گزشتہ دنوں لاہور جم خانہ میں ایک پرانے بیوروکریٹ دوست سے ملاقات ہو گئی۔ دوران گفتگو ہم جس موضوع پر بحث کر رہے تھے کہ ہمارے ہاں ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب پاکستان میں ایسے بڑے لوگ بھی گزرے جنہوں نے پاکستان کا نام نہ صرف روشن کیا بلکہ وہ اپنے اداروں کے لئے بھی بڑی نیک نامی کا سبب بنے۔ ایک نہیں کئی نام جن کی ایمانداری اور کارکردگی پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ اس ملاقات میں ذکر ہوا ایئرمارشل نور خان (مرحوم) کا جنہوں نے 65ء کی فضائی جنگ میں حصہ لیا وہ 71ء کی جنگ میں بھی ہیرو ٹھہرائے گئے۔ فضائیہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی شاندار صلاحیتوں کے مزید امتحان لئے گئے۔ وہ ہاکی فیڈریشن کے صدر بنے تو پاکستانی ہاکی ٹیم کو ورلڈ کپ جتواا دیا پھر کرکٹ میں آئے تو ٹیم کو میرٹ کے سپرد کرتے ہوئے بہترین ٹیم بنا دیا پھر پی آئی اے کے چیئرمین بنے تو اس کو تباہی سے بچایا۔ نور خان کیسے انسان تھے انہی کے زمانے کا ایک واقعہ میرے سابقہ بیوروکریٹ دوست نے بتایا تو دل بھر آیا کہ آج ایسے لوگوں کی ہمیں شدید ضرورت ہے اور ایسے لوگ ہی نایاب ہیں اگر اچھے لوگ ہیں تو وہ نور نظر نہیں یا وہ اس سوچ کے تحت آگے نہیں آ رہے کہ اچھا کمایا، نام خراب نہ ہو جائے، اچھی کمائی عزت اور گزرا اچھا وقت جو ان کی عمر بھر کی کمائی ہے وہ بے ضمیر معاشرے میں کہیں کھو نہ جائے۔
تم پھر نہ آ سکو گے بتاتا تھا تو مجھے
تم دور جا کے بس گئے میں ڈھونڈتا پھرا
جب نور خان (مرحوم)پی آئی اے کے چیئرمین تھے ایک دن دوران سفر لندن کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ جہاز میں کوئی گڑ بڑ ہے۔ (یہ لندن کا واقعہ ہے) فلائٹ میں گڑبڑ کیا تھی یہ سب جاننے کے لئے نورخان اپنی سیٹ سے اٹھے اور جہاز کے کارپٹ میں دروازہ کھول کر اندر آئے اور جہاز کے کپتان سے پوچھا کہ جہاز میں کچھ غلط ہوا ہے کیونکہ دوران پرواز جہاز میں کچھ آوازیں آئی ہیں تو نورخان کو آگے سے جو جواب ملا وہ پوری فرسٹ کلاس میں بیٹھے مسافروں نے بھی سنا۔
’’آئی ایم ان کمانڈ ایئر کرافٹ پلیز کارپٹ کا وہ دروازہ بند کر دیں اور یہاں سے چلے جائیں۔‘‘
یہ جواب سن کر نورخان بغیر کوئی بات کئے کارپٹ کا دروازہ بند کرکے اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ایک پائلٹ اپنے چیئرمین کو اس طرح کا جواب دے گا یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ اس کے ایک حکم سے اس کی نوکری ہمیشہ کے لئے جا سکتی ہے دوسری طرف چیئرمین بھی تو سوچ سکتا تھا کہ اس کے عہدے سے کئی درجے نیچے کا ملازم کس طرح جواب دے رہا ہے مگر ایسا نہیں ہوا۔ نورخان اپنے ہوٹل پہنچے اور پی اے کو کہا کہ پائلٹ کو فون کرو اور اسے کہو کہ آج وہ میرے ساتھ ڈنر کرے۔ میں جہاز والے واقعہ کی اس سے معذرت کرنا چاہتا ہوں تو جواب میں پی اے نے کہا کہ سر اس کی ضرورت نہیں۔ تو نور خان نے کہا نہیں میں نے معذرت کرنی ہے۔ یاد رہے نورخان اپنے زمانے میں وہ آدمی تھا جس سے پورا پاکستان گھبراتا تھا۔ نورخان نے پھر کہا کہ میرے سے غلطی ہوئی ہے میرا کوئی کام نہیں تھا کہ میں کارپٹ میں جاتا لہٰذا اسی رات نورخان نے اپنے پائلٹ کے ساتھ ڈنر کیا، اس سے باقاعدہ معذرت کی۔ کبھی میں یا آپ نے یہ بات سوچی ہے کہ ہمارے ملک کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ اچھے لوگ اچھے لیڈر اچھے نظریات کے ذہین لوگ ہمارے درمیان موجود ہونے کے باوجود سامنے نہیں آتے اور ایسے لوگ واقعی اگر اداروں میں موجود ہیں تو وہ نورخان کیوں نہیں۔ ان کے اندر کیا خوف ہیں جو پہلے لوگوں میں نہیں تھے جبکہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ ہمارے درمیان ایک نہیں ہزاروں لوگ ہیں جو ایئرمارشل نورخان مرحوم جیسے لوگوں کے کردار کے مالک ہیں۔ کیوں ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ اچھے کردار کے لوگوں کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔
