Express News:
2025-09-18@14:39:42 GMT

سامراج کا کھیل

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی تاریخ ابتداء ہی سے سازشوں سے بھری ہوئی ہے ۔ جب کبھی سراج الدولہ اورٹیپو سلطان کا ذکر ہوتا ہے تو اس زمانے کے غداروں کا ذکر پڑھ کر ہم غم واندوہ میں ڈوب جاتے ہیں لیکن ایک وقت معین پر جب پاکستانی تاریخ کے غداروں کی تفصیل سامنے آئے گی تو ہم فیصلہ نہیں کر پائیں گے کہ ماضی کے کردار غداری میں بڑے تھے یا آج کے غدار ۔ اس کے ساتھ ان غداروں کے سہولت کاروں ، مددگاروں ، کارندوں اور نمک خواروں کی بھی بے نقابی ہو جائے گی۔ پاکستان گزشتہ 78سالوں میں جن حالات وواقعات اور سانحات سے گزرا ہے وہ تمام اس بات کی دلالت کرتے ہیں ۔

قائداعظم محمد علی جناح ابھی بستر مرگ پر ہی تھے کہ پاکستان کا کنٹرول طالع آزماؤں نے سنبھال لیا تھا، اس کے بعد پاکستان جن بحرانوں سے گزرا اس کا سہراان ہی طالع آزما کرداروں کے سر جاتا ہے ۔ اس میں پے درپے مارشل لاء اور پاکستان ٹوٹنا بھی شامل ہے ۔

یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد بھارت کی قیادت نے تو کسی حد تک آزادی کے موقع سے فائدہ اٹھایا اور نئے ملک میں آئین سازی کا کام جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا، پارلیمانی نظام کو اپنایا اور عام انتخابات کرانے اور نتائج تسلیم کرنے کی روایت کی داغ بیل ڈال دی لیکن پاکستان ابتداء ہی سے حقیقی جمہوریت اور آزادی کے ثمرات سے محروم رہا ہے اور آج تک محروم ہے ۔

اب پاکستان تاریخ کے اس فیصلہ کن موڑ پر آگیا ہے جہاں ری برتھ آف مڈل ایسٹ اس کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ پاکستان پر سامراجی کنٹرول کس طرح قائم ہوا اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ قائداعظم جب اپنی زندگی کے آخری دن کراچی کے ماڑی پور ہوائی اڈے پر اترے تو نامعلوم اشارے پر ہوائی اڈے پر کوئی بھی اہلکار اور حکومتی عہدیدار موجود نہیں تھا جو کہ پروٹوکول کے تحت ضروری تھا۔

دوسرا جو ایمبولینس قائداعظم کو لینے کے لیے بھیجی گئی وہ اس قدر ناکارہ تھی کہ آدھے راستے میں ہی خراب ہو گئی یعنی اس کا انجن جواب دے گیا۔ ہوائی اڈے سے گورنر جنرل ہاؤس کا سفر 13/14کلو میٹر جو بمشکل آدھے گھنٹے کا تھا وہ دو گھنٹے میں طے ہوا۔ اس وقت جب وہ زندگی وموت کی کشمکش میں مبتلا تھے ۔ یہ سزا قائد اعظم کو اس لیے ملی کہ انھوں نے انگریزوں اور ہندوؤں، کانگریس اور ان کے مسلمان حواریوں کی تمام تر مخالفت کے باوجود پاکستان بنایا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان اور کابینہ کے سیکریٹری جنرل پیشگی اطلاع کے بغیر قائداعظم سے ملاقات کے لیے 30اگست کو اچانک کوئٹہ پہنچے ۔

تاریخ کے ذرایع سے پتہ چلتا ہے کہ فاطمہ جناح انھیں فوری طورپر ملانا نہیں چاہتی تھیں لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ انھیں آنے دو۔ مادر ملت فاطمہ جناح نے اپنی کتاب مائی برادر میں بہت سے حیرت انگیز انکشافات کیے جو بعدازاں سنسر کر دیے گئے ۔ ان واقعات کی تصدیق سینئر بیوروکریٹ قدرت اﷲ شہاب نے اپنی کتاب شہاب نامہ میں بھی کی ہے۔ اس کتاب کو مادرملت کی زندگی میں چھپنے سے روک دیا گیا آخر کار یہ کتاب ان کی وفات کے بیس برس بعد چھپی جب کہ وہ اس کی تصدیق کے لیے زندہ نہ رہیں ۔

اس زمانے کے انڈین ہائی کمشنرسری پرکاش نے بھی اپنی کتاب میں قائداعظم کی وفات کی اطلاع، وزیر اعظم لیاقت علی خان کی مصروفیات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے۔ پھر خود لیاقت علی خان کے ساتھ کیا ہوا ۔ قائد کے انتقال کے بعد ان کو بھی قتل کردیا گیا اور ساتھ ہی فوراً ان کے قاتل کو بھی، یعنی پاکستان کی ابتداء ہی سامراجی سازشوں سے شروع ہو گئی۔

