انڈین ٹیم کا اپنی جرسیوں پر ’پاکستان‘ لکھنے سے انکار، نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
پاکستان کی میزبانی میں اگلے ماہ ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی میں انڈیا نے ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا ہے جس کے بعد اسے سیاست کے زیر اثر کھیلوں کو متنازعہ بنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق انڈین کرکٹ بورڈ نے بھارتی ٹیم کی چیمپیئنز ٹرافی کے دوران پہننے والی جرسیوں پر میزبان ملک پاکستان کا نام لکھنے سے انکار کردیا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق انڈیا سیاست کو کرکٹ میں لارہا ہے جو کھیلوں کے لیے ٹھیک نہیں۔ پہلے انہوں نے پاکستان آنے سے انکار کردیا، پھر اپنے کپتان کو پاکستان بھیجنے پر راضی نہیں ہوئے اور اب رپورٹس آئی ہیں کہ وہ میزبان ملک کا نام اپنی جرسیوں پر لکھنے کو بھی تیار نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:چیمپیئنز ٹرافی: انڈیا نے اسکواڈ کا اعلان کردیا، کن اہم کھلاڑیوں کی واپسی ہوئی؟
اس سے قبل انڈیا نے ایونٹ سے قبل میں پاکستان میں ہونے والے میچز کھیلنے سے انکار کرکے ہائبرڈ ماڈل پر اصرار کیا تھا جس کی وجہ سے ایونٹ کے شیڈول کے اعلان میں تاخیر ہوتی رہی اور انڈیا کے میچز دبئی میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس کے بعد بھارت نے پاکستان میں ہونے والی ’کیپٹنز میٹنگ‘ میں ٹیم کے کپتان روہت شرما کو بھیجنے سے بھی انکار کردیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
champions trophy india JERSY انڈیا جرسی چیمپیئنز ٹرافی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انڈیا چیمپیئنز ٹرافی چیمپیئنز ٹرافی سے انکار
پڑھیں:
تحقیقاتی ادارے کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونی والی کرپشن پر خاموش کیوں ہیں؟ نعیم الدین
نجمن امامیہ گلگت بلتستان کے مرکزی نائب صدر نعیم الدین سلیمان نے ایک بیان میں کہا اہم ریاستی ادارے، اینٹی کرپشن اور FIA جیسے اداروں کو کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات پر مکمل خاموشی سوالیہ نشان ہے اور اسی ادارے میں میرٹ کے خلاف یکطرفہ طور پر ملازمین کی تقرری اقربا پروری میں سابقہ سیکریٹری صحت اور سابق وزیر صحت ملوث ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ انجمن امامیہ گلگت بلتستان کے مرکزی نائب صدر نعیم الدین سلیمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انسانی سماج میں حکومت اور اپوزیشن کا تصور ایک حقیقت ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، اس لئے کہ وہ اقتدار میں ہوتی ہے، ایسے میں اپوزیشن اور عوام کو تنقید کا موقع نہ دینا حکومت کی کامیاب حکمت عملی سمجھی جاتی ہے۔ گلگت بلتستان میں منرلز کے معاملہ پر حکومت سے گلہ شکوہ ہونا فطری امر ہے اور حکومت کو ایسے مواقع میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ لیکن پاکستان منرل انویسٹمنٹ فورم کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے واضح موقف سامنے نہ آنے کے نتیجہ میں عوام کی بے چینی بڑھ گئی، جس کا ازالہ کرنا بھی حکومت کے فرائض میں شامل تھا، جس کی کمی اب بھی محسوس کی جا رہی ہے اور آغا سید راحت حسین الحسینی جو کہ پورے گلگت بلتستان کے عوامی نمائندہ اور قائد ہیں نے جمعہ خطبے میں بھرپور عوامی ترجمانی کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی جماعتی اور انفرادی حیثیت کے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی شخصیات اس کا بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حکومتی مشنری بالخصوص میڈیا ایڈوائزر کی جانب سے بے چینی کے ازالہ کے بجائے مزید خلفشار پیدا کرنے کے بیان سے بے چینی جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی جس کے بعد ایک صوبائی معاون خصوصی کی جانب سے مذکورہ ایڈوائزر کے خلفشار کا بیان واپس لینے کے اعلان کو سمجھداری سے تعبیر کیا جاتا ہے اور مرکزی انجمن امامیہ کے جانب سے عوام الناس اور سوشل میڈیا صارفین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس بیان بازی کا سلسلہ کو روک دیا جائے۔ اہم ریاستی ادارے، اینٹی کرپشن اور FIA جیسے اداروں کو کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات پر مکمل خاموشی سوالیہ نشان ہے اور اسی ادارے میں میرٹ کے خلاف یکطرفہ طور پر ملازمین کی تقرری اقربا پروری میں سابقہ سیکریٹری صحت اور سابق وزیر صحت ملوث ہیں۔
اسی طرح کئی انکوائریاں سرد خانے کی نذر کی گئی ہیں۔ یہ وہ سوالیہ نشانات ہیں جن کا اظہار تو سیاسی مصلحت کاروں کی طرف سے خاموشی اور علماء کرام کی طرف سے نشاندہی پر آگ بگولہ ہونا ہے۔ تاہم اس کا جواب یہ مشیران اور وزاء سمیت پوری ریاست کو دینا پڑے گا۔ اگر آغا صاحب کی طرف لگایا گیا الزام درست نہیں تو اوپر بیان کئے گئے کریشن کی انکوائریاں کیوں پنڈنگ میں رکھی گئی ہیں۔ اس میں براہ راست سیکریٹری صحت اور سابقہ وزیر صحت کے ملوث ہونے کے شبہات کا جنم لینا اور اس پر حکومتی اور انتظامی خاموشی ان کے ملوث ہونے کی واضح دلیل ہے۔