اسلام آباد:

سپریم کورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں زیر سماعت ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کو ڈی لسٹ کردیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس سے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کے ڈی لسٹنگ کا نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔

رجسٹرار آفس کی جانب سے ڈی لسٹنگ کے بعد کل سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت نہیں ہو سکے گی۔

واضح رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے آرٹیکل 191-اے سے متعلق کیس حکم کے نامے کے مطابق اسی بینچ میں مقرر نہ کرنے پر20 جنوری کو ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کردیا تھا۔

بینچ نے کہا تھا کہ حکم نامے میں کیس اسی بینچ کے سامنے مقرر کرنے کے لیے کہا گیا تھا لیکن کیس کی کاز لسٹ جاری نہیں کی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین ججوں کے بینچ نے کہا تھا کہ 16 جنوری کے حکم نامے کی موجودگی میں عدالتی حکم کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔

بینچ نے کہا تھا کہ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ اس بینچ کے سامنے ٹیکس سے متعلق تمام مقدمات بھی منسوخ کردیے گئے ہیں، اب ایک ریسرچ افسر طے کرے گا کہ کون سے مقدمات آئینی بینچ میں جائیں گے اور ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کیا۔

بعدازاں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل دو رکنی بینچ بنایا گیا اور کیس سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا جبکہ سنگین غفلت برتنے پر ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کو عہدے سے برطرف کردیا گیا۔

اسی طرح بینچ میں شامل تینوں ججوں نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو الگ الگ خط بھی لکھا تھا اور جسٹس منصور علی شاہ نے معاملے کو توہین عدالت بھی قرار دیا تھا۔

بینچ کے اراکین نے ججز کمیٹی کے رکن اور سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کو بھی خط لکھا تھا اور بینچ کے اختیارات سے متعلق کیس کا ذکر کیا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ کے خط میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ انہوں نے 17 جنوری کو ہونے والے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اجلاس میں دعوت کے باوجود شرکت سے گریز کیا تھا جبکہ سماعت کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ انہیں اجلاس کے بارے میں علم نہیں تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں اس حوالے سے لکھا کہ انہیں ججز کمیٹی میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کمیٹی پہلے والا بینچ تشکیل دے کر 20 جنوری کو سماعت مقرر کرسکتی تھی۔

معاملے کو توہین عدالت قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیس مقرر نہ کرنا جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننے کے مترادف ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی نے سماعت کے دوران ایڈیشل رجسٹرار (جوڈیشل) سپریم کورٹ کے خلاف توہین عدالت کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما اور سینیٹر قانون دان حامد خان اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر منیر اے ملک کو عدالت کا معاون مقرر کردیا تھا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کردیا گیا اور جسٹس بینچ کے

پڑھیں:

ایران پر حملہ یقینی تھا مگر ایران نے بروقت تیاری نہیں کی، منصور جعفر

سینیئر صحافی اور العربیہ اردو کے ایڈیٹر منصور جعفر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 2 دنوں میں امریکا کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں موجود اپنے سفارتکاروں کو دی جانے والی ٹریول ایڈوائزریز اور دیگر اقدامات دیکھ کر یقین ہوگیا تھا کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے مگر اس ساری صورتحال میں ایران محتاط نہ رہا اور اسے ایک ہی حملے میں بہت بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

وی نیوز سے خصوصی انٹرویو کے دوران منصور جعفر کا کہنا تھا کہ ایران پر حملے سے 2 دن پہلے امریکا نے مشرق وسطیٰ کے ان تمام ممالک میں موجود اپنے سفارتکاروں کو ٹریول ایڈوائزری بھیجی جہاں امریکی اڈے ہیں کہ وہ محفوظ ٹھکانوں پر چلے جائیں، اسی طرح حملے سے صرف ایک دن قبل تل ابیب میں موجود امریکی سفارتکاروں کو بھی ہدایت جاری کردی گئی کہ وہ تل ابیب سے باہر نہ جائیں۔ اسی طرح آئی اے ای اے نے 20 سالوں میں پہلی مرتبہ اپنی رپورٹ میں کہا کہ جوہری توانائی حاصل کرنے کے لیے ایران اصولوں کی خلاف ورزی کررہا ہے، یہ سب غیر معمولی تھا مگر اس کے باوجود ایرانی فوجی قیادت پاسداران انقلاب کے دفترمیں میٹنگ میں مصروف تھی جس کے سبب ایک ہی حملے میں اتنے بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

ایران پر حملے کے لیے اسرائیل نے کتنے فائٹر جیٹس کا استعمال کیا؟

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حملے کا جواب دینے کے لیے ایران پر دباؤ تو ہے مگر اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو اس کی مسلح طاقت ہے اس کا امریکا اور اسرائیل کا تقابل ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران کے پاس زیادہ سے زیادہ بیلسٹک میزائلز ہیں یا پھر روس کا استعمال شدہ شروع آئرن ڈوم، جبکہ اس کے مقابلے میں اسرائیل نے بھرپور تیاری کے ساتھ ایران پر حملہ کیا ہے۔ منصور جعفر نے بتایا کہ اسرائیل نے ایران کے 7 مقامات پر 2200 فائٹر جیٹس کے ساتھ ایک ساتھ حملہ کیا اور یہ اسرائیلی فضائیہ کی نصف تعداد بنتی ہے۔

