ڈونلڈ ٹرمپ نے 47ویں امریکی صدرکے عہدے کا حلف اٹھا لیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
ڈونلڈ ٹرمپ نے 47ویں امریکی صدر کے عہدے کا حلف اٹھا لیا، جبکہ نائب صدر جے ڈی وینس نے بھی عہدے کا حلف اٹھایا۔دوسری دفعہ امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکا میں سنہرے دور کا آج سے آغاز ہو گیا ہے ، آج سے ہمارا ملک ترقی کی نئی منازل طے کرے گا، اور دنیا بھر میں دوبارہ اس کی عزت کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی ملک کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمارا فائدہ اٹھائیں، ٹرمپ انتظامیہ میں ہر ایک دن میں ’امریکا سب سے پہلے ‘ کے نظریے پر کار بند رہیں گے ۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ قانون کی بالادستی اور ملک کا تحفظ یقینی بنائیں گے ، مزید کہا کہ ہماری ‘اولین ترجیح’ ایک آزاد، قابل فخر اور خوشحال قوم بنانا ہے ، امریکا جلد ہی پہلے سے زیادہ طاقتور، مضبوط اور غیر معمولی ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پر امید ایوان صدر میں واپس آئے ہیں کہ ہم قومی کامیابی کے ایک سنسنی خیز نئے دور کے آغاز پر ہیں، مزید کہنا تھا کہ ملک میں تبدیلی کی لہر پھیل رہی ہے ، امریکا کے پاس پوری دنیا میں فائدہ اٹھانے کا موقع ہے ، جو پہلے کبھی نہیں تھا۔اپنے اوپر قاتلانہ حملے کی بابت بات کرتے ہوئے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت کو اعتماد کے بحران کا سامنا ہے ، کئی برسوں سے ایک بنیاد پرست اور بدعنوان اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے شہریوں سے طاقت اور دولت چھین لی ہے جبکہ ہمارے معاشرے کے ستون ٹوٹ چکے ہیں اور بظاہر مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ حکومتیں امریکی شہریوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہیں، اور خطرناک مجرموں کو پناہ اور تحفظ فراہم کیا ہے ، جو دنیا بھر سے ہمارے ملک میں غیرقانونی طریقے سے داخل ہوئے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے تباہی کے وقت ڈیلیور نہ کرنے اور تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ وسائل استعمال کرنے پر امریکی صحت عامہ کے نظام پر بھی تنقید کی۔ان کا کہنا تھا کہ ’آج سب چیزوں کی تبدیلی شروع کرنے کا دن ہے ‘۔ڈونلڈ ٹرمپ نے عہد کیا کہ اس لمحے سے امریکا کا زوال ختم ہو گیا ہے ،غیر ملکی خبر رساں اداروں ’اے ایف پی، رائٹرز‘کی رپورٹس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے سبکدوش ہونے والے صدر جو بائیڈن کے ہمراہ کیپیٹل ہل داخل ہوتے ہوئے کہا کہ ’گڈ مارننگ‘، جبکہ جوبائیڈن نے اس سوال پر کہ کیسا محسوس کرتے ہیں، کہا کہ اچھا ہوں۔حلف برداری کی تقریب میں سابق صدور بل کلنٹن اور ان کی اہلیہ ہیلری کلنٹن، جارج بش اور ان کی اہلیہ اور بارک اوباما بھی شریک رہے ۔اس کے علاہ برطانیہ کے سابق وزیراعظم بورس جانسن، دنیا کے امیر ترین آدمی ایلون مسک، میٹا کے مالک مارک زکر برگ، گوگل کے چیف ایگزیکٹیو اور دیگر بھی تقریب میں موجود ہیں۔قبل ازیں، نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ اہلیہ کے ساتھ وائٹ ہاؤس پہنچے تھے ، جہاں جو بائیڈن اور ان کی اہلیہ نے ڈونلڈ ٹرمپ اور میلانیا کا استقبال کیا۔ڈونلڈ ٹرمپ ایگزیکٹو پاور کی حدود کو آگے بڑھانے ، لاکھوں تارکین وطن کو ملک بدر کرنے ، اپنے سیاسی دشمنوں کے خلاف انتقام اور عالمی سطح پر امریکا کے کردار کو تبدیل کرنے کے وعدے کے ساتھ 4 سالہ ایک اور ہنگامہ خیز میعاد کا آغاز کریں گے ۔ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے سے قبل معاونین نے ایگزیکٹو کارروائیوں کی تفصیلات بتائیں ہیں جن پر وہ فوری طور پر دستخط کریں گے ، جس میں بارڈر سیکیورٹی اور امیگریشن ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے ۔