انسانی نظر میں دنیا پہلی بار 1492 ء میں نقشے کے اعتبار سے تبدیل ہو ئی تھی جب اسپین میں ملکہ ازبیلا اور فرننڈس نے اپنی اپنی ریاستیں شادی کے بعد ایک دوسرے میں ضم کر کے مسلم ریاست غرناطہ کو شکست دی اور پھر اسی سال یعنی 1492 ء ملکہ ازبیلاکی مالی امداد سے کرسٹوفرکولمبس نے امریکہ دریافت کرلیا تھا یہ دنیا میں نو آبادیا تی نظام کا آغاز تھا یہ ہزاروں سال سے چلتی دنیا کی ایسی تبدیلی تھی جس میں تہذیب و تمدن کے فروغ کی بجائے تجارت اور مالی نفع کی بنیاد پر ترقی ہونے لگی تھی۔

دوسری بڑی تبدیلی پہلی عالمی جنگ 1914-18ء جنگ کے خاتمے پر آئی۔ جرمنی اور ترک سلطنت ِ عثمانیہ کی شکست ہو ئی اور 1917 ء میںروس میں اشتراکی انقلاب آگیا۔ اگر چہ بر طانیہ کی سلطنت دوسری جنگ عظیم کے آغاز تک دنیا کی 24 فیصدآبادی اور تقریباً24 فیصد رقبے پر پھیلی ہو ئی مگر امریکہ بھی نئی سپر پاور کے طور پر اُبھر رہا تھا۔ امریکا اپنا پہلا بحری بیڑا 1911 ء ہی میں سمندر میں اتار چکا تھا اور برطانیہ سے اقتصادی اور فوجی اعتبار سے زیادہ طا قتور تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران ہی دنیا کی دولت، دولت مند ترین شخصیات اور ماہرین امریکہ میں جمع ہو چکے تھے۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ برطانیہ کے بجائے در حقیقت امریکہ سپر پاور بن چکا تھا۔ تیسری تبدیلی دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد آئی۔

1945 میںاقوام متحدہ کا ادارہ اور دیگر عالمی ادارے جیسے ورلڈ بنک ، آئی ایم ایف، WHO  وغیرہ وجود میں آئے۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں سابق سوویت یونین ، امریکہ ، تائیوان چین ، فرانس اور برطانیہ کے پاس ویٹو پاور تھی۔ امریکہ دنیا کی واحد ایٹمی طاقت تھا۔ 1964 ء تک سوویت یونین ، برطانیہ ، فرانس اور چین بھی ایٹمی قو ت بن گئے۔ 1945 ء سے1990 ء تک سوویت یونین(روس) کے وراسا بلاک اور امریکہ کے نیٹو کے درمیان سرد جنگ رہی۔ 1990 ء میں چوتھی تب آئی جب سوویت یونین وارسا بلاک ٹوٹنے سے سرد جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔

دنیا میں گلو بل ولیج ، WTO اور نیو ورلڈ آڈر پر عالمی ادارے اور اصطلاحات سامنے آئیں۔ یہ وہ موڑ تھا کہ جب امریکہ اور یورپ کو بظاہر تو نیٹو کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اب کوئی سوویت بلاک نہیں تھا۔ مگر 11 ستمبر 2001 ء کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ہوا اور یہ کہنا چاہیے کہ امریکہ اور یورپی یونین کو ایک مشترکہ دشمن کی ضرورت تھی اور وہ دشمن ’’اسلامی دہشت گردی اور انتہا پسندگروپوں‘‘ کی صورت میں تخلیق کر لیا گیا۔

 اب 20 جنوری2025 ء کو جب امریکہ میںڈونلڈ ٹرمپ 47 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا رہے ہیں تو یہ دنیا میں جدید تاریخ کی چھٹی تبدیلی ہے ۔ 20 جنوری1961 ء کو ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے جان ایف کینیڈی اسٹبلشمنٹ مخالف ہونے کی شہرت رکھتے تھے۔ اُنہوں نے اپالوخلائی منصوبہ شروع کرایا جس کے تحت امریکی خلانوردوں نے چاند پر قدم رکھا۔ آگے چل کر امریکہ سیٹلائٹ کے ذریعے زمین پر موجود ہر ملک پر نظر رکھنے لگا۔

اس بلا دستی کی وجہ سے وقت گذرنے کے ساتھ امریکہ اس قابل ہو گیا کہ وہ زمین پر موجود دنیا کے غلہ کے گوداموں تک میں موجود ذخائر کی پوری معلو مات بھی رکھنے لگا۔ زیرِ زمین معدنیات تک امریکی خلائی سیاروں سے پوشیدہ نہیں۔ آج کی خلائی اور کمپیوٹر کی ترقی کا سہرا صدر کینیڈی ہی کے سر ہے۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ صدر کینیڈی قتل کر دئیے گئے اور بعض مورخین اس قتل کو داخلی سازش قرار دیتے ہیں۔

