غزہ میں پائیدار امن کے تقاضے
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کے نافذ ہونے کے ساتھ ہی اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے عمل کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔ حماس سے جنگ بندی کے مخالف انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر بن گویر عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ جنگ بندی ڈیل کا پہلا مرحلہ عارضی ہے، دوسرا مرحلہ بے نتیجہ رہا تو جنگ دوبارہ شروع کریں گے۔
جنگ کے آغاز سے ہی امریکا اور اسرائیل جنگ بندی کی مخالفت کرتے رہے ہیں کیونکہ ان کے مطابق جنگ بندی سے صرف حماس کو فائدہ ہوگا۔ جنگ کو روکنے کے لیے امریکا کی طرف سے کی گئی سفارتی کوششوں پر نظر ڈالی جائے تو امریکا کی کوششیں مخلصانہ جدوجہد کم اور دکھاوا زیادہ معلوم ہوتی ہیں، کیونکہ جنگ کے آغاز سے امریکا، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی قراردادوں کو ویٹو کرنے میں پیش پیش رہا ہے۔
واشنگٹن جنگ بندی کے بجائے شہریوں کے تحفظ کے لیے لڑائی میں وقفے کی حمایت کرتا رہا ہے جس کی بدولت حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی اور غزہ کے لیے انسانی امداد کی فراہمی کی اجازت ملتی رہی ہے۔
جنگ بندی کا یہ معاہدہ بھی انھی کوششوں کی ایک کڑی اور امریکا کی روایتی پالیسی کا جزو معلوم ہوتی ہے۔ تین مرحلوں پر مشتمل اس جنگ بندی کے معاہدے کی کامیابی کے کیا امکانات ہیں؟ یہ ایک پیچیدہ اور مشکل سوال ہے جس کا حتمی جواب دینا مشکل ہے۔
البتہ کچھ ایسے نکات ہیں جو حماس اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے سیز فائر کے معاہدے کی کامیابی کے امکانات پر سوالیہ نشانات اٹھاتے ہیں۔ اسرائیل کے اہم جنگی مقاصد میں سے ایک حماس کی فوجی اور حکومتی صلاحیتوں کو تباہ کرنا تھا، اگرچہ اسرائیل نے اسے شدید نقصان پہنچایا ہے، لیکن حماس اب بھی دوبارہ منظم ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو، جنھوں نے کئی مہینوں تک جنگ بندی کی مزاحمت کی ہے اور اس بات پر اصرار کرتے رہے ہیں کہ حماس کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے، اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسرائیلی اسیروں کی بازیابی کے بعد نیتن یاہو دوبارہ جنگ شروع کر سکتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح حماس کو معاہدے کی ناکامی کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔
نیتن یاہو کا ظاہراً مقصد فلسطینی گروہ کو سزا دینا ہوگا جب کہ حقیقت میں وہ اپنی سیاسی بقا کو یقینی بنانے کے لیے یہ قدم اٹھائیں گے۔ ماضی میں بھی اسرائیل کا طرز عمل یہی رہا ہے۔ بین الاقوامی کرائسز گروپ کے ساتھ وابستہ اسرائیل اور فلسطین کے امور کی ماہر مائراو زونزین کے مطابق’’ اسرائیل جنگ بندی کو توڑنے اور یہ ظاہر کرنے میں بہت اچھا ہے کہ یہ اس کی غلطی نہیں تھی۔‘‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل ایک غاصب طاقت ہے اور مشرق وسطیٰ پر اپنی اجارہ داری اور اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتا ہے جب کہ سپر پاور کی حیثیت سے امریکا کبھی فلسطینیوں کے لیے مخلص نہیں رہا۔