حلف اٹھانے کے بعد وائٹ ہاؤس میں عہدہ سنبھالنے والے عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ صدر جنوبی سرحد پر قومی ایمرجنسی کا اعلان کریں گے ، وہاں مسلح دستے بھیجیں گے اور سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو میکسیکو میں اپنی امریکی عدالتی تاریخوں کا انتظار کرنے پر مجبور کرنے والی پالیسی دوبارہ شروع کریں گے ۔جوبائیڈن نے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ سے الوداعی ملاقات کی تھی، ڈونلڈٹرمپ کی حلف برداری 40 سال میں پہلی بار کیپٹل ہِل کے کینن روٹنڈا ہال میں ہوئی۔ڈونلڈ ٹرمپ سے چیف جسٹس جان رابرٹس نے صدارت کا حلف لیا ، واضح رہے کہ صدر ریگن کی حلف برداری بھی1985 میں شدید سردی کے سبب اسی مقام پر ہوئی تھی۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کریں گے کا حلف
پڑھیں:
ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بار خفگی کا سامنا کرنا پڑا ہے جب امریکی عدالت نے ان کے ایک اور حکم نامے کو معطل کردیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک وفاقی جج نے وائس آف امریکا (VOA) کو بند کرنے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عمل درآمد سے روک دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے فنڈنگ میں کٹوتیوں کے باعث وائس آف امریکا اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار خبر رسانی سے قاصر رہا۔
جج رائس لیمبرتھ نے کہا کہ حکومت نے وائس آف امریکا کو بند کرنے کا اقدام ملازمین، صحافیوں اور دنیا بھر کے میڈیا صارفین پر پڑنے والے اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اُٹھایا۔
عدالت نے حکم دیا کہ وائس آف امریکا، ریڈیو فری ایشیا، اور مڈل ایسٹ براڈ کاسٹنگ نیٹ ورکس کے تمام ملازمین اور کنٹریکٹرز کو ان کے پرانے عہدوں پر بحال کیا جائے۔
جج نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے ان اقدامات کے ذریعے انٹرنیشنل براڈکاسٹنگ ایکٹ اور کانگریس کے فنڈز مختص کرنے کے اختیار کی خلاف ورزی کی۔
وائس آف امریکا VOA کی وائٹ ہاؤس بیورو چیف اور مقدمے میں مرکزی مدعی پیٹسی وداکوسوارا نے انصاف پر مبنی فیصلے پر عدالت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ حکومت عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا ہم وائس آف امریکا کو غیر قانونی طور پر خاموش کرنے کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، جب تک کہ ہم اپنے اصل مشن کی جانب واپس نہ آ جائیں۔
امریکی عدالت نے ٹرمپ حکومت کو حکم دیا ہے کہ ان اداروں کے تمام ملازمین کی نوکریوں اور فنڈنگ کو فوری طور پر بحال کرے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے حکم پر وائس آف امریکا سمیت دیگر اداروں کے 1,300 سے زائد ملازمین جن میں تقریباً 1,000 صحافی شامل تھے کو جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا تھا۔
وائٹ ہاؤس نے ان اداروں پر " ٹرمپ مخالف" اور "انتہا پسند" ہونے کا الزام لگایا تھا۔
وائس آف امریکا نے ریڈیو نشریات سے دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے آغاز کیا تھا اور آج یہ دنیا بھر میں ایک اہم میڈیا ادارہ بن چکا ہے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ طویل عرصے سے VOA اور دیگر میڈیا اداروں پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔
اپنے دوسرے دورِ صدارت کے آغاز میں ٹرمپ نے اپنی سیاسی اتحادی کاری لیک کو VOA کا سربراہ مقرر کیا تھا جو ماضی میں 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ کے دھاندلی کے دعووں کی حمایت کر چکی ہیں۔