20 جنوری 2025 ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کو دنیا کی چھٹی تاریخی تبدیلی اس لئے قرار دیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی صرف وارننگ پر 20 جنوری سے پانچ روز پہلے ہی قطر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہد ہ طے پا گیا ہے اور اب ٹرمپ کو دوبارہ آسانی سے ابرام اکارڈ ( ابراہیمی معاہدہ ) کو مکمل کرنے کا موقعہ مل جا ئے گا۔ صدر ٹرمپ کی بنیاد پالیسی یہ ہے کہ وہ جنگوں سے امریکہ کو دور رکھیں گے۔ ایسے اخرجا ت کو کم سے کم کریں گے اور صنعت و تجارت کو بڑھائیں گے۔

امریکیوں کے مالی اقتصادی ، معاشی اور دفاعی امور پر اُن کی توجہ زیادہ رہے گی ۔ایسا معلوم ہو تا ہے کہ امریکہ دنیا کی چھٹی بڑی تبدیلی میں شام کی جنگ میں فتح کے بعد عراق ، لیبیا افغانستان اور دیگر خطوں میں عملی طور پر جنگیں نہیں کرئے گا، نہ ہی یورپ کے لیے مزید دفاعی اخراجات برداشت کرئے گا۔ اب امریکہ عالمی حاکمیت کا خواب خلائی برتری ،اسپیس ٹیکنالوجی ، کمپو ٹر سائنس ، آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی بنیاد پر پورا کرنے کی کوشش کرے گا۔ جس کے لیے زمینی سطح پر صدر ٹرمپ گرین لینڈ اور کینیڈا کے ساتھ میکسیکن گلف پر کسی نہ کسی انداز کی اجارہ داری چاہتے ہیں اور وہ آئندہ چند مہینوں یا ایک سال کے اندر اندر اجارہ داری کی حدود اور سطح طے کر لیں گے ۔ صدر ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے صرف 12 سربرہان ِ مملکت اور حکومت کو دعوت نامے جاری کئے گئے اور یہ اس وقت عالمی بحث کا سب سے اہم مو ضوع ہے۔

حلف برداری میں روس کے صدر پوٹن، بھارت کے وزیراعظم مودی ، برطانیہ کے وزیراعظم سر کیئر سٹامر، فرانس کے صدر ایمانویل میکرون اور اسرائیل کے نیتن یاہو کو دعوت نہیں دی گئی۔ اسی طرح نیٹو رکن ممالک میں سے بھی اکثر سربراہان کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ چین کے صدر شی جنگ کو بلوایا گیا ہے اور خدشہ ہے کہ وہ اپنی جگہ چین کے وزیرخارجہ یا کسی سنیئر کو امریکہ بھیجیں گے۔ بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کو مدعو کیا گیا ہے ۔ ٹرمپ کے قریبی ساتھی ایلون مسک ’جو اپنی200 ارب ڈالر کی دولت کے ساتھ دنیا کے طاقتور ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں‘ چینی کمپنی ٹیک ٹاک کو 100 ارب امریکی ڈالر میں خرید نے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مسک اپنے نٹ ورک کی بنیاد پر دنیا کے 25 فیصد صارفین تک رسائی رکھتے ہیں۔ ٹیک ٹاک کمپنی دنیا کے ڈھائی ارب انسانوں تک رسائی رکھتی ہے۔ اب اگر چینی صدر ڈوبلڈ ٹرمپ کی حلف برداری پر تشریف لا تے ہیں تو صورتحال مختلف ہو گی۔ میرے تجزیئے کے مطابق ٹرمپ کی آمد کے ساتھ دنیا پر مکمل امریکی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کا آغاز ہو رہا ہے۔

اگر یہ دیکھا جائے کہ امریکہ نے تبدیلیوں کے اس سلسلے میں کس حد تک مطلوبہ نتائج حاصل کئے تو، 1776 ء میں امریکہ کی بر طانیہ سے آزادی کے بعد وہ دور بھی اہم ہے۔ 1803 ء میں فرانس کے نپو لین نے 31 ویںامریکی ریاست Louisiana ’جو مربع میل یعنی 2100000 مربع کلومیٹر پر مشتمل فرانس کا علاقہ تھا‘ 1803 ء میں امریکہ کو 15 ملین ڈالر کے عوض فروخت کر دیا۔ اس سے آنے والے دنوں میں تاریخی اعتبار سے امریکہ مضبو ط متحد اور سیاسی دفاعی لحاظ سے مستحکم ہوا۔ امریکی تاریخ کی ایک اور اہم تبدیلی 1861 ء سے 1865 ء تک جاری رہنے والی امریکی خانہ جنگی تھی جو دراصل امریکہ میں غلام داری کے خاتمے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر صنعتی اقتصادی ترقی کے لیے ایک انقلاب تھا اور اہم تبدیلی کا سہرا صدر ابراہم لنکن کے سر جا تا ہے۔ امریکہ کی 49 ویں ریاست الاسکا ’جس کا رقبہ 1717856 مربع کلو میٹر ہے‘ روس نے72 لاکھ ڈالر کے عوض امریکہ کو فروخت کر دیا تھا۔