منصور جعفر نے بتایا کہ ایران کی جانب سے اب تک 100 ڈرونز اسرائیل بھیجے ہیں اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ کس کس مقام پرمیزائل شکن سسٹم موجود ہے تاکہ مستقبل میں ان جگہوں سے احتیاط برتی جائے۔

اسرائیل کے لیے مشکلات کیا ہیں؟

منصور جعفر نے کہا کہ اسرائیل کے بنانے کا مقصد یہی تھا کہ یہاں لوگ پُرامن اور خوشحال زندگی گزار سکیں مگر وہاں صبح سے سائرن بج رہے ہیں اور لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ زندگی کو بچانے کے لیے بنکرز میں وقت گزاریں، تو یقینی طور پر مقامی لوگوں کے لیے یہ خوف کا عالم کسی بھی طور پر آسان نہیں ہے اور محض ڈرون اڑنے کی خبر اور بجے والے سائرن نے وہاں کے لوگوں کو مشکل سے دوچار کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہی کچھ 7 اکتوبر 2023 کے بعد ہوا تھا اور جب اسرائیل میں خطرات سے بچنے کے لیے سائرن بجنا شروع ہوئے اور خوف کا عالم بڑھنے لگا تو ایئرپورٹس پر رش لگ گیا اور لوگ ملک سے فرار ہونے کے لیے بے تاب ہونے لگے، اگر یہی صورتحال زیادہ دیر جاری رہتی ہے تو اسرائیل کے لیے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ کسی بھی ملک کے لیے مستقل جنگ میں رہنا آسان نہیں ہے اور اسی وجہ سے اسرائیل کی معیشت تباہ حال ہوتی جارہی ہے اور جس دن اسے امریکا کی جانب سے ملنے والی امداد رک جائے تو اس کے لیے قائم رہنما تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ اسرائیل آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں ترقی کا خواہ تھا مگر امن و امان کی ایسی صورتحال کے سبب اس کا معاشی پہیہ مکمل طور پر رک چکا ہے۔

مشرق وسطیٰ کا مستقبل کیا ہوگا؟

انہوں نے کہا کہ اس کا دار و مدار خطے کے دیگر ممالک کے ردعمل پر ہے۔ منصور جعفر نے کہا کہ سعودی عرب نے سب سے پہلے اس حملے کی ناصرف مذمت کی بلکہ سعودی وزیر خارجہ نے ایرانی ہم منصب سے رابطہ بھی کیا، اگر اسی طرح خطے کے دیگر ممالک بھی اپنا کردار ادا کریں تو یقیناً اس صورتحال پر قابو پایا جاسکتا ہے ورنہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ایک بدمست ہاتھی بن چکے اور ان کے دل میں جو آرہا ہے وہ کررہے ہیں۔

ایران پر حملے کے بعد پاکستان کو کیا خطرات ہیں؟

منصور جعفر کا کہنا تھا کہ اس حملے کے بعد پاکستان کے لیے بھی خطرات بڑھ گئے ہیں کیونکہ ایران اور پاکستان کی سرحدیں ملتی ہیں اور سیستان میں فتنۃ الہندوستان اور بلوچ لبریشن آرمی متحرک ہے  لہٰذا جو اسرائیلی سری نگر سے بیٹھ کر پاکستان میں ڈرونز بھیج سکتا ہے وہ یقیناً اب بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اگر آج ایران کو جوہری طاقت بننے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے تو یہ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں پاکستان سے بھی یہ صلاحیت لینے کے لیے بھارت اور اسرائیل عالمی طاقتوں کے ساتھ ملکر پاکستان پر حملہ آور ہوں۔ لہٰذا پاکستان کو ابھی سے نہ صرف سفارتی میدان میں متحرک ہونے کی ضرورت ہے بلکہ عسکری طور پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں کسی کی بھی نظر ہم پر نہ پڑ سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل ایران کشیدگی

متعلقہ مضامین

  • ایران پر حملہ یقینی تھا مگر ایران نے بروقت تیاری نہیں کی، منصور جعفر
  • حکومت کو عافیہ صدیقی کی رہائی کی استدعا کرنے میں کیا نقصان ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ
  • امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی سے متعلق کیس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوالات کے جوابات طلب
  • حکومت کو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی استدعا سے آخر کیا نقصان ہے ، اسلام آباد ہائیکورٹ
  • پشاور‘ سپریم کورٹ پولیس کے زیر استعمال مال مقدمہ گاڑیوں پر برہم، تفصیلات طلب
  • سپریم کورٹ: قائد عوام یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر کا جرمانہ ختم، مضمون کی تبدیلی پر اعتراض مسترد
  • عدالت عظمیٰ کی تاریخ میں ریکارڈ قائم‘ 4روز میں489کیسز نمٹادیے
  • بلاول کی سربراہی میں پارلیمانی وفد برسلز پہنچ گیا 
  • پشاور ہائیکورٹ: عاطف خان کو درج مقدمات میں گرفتار نہ کرنے کا حکم
  • 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا معطلی درخواستوں پر سماعت کرنے والے بنچ کے جسٹس آصف رخصت پر چلے گئے