ہمارے زمانے میں جب پی ٹی وی ہمارے گھروں میں اکیلا ہی حکمرانی کرتا تھا تو روزانہ ’’خبرنامہ‘‘ کے بعد فرمان قائدؒ کے ساتھ ساتھ قائداعظمؒ اور ان کی بہن مادر ملت فاطمہ جناح کی تصویر بھی دکھائی جاتی تھی تو بچے اپنے والدین سے پوچھتے کہ قائداعظمؒ کون ہیں تو ان کو بتایا جاتا کہ انہوں نے پاکستان بنایا تھا تو پھر سوال آتا کہ کونسا پاکستان تو ہم جواب دیتے کہ جہاں ہم رہ رہے ہیں پھر سوال آتا کہ قائداعظم کہاں ہیں جواب دیتے کہ وہ اللہ میاں کے پاس ہیں پھر سوال آتا کہ اللہ میاں کہاں ہیں، اللہ میاں سے بولو کہ وہ ہمیں قائداعظمؒ واپس دے دیں وہ ہمیں پاکستان واپس دیں گے جو پہلے بہت بڑا پاکستان تھا اب یہ آدھا پاکستان ہے جو اب پورا پاکستان کہلاتا ہے۔ اب ان بچوں کو کون سمجھائے کہ اب قائداعظمؒ واپس آ سکتے ہیں نہ ٹوٹا پاکستان پھر سے بڑا پاکستان بن سکتا ہے کہ اب وہ لوگ نہیں ہیں وہ لیڈر نہیں ہیں وہ طاقتور نظریئے نہیں ہیں، نہ وہ سیاست دان ہیں جو نظریہ پاکستان کی سیاست کے قائل تھے جو پاکستان کے لئے سیاست کرتے تھے اقتدار ان کا مقصد حیات نہیں تھا۔ جمہوریت انتقام ہے یہ نعرہ صرف بیوقوف بنانے کے لئے لگایا گیا۔ جمہوریت کے نام پر ہم نے کس قدر تباہیاں ہوتے دیکھیں۔ اس کے نام پر کس قدر جھوٹ بول بول کر ہم نے مارشل لاء لگوائے۔ اپنے ہاتھوں ڈکٹیٹرز پیدا کئے۔ اسلام سے عوام تک جمہوریت۔ دوسری طرف یہی جمہوریت سقراط کو زہر کا پیالہ پلاتی ہے، منصور کو سولی پر چڑھاتی ہے، عیسیٰ کا احترام نہیں کرتی۔ اسی جمہوریت کے ناتے کوئی مفکر، امام عالم دین، ولی یا مرد حق برسراقتدار نہیں آ سکتا۔ اسی جمہوریت نے بھٹو کو غلط پھانسی دلوائی، ایسے حالات میں کہاں اچھے لوگ سامنے آئیں گے جو زندگیوں کا رسک لے کر اس ملک و عوام کے لئے کچھ کر جائیں گے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ہیں تو ہیں جو کے لئے
پڑھیں:
دہشت گردوں کی سرپرستی کاخاتمہ ناگزیر
افغانستان اور پاکستان نے استنبول میں 6 نومبر سے امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے اور اس موقع تک جنگ بندی قائم رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ دوسری جانب سیکیورٹی فورسز کے بلوچستان کے علاقوں کوئٹہ،کچھی اورکیچ میں ٹارگٹڈ آپریشنز، شدید فائرنگ کے تبادلے میں بھارتی پراکسی فتنہ الہندوستان کے تین اہم کمانڈرز سمیت 24 دہشت گرد ہلاک ہوگئے جب کہ خیبر پختو نخوا کے ضلع باجوڑ میں ایک گروہ کی دراندازی کی کوشش ناکام بناتے ہوئے انتہائی مطلوب خارجی کمانڈر امجد عرف مزاحم سمیت چار دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا۔
استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات، خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں ایک ایسی پیش رفت ہیں جنھیں صرف سفارتی کوشش نہیں بلکہ خطے کے مستقبل کی سمت متعین کرنے والا لمحہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ دونوں ممالک نے چھ نومبر سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے اور اس موقع تک جنگ بندی قائم رکھنے پر اتفاق کیا ہے، جو بلاشبہ ایک مثبت اشارہ ہے، اگرچہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ یہ مذاکرات دیرپا امن کی ضمانت بن جائیں گے، مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بات چیت کا جاری رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان نے ابتدائی طور پر امید کی تھی کہ کابل نئی حکومت کے ساتھ تعاون کے جذبے سے تعلقات کو بہتر بنائے گا، لیکن وقت کے ساتھ یہ توقعات کمزور پڑتی گئیں۔ تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں میں تیزی، سرحد پار حملوں اور پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر بڑھتے ہوئے حملوں نے صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا۔