اگر دوسری مرتبہ منتخب ہو نے والے امریکی صدر ٹرمپ کینیڈا کو امریکہ کی 51 ویں ریاست بنانے اور گرین لینڈ کو ڈینمارک سے خریدنے کی بات کرتے ہیں تو امریکی تاریخ کے اعتبار سے یہ کو ئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ سالانہ اربوں ڈالر کینیڈا کے دفاع پر خرچ کر تا ہے ، امریکہ کی 51 ویں ریاست بننے کی صورت میں کینیڈا کے وزیراعظم کو اس کا گورنر بنایا جائے گا۔ کینیڈا کی آبادی میں تارکین وطن کا تناسب کافی زیادہ ہے جو کینیڈا کے شہری بن چکے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ممکن ہے کہ کینیڈا کی آبادی کا یہ حصہ شاید اس امریکی پیشکش کے حق میں ہو جائے۔ کینیڈا آئینی طور پر علامتی انداز میںبرطانیہ کی بادشاہت کو تسلیم کر تا ہے اور بر طانیہ کی حکومت اس اقدام کو مثبت نہیں سمجھ رہی۔ یہاں یہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں برطانوی وزیر اعظم کو نہیں بلوایا گیا۔

حالانکہ برطانیہ اور مریکہ ’کزن کنٹری‘ کہلاتے ہیں اور بر طانیہ نے ہر موقع پر امریکہ کا ساتھ دیا ہے۔ 1956 ء میں مصر کے صدر جمال ناصر نے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لے لیا جس پر فرانس ، برطانیہ اور اسرائیل نے مصر پر حملہ کر کے نہر پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس موقع پر اقوم متحدہ نے نہر سوئز پر مصر کے دعویٰ کودرست قرار دیا جس کو برطانیہ اسرائیل اور فرانس نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ اُس وقت امریکی صدر آئزن ہاورکے حکم پراِن تینوں ملکوں نے اپنی فوجیں مصر سے نکال لیں کیونکہ امریکہ نے برطانوی وزیر اعظم کو انتباہ کردیا تھا کہ دوسری صورت میں برطانیہ پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی جا ئیں گی۔ اسی طرح صدر ٹرمپ نے فرانس کے صدر کے بجائے حزب اختلاف کے لیڈر کو حلف برداری کی تقریب میں بلوایا ہے۔

اب ہم گرین لینڈ کے مسئلے کی طرف آتے ہیں۔ گرین لینڈ 1814 سے ڈینمارک کی بادشاہت کا حصہ تسلیم کیا جا تا ہے یکم مئی 1979 ء اسے ہوم رول Home Rule کے اختیارات حاصل ہو گئے 2009 ء میں اسے زیادہ خود مختاری دے دی گئی یہ بھی انتہائی سرد اور مجموعی طور پر برف پوش علاقہ ہے اس کا رقبہ 2166086 مربع کلو میٹر ہے اور آبادی صرف 56583 ہے سالانہ جی ڈی پی 3.

85 ارب ڈالر اور فی کس سالانہ آمدنی 68100 ڈالر ہے آج کے جدید دور میں امریکی صدر ٹرمپ گرین لینڈ کو ڈینمارک سے خریدنے کی بات کر رہے ہیں اس کی پیشکش اُنہوں نے حلف برداری سے چھ دن پہلے ہی کردی تھی۔ فی الحال اس پر ڈینمارک کا رد عمل مثبت نہیں ہے۔

بلکہ مجموعی طور پر یورپین یو نین کا ردعمل بھی فی لحال بہتر نہیں ہے۔ ٹرمپ کو ئی دیوانے نہیں ہیں البتہ وہ بطاہر غصیلی زبان اور انداز میں بیا نات داغتے ہیں، لیکن وہ بہت صاف اور بغیر لگی لپٹی اپنا موقف سر براہان مملکت اور سر براہانِ حکومت کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ وہ اسٹبلشمنٹ سے اختلاف رکھتے ہیں۔ سینکڑوں اربوں ڈالر کی ایسی امداد یا اخراجات جن سے ماضی میں کچھ حاصل نہیں ہوا، ٹرمپ انہیں روکنا چاہتے ہیں۔ جب اُنہوںنے گرین لینڈ کی خریداری کی بات بہت ہی بیباک انداز میں کہہ دی ہے اور اس وقت جو ردعمل یورپی یونین اور خصوصاً ڈنمارک کی جانب سے آیاتو ہے مگر اِن کی سفارتی زبان بہت شدید اور سخت انداز کی نہیں ہے، یوں ٹرمپ نے اپنا پہلا پتہ پھینک دیا ہے اور اب وہ داؤ لگاتے جائیں گے۔