ایک طرف قائد اعظم کے معالج ہندو ڈاکٹر جے اے پٹیل کا کردار دیکھیں تو دوسری طرف قائد کے مخالفین کا کردار ۔ جنھوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ پاکستان کو وجود میں آنے سے ہر قیمت پر روکا جائے ان میں بڑے بڑے وہ مسلم زعما شامل تھے جن کا اب نام بھی لینا دشوار ہے ۔ جب وہ اپنی کوششوں میں ناکام ہوئے تو قائداعظم کے پاکستان پر قبضہ کرنے کے لیے پاکستان آگئے مسلمانوں کو مزید مسلمان کرنے کے لیے، جس کا نتیجہ آخر کار مذہبی جنونیت ، شدت پسندی اور دہشت گردی کی شکل میں نکلا ۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ان کی مذہبی جنونیت ، دہشت گردی امریکی سامراج کو ایسی بھا گئی کہ ان کے سر کڑاہی میں اور انگلیاں گھی میں۔ پاکستان کے اقتدار پر قابض مفادپرست اشرافیہ نے ان کی سرپرستی شروع کر دی اور امریکی سامراج کے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔ نتیجے میں پاکستان مذہبی جنونیت کا شکار ہو گیا ۔

مذہبی شدت پسندی کی فصل جب پوری طرح پک کر لہلہانے لگی تو امریکی سامراج نے افغانستان کی مذہبی قوتوں پر اپنا دست شفقت رکھ دیا کہ ان کو خام مال کے طور پر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف استعمال کرنا تھا۔ جس کے لیے امریکا نے ان پر اربوں ڈالر خرچ کیے ۔ مقامی سامراج اور عالمی سامراج کا اس معاملے میں گٹھ جوڑ ہو گیا اور آج تک یہ دونوں ان شدت پسندوں سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔

پاکستان اور ان کا مستقبل اب ری برتھ آف مڈل ایسٹ میں چھپا ہے جو عنقریب متوقع ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

’میچ کھیل سکتے ہیں، تو سکھ یاتری پاکستان کیوں نہیں جا سکتے؟‘

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) پاکستان کی سکھ برادری کے رہنماؤں نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یاتریوں پر پاکستان میں سکھوں کے مقدس مقامات پر حاضری پر عائد کردہ پابندی ختم کرے، جسے انہوں نے عالمی اصولوں اور اخلاقی اقدار کے خلاف قرار دیا۔

پاکستان سکھ گردوارہ پربندھک کمیٹی کے نائب صدر مہیش سنگھ نے کہا کہ بھارت کی حالیہ پابندی، جو 12 ستمبر کو نافذ کی گئی اور جس میں سکیورٹی وجوہات کو جواز بنایا گیا، لاکھوں سکھ یاتریوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔

نئی دہلی نے اس معاملے پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

یہ تنازع ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب دونوں ایٹمی طاقتیں مئی میںمیزائل حملوں اور اس سے پہلے کشمیر میں خونریز حملے کے بعد تعلقات محدود کر چکی ہیں۔

(جاری ہے)

ویزے معطل ہیں اور سفارتی تعلقات کم درجے پر ہیں، تاہم امریکا کی ثالثی سے طے پانے والی دوطرفہ فائر بندی برقرار ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بھارتی سمیت تمام مذہبی زائرین کے لیے دروازے کھلے ہیں۔

خاص طور پر کرتارپور صاحب، جو سکھوں کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے، کے لیے انتظامات مکمل کیے جا رہے ہیں۔ یہ مقام پاکستانی پنجاب کے ضلع نارووال میں واقع ہے، جو حالیہ سیلاب سے متاثر ہوا تھا۔

گزشتہ ماہ بارشوں اور بھارتی ڈیموں سے پانی چھوڑے جانے کے باعث کرتارپور صاحب اور آس پاس کے علاقے زیر آب آ گئے تھے اور کرتاپور صاحب کے اندر پانی کی سطح 20 فٹ تک پہنچ گئی تھی۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے صفائی اور بحالی کے فوری اقدامات کی ہدایت کی تھی اور یہ مقدس مقام ایک ہفتے کے اندر دوبارہ کھول دیا گیا تھا۔

پاکستانی اہلکار غلام محی الدین کے مطابق بھارت اگر پابندی اٹھا لے، تو اس سال کرتارپور میں بھارتی سکھ یاتریوں کی تعداد ریکارڈ سطح تک پہنچ سکتی ہے۔ حکومت رہائش اور کھانے پینے کے خصوصی انتظامات کر رہی ہے۔

اس بارے میں مہیش سنگھ نے کہا، ''پاکستانی حکومت نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ بھارتی یاتریوں کے لیے دروازے کھلے ہیں اور ویزے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے جاری کیے جائیں گے۔‘‘

ایک اور سکھ رہنما گیانی ہرپریت سنگھ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بھارتی فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھا کہ اگر بھارت اورپاکستان آپس میں کرکٹ میچ کھیل سکتے ہیں، تو سکھ یاتریوں کو بھی پاکستان میں اپنے مذہبی مقامات پر جانے کی اجازت ہونا چاہیے۔

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور بھارت آج ایک اور کھیل کے میدان میں آمنے سامنے آئیں گے
  • ’میچ کھیل سکتے ہیں، تو سکھ یاتری پاکستان کیوں نہیں جا سکتے؟‘
  • بھارتی سکھ مذہبی آزادی سے محروم، مودی سرکار نے گرو نانک کے جنم دن پر یاترا روک دی
  • بھارت کھیل کے میدان میں اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے:عطا تارڑ
  • قائداعظم یونیورسٹی کی ملکیتی زمین کتنی، سی ڈی اے نے بالآخر تصدیق کردی
  • بھارتی کرکٹ ٹیم یا بی جے پی کا اشتہاری بورڈ
  • جنگ میں 6 جہاز گرنے کے بعد بھارت کھیل کے میدان میں اپنی خفت مٹا رہا ہے، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
  • بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی
  • ہماری ٹیم نے پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ نہ ملاکر غلط کیا: دبئی میں بھارتی شائقین کی اپنی ٹیم پر تنقید
  • آئی سی سی اور بھارت کا دوغلا پن