اسلام آباد کا کہنا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین پر TTP کو پناہ دے رہا ہے اور ان کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کر رہا۔ کابل ان الزامات کو مسترد کرتا ہے اور خود کو ایک خود مختار ملک کے طور پر پیش کرتا ہے جو کسی دوسرے ملک کے دباؤ میں نہیں آنا چاہتا، لیکن زمینی حقائق کچھ اورکہانی سناتے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے حالیہ حملوں کے بعد جس طرح شواہد سامنے آئے ہیں، وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے اور سہولت کار اب بھی افغان سرزمین پر موجود ہیں، یہی وہ نکتہ ہے جس پر پاکستان کا صبر اب لبریز ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
ایک جانب باضابطہ بیانات، مذاکرات اور امن کی باتیں سامنے آتی ہیں، تو دوسری جانب ایسے واقعات جن میں سرحد پار سے دراندازی، ٹارگٹڈ کارروائیوں یا دہشت گردوں کی موجودگی کا شبہ ہوتا ہے، امن کے بیانیے کو چیلنج بناتے ہیں، اگر افغانستان، تحریک طالبان یا دیگر دہشت گرد تنظیموں پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اس کا اعتراف ایک اخلاقی اور عملی ضرورت بن جاتا ہے، نہ صرف پاکستان کے لیے، بلکہ پورے خطے کی سلامتی کے لیے بھی۔
اگر کابل حکومت کی طرف سے واضح اور موثرکوششیں موجود ہیں تو اس کا ثبوت طلب کرنا درست ہے اور اگر وہ نااہل یا ناتواں ہے تو اس کا اعتراف کرنا ہوگا۔ افغانستان واقعی دہشت گرد عناصرکو پناہ دے رہا ہے یا ان کی سرپرستی کر رہا ہے، تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔
امن کے دعوے اور دہشت گردی کی سرپرستی ایک ہی وقت میں ممکن نہیں، نہایت ضروری ہے کہ اگر افغانستان حکومت واقعی میں اس قابل نہیں کہ وہ دیگرگروہوں کو کنٹرول کرے، تو وہ اس حقیقت کا باوقار اور شفاف اعتراف کرے، یہ اعتراف کمزوری کا اظہار نہیں بلکہ مسئلے کے حل کا پہلا قدم ہوگا۔
اس پس منظر میں آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیرکا حالیہ بیان خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے واضح انداز میں کہا کہ پاکستان تمام ہمسایوں کے ساتھ امن کا خواہاں ہے، مگر افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی برداشت نہیں کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ عسکری قیادت نے اب فیصلہ کیا ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے حساس علاقوں کو دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں سے پاک کیا جائے گا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے حالیہ آپریشنز اس عزم کی واضح مثال ہیں۔
کوئٹہ، کیچ اور کچھی کے علاقوں میں سیکیورٹی فورسز نے ٹارگٹڈ آپریشنز کے دوران بھارتی پراکسی تنظیم ’’ فتنہ الہندوستان‘‘ کے اہم کمانڈرز سمیت درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔ اسی طرح باجوڑ کے مقام پر پاک افغان سرحد کے قریب ایک دراندازی کی کوشش کو ناکام بنا کر چار دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، جن میں انتہائی مطلوب کمانڈر امجد عرف مزاحم بھی شامل تھا۔ یہ کارروائیاں نہ صرف دہشت گرد نیٹ ورکس کے لیے بڑا دھچکہ ہیں بلکہ اس بات کا ثبوت بھی کہ پاکستان اپنی سلامتی پرکسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔
افغانستان کے لیے بھی یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ طالبان حکومت کو عالمی سطح پر اب بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ معاشی پابندیاں، بیرونی فنڈزکی بندش اور داخلی بدامنی نے کابل انتظامیہ کو ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں اسے اپنے ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان، جو کبھی طالبان حکومت کا سب سے بڑا حامی سمجھا جاتا تھا، اب اسی حکومت سے نالاں دکھائی دیتا ہے۔
طالبان قیادت کے لیے یہ احساس ضروری ہے کہ پاکستان کے ساتھ دشمنی ان کے اپنے مفاد میں نہیں، اگر افغانستان اپنے ہمسایوں کے ساتھ متوازن تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے لیے اقتصادی مواقع، علاقائی تجارت اور بین الاقوامی قبولیت کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