گرین لینڈ اگر چہ ڈینمارک کا ہے لیکن یہاں پہلے سے امریکہ کا بڑا فوجی اڈا موجود ہے، یوںگرین لینڈ پر عسکری لحاظ سے امریکہ کا تسلط قائم ہے۔ ٹرمپ ڈنمارک پر یہ ظاہر کر نا چاہتے ہیں کہ کیونکہ امریکہ کو چین کے تجارتی اقتصادی پھیلاؤ کو روکنا ہیاور جو معدنیات یہاں موجود ہیں وہ آئی ٹی کے تمام شعبوں میں طویل المدت بیٹریاں بنانے میں استعمال ہو تی ہیں، اس کے علاوہ یہاں گیس اور تیل کے بھی وسیع ذخائر موجود ہیں امریکہ میں بھی تیل اور قدرتی گیس کے وسیع ذخائر ہیں جنہیں امریکہ نے برسوں سے محفوظ رکھا ہے۔ ٹرمپ یہ بھی کرسکتے ہیں کہ کینیڈا سے لکڑی تیل اور گیس کی خریداری روک کر گرین لینڈ کی معدینات اور خصوصاً تیل اور گیس کے وسیع ذخائر کو استعمال کر یں یا پھر امریکہ کے محفوظ ذخائر کو فوراً استعمال میں لائیں۔ اس طرح ٹرمپ اور اُن کی ٹیم کینیڈا کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ امریکہ کی51 ویں ریاست کے طور پر امریکہ کا حصہ بن جا ئے جس سے انفرادی طور پر وہاں کے سیاسی لیڈروں تاجروں صنعتکاروں کو فائد ہ ہو گا۔

تقریب حلف برداری سے قبل اور نہایت عجلت میں اُن کا یہ اظہار اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اِن منصوبوں کو بہت سنجیدگی سے دیکھتے ہیں اور اِن کو جلد مکمل کر نا چاہتے ہیں۔ ایک اور معنی خیز بات یہ ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم کو حلف کی تقریب میں شرکت کی دعوت نہیں دی جب کہ چین کے صدر کو دعوت دی ہے۔

چینی صدر شی جنگ اس وقت دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی اور تیسری بڑی فوجی قوت کے حامل ملک چین کے صدر ہیں اور خود کو عالمی پروٹو کول کے اعتبار سے امریکی صدر کا ہم پلہ قرار دیتے ہیں۔ اس وقت وہ خود کو اس بڑی امریکی دعوت میں شامل ہو کر اپنا عالمی قد کم نہیں کر نا چاہتے۔ پھر ٹرمپ چین ہی پر اقتصادی تجارتی پابندیوں کی باتیں کر رہے ہیں، ظاہر ہے یہ باتیں وہ اپنی تقریب حلف برداری کے موقع پر بھی دوہرائیں گے ۔ بھارت اِس وقت دنیا میں امریکہ کا قریبی حلیف تصور کیا جا تا ہے جو امریکہ حمایت اور امداد سے اپنے ہمسایہ ملک چین کے سامنے آرہا ہے، مگر بھارت کا رویہ اور رحجان مکمل سپردگی کا نہیں ہے اور اس کا اظہار بھارت اپنے جمہوری اور آزادانہ طرز عمل سے بریکس اور شنگائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارمز سے دے چکا ہے۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے امریکی الیکشن مہم کے دوران امریکہ میں کھل ٹرمپ کی حمایت نہیں کی جس کی توقع صدر ڈونلڈ ٹرمپ کر رہے تھے۔ مودی یہ رسک نہیں لینا چاہتے تھے کہ اگر ڈیموکریٹ جیتے جا تے تو پھر مودی کی پوزیشن خراب ہو تی اس لیے وہ غیر جانبدارا رہے۔ صدر ٹرمپ نے وزیراعظم مودی کو یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ مستقبل میں اُن سے پوری اور کھلی حمایت چاہتے ہیں ۔ صدر ٹرمپ نے پا نامہ نہر (کنال) کی بھی بات کی ہے۔

