تین حکومتوں میں تین سردیاں
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
اپریل 2022 میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ حکومت میں میاں شہباز شریف وزیر اعظم منتخب کیے گئے تھے اور تمام اتحادی پارٹیوں کو وزارتیں دی گئی تھیں۔
جے یو آئی کو بھی چوتھے نمبر کی نشستوں پر پانچ وزارتیں ملی تھیں اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سب نے ہی حکومت میں وزیروں کے علاوہ مشیروں اور معاونین خصوصی شامل کرا کر اپنے اپنے لوگ بھر دیے تھے اور پیپلز پارٹی نے اکٹھے بارہ معاونین خصوصی شامل کرا کر اپنے لوگوں کو نوازنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا اور کسی اتحادی پارٹی نے یہ احساس نہیں کیا تھا کہ ملک کی معاشی حالت نہایت ابتر تھی جس کا ذمے دار وہ پی ٹی آئی حکومت کو قرار دیتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ حکومت قرضے لے کر اپنے افسروں اور ملازمین کو تنخواہ دینے پر مجبور ہے۔
ملک کی معیشت تباہی کا شکار اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اس بری حالت میں بھی تمام اتحادی پارٹیوں نے اپنے لوگ حکومت میں داخل کرا کر حکومتی اخراجات بڑھائے تھے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے امداد اور قرضوں کے لیے دوست ممالک کے دورے شروع کیے تھے اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی 16 ماہ میں ریکارڈ غیر ملکی دوروں کا ریکارڈ بنایا تھا اور اپنے طور پر دنیا میں پاکستان کو اہمیت دلائی تھی جب کہ موجودہ وزیر خارجہ جنھیں صرف وزارت خزانہ سے دلچسپی ہوتی ہے انھوں نے برائے نام ہی غیر ملکی دورے کیے ہیں البتہ بلاول بھٹو نے بطور وزیر خارجہ زیادہ وقت غیر ملکی دوروں میں گزارا تھا اور مفتاح اسماعیل کو 6 ماہ بعد ہٹا کر میاں نواز شریف کے سمدھی کو بلا کر وزارت خزانہ سونپی گئی تھی۔
مگر ایک سال سے زائد عرصہ وزیر اعظم کے قریب رہ کر انھوں نے ملکی معیشت کی بہتری کے لیے کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھائی تھی مگر پی ٹی آئی حکومت میں اپنے خلاف کی جانے والی کارروائیاں ختم کرا کر اپنی جائیدادیں اور منجمد اثاثے ضرور بحال کرا لیے تھے ۔پی ڈی ایم حکومت میں مصدق ملک ہی وزیر توانائی بنائے گئے تھے اور حکومت کے 6 ماہ بعد جب سردیوں میں سوئی گیس کا بحران شروع ہوا تو انھوں نے ملک میں گیس نہ ہونے اور بروقت قطر سے این ایل جی نہ خریدنے کا الزام لگا کر وجوہات یہ پیش کی تھیں کہ سابق حکومت نے بروقت گیس نہیں خریدی اور پی ڈی ایم حکومت کو دنیا میں مہنگے داموں بھی گیس نہیں مل رہی تھی جس جواز کو تسلیم کرکے عوام نے سردیوں بڑی مشکل سے سوئی گیس کے بغیر اذیت میں حکومتی وزیر کی باتوں پر یقین کرکے گزاری تھی۔
بڑے دعوؤں کے ساتھ سوئی گیس کی فراہمی کے جو دعوے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے اور گیس فراہمی کا جو شیڈول دیا گیا تھا اس شیڈول پر بھی گھروں میں سوئی گیس نہیں ہوتی تھی اور لوگوں نے دیے گئے شیڈول میں اپنے گھروں میں گیس دیکھی ہی نہیں تھی۔
حکومتی شیڈول صرف دکھاوے کا تھا جس پر محکمہ عمل کرانے میں ناکام رہا تھا اور گرمیوں میں گیس کی کھپت کم اور بجلی کی زیادہ ہوتی ہے مگر اتحادی حکومت میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری رہی جب کہ حکومتی دعوؤں کے مطابق بجلی بہت مہنگی ضرور ہے مگر بجلی کی کمی نہیں ہے۔