استنبول مذاکرات کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ان میں خطے کے دیگر ممالک کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ چین، جو سی پیک کے ذریعے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے، یہ چاہتا ہے کہ افغانستان بھی اس منصوبے کا حصہ بنے۔ بیجنگ جانتا ہے کہ اگر افغانستان میں استحکام آتا ہے تو وسطی ایشیا، چین اور پاکستان کے درمیان تجارتی راستے کھل سکتے ہیں، جو تمام فریقین کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔ اسی طرح ایران بھی ایک مستحکم افغانستان کا خواہاں ہے،کیونکہ بد امنی کے اثرات اس کی سرحدوں تک پہنچ چکے ہیں۔ ان تمام عوامل نے مل کر استنبول مذاکرات کو عالمی اہمیت دے دی ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ پیش رفت محض دو ممالک کے درمیان سفارتی رابطہ نہیں بلکہ ایک بڑے علاقائی وژن کا حصہ ہے، اگر افغانستان سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ اس عمل کو آگے بڑھاتا ہے تو یہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے امن و استحکام کا نیا باب ثابت ہو سکتا ہے۔
دہشت گرد نیٹ ورکس، اسمگلنگ مافیا اور وہ قوتیں جو خطے میں دشمنی کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں، ہر ممکن کوشش کریں گی کہ یہ عمل ناکام ہو جائے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں طالبان قیادت کی بصیرت کا امتحان ہے،انھیں امن دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں نہیں کھیلنا چاہیے ۔افغانستان کی طالبان حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنے وعدوں پر عملدرآمد ہے، اگر وہ واقعی امن کی خواہاں ہے تو اسے نہ صرف TTP کے خلاف واضح اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے بلکہ پاکستان کے خدشات کو بھی سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ طالبان پاکستان کے خدشات کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔
عوامی سطح پر بھی اس امن عمل کو مقبول بنانا ضروری ہے۔ دونوں ممالک کے عوام جنگ سے تنگ آچکے ہیں۔ ایک طرف پاکستان کے قبائلی علاقے ہیں جو برسوں سے بد امنی کی چکی میں پِس رہے ہیں، دوسری جانب افغانستان کے شہری ہیں جنھوں نے چار دہائیوں سے مسلسل جنگ اور تباہی کا سامنا کیا ہے، خطے کی ترقی کے لیے امن کا قیام ناگزیر ہے۔ استنبول مذاکرات کے موقع پر یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید اب وہ وقت آ گیا ہے جب طالبان اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ایک نئے باب کا آغازکریں۔یہ بھی درست ہے کہ امن کا سفر طویل اور دشوار ہے، مگر اس سفرکا پہلا قدم بات چیت ہے اور یہی قدم استنبول میں اٹھایا گیا ہے۔
اب یہ طالبان کی سیاسی بصیرت پر منحصر ہے کہ وہ اس موقع کو کس طرح استعمال کرتے ہیں، اگر ماضی کی طرح محض وقتی فائدے کے لیے یہ عمل دوبارہ تعطل کا شکار ہوا تو پورا خطہ اس کے منفی اثرات بھگتے گا۔ دہشت گردی، انتہا پسندی، غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل کا حل اسی میں ہے کہ خطے میں پائیدار امن قائم ہو۔آرمی چیف کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ’’امن کے بغیر ترقی ممکن نہیں‘‘ آج دنیا میں ترقی وہی ملک کر رہے ہیں جنھوں نے اپنے داخلی اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا۔ افغانستان بھی اگر اسی راستے پر چلے تو وہ دن دور نہیں جب خطہ امن، استحکام اور خوشحالی کی مثال بن سکتا ہے۔
استنبول مذاکرات اس سفر کا نقطہ آغاز ہیں۔آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ استنبول میں ہونے والے یہ مذاکرات محض الفاظ کا تبادلہ نہیں بلکہ امید کی ایک شمع ہیں، اگر اس شمع کو بجھنے نہ دیا گیا تو ممکن ہے کہ برسوں کی تاریکی کے بعد روشنی کا سفر شروع ہو جائے، لیکن اگر یہ موقع بھی ضایع ہوا، تو تاریخ ایک بار پھر افغانستان کو اس خطے کی بد امنی کا ذمے دار ٹھہرائے گی۔ اب فیصلہ افغان طالبان کی عبوری حکومت کے ہاتھ میں ہے، جن کے اقدامات آیندہ نسلوں کی تقدیر لکھیں گے۔