نہر سوئز کی طرح پانامہ کنال بھی دنیا میں اور خصوصاً امریکہ کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ پانامہ کنال بحری جہازوں کو بحر ِ اوقیانوس اور بحرِ الکاہل کے درمیان مختصر ترین سفر فراہم کرتی ہے۔ نیوریار ک سے سان فرانسسکو کے درمیان بحری فا صلہ 22500 کلو میٹر ہوا کرتا تھا جو پانامہ کنال کی تعمیر سے کم ہو کر 9500 کلو میٹر رہ گیا۔ پانامہ کنال سے سالانہ 14 ہزار سے زیادہ بحری جہاز گذرتے ہیں۔ امریکہ نے 1999 ء میں یعنی آج سے 25  سال پہلے پا نامہ نہر کو پانامہ کے حوالے کردیا تھا۔ 2020 ء کے مطابق پانامہ حکومت کو اس سال پانامہ کنال سے 2.67 ارب ڈالر کی آمدنی ہو ئی۔ صدر ٹر مپ نے اپنی حلف برداری کی تقریب سے پانچ چھ دن قبل ہی نہر پا نامہ کو واپس لینے کا خیال ظا ہر کیا ہے، اور 1999 ء میں پا نامہ کنال کو پانامہ حکومت کے حوالے کر نے کے اقدام کو غلط قرار دیا ہے۔ صدر ٹرمپ پانامہ کنال پر امریکی اجارہ داری قائم کر کے چین کے معاشی ، اقتصادی ، تجارتی پھیلا ؤ کو محدود کر نا چاہتے ہیں۔

یہاں یہ واضح کر نا بھی ضروری ہے کہ 1956 ء میں امریکہ نے ہی نہر سوئز کو مصر کی ملکیت قرار دیا تھا اور 1999 ء میں اسی اصول کو مد نظر رکھ کر پانامہ کنال کو حکومت ، پانامہ کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ کیا اب امریکہ اس کو صدر ٹرمپ کے حکم پر بزور واپس لے گا؟ اگر امریکہ نے ایسا کیا تو پھر برطانیہ ، فرانس اور اسرائیل کو بھی یہ حق مل جا ئے گا کہ وہ نہر سوئز کو دو بارہ اپنی ملکیت میں لے لیں۔ میرے خیال میں یہ ممکن ہو گا کہ امریکہ دو تین ارب ڈالر سالانہ کرائے کی مد میں دینے پر پا نامہ حکومت سے کو ئی طویل المدت معاہدہ کر لے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے مقبول ترین صدر ہیں وہ سرمایہ دار اور تاجر بھی ہیں وہ معاملات کو تاجرانہ انداز میں نفع و نقصان کی بنیاد پر دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ یوں وہ امریکہ کو معاشی طور پر مضبوط بنانا چاہتے اور نفع حاصل کرنے میں آزاد معیشت کے باعث بڑا حصہ امریکی سر مایہ کاروں اور کمپنیوں کو ہو گا۔ ضروری ہو گا کہ ٹرمپ کی عوامی مقبولیت کا گراف بلند ہی رہے یوں وہ امریکہ ، امریکیوں کے لیے جو نعرہ لگا رہے ہیں اُس کے تحت ایسے اقدامات کر ینگے جس سے حقیقی امریکیوں کو زیادہ مالی اقتصادی فا ئد ہ پہنچے۔ وہ تارکین وطن کا داخلہ بند کر یں گے۔

اُن کی کوشش ہو گی کے امریکی عوام پر جو براہ راست ٹیکس ہیں اُن میں کمی کی جائے۔ ایلون مسک اُن کے ساتھ ہیں اور امریکہ اب انفارمیشن ٹیکنالوجی ، کمپیو ٹر سائنس اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے شعبوں پر عالمی اجارہ داری قائم کر نے کی مکمل کوشش کر ئے گا۔ مزاج کے اعتبار سے ’مسک‘ کا رویہ صدر ٹرمپ سے بھی زیادہ جارحانہ ہے اس لیے یہ پیشگو ئیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ شائد یہ دو نوں شخصیا ت زیادہ دیر اکھٹے نہیں چل سکیں گی۔ مگر میرا خیال یہ ہے کہ جن شعبوں میں ایلون مسک اور اس کے قبیلے کے دوسرے سرمایہ کار کئی سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے وہ ٹرمپ اور مسک کے تعلقات کو بگڑنے نہیں دیں گے۔

 16 جنوری 2025 ء کو وائٹ ہاوس چھوڑنے والے امریکہ کے ایک ناکام صدر ’جو بائیڈن‘ نے الواداعی تقریرمیں امریکی صدر Dwight D. Eisenhower ڈیوائٹ آئز ن ہاور کا حوالہ دیا،جنہوں نے بطور جنرل 1942 ء سے 1944 ء نہ صرف افریقہ یورپ خصوصاًفرانس کے محاذوں پر نہایت اہم کا رنامے انجام دئیے اور پھر1945 ء سے1948 ء امریکی فوج کے کمانڈر انچیف رہے۔ 1951 ء میں نیٹو کے کمانڈر رہے۔ پھر ری پبلیکن کی جانب سے 4 نومبرسے 20 جنوری 1953 ء اور پھر20 جنوری 1953 سے 20 جنوری1961 ء تک امریکہ کے صدر رہے۔