اگست 2023 تک اتحادی حکومت کے بعد نگراں حکومت آئی تھی جو نوے روز کے بجائے 6 ماہ فروری 2024 تک قائم تھی جس کے دور میں بھی سردی آئی تھی اور نگراں وزیر اعظم کہیں سے گیس خریدنے کے بجائے غیر ملکی دوروں میں مصروف رہے اور ان کے دور کے وزیر توانائی نے بھی ملک کے عوام کو سردیوں میں گیس فراہم کرنے کو ضروری نہیں سمجھا۔
لوگ نگراں دور کی سردیوں میں ٹھٹھرتے رہے گیزروں اور ہیٹروں کو تو کیا لوگوں کو اپنے گھروں کے چولہوں کے لیے گیس دستیاب نہیں تھی اور اتحادی حکومت کے بعد نگراں حکومت کا زور بھی بجلی و گیس کے نرخ بڑھانے پر رہا۔
انھیں گیس فراہمی کا انتظام کرنے کے بجائے مہنگائی کا ریکارڈ بنایا۔ عوام کی پریشانیاں مزید بڑھائیں ، گیس کا بحران اور نرخ بڑھے اور نگران دور کی سردیاں بھی عوام نے گیس کے بغیر بازاروں سے مہنگے سلنڈر اور مہنگی گیس خرید کر گزارا کیا اور 8 فروری کے الیکشن کے بعد پی پی نے پھر ملک میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم کرائی آئینی عہدے لے کر (ن) لیگی حکومت کو عوام کی ناراضی کے لیے چھوڑ دیا جس نے پھر مصدق ملک کو وہی پرانی ذمے داری دی مگر پھر بھی کسی بیرونی ملک سے ضرورت کے مطابق گیس خریدنے پر توجہ نہیں دی گئی۔
روس سے گیس کی خریداری کی باتیں عوام کو سنائی جاتی رہیں کہیں باہر سے گیس خریدی گئی نہ ملک میں دستیاب گیس کی فراہمی کو بہتر بنانے پر توجہ دی گئی مگر ملک میں گرمیوں میں بھی گیس عوام کو فراہم نہیں کی گئی۔
(ن) لیگی حکومت نے گرمیوں میں لوڈشیڈنگ بجلی کی برقرار رکھی اور نومبر میں تیسری حکومت میں تیسری سردیاں آگئیں مگر اس بار حکومت نے عوام کو گیس فراہمی کا کوئی شیڈول شاید اس لیے نہیں دیا کہ اتحادی حکومت میں دیے گئے سوئی گیس فراہمی کے سرکاری شیڈول پر پہلے ہی عمل نہیں ہوا تھا صرف میڈیا پر اشتہار چلے تھے مگر شیڈول کے مطابق ملک بھر میں اس بار بھی سوئی گیس دستیاب نہیں حالانکہ سردیوں کی شدت دسمبر میں بڑھی ہے۔
لاہور اور کراچی میں رات 9 بجے گیس چلے جانا اور رات گزار کر صبح6 بجے گیس آ جانا تو معمول تھا ہی مگر جنوری میں دوپہر کو گھروں کو سوئی گیس دستیاب نہیں اور گرمیوں میں بجلی کی طرح گیس کی آنکھ مچولی جاری ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے بعد ان کے مخالفین کی تیسری حکومت اور تیسری سردیاں ہیں مگر لوگوں کو گھروں میں چولہوں کے لیے اب بھی سوئی گیس دستیاب نہیں مگر حکومت کو گیس کے نرخ بڑھانا یاد رہا۔ اس بار بھی قطر، روس کہیں سے گیس ملک کے عوام کے لیے حاصل نہیں کی گئی اور ڈیڑھ دو ماہ بعد پھر گرمیوں نے آنا ہے مگر گھروں میں گیس ضرورت کے مطابق میسر نہیں ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اتحادی حکومت گیس فراہمی گرمیوں میں گھروں میں حکومت میں پی ٹی آئی کے مطابق حکومت کے حکومت کو غیر ملکی سوئی گیس میں گیس عوام کو بجلی کی تھے اور تھا اور ملک میں گیس کے گیس کی اور پی کے لیے سے گیس
پڑھیں:
خیبرپختونخوا میں امن و امان کے مسئلے پر منعقدہ اے پی سی میں طے پانے والے 10 نکات کیا ہیں؟
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے موجودہ سیکیورٹی صورتحال اور قبائلی اضلاع میں امن و امان کے قیام کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کا انعقاد کیا گیا جس میں شریک جماعتوں نے ایک 10 نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔
کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (س) کے نمائندوں نے شرکت کی، تاہم صوبائی اسمبلی میں موجود اپوزیشن کی بڑی جماعتیں جیسے عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف) اور مسلم لیگ (ن) شریک نہیں ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیے: اپوزیشن جماعتوں کا خیبرپختونخوا حکومت کی اے پی سی کا بائیکاٹ، علی امین گنڈاپور کا ردعمل
اعلامیے میں کہا گیا کہ خیبر پختونخوا کے کسی بھی حصے میں مزید ملٹری آپریشنز ناقابل قبول ہیں۔ ماضی میں درجنوں آپریشن کیے گئے لیکن ان سے کوئی دیرپا یا مثبت نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ کانفرنس میں ڈرون حملوں پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ حملے عام شہریوں کی جانیں لے رہے ہیں، جنہیں کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
کانفرنس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ریاست کو گڈ اور بیڈ طالبان کی تمیز ختم کرنی چاہیے اور تمام عسکریت پسند عناصر کے خلاف بلا تفریق اور مؤثر کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔ امن قائم کرنے کے لیے ہر قبائلی ضلع میں مقامی قبائل سے تعلق رکھنے والے 3، 3 سو افراد کو پولیس فورس میں بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاکہ مقامی سطح پر قانون نافذ کرنے والے ادارے مضبوط ہوں۔
خیبر پختنوخوا حکومت کی آل پارٹیز کانفرنس ، کانفرنس میں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن ،عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) سمیت کئی جماعتوں نے شرکت نہیں کی ، مزید بتارہے ہیں لحاظ علی اپنی اس رپورٹ میں pic.twitter.com/o7d90xjWez
— WE News (@WENewsPk) July 24, 2025
اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت سرحد پار سے دراندازی روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے جبکہ صوبائی حکومت اپنی حدود میں امن و امان بہتر بنانے کی کوشش کرے گی۔ قبائلی اضلاع کے انضمام کے وقت جو وعدے کیے گئے تھے انہیں پورا نہ کرنا مقامی عوام کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے، لہٰذا ان وعدوں کو فوری طور پر پورا کیا جائے۔
مزید برآں، کانفرنس نے وفاق کی جانب سے قبائلی اضلاع میں ٹیکسز کے نفاذ کو ظالمانہ اقدام قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ یہ فیصلہ واپس لیا جائے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ وفاقی فورسز کو خیبر پختونخوا کے بندوبستی اضلاع میں آپریشن کی اجازت نہیں دی جائے گی، اور آئندہ اگر افغانستان کے ساتھ مذاکرات ہوں تو ان میں خیبر پختونخوا حکومت کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان نیشنل پارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس، کیا اہم فیصلے کیے گئے؟
کانفرنس کے شرکا نے بارڈر پر تجارت کو فعال بنانے اور مقامی معیشت کو سہارا دینے کے لیے وفاق سے مطالبہ کیا کہ وہ سرحدی تجارت میں آسانیاں پیدا کرے تاکہ خطے کے عوام کو معاشی ریلیف فراہم کیا جا سکے۔
تحریک انصاف کے کئی اراکینِ اسمبلی نے کانفرنس کے موقع پر اس نمائندے کو بتایا کہ امن و امان کی بحالی کے لیے پولیس فورس کو جدید خطوط پر استوار کرنا ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چھ سال کے دوران کسی بھی قبائلی ضلع میں نیا پولیس اسٹیشن قائم نہیں کیا گیا اور موجودہ فورس کو بھی جدید اسلحہ و آلات کی شدید کمی کا سامنا ہے، جو امن کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آل پارٹیز کانفرنس امن و امان بدامنی پشاور خیبرپختونخوا سیکیورٹی کل جماعتی اجلاس