Express News:
2025-11-03@19:29:36 GMT

تین حکومتوں میں تین سردیاں

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

اپریل 2022 میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ حکومت میں میاں شہباز شریف وزیر اعظم منتخب کیے گئے تھے اور تمام اتحادی پارٹیوں کو وزارتیں دی گئی تھیں۔

جے یو آئی کو بھی چوتھے نمبر کی نشستوں پر پانچ وزارتیں ملی تھیں اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سب نے ہی حکومت میں وزیروں کے علاوہ مشیروں اور معاونین خصوصی شامل کرا کر اپنے اپنے لوگ بھر دیے تھے اور پیپلز پارٹی نے اکٹھے بارہ معاونین خصوصی شامل کرا کر اپنے لوگوں کو نوازنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا اور کسی اتحادی پارٹی نے یہ احساس نہیں کیا تھا کہ ملک کی معاشی حالت نہایت ابتر تھی جس کا ذمے دار وہ پی ٹی آئی حکومت کو قرار دیتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ حکومت قرضے لے کر اپنے افسروں اور ملازمین کو تنخواہ دینے پر مجبور ہے۔

 

ملک کی معیشت تباہی کا شکار اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اس بری حالت میں بھی تمام اتحادی پارٹیوں نے اپنے لوگ حکومت میں داخل کرا کر حکومتی اخراجات بڑھائے تھے۔

 وزیر اعظم شہباز شریف نے امداد اور قرضوں کے لیے دوست ممالک کے دورے شروع کیے تھے اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی 16 ماہ میں ریکارڈ غیر ملکی دوروں کا ریکارڈ بنایا تھا اور اپنے طور پر دنیا میں پاکستان کو اہمیت دلائی تھی جب کہ موجودہ وزیر خارجہ جنھیں صرف وزارت خزانہ سے دلچسپی ہوتی ہے انھوں نے برائے نام ہی غیر ملکی دورے کیے ہیں البتہ بلاول بھٹو نے بطور وزیر خارجہ زیادہ وقت غیر ملکی دوروں میں گزارا تھا اور مفتاح اسماعیل کو 6 ماہ بعد ہٹا کر میاں نواز شریف کے سمدھی کو بلا کر وزارت خزانہ سونپی گئی تھی۔

 مگر ایک سال سے زائد عرصہ وزیر اعظم کے قریب رہ کر انھوں نے ملکی معیشت کی بہتری کے لیے کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھائی تھی مگر پی ٹی آئی حکومت میں اپنے خلاف کی جانے والی کارروائیاں ختم کرا کر اپنی جائیدادیں اور منجمد اثاثے ضرور بحال کرا لیے تھے ۔پی ڈی ایم حکومت میں مصدق ملک ہی وزیر توانائی بنائے گئے تھے اور حکومت کے 6 ماہ بعد جب سردیوں میں سوئی گیس کا بحران شروع ہوا تو انھوں نے ملک میں گیس نہ ہونے اور بروقت قطر سے این ایل جی نہ خریدنے کا الزام لگا کر وجوہات یہ پیش کی تھیں کہ سابق حکومت نے بروقت گیس نہیں خریدی اور پی ڈی ایم حکومت کو دنیا میں مہنگے داموں بھی گیس نہیں مل رہی تھی جس جواز کو تسلیم کرکے عوام نے سردیوں بڑی مشکل سے سوئی گیس کے بغیر اذیت میں حکومتی وزیر کی باتوں پر یقین کرکے گزاری تھی۔

بڑے دعوؤں کے ساتھ سوئی گیس کی فراہمی کے جو دعوے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے اور گیس فراہمی کا جو شیڈول دیا گیا تھا اس شیڈول پر بھی گھروں میں سوئی گیس نہیں ہوتی تھی اور لوگوں نے دیے گئے شیڈول میں اپنے گھروں میں گیس دیکھی ہی نہیں تھی۔

 

حکومتی شیڈول صرف دکھاوے کا تھا جس پر محکمہ عمل کرانے میں ناکام رہا تھا اور گرمیوں میں گیس کی کھپت کم اور بجلی کی زیادہ ہوتی ہے مگر اتحادی حکومت میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری رہی جب کہ حکومتی دعوؤں کے مطابق بجلی بہت مہنگی ضرور ہے مگر بجلی کی کمی نہیں ہے۔