بلکہ امریکا، اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے حماس سمیت فلسطینی مزاحمتی گروہوں کا صفایا کرنے بالخصوص غزہ پر حماس کا کنٹرول ختم کرنے کی پالیسی پر اسرائیلی حکومت کا مددگار رہا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن ہوگئی ہیں۔ اسرائیل، یہودی بستیوں کی توسیع جاری رکھے ہوئے ہے اور فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی اور فلسطینی علاقوں سے ان کے انخلاء کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
دوسری طرف بہت سے اسرائیلی سیاست دان آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کے لیے کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ مئی 2024اور جنوری 2025میں واحد فرق صرف ڈونلڈ ٹرمپ کا ہے۔ صدر جو بائیڈن نے امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس کو انٹرویو دیتے ہوئے صدارتی دفتر میں اپنے آخری ایام کے بارے میں بتایا کہ کیسے علیٰ الاعلان خود کو صہیونی کہنے والے بائیڈن، وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کی خود سری کے آگے بے بس تھے۔
معاملے کو سمجھنے کے لیے ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن کے انٹرویوز دیکھیے یا انھیں پڑھیں کہ کیوں وہ غزہ میں نسل کشی کی حمایت کرتے رہے، اسے فنڈنگ اور ہتھیار مہیا کرتے رہے۔ اب واضح ہوچکا کہ اسرائیل کی جنگ، صرف حماس کے خلاف نہیں تھی بلکہ وہ تو ’’گریٹر اسرائیل‘‘ بنانے کے اپنے پروجیکٹ پر کارفرما تھا۔
چند بہادر اور مزاحمتی فلسطینیوں کے علاوہ تو غزہ اب مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ مغربی کنارے کی آبادی پر بھی اپنی زمینیں چھوڑنے کے لیے دباؤ ہے، اگرچہ لبنان میں بھی خاموشی ہے لیکن مشکلات کا سامنا کرنے والی حزب اللہ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ شام کے دفاعی نظام کو بھی مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ہے جب کہ ملک جزوی طور پر قبضے میں ہے۔
ایک بار پھر اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ یہ ’’دریا سے سمندر تک‘‘ علاقے کو کنٹرول کررہا ہے۔ اسرائیل کی کامیابی کا سہرا امریکا کی فراہم کردہ فضائی قوت کو بھی جاتا ہے جوکہ خطے میں سب سے طاقتور فضائی فورس ہے اور اس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کرسکتا۔
اقوامِ متحدہ نے بھی اسرائیل کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ سلامتی کونسل میں امریکا اور یورپی ممالک کی حمایت حاصل کر کے اسرائیل نے نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھا جب کہ انھوں نے اسرائیل کو عسکری اور مالیاتی امداد فراہم کیں جوکہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
صرف امریکا ہی سالانہ بنیادوں پر اسرائیل کو اربوں ڈالرز کے دفاعی ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ ایک مطالعہ کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز کے 12 ماہ میں امریکا نے اسرائیل کو 17.