جو بائیڈن نے آئزن ہا ور کی تقریر کا حوالہ دیا کہ اُنہوں نے کہا تھا کہ امریکہ اب ایک ملٹری کمپلیکس بن چکا ہے اور یہ مستقبل میں امریکہ کی آزادی ، خود مختاری ،جمہوریت اور انسانی ترقی کے لیے نقصان کا سبب ہو گا۔ جو با ئیڈن نے کہا کہ آج میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ اب مریکہ سوشل میڈیا ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفشل انٹیلی جنس کی بنیاد پر اقتصادی تجارتی مالیاتی اجارہ داری کے رحجان کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ’ اُن کے مطابق‘ مستقبل میں امریکہ کی آزادی خودمختاری ، جمہوریت اور انسانی ترقی کے لیے خطر ناک ثابت ہو گا۔ میرے خیال میں یہ مستقبل میں امریکہ کے لیے خطرناک ہو یا نہ ہو مگر دنیا کے لیے اس اعتبار سے خطرناک دکھائی دے رہا ہے کہ اگر امریکہ کی اِن شعبوں میں عالمی سطح پر مکمل اجاراداری قائم ہو گئی تو دنیا معاشی اقتصادی غلامی کے ساتھ ذہنی طور پر بھی امریکہ کی غلام ہو گی ۔

اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ امریکہ ماضی قریب تک دنیا کے اہم ترقی پذیر ملکوں میں اپنے مفادات کے لئے ڈیکٹیٹر وں( آمروں) کی حمایت کرتا تھا۔ خصوصاً سرد جنگ کے دوران امریکہ نے ہر جگہ ایسا ہی کیا جس کی وجہ سے دنیا بھر کے اِن ملکوں میں امریکہ کے خلاف نفرت رہی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری عا لمی جنگ کے بعد جرمنی اور جاپان کے عوام کو امریکہ کی حمایت کر تے دیکھاکیونکہ امریکہ نے اِن ملکوں کے عوام کے مفاد میں بہت کچھ بہتر کیا۔

اسی طرح سرد جنگ کے دوران ویتنام امریکہ کا بد ترین دشمن رہا مگر اب صورتحال یہ ہے کہ ویتنام کے 90 فیصد عوام چین اور روس کے مقابلے میں امریکہ کے حمایتی ہیں حالانکہ ویتنام کی آزادی میں ہزاروں چینیوں نے اپنی جانیں قربان کیں اور سابق سوویت یونین نے اربوں ڈالر کی مدد دی۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت امریکی اسٹبشلمنٹ کی پالیسیوں کے بر عکس دنیا بھر کے ملکوں کے عوام سے تعلقات بہتر کرے گی، اور امریکہ کے حق میں عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش ہو گی۔ اس کے لیے ٹرمپ اپنی اقتصادی ، مالیاتی اور سیاسی پالیسیوں کے ساتھ سوشل میڈیا ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اورآرٹیفیشل انٹیلی کو بھی مو ثر انداز میں استعمال کر یں گے۔ یوں 20 جنوری 2025ء کو دنیا کی جد ید تاریخ کی اہم اور چھٹی بڑی تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے ۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تقریب حلف برداری بھارت کے وزیر نا چاہتے ہیں کے اعتبار سے پانامہ کنال اور اسرائیل کے وزیراعظم کی بنیاد پر کر نا چاہتے امریکہ میں میں امریکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کی کوشش سے امریکہ کینیڈا کے امریکہ کو کہ امریکہ امریکہ کا نامہ کنال کے درمیان ویں ریاست امریکہ کی گرین لینڈ امریکہ نے امریکہ کے بر طانیہ کے دوران ارب ڈالر قرار دیا کلو میٹر کی تقریب فرانس کے دنیا میں ہے اور ا ہے کہ وہ یہ ہے کہ دیا تھا داری کے دنیا کی نے والے نہیں ہے داری کی رہے ہیں کے ساتھ ڈالر کی دنیا کے نے اپنی ٹرمپ کی ہیں اور پا نامہ کر رہے دیا ہے کے صدر چین کے کے بعد جنگ کے دی اور کر دیا اور اس تے ہیں کی بات کے لیے ہیں ہے گیا ہے ہیں کہ رہا ہے اور یہ یہ بھی

پڑھیں:

امریکہ کی جانب سے یکطرفہ غنڈہ گردی کی عالمی قیمت

امریکہ کی جانب سے یکطرفہ غنڈہ گردی کی عالمی قیمت WhatsAppFacebookTwitter 0 22 April, 2025 سب نیوز