اگست 2023 تک اتحادی حکومت کے بعد نگراں حکومت آئی تھی جو نوے روز کے بجائے 6 ماہ فروری 2024 تک قائم تھی جس کے دور میں بھی سردی آئی تھی اور نگراں وزیر اعظم کہیں سے گیس خریدنے کے بجائے غیر ملکی دوروں میں مصروف رہے اور ان کے دور کے وزیر توانائی نے بھی ملک کے عوام کو سردیوں میں گیس فراہم کرنے کو ضروری نہیں سمجھا۔

لوگ نگراں دور کی سردیوں میں ٹھٹھرتے رہے گیزروں اور ہیٹروں کو تو کیا لوگوں کو اپنے گھروں کے چولہوں کے لیے گیس دستیاب نہیں تھی اور اتحادی حکومت کے بعد نگراں حکومت کا زور بھی بجلی و گیس کے نرخ بڑھانے پر رہا۔

انھیں گیس فراہمی کا انتظام کرنے کے بجائے مہنگائی کا ریکارڈ بنایا۔ عوام کی پریشانیاں مزید بڑھائیں ، گیس کا بحران اور نرخ بڑھے اور نگران دور کی سردیاں بھی عوام نے گیس کے بغیر بازاروں سے مہنگے سلنڈر اور مہنگی گیس خرید کر گزارا کیا اور 8 فروری کے الیکشن کے بعد پی پی نے پھر ملک میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم کرائی آئینی عہدے لے کر (ن) لیگی حکومت کو عوام کی ناراضی کے لیے چھوڑ دیا جس نے پھر مصدق ملک کو وہی پرانی ذمے داری دی مگر پھر بھی کسی بیرونی ملک سے ضرورت کے مطابق گیس خریدنے پر توجہ نہیں دی گئی۔

روس سے گیس کی خریداری کی باتیں عوام کو سنائی جاتی رہیں کہیں باہر سے گیس خریدی گئی نہ ملک میں دستیاب گیس کی فراہمی کو بہتر بنانے پر توجہ دی گئی مگر ملک میں گرمیوں میں بھی گیس عوام کو فراہم نہیں کی گئی۔

(ن) لیگی حکومت نے گرمیوں میں لوڈشیڈنگ بجلی کی برقرار رکھی اور نومبر میں تیسری حکومت میں تیسری سردیاں آگئیں مگر اس بار حکومت نے عوام کو گیس فراہمی کا کوئی شیڈول شاید اس لیے نہیں دیا کہ اتحادی حکومت میں دیے گئے سوئی گیس فراہمی کے سرکاری شیڈول پر پہلے ہی عمل نہیں ہوا تھا صرف میڈیا پر اشتہار چلے تھے مگر شیڈول کے مطابق ملک بھر میں اس بار بھی سوئی گیس دستیاب نہیں حالانکہ سردیوں کی شدت دسمبر میں بڑھی ہے۔

لاہور اور کراچی میں رات 9 بجے گیس چلے جانا اور رات گزار کر صبح6 بجے گیس آ جانا تو معمول تھا ہی مگر جنوری میں دوپہر کو گھروں کو سوئی گیس دستیاب نہیں اور گرمیوں میں بجلی کی طرح گیس کی آنکھ مچولی جاری ہے۔

پی ٹی آئی حکومت کے بعد ان کے مخالفین کی تیسری حکومت اور تیسری سردیاں ہیں مگر لوگوں کو گھروں میں چولہوں کے لیے اب بھی سوئی گیس دستیاب نہیں مگر حکومت کو گیس کے نرخ بڑھانا یاد رہا۔ اس بار بھی قطر، روس کہیں سے گیس ملک کے عوام کے لیے حاصل نہیں کی گئی اور ڈیڑھ دو ماہ بعد پھر گرمیوں نے آنا ہے مگر گھروں میں گیس ضرورت کے مطابق میسر نہیں ہوگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اتحادی حکومت گیس فراہمی گرمیوں میں گھروں میں حکومت میں پی ٹی آئی کے مطابق حکومت کے حکومت کو غیر ملکی سوئی گیس میں گیس عوام کو بجلی کی تھے اور تھا اور ملک میں گیس کے گیس کی اور پی کے لیے سے گیس

پڑھیں:

ڈیم ڈیم ڈیماکریسی (پہلا حصہ)