تاہم نسل کشی نے بہت سی چیزیں بدل کر رکھ دی ہیں۔ اس پورے المیے میں عالمی قوانین، معاہدوں اور بین الاقوامی اداروں کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی ہے۔ سیکولرازم اور انسانی حقوق جو کہ بین الاقوامی قانون کی بنیاد ہیں، ان کی خلاف ورزی کی گئی جس کی وجہ سے دنیا میں شمال اور جنوب کی بنیاد پر شدید تقسیم پائی جاتی ہے۔ یہ تو واضح ہوچکا ہے کہ سفید فام اکثریت رکھنے والے مغربی ممالک اب اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ دنیا کی قیادت کرسکیں۔
یہ بھی سامنے آچکا ہے کہ یہود مخالف اور ہولو کاسٹ کے قوانین صہیونیوں اور اسرائیل کو تحفظ فراہم کرتے ہیں کہ جن کے تحت ان پر تنقید کرنے والوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا بلکہ انھیں ’’ ٹرول‘‘ کیا جاتا ہے۔اب مغربی میڈیا قابلِ بھروسہ نہیں رہا۔
یہ سفید فاموں کا ساتھ دیتا ہے جب کہ ان کی جانبداری کھل کر سامنے آچکی ہے۔ ان کے نمایندگان امریکا اور یورپ سے مفادات کے عوض جھوٹی کہانیاں گھڑتے ہیں۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکی عوام سمجھتے ہیں کہ ان کے انتخابات اور پالیسیز اسرائیل کی حمایت کرنے والی بڑی عالمی کمپنیز سے متاثر ہیں جب کہ امریکی خارجہ پالیسی بڑی حد تک اسرائیل کے مفادات پر مبنی ہے۔
عوام بالخصوص امریکا میں مایوسی بھی پائی جاتی ہے کیونکہ شہریوں کا گمان ہے کہ ان کے ٹیکس کی رقوم اسرائیل کو مالی امداد اور ہتھیاروں کی فراہمی میں استعمال ہو رہی ہے۔ امریکا میں نوجوانوں کی اکثریت، اسرائیل کی نسل کش مہم کے خلاف ہے جب کہ امریکا اور یورپی ممالک کے مرکزی شہروں میں واقع کالجز کے کیمپسز اور سڑکوں پر جس طرح نوجوانوں نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے، اس نے مغربی نوجوانوں کی سوچ کی عکاسی کی۔
یہ مظاہرے مغربی ممالک کی تاریخ میں منفرد اہمیت کے حامل ہیں۔ نوجوان اس بات پر بھی برہم ہیں کہ اسکول اور یونیورسٹیز میں انھیں جن اقدار کا درس دیا جاتا ہے، دنیا تو ان سے رہنمائی لیتی ہی نہیں۔ وہ اب رہنمائی کے لیے کسی نئے متبادل کی تلاش میں ہیں۔
دوسری جانب پرانے سیاست دان میڈیا کے تعاون سے معاملات جیسے ہیں، انھیں ویسے ہی رکھنے کی کوششوں میں ہیں۔ مغرب کے لیے نسل کشی کی حمایت کا مقصد ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ کا قیام تھا جو کہ مشرقِ وسطیٰ اور اس کے بے پناہ وسائل کو کنٹرول کرے، تاہم ’’گریٹر اسرائیل‘‘ ایک ایسی آبادی پر مشتمل ہوگا جہاں اکثریت اسرائیل اور مغرب کی پالیسیز کے خلاف ہوگی جب کہ وہ ایک متبادل عالمی آرڈر کی تلاش میں ہوں گے۔
پائیدار امن تنازع کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے اور غزہ سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور اسرائیل میں بنیادی تبدیلیوں کا تقاضا کرتا ہے۔ غزہ کا 17 سال سے جاری محاصرہ ختم ہونا چاہیے اور اسرائیل اس علاقے کو غیر مشروط طور پر خالی کرے جسے عالمی برادری فلسطینی ریاست کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ امن کا دارو مدار نسل پرستی اور نسلی عصبیت کے خاتمے سے مشروط ہے جیسا کہ جولائی 2024 میں عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے اپنے احکامات میں کہا تھا اور تمام اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مساوی حقوق یقینی بنائے جانے چاہئیں۔
