Express News:
2025-09-18@14:10:42 GMT

خصوصی افراد کی زندگیوں کو درپیش چیلنجز

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

دنیا میں موجود ہر ذی نفس اللہ کی تخلیق ہے۔کوئی بھی شخص خواہ وہ کسی بھی رنگ نسل، قوم قبیلے، یا خطے سے تعلق رکھتا ہو وہ قابل احترام ہے کیونکہ یہ سب وہ حوالہ جات ہیںجو کسی بھی فرد کو پیدائشی طور پر ملتے ہیں اور کوئی بھی شخص یہ چننے کا اختیار نہیں رکھتا کہ اسے کس کے گھر پیدا ہونا ہے یا کس شکل و صورت کے ساتھ۔ ایسے افراد جو پیدائشی کسی بھی جسمانی معذوری کا شکار ہوںیا حادثاتی طور پر کوئی معذوری لاحق ہو جائے انھیں ایک بوجھ کی طرح سمجھ کر الگ کر دیا جاتا ہے ۔

معاشرے میں ان کے کردارکو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔ کوئی بھی شخص بے کار نہیں اور قدرت نے کسی بھی تخلیق کو بنا مقصد پیدا نہیں کیا۔ یہاں اقبال کا وہ شعر بر محل ہے کہ

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں

کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

قدرت ہر کسی کو کوئی نہ کوئی خوبی عطا کرتی ہے اس تفریق سے بالاترہو کر کے کسی کی جسمانی ساخت شکل و صورت کیسی ہے۔معذور افراد خواہ حادثاتی ہوں یا پیدائشی اپنے اندر ایک مکمل انسان کی شخصیت رکھتے ہیں اور ان کے جذبات و احساسات بھی اسی قدر اہمیت کے حامل ہیں جیسے کسی دوسرے کے۔

دنیا میں ایک ارب تیس کروڑ افراد کسی نہ کسی معذوری میں مبتلا ہیں یعنی ہر چھ میں سے ایک فرد کسی معذوری کا شکار ہے۔ اور اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ معذوری کے شکار افرادکی 80فیصد تعدادترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔ دنیا بھر میں 3دسمبر کو معذور افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد معذور افرادکے حوالے سے آگاہی اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنے کی اہمیت محسوس کرنا ہے۔

پاکستان میں بسنے والے معذور افراد کی تعدادتقریباً ساڑھے تین کروڑ ہے۔

1998ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں معذور افراد کل آبادی کا 2.

5فیصد تھے جو 2017ء کی مردم شماری کے مطابق کم ہو کر محض 0.44فیصد رہ گئے ، ان کی کل تعداد 9لاکھ13ہزار667تھی۔جن میں مردوں اور عورتوں کا تناسب بالاترتیب 62اور 38فیصد رہا۔ صوبوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو معذور افراد کی سب سے بڑی تعداد صوبہ پنجاب میں رہائش پذیر ہے اور ستر فیصد معذور افراد دیہی علاقوں میں آباد ہیں۔

پاکستان میں پہلی مرتبہ 1981ء میں معذوری کے متعلق قانون سازی کی گئی اور ’’ڈس ایبیل پرسنز ایمپلائنمنٹ اینڈ ری ہیبیلی ٹیشن آرڈیننس‘‘ متعارف کروایا گیا۔ حکومت کی جانب سے معذور افراد کو دو ہزار ماہانہ وظیفہ دینے کا پروگرام بھی موجود ہے لیکن یہ ایک مضحکہ خیر پروگرام ہے مہنگائی کے اس دور میں دو ہزار ماہانہ پہ کوئی شخص کیا ہی گزارا کر سکے گا ۔ اور یہ بھی معذوری سرٹیفکیٹ اور دیگر شرائط کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔

اب حکومت پاکستان نے معذور افراد کے لئے معذوری سرٹیفکیٹ کے اجراء کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ یہ ایسی دستاویز ہے جو معذوری کی قسم اور حد کی تصدیق کرتی ہے۔یہ معذوری کی نوعیت کے بارے میں میڈیکل بورڈ کی سفارش پر جاری کیا جانے والا سرٹیفیکیٹ ہے۔اس کے فوائد میں مالی امداد تک رسائی ، مخصوص حالات میں ٹیوشن فیس سے استثنیٰ، حکومتی اداروں کی بھرتی میں اہلیت شامل ہیں۔ اور اس سرٹیفکیٹ پر پاکستان بیت المال کی جانب سے درخواست دائر کرکے وہیل چیر اور مالی معاونت بھی مل سکتی ہے۔ معذوری سرٹیفیکیٹ کی درخواست کے لئے مقامی ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال یا سوشل ویلفئیر ڈپارٹمنٹ کے دفتر سے فارم حاصل کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں معذور افراد سے متعلق اس وقت مختلف صوبوں میں اسکولز، کالجز، انسٹی ٹیوٹس، ایجوکیشن سینٹرز، ری ہیبیلیٹیشن دسینٹرز، ایجوکیشنلرٹریننگ سینٹرز، ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز، ویلفیئر سوسائٹیز، آرگنائزیشنز، ٹرسٹس ، کونسلز اور ترقیاتی پروجیکٹس حکومتی اور پرائیوٹ سطح پر کام کر رہے ہیں۔نادرا نے خصوصی افراد کی رہنمائی کے لئے ایک ہیلپ لائن بھی متعارف کروا دی ہے۔

لیکن افسوس کے ساتھ معاشرے میں معذور افراد کے ساتھ سلوک اور انھیں قومی ترقی کے دھارے میں شامل کرنے کے حوالے سے کارکردگی گراؤنڈ ریلٹی میں مختلف دکھائی دیتی ہے۔ ایک کوئی انسان کسی ایک معذوری کا شکا ر ہوتا ہے تو اس میںکوئی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے جس کو اگر پالش کیا جائے اور سازگار ماحول فراہم کیا جائے تو بہترین کارکردگی دکھائی جاسکتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے اگر کوئی معذور فرد آگے نکلنے کی کوشش کرے تو وہ معاشرے کی تنگ نظری کا شکار ہو جاتاہے ۔ معاشرتی رویے اتنے بھیانک ہیں کہ ان کی بدصورتی ہر فرد کو ڈرا دیتی ہے۔

لفظی ہمدردیا ں اور کاغذی کاروائیاں تو بہت ہوتی ہیں لیکن حقیقی معنوں میں آگے بڑھ کر معذور افراد کو معاشرتی اور معاشی طور پر خودمختار بنانے کی کوشش کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔سرکاری کوٹہ ایک تو معذود افراد کے تناسب سے کم رکھا گیا ہے اور اس میں بھی میرٹ کے نام پر بہت سے مستحقین کا استحصال کیا جاتا ہے۔ کسی سرکاری محکمے میں جانے کی صورت میں معذور افرادکو ایک اذیت سے گزرنا پڑتا ہے ۔

ہونا تو یوں چاہیئے کہ خصوصی افراد کے لئے سرکاری اداروں میں آسانی کو ملخوظِ خاطر رکھتے ہوئے سپیشل کاونٹرز بنائے جاتے ۔جہاں انھیں سہولت بھی دی جاتی اور ان کی خودمختاری کو ٹھیس بھی نہ پہنچتی۔پاکستان میں معذور افراد کے لئے صرف دو فی صد نوکریوںکا کوٹہ ہے۔ ایسا ملک جہاں معذوروں کی بڑی تعداد موجود ہے وہاں صرف دو فیصد کوٹہ مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک نے معذوروں کی فلاح و بہبور کے لئے جامع پالیسیاں مرتب کر رکھی ہیں۔

 OECDممالک کی تنظیم ایک ایسا منفرد فورم ہے جہاں 37جمہوری حکومتیں

 معاشی واقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لئے معیارات تیار کرنے میں معاونت فراہم کرتی ہیں۔ ان میں اٹلی وہ ملک ہے جہاں معذور افراد کے لئے کوٹہ سب سے زیادہ رکھا گیا ہے جو کہ 7%ہے اور اس کی دیکھا دیکھی فرانس اور پولینڈنے بھی یہ کوٹہ 6%، جرمنی اور پرتگال5%، آسٹریلیا4%، ترکی 3%اور سپین اور بیلجئیم میں 2%رکھا گیا ہے۔

ضروری ہے کہ خصوصی افراد کو نوکریوں میں برابر کی تنخواہ اور سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنی زندگی کی گاڑی کو خود دھکا لگانے کے قابل ہوجائیں۔

تعلیمی حوالے سے دیکھاجائے تو معذور افراد کے لئے تعلیم کجا کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