پرانے زمانے میں ایک ملک ہواکرتا تھا اس کا نام اپنی پیداوار کے باعث ’’الوستان‘‘ ہونا چاہیے تھا کیوں کہ اس میں دنیا کے بہت بڑے بڑے ’’الو‘‘ پیدا ہوتے تھے جو الو ہونے کے ساتھ الو کے فرزند بھی ہوتے تھے لیکن انھوں نے اس کا نام ’’یونان‘‘ رکھا تھا ،اس کی سب سے بڑی فصل یا پیداوار یا پراڈکٹ الو ہوا کرتے تھے جو خواہ مخواہ بات بے بات کے فلسفوں کی چیونٹیاں ، بٹیر اورمرغے لڑایا کرتے تھے ، ان الوؤں کے الوپن کااندازہ اس سے لگائیں کہ ان میں سے جو سب سے بڑا تھا سقراط نام کا۔ اس کے سامنے حکومت نے تین شرطیں رکھیں ،نمبر ایک، وطن چھوڑدو، نمبردو اپنے منہ کا زپ بندکرلو۔ نمبرتین۔ زہرکا پیالہ نوش جان کرو۔

اب اگر کوئی پاکستانی دانادانشور ہوتا، تو پہلی شرط مان کر کسی مرغن چرغن ملک میں جا بیٹھتا اورحکومت کے وظیفے پر گل چھرے اڑاتا ، ہمارے حضرت پروفیسر ڈاکٹر علامہ کی طرح یاالطاف بھائی کی طرح اور یا باباجی ڈیموں والی سرکار کی طرح۔ یا منہ بند کرکے کسی لگژری بنگلے میں محو استراحت ہوجاتا ۔ لیکن الو تھا ، اس لیے زہرکا پیالہ ہی پی گیا۔مستے نمونہ ازخروارے یا ایک چاول سے دیگ کااندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باقی الو بھی ایسے ہی سن آف اوول ہی ہوں گے ۔

اسی سقراط بقراط کی طرح ایک اورتھا۔’’دمیقراط‘‘ ڈیموکریٹس۔ اس نے خواہ مخواہ ساری عمر لگا کرایک تو ’’ایٹم‘‘ کانظریہ دیا کہ ایٹم ناقابل تقسیم ہے یعنی اسے تقسیم نہیں کیا جاسکتا ۔ اوردوسرا ڈیموکریسی اورمعرب ہو کر اس کے نام کی رعایت سے جمہوریت بنا جس لفظ کی ابتداء ہی ڈیم سے ہوتی ہے اس کے ساتھ صرف فول لگایا جا سکتا ہے ۔اس کے دونوں تحفوں کاحشرنشر ہم دیکھ چکے اس نے جس ذرے کو ایٹم یعنی ناقابل تقسیم کہا تھااسے یاروں نے ایسا تقسیم کردیا کہ اس کے پیٹ سے دو بچے نکالے ایسے دو بچے کہ ایک نے ہیروشیما کو گل وگلزار کردیا اوردوسرے نے ناگاساکی کو باغ وبہار کردیا…اوراس کا دوسرا تحفہ ڈیماکریسی۔

زباں پہ بارخدایا یہ کس کانام آیا

اس تحفے کا بعد میں لوگوں نے خلاصہ یوں کیا کہ عوام پر…عوام کی حکومت ۔ عوام کے ذریعے ان تین باتوں کو ہرطرح سے آگے پیچھے کیجیے ۔مطلب وہی نکلے گا لیکن اس میں یہ بات چھپائی گئی ہے کہ عوام کی حکومت ، عوام پر عوام کے ذریعے۔ میں اصل جزواعظم عوام نہیں بلکہ حکومت ہے اورجب یہ منحوس نام کہیں آجاتا ہے وہاں چارپائی کی سی حالت ہوجاتی ہے اوریہ فقرہ ہے بھی چارپائی کی طرح ، چارپائی میں آپ’’سر‘‘ اورپیر کسی بھی طرف کیجیے ، سینٹر چارپائی کے بیچ میں آئے گا ۔

اس فقرے میں بھی حکومت چاہے کسی طرف سے ہوکسی بھی شکل وصورت میں ہو۔حکومت حکومت ہوتی ہے اورمحکوم محکوم ہوتے ہیں اس نام ہی میں ساری اہلیت ہے ،کیوں کہ حکومت میں جو بھی لوگ آجاتے ہیں وہ ’’ہم‘‘سے ’’میں‘‘ ہوجاتے ہیں اورسارے فساد کی جڑ یہ ’’میں‘‘ ہے جس کاموجد اوربانی مبانی ’’ابلیس‘‘ تھا اورجب سے اس دنیا میں ’’ہم‘‘ کے مقابل ’’میں‘‘ آیاہے تب سے خرابیاں شروع ہوئی ہیں۔

خیر اب یہاں سے ایک اورسلسلہ شروع ہوتا ہے اس الو ئے یونان دمیقراط کے ایٹم کاجوحشر نشر لوگوں نے کیا وہ اپنی جگہ ۔۔اس دوسرے تحفے جمہوریت کاجو تیاپانچہ کردیاگیا ہے وہ بڑی دلچسپ کہانی ہے ، اس کی ایسی درگت بنائی گئی ہے کہ خود دمیقراط اگر آجائے تو وہ بھی اسے پہچان نہیں پائے گا بلکہ شاید خود یہ جمہوریت بھی اگر آئینے کے سامنے کھڑی ہوجائے توحیران ہوکر پوچھے گی، آپ کون؟

اورپھر ماشاء اللہ دورجدید کے یونان پاکستان میں تو اس کو اتنے گھنگھرو اورگہنے پہنائے گئے کہ چیونٹی سے ہاتھی بن گئی ۔

ایک انگریزی کاناول نگار ہے ایچ جی ویلزنام ہے شاید۔ اس نے بڑے عجیب وغریب ناول لکھے ہیں وہ مشہورناول (نادیدہ آدمی) بھی اس کاہے جس پر ہرزبان میں فلمیں بھی بنی ہیں اوربھی بہت ہیں ان میں ، ایک ناول ایسا بھی ہے جس میں ایک ضبطی سائنس دان اورسرجن ایک الگ جزیرے میں جانوروں پر تجربے کررہا ہے، سرجن کے ذریعے وہ ایک جانور کے اعضاء دوسرے میں پیوند کرتا ہے۔ آخر وہ ایک ایسا جانور بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے جس میں کئی جانوروں کے اعضاء پیوند کیے ہیں ، شیر ، گیدڑ، بھیڑ، بھیڑیا ، ہاتھی ، گھوڑے کتے سب کے اعضاء اس میں فٹ کیے گئے ہیں ، یوں ایک عجیب الخلقت چیز بنا کر وہ بڑا خوش ہوتا ہے لیکن یہ خوشی اسے راس نہیں کیوں کہ جانور اسے پیوند شکم کردیتا ہے ۔

دیکھیے تو پاکستانی جمہوریت بھی اسی جانورجیسی بن گئی ہے ، اس میں قبائلی وحشی سرداروں کے بھی گن ہیں ، مطلق العنانی بادشاہوں کی بھی صفات ہیں ، آمریت کی نشانیاں بھی ہیں، دینی ریاست کی بھی خوبیاں ہیں، لادینیت سے بھی بھرپو رہے ، بیلٹ بھی ہے بلٹ بھی ، ڈاکو لٹیروں کاچال چلن بھی ہے ، گینگسٹروں کے کردار بھی ہیں ، ٹریجیڈی اورساتھ ہی کامیڈی بھی ہے ، اوراب تو بانی کی مہربانی سے پیری مریدی کا سلسلہ بھی ہوگیا ہے ، مطلب یہ کہ پنساری کی دکان یا جنرل اسٹورہے ، سب کچھ یہاں مل جاتا ہے اگر ڈھونڈئیے تو ، سوائے جمہوریت کے یا عوام کی خوشنودی کے ۔

غیرازیں نکتہ کہ حافظ زتو ناخوشنود است

درسراپائے وجودت پنرے نسیت کہ نسیت

ترجمہ: سوائے اس کے کہ حافظ تم سے خوشنود نہیں باقی دنیا میں ایسی کوئی صفت نہیں جوتم میں نہ ہو۔

اس جمہوریت کو ویسے تو کئی نام دیے جاسکتے ہیں لیکن سب سے بہترنام سیلکٹڈ یا کنٹرولڈ جمہوریت ہوگا کیوں کہ اس میں صرف وہی محدود اشرافیہ حصہ لے سکتی ہے جو ابتدائے آفرینش سے پندرہ فی صد ہوکر پچاسی فی صد پر سوارچلی آرہی ہے ۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • ایم کیو ایم نے مقامی حکومتوں کو مضبوط بنانے کیلئے آرٹیکل 140-A میں ترمیم کی قرارداد سندھ اسمبلی میں جمع کرادی
  • مقامی حکومتوں کے لیے آئین میں تیسرا باب شامل کیا جائے، اسپیکر پنجاب اسمبلی
  • وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں (ن) لیگی وفد کی آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ملاقات، آئینی ترمیم پر حمایت کی درخواست
  • کراچی والوں کو بخش بھی دیں
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • کشمیر:بے اختیار عوامی حکومت کے ایک سال
  • بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے27 ویں ترمیم کی بازگشت
  • وفاق مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے 27ویں آئینی ترمیم کرے: سپیکر پنجاب اسمبلی
  • ڈیم ڈیم ڈیماکریسی (پہلا حصہ)
  • پنجاب اسمبلی :وفاق سے مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلیے27ویں آئینی ترمیم کا مطالبہ