گزشتہ پندرہ ماہ تک جاری رہنے والے وحشیانہ تشدد سے متاثر ہونے والے لاکھوں لوگوں کو جنگی جرائم، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم پر انصاف درکار ہے۔ طویل عرصے سے جاری قبضے اور نسلی عصبیت کا خاتمہ اور مظالم پر انصاف کی یقینی فراہمی ہی خطے میں تشدد کے سلسلے کا خاتمہ کرنے اور پائیدار امن کے قیام کی ضمانت ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور فلسطینی اور اسرائیل جنگ بندی کے اسرائیل کے امریکا اور اسرائیل کی اسرائیل کو نیتن یاہو امریکا کی کی حمایت کرتے رہے ہے جب کہ کے خلاف ا ہے کہ کے لیے ہیں کہ اور اس ہے اور رہا ہے
پڑھیں:
نیتن یاہو سے مارکو روبیو کا تجدید عہد
اسلام ٹائمز: مائیکل کرولی مزید لکھتے ہیں: "حماس کے بارے میں مارکو روبیو کا موقف دراصل نیتن یاہو کے موقف کو دوبارہ بیان کرنا تھا جس میں حماس کے مکمل خاتمے پر زور دیا گیا تھا۔ روبیو نے اپنے بیان میں صرف اتنا کہا کہ صدر چاہتے ہیں یہ جنگ جلد از جلد ختم ہو جائے۔" نضال المراکشی اور سائیمن لوئس نے پیر کے دن رویٹرز میں اپنی رپورٹ میں لکھا: "اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ حماس کو ختم کرنے کے لیے غزہ شہر پر فوجی قبضہ کرنا چاہتا ہے جبکہ تقریباً 10 لاکھ فلسطینیوں نے اس شہر میں پناہ لے رکھی ہے۔ اسرائیل نے غزہ شہر کو حماس کا آخری مورچہ قرار دے کر اس پر فوجی جارحیت شدید کر دی ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں شدت نے جنگ بندی سے متعلق قطر مذاکرات کو بھی معطل کر دیا ہے۔" تحریر: علی احمدی
امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایسے وقت مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا جب قطر کے دارالحکومت دوحا میں عرب اسلامی ممالک کا سربراہی اجلاس جاری تھا۔ اس کا خیال ہے کہ غزہ پر صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی توجہ مستقبل پر مرکوز کرنی چاہیے۔ دوسری طرف صیہونی فوج نے غزہ پر جارحیت کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے اور غزہ شہر کے رہائشی ٹاورز یکے بعد از دیگرے اسرائیلی بمباری کی زد میں آ کر مٹی کا ڈھیر بنتے جا رہے ہیں۔ فلسطینی حکام نے اعلان کیا ہے کہ صیہونی فوج نے اب تک غزہ شہر میں کم از کم 30 رہائشی ٹاورز کو نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی شہری بے گھر ہو گئے ہیں۔ ایسے وقت امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل کا دو روزہ دورہ کیا اور غزہ پر صیہونی جارحیت کی حمایت کی۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملہ اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور اس کے بارے میں کچھ نہیں کیا جا سکتا لہذا ہمیں مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ اس نے کہا: "میں نے اسرائیلی حکام سے مستقبل کے بارے میں بات چیت کی ہے۔" مارکو روبیو نے دیوار ندبہ کی زیارت بھی کی اور امریکہ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کے ہمیشگی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے بھی زور دیا۔ معروف تجزیہ کار مائیکل کرولی نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں لکھا کہ مارکو روبیو نے نیتن یاہو سے ملاقات میں کہا کہ غزہ جنگ کے بارے میں سفارتی معاہدے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نظریات سے مکمل طور پر تضاد رکھتا ہے۔ ٹرمپ نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ "بہت جلد" غزہ میں جنگ بندی کا راہ حل حاصل ہو جائے گا۔