بیجنگ :اپریل 2025 میں ، ٹرمپ انتظامیہ نے ” مساوی محصولات” کے نام پر چین اور یورپی یونین سمیت دنیا کے بڑے تجارتی شراکت داروں پر بڑے پیمانے پر محصولات کا اعلان کیا ، جس میں سے امریکہ کو برآمد کی جانے والی چینی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح کو مزید بڑھا کر 125فیصد کردیا گیا اور یہاں تک کہ 245فیصد تک کے اسکائی ہائی ٹیرف کی بھی تجویز دی گئی۔ امریکہ کی نئی ٹیرف پالیسی کی اصلیت ” مساوات ” کی آڑ میں ، معاشی اور تجارتی شعبوں میں تسلط پسندانہ سیاست اور یکطرفہ غنڈہ گردی کو فروغ دینا ہے ، جو نہ صرف عالمی تجارتی نظام میں افراتفری پیدا کرتی ہے، اور عالمی معاشی کساد بازاری کے خطرے کو نمایاں طور پر بڑھاتی ہے، بلکہ عالمی معاشی نظام پر یکطرفہ غنڈہ گردی کے انتہائی تباہ کن اثرات کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔

امریکہ نے ” امریکہ فرسٹ ” کا نعرہ لگاتے ہوئے ، یکطرفہ طور پر ڈبلیو ٹی او کے قوانین کو ترک کیا ہے،اور من مانے طریقے سے ٹیکسوں میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں دوسرے ممالک کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے جوابی اقدامات کرنے پر مجبور کیا گیا ہے، جیسے یورپی یونین کی جانب سے امریکی درآمدات پر 25 فیصد محصولات عائد کرکے جوابی اقدامات کیے گئے، کینیڈا امریکی اسٹیل اور آٹوموبائل کی درآمدات پر 25 فیصد جوابی ٹیرف عائد کرے گا، چین نے بھی جوابی اقدامات کا ایک سلسلہ متعارف کرایا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی “طاقت ہی سچائی ہے” کی منطق کے تحت ویتنام، کمبوڈیا اور دیگر ممالک استثنیٰ کے بدلے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، بعض چھوٹے اور درمیانے درجے کے ممالک امریکہ کے اس کھیل کا شکار ہو چکے ہیں اور عالمی کثیر الجہتی تجارتی نظام افراتفری کا شکار ہو چکا ہے۔ عالمی بینک نے پیش گوئی کی ہے کہ اگر ٹیرف کی جنگ جاری رہی تو 2025 میں عالمی تجارت 12 فیصد تک سکڑ سکتی ہے، جو جرمن معیشت کے کل حجم کے برابر ہے۔ امریکہ خود بھی زیادہ ٹیرف سے متاثر ہو رہا ہے ۔ امریکی میڈیا نے نشاندہی کی کہ حکومت کی ٹیرف پالیسی عام امریکی گھرانوں کو متاثر کر رہی ہے، قیمتیں بڑھ رہی ہیں، اور عوام کے پیسے جلدی سے ختم ہو رہے ہیں. یہی بات انٹرپرائزز کے لیے بھی درست ہے، فورڈ، جنرل موٹرز اور دیگر کار کمپنیاں پرزوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے قیمتیں بڑھانے پر مجبور ہو رہی ہیں، سیمی کنڈکٹر آلات بنانے والوں کو سالانہ ایک ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا، اور چین کے جوابی اقدامات کی وجہ سے ہالی ووڈ فلم انڈسٹری کے حصص کی قیمت گر گئی، اور امریکی صنعت کی بحالی کی امید دور ہوتی جارہی ہے۔ عالمی مالیاتی منڈیوں نے “بلیک اپریل” کا آغاز کیا۔

تین بڑے امریکی سٹاک انڈیکس میں مسلسل گراوٹ آئی، ڈاؤ جونز انڈیکس 40 ہزار پوائنٹس کی حد سے نیچے گر گیا، ایس اینڈ پی 500 میں پانچ سال میں سب سے بڑی ایک روزہ گراوٹ ریکارڈ کی گئی، اور سونے اور خام تیل جیسے محفوظ اثاثوں کی قیمتوں میں تیزی سے اتار چڑھاؤ ریکارڈ کیا گیا۔امریکی حکومت کی جانب سے دوسروں اور خود کو نقصان پہنچانے کے اس اقدام پر امریکہ کے تمام حلقوں اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی ہے۔ معاشیات کے دو نوبل انعام یافتہ افراد سمیت تقریباً 900 ماہرین اقتصادیات، ماہرین تعلیم اور صنعت کے رہنماؤں نے اینٹی ٹیرف اعلامیے پر دستخط کیے، جس میں نشاندہی کی گئی کہ ٹرمپ کی تجارتی تحفظ پسندی ایک “گمراہ کن پالیسی” ہے جو امریکی معیشت کو “خود ساختہ کساد بازاری” کی کھائی میں دھکیل سکتی ہے۔

دنیا بھر سے مخالفت کی لہریں یکے بعد دیگرے آ رہی ہیں۔ کینیڈا کے وزیر اعظم نے تنقید کی کہ “امریکہ اب قابل اعتماد شراکت دار نہیں ہے” اور اس پر انحصار کم کرنے کا مطالبہ کیا۔ یورپی یونین نے صنعتی چین کی خود مختاری کو تیز کرنے اور عالمی معیشت میں امریکہ کی غالب پوزیشن کو کمزور کرنے کے لئے” انسداد اقتصادی جبر ایکٹ ” کا آغاز کیا۔ 10 آسیان ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں دوٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ امریکی اقدام “بہت سے ممالک کے مفادات کو قربان کر رہا ہے”۔ چین نے امریکہ کے خلاف باضابطہ طور پر ڈبلیو ٹی او میں یکطرفہ محصولات کی شکایت درج کرائی ہے اور 23 تاریخ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر رسمی اجلاس بلانے کا ارادہ رکھتا ہے، جس میں تمام 193 رکن ممالک کو امریکہ کے محصولات کی وجہ سے عالمی تجارتی نظام کو پہنچنے والے سنگین نقصان پر بحث میں حصہ لینے کی دعوت دی گئی ہے۔محصولات کی بالادستی اور یکطرفہ تسلط کے ذریعے اپنی معیشت کو بچانے کا امریکہ کا ارادہ واقعی گمراہ کن ہے۔

یہ “ایک چمچ کے ذریعے سمندر کے پانی کو نکال کر خشک کرنے ” کی طرح ہے۔ بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کی ایک تحقیق کے مطابق، اگر امریکہ تمام محصولات کو بڑھا کر 25 فیصد کر دیتا ہے، تو اس سے مینوفیکچرنگ کے صرف 1.2 فیصد روزگار کے مواقع واپس آئیں گے، لیکن صارفین کو لاگت کا 90 فیصد برداشت کرنا ہے . اگر امریکہ موجودہ مخمصے کو حل کرنا چاہتا ہے تو اسے “زیرو سم گیم” کی ذہنیت کو ترک کرنا ہوگا اور کثیر الجہتی تعاون کی راہ پر واپس آنا ہوگا۔ ٹرمپ 1930 کے” سموٹ ہولی ٹیرف ایکٹ ” کی وجہ سے شروع ہونے والی عالمی تجارتی جنگ کے بارے میں سوچیں، جس نے بالآخر امریکی جی ڈی پی کو 30 فیصد تک کم کر دیا تھا اور بے روزگاری کی شرح 25 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔

سب کہتے ہیں کہ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے، اور یہ کہ امریکہ کی ٹیکسوں میں اضافے کی موجودہ حکمت عملی تاریخ سے بہت ملتی جلتی ہے۔ اگر امریکہ عالمی برادری کی باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اسی راستے پر چلنے پر اصرار کرتا رہا تو اسے بالآخر اپنی غلطیوں کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایرانی وزیر خارجہ چین کا دورہ کریں گے ، چینی وزارت خارجہ چین نے بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے  کے تصور پر عمل کیا ہے، وزارت خارجہ ٹیرف جنگ کے تناظر میں اتحادیوں کا امریکہ پر اعتماد انتہائی کم ہو چکا ہے، چینی میڈیا آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کا خسارہ 7222ہزار ارب روپے رہنے کا امکان چائنا میڈیا گروپ  کے  ایونٹ   “گلیمرس چائینیز   2025 ”  کا  کامیاب انعقاد  چین، دنیا کی پہلی ہیومنائیڈ روبوٹ ہاف میراتھن کا انعقاد چین اور گبون نے سیاسی باہمی اعتماد کو گہرا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے، چینی صدر TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • امریکہ نئے دلدل میں
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے، کیا امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے والا ہے؟
  • سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان بے معنی؛ یہ معاہدہ کبھی جنگوں کے دوران بھی معطل نہیں ہوا
  • چین نے انٹرنیٹ کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا
  • امریکی عدالت نے وائس آف امریکہ کی بندش رکوادی، ملازمین بحال
  • ٹرمپ کے ٹیرف سے عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو گئی، آئی ایم ایف
  • وزیر اعظم کی ترک صدر سے ملاقات: مشترکہ منصوبوں، سرمایہ کاری کے ذریعے اقتصادی تعاون بڑھانے پر زور
  • ٹرمپ کے ٹیرف سے عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار سست، آئی ایم ایف
  • ٹرمپ ٹیرف کے اثرات پر رپورٹ جاری، پاکستان پسندیدہ ترین ملک قرار
  • امریکہ کی جانب سے یکطرفہ غنڈہ گردی کی عالمی قیمت