غزہ سے حماس کے خاتمے میں ناکامی نے نیتن یاہو کو برا پھنسا دیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
غزہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جنوری2025ء)اسرائیل اورحماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی معاہدے سے بلاشبہ دونوں طرف کے اسیران کی رہائی ممکن ہو جائے گی اور اسرائیل کے بچے کھچے یرغمالیوں کے بحفاظت گھر واپس پہنچنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ لیکن اس معاہدے کے نتیجے میں ایک خطرہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق وہ خطرہ یہ ہے کہ غزہ کے بر سر زمین حالات دنیا کے سامنے اس طرح آرہے ہیں کہ اسرائیلی فوج اس طویل تر جنگ کے باوجود اپنے اہم ترین اہداف غزہ سے حماس اور اس کے کردار کا خاتمہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
جیسا کہ نیتن یاہو اپنے یہ اہداف دہرا دہرا کر کہتے رہے ہیں۔ اس طرح دہرا دہرا کہ سب سننے والوں کو زبانی یاد ہو چکے ہیں۔ اسی چیز کو وہ غزہ میں اسرائیلی جنگ کرنے کے جواز کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔(جاری ہے)
اس بارے میں ایک معروف تھنک ٹینک کے سینیئر کنسلٹنٹ اور پروفیسر یوسی میکلبرگ کی رائے ہے کہ اسرائیل کی مخلوط حکومت کے کئی اہم رہنمائوں کا ناراض ہو کر نکل جانا اور کئی کا جنگ بندی کی وجہ سے حکومت سے نکل جانے کی دھمکی دینے سے نیتن یاہو کئی حوالوں سے پھنس گئے ہیں۔
اس کے باوجود اس جنگ بندی معاہدے کے لیے نئے بن چکے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بھی اسرائیلی وزیر اعظم پر دبا تھا لیکن وہ پھنس سے گئے ہیں۔اس دوران یہ بھی ہو گیا کہ اسرائیلی میڈیا اور عوام کا فوکس بھی اسی طرف ہوگیا ہے کہ نیتن یاہو غزہ کی اس جنگ کو ' ہینڈل ' کیسے کرتے رہی'پروفیسر یوسی میکلبرگ کے مطابق ایک طرف نیتن یاہو حکومتی اتحادیوں کو نہیں چھوڑنا چاہتے اور دوسری جانب وہ اقتدار چھوڑ کر عدالتوں میں کرپشن کیسز کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ یاد رہے نیتن یاہو ان دنوں چھٹی بار وزارت عظمی پر فائز ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے کیسز بھی بھگت رہے ہیں۔ اس لیے حکومت میں رہنا ان کی مجبوری ہے۔ انہیں ایک مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ امریکہ میں اب صدر جوبائیڈن نہیں ٹرمپ آگئے ہیں۔ اس لیے ان کی الجھن کا معاملہ سنگین ہے۔'پروفیسر یوسی میکلبرگ کا یہ بھی کہنا تھاسموٹریچ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیتن یاہو سے ناخوش ہے۔ بین گویر کی جماعت پہلے ہی حکومت چھوڑ گئی ہے۔ اگر یہ بھی حکومت چھوڑ جاتے ہیں تو نیتن یاہو کی مخلوط حکومت کے لیے اکثریت برقرار رکھنا مشکل ہو گا۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ نئے انتخاب کی طرف جانے کی بھی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ عوام کی اکثریت انہیں اقتدار سے باہر دیکھنا چاہتی ہے۔تھنک ٹینک کے سینیئر کنسلٹنٹ نے اسرائیلی جنگ کے ہدف کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ' غزہ میں مکمل فتح اور حماس کے خاتمے کا ہدف ایک ذہنی اختراع تو ہو سکتی تھی عملی طور پر حاصل ہونے والا ہدف نہیں۔ اب جنگ بندی کے بعد اسرائیلی میڈیا نے بھی اپنا فوکس بدل لیا ہے۔ نیتن یاہو میڈیا کے سامنے آگئے ہیں۔ جو کہتے رہے ہیں کہ اسرائیل اس وقت تک جنگ ختم نہیں کرے گا جب تک حماس کا غزہ سے صفایا نہیں کر دیا جاتا۔ اب سب سے بڑا سوال اسی بارے میں ہونے لگا ہے۔اسی طرح دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا میڈیا نیتن یاہو کو سختی سے تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے اور ان سے ناخوش ہے۔ جبکہ عملیت پسندی سے تعلق رکھنے والا میڈیا بھی یرغمالیوں کو اس طرح واپس لانا ایک قیمت سمجھتا ہے۔ تاہم وہ یرغمالیوں کے واپس آنے کو اچھا جانتا ہے۔اسرائیلی عوام کی اکثریت اس جنگ بندی پر اس لیے خوش ہے کہ اس سے یرغمالی واپس آئیں گے۔ حتی کہ اس طرح بھی حماس کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔پروفیسر یوسی میکلبرگ نے اس سوال پر کہ کیا نیتن یاہو نئے سرے سے جنگ شروع کر سکتے ہیں تاکہ غزہ میں اپنے اہداف حاصل کر لیں تو ان کا کہنا تھا کہ 'یہ ایک ممکنہ منظر ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ یہی ایک ممکنہ منظر ہوگا۔ بس ایک منظر ضرور ہے، یہی ایک منظر نہیں۔'.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کہ اسرائیل نیتن یاہو رہے ہیں یہ بھی
پڑھیں:
غزہ کی المناک صورت حال پوری انسانیت کی ناکامی ہے، حاجی حنیف طیب
اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کو اسلحہ اور مالی معاونت فراہم کررہا ہے اُسے یہ معلوم تھا کہ اسرائیل یہ حملے کرنے والا ہے، مسلم ممالک کو اپنی آنکھیں کھول لینی چاہیئے، اسرائیل کے خلاف جرأت مندانہ اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ نظام مصطفی پارٹی کے چیئرمین سابق وفاقی وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر حاجی محمد حنیف طیب نے کہا ہے کہ غزہ فلسطین کی المناک صورت حال پوری انسانیت کی ناکامی ہے، 7 اکتوبر 2023ء سے شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں شہداء کی تعداد 68 ہزار سے زائد ہوگئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعدادایک لاکھ 65 ہزار تک پہنچ گئی ہے، قحط اور بھوک کے باعث ہونے والی اموات کی تعداد 500 کے قریب ہے، اس کے باوجود انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی اداروں کی خاموشی افسوسناک ہے جبکہ 57 اسلامی ممالک، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) رابطہ عالم اسلامی اور عرب لیگ جیسی تنظیموں کے باجود مسلم حکمرانوں کی بے حسی قابل مذمت ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے خداداد کالونی میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
حاجی محمد حنیف طیب نے مزید کہا کہ غزہ میں لاکھوں لوگ زخمی ہیں اور ہزاروں بچے بھوک کا شکار ہیں، علاج معالجہ تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں، اگر ہر مسلم ممالک دس ہزار لوگوں کے علاج معالجہ اور بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کو اپنے لئے سعادت سمجھ سرانجام دیں لیکن افسوس کسی کو یہ توفیق نہیں ہورہی۔ڈاکٹر حاجی حنیف طیب نے کہا کہ مسلم حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اسرائیلی جارحیت صرف غزہ تک محدود نہیں قطر، لبنان، شام، ایران، یمن بلکہ پورے مشرق وسطی میں بڑھتی جارہی ہے، امریکہ اسرائیل کو اسلحہ اور مالی معاونت فراہم کررہا ہے اُسے یہ معلوم تھا کہ اسرائیل یہ حملے کرنے والا ہے، مسلم ممالک کو اپنی آنکھیں کھول لینی چاہیئے، اسرائیل کے خلاف جرأت مندانہ اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