مائیکل کرولی مزید لکھتے ہیں: "حماس کے بارے میں مارکو روبیو کا موقف دراصل نیتن یاہو کے موقف کو دوبارہ بیان کرنا تھا جس میں حماس کے مکمل خاتمے پر زور دیا گیا تھا۔ روبیو نے اپنے بیان میں صرف اتنا کہا کہ صدر چاہتے ہیں یہ جنگ جلد از جلد ختم ہو جائے۔" نضال المراکشی اور سائیمن لوئس نے پیر کے دن رویٹرز میں اپنی رپورٹ میں لکھا: "اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ حماس کو ختم کرنے کے لیے غزہ شہر پر فوجی قبضہ کرنا چاہتا ہے جبکہ تقریباً 10 لاکھ فلسطینیوں نے اس شہر میں پناہ لے رکھی ہے۔ اسرائیل نے غزہ شہر کو حماس کا آخری مورچہ قرار دے کر اس پر فوجی جارحیت شدید کر دی ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں شدت نے جنگ بندی سے متعلق قطر مذاکرات کو بھی معطل کر دیا ہے۔"
مغربی ایشیا میں فلسطینی مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے انروا کے جنرل کمشنر فلپ لازارینی نے ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا: "غزہ میں پانی کا نظام 50 فیصد کم سطح پر کام کر رہا ہے اور گذشتہ چار دنوں میں غزہ شہر میں انروا کی 10 عمارتیں اسرائیلی حملوں کا نشانہ بنی ہیں۔ اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ ہفتے اس نے غزہ شہر میں پانچ فضائی حملے انجام دیے ہیں جن میں 500 سے زیادہ جگہیں نشانہ بنائی گئی ہیں۔ اس کے بقول ان جگہوں پر ممکنہ طور پر حماس کے اسنائپر تعینات تھے جبکہ کچھ عمارتیں حماس کی سرنگوں کے دروازوں پر بنائی گئی تھیں اور کچھ میں حماس کے اسلحہ کے ذخائر تھے۔" ابراہیم دہمان، تیم لستر اور چند دیگر رپورٹرز نے سی این این پر اپنی رپورٹس میں کہا: "صیہونی فوج نے تازہ ترین حملوں میں غزہ شہر میں کئی رہائشی ٹاورز کو تباہ کر دیا ہے۔"
آگاہ ذرائع کے مطابق کل اسرائیلی وزیر خارجہ، وزیر جنگ، انٹیلی جنس سربراہان اور اعلی سطحی فوجی کمانڈرز کا ایک اہم اجلاس ہو گا جس میں زندہ بچ جانے والے اسرائیلی یرغمالیوں کی صورتحال اور غزہ شہر پر زمینی جارحیت کا جائزہ لیا جائے گا۔ دو اعلی سطحی اسرائیلی عہدیداروں نے سی این این کو بتایا کہ غزہ شہر پر زمینی حملہ بہت قریب ہے جبکہ ایک عہدیدار نے کہا کہ ممکن ہے یہ حملہ کل سے شروع ہو گیا ہو۔ صیہونی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف ایال ضمیر نے نیتن یاہو کو اطلاع دی ہے کہ غزہ شہر پر مکمل فوجی قبضے کے لیے آپریشن کو چھ ماہ کا عرصہ درکار ہو گا اور حتی مکمل فوجی قبضہ ہو جانے کے بعد بھی حماس کو نہ تو فوجی اور نہ ہی سیاسی لحاظ سے شکست نہیں دی جا سکے گی۔
اس بارے میں فلپ لازارینی نے کہا: "اسرائیل کی جانب سے شدید حملے شروع ہو جانے کے بعد غزہ میں کوئی جگہ محفوظ باقی نہیں رہی اور کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ کل تک غزہ شہر کے کئی رہائشی ٹاورز جیسے المہنا ٹاور، غزہ اسلامک یونیورسٹی اور الجندی المجہول ٹاور اسرائیلی بمباری کی زد میں آ کر تباہ ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے ان حملوں کے لیے یہ بہانہ پیش کیا ہے کہ حماس ان عمارتوں کو اپنے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے اور وہاں سے اسرائیلی فوج کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اصل مقصد فلسطینیوں کو جبری طور پر وہاں سے نقل مکانی کروانا ہے اور انہیں جنوب کی جانب دھکیلنا ہے تاکہ غزہ شہر پر مکمل فوجی قبضے کا زمینہ فراہم ہو سکے۔" یاد رہے فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس اب تک اس اسرائیلی دعوے کی تردید کر چکی ہے کہ غزہ شہر میں رہائشی عمارتیں حماس کے زیر استعمال ہیں۔