کا پیغام پڑھ کر سنایا کہ ”تاریخِ پاکستان“ اس خطہ کے سیاسی، سماجی،معاشی اور معاشرتی معاملات کو سمجھنے کے لئے ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔
نظامی اکیڈمی کے چیئرمین احتشام ارشد نظامی نے کہا کہ مذکورہ کتاب کے مصنف کا رجحان تصوف کی جانب تھا مگر وہ ایک مورخ بھی تھے اور میری متواتر درخواست پر انہوں نے اپنی زندگی میں دو کتابیں تصنیف کیں۔
دوسال قبل ”ہندوستان کی تاریخِ حکمرانی“ کی اشاعت ہوئی تھی اور اب ”تاریخِ پاکستان“ شائع ہوئی ہے جو ایک بہترین کتاب ہے جس میں برصغیر کی پوری تاریخ اکھٹی کی گئی ہے۔
یہ کہنا کہ بنگالیوں نے مسلم لیگ قائم کی حقیقت کے منافی ہے۔ مسلم لیگ کا پہلا اجلاس بے شک ڈھاکہ میں خواجہ سلیم اللہ کے گھر پر منعقد ہوا لیکن ا س میں صرف بنگالی نہیں تھے بلکہ پنجاب، سرحد، بلوچستان، سندھ، یوپی، بہارو دیگر علاقوں کے لوگ بھی شامل تھے۔
مشہور شاعر و ادیب سید معراج جامی نے کہا کہ تاریخ کا آغاز انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔تاریخ کے بغیر دنیا کا ہر علم ناکافی ہے۔ تاریخ دراصل مختلف سوانح عمری کا نچوڑ ہے۔
بعد ازاں ایک شعری نشست کا بھی اہتمام کیا گیا۔شعراء میں پروفیسر رضیہ سبحان، راشد حسین راشد (کینیڈا)، فیروز ناطق خسرو، سلمان صدیقی، نور شمع نور، سید معراج جامی، ، نجمہ عثمان (برطانیہ)، سحر علی و دیگر شامل تھے۔
نظامت کے فرائض معروف شاعر خالد پرویزنے ادا کیے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
سانحہ دریائے سوات، انکوائری رپورٹ میں حکومتی غفلت سمیت افسوسناک حقائق سامنے آگئے
انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سانحہ سوات میں دیگر محکموں کی غفلت کے ساتھ ساتھ کے پی حکومت کی جانب سے صوبے کے سیاحتی مقامات کے لیے بھرتی کی گئی ٹورازم پولیس کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں اسلام ٹائمز۔ سانحہ سوات کی انکوائری رپورٹ میں خیبر پختونخوا (کے پی) کی حکومت کے متعلقہ محکموں کی غفلت اور ٹورازم پولیس کی عدم موجودگی اور دفعہ 144 کے باجود بیشتر علاقوں میں پابندی یقینی نہیں بنانے کا کا انکشاف کیا گیا ہے۔ انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سانحہ سوات میں دیگر محکموں کی غفلت کے ساتھ ساتھ کے پی حکومت کی جانب سے صوبے کے سیاحتی مقامات کے لیے بھرتی کی گئی ٹورازم پولیس کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں، وقوع کے روز ٹورازم پولیس غائب رہی، فضا گھٹ اور اطراف میں استقبالیہ کیمپ بھی موجود نہیں تھے۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق 27 جون کو واقعے کی صبح ہوٹل کے قریب پولیس کی گاڑی موجود تھی تاہم دفعہ 144 کے تحت پابندی کے باوجود سیاحوں کو پولیس نے دریا میں جانے سے نہیں روکا اور جائے وقوع پر ٹورازم پولیس موجود نہیں تھی۔
سوات میں سانحے کے روز ٹورازم پولیس کی غیر موجودگی پر انکوائری کمیٹی نے سوال اٹھا دیے ہیں اور کمیٹی کے مطابق سیاحتی علاقوں میں ٹورازم پولیس کا کام کیا ہے؟ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر 106 ایف آئی آرز درج ہوئیں، 14 ایف آئی آرز پولیس نے اور باقی اسسٹنٹ کمشنرز نے درج کیں۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق پولیس ہوٹلوں کو حفاظتی ہدایات جاری کرنے سے متعلق کوئی ثبوت پیش نہ کرسکی، رپورٹس میں سفارش کی گئی ہے کہ سوات پولیس کی غفلت اور دفعہ 144 پر مکمل عمل درآمد نہ کرنے کی انکوائری اور متعلقہ افسران کے خلاف 60 دن میں کارروائی کی جائے۔
انکوائری کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ 30 دن میں قانون و ضوابط میں خامیاں دور کر کے نیا نظام وضع کیا جائے، دریا کے کنارے موجود عمارتوں اور سیفٹی کے لیے نیا ریگولیٹری فریم ورک 30 دن میں نافذ کیا جائے اور تمام موجودہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ سفارش کی گئی ہے کہ پولیس کو دفعہ 144 کا سختی سے نفاذ یقینی بنانے کی ہدایات دی جائیں، حساس مقامات پر پولیس کی نمایاں موجودگی اور وارننگ سائن بورڈ نصب کیے جائیں اور ٹورازم پولیس اور ڈسٹرکٹ پولیس کے مابین نیا میکنزم بنایا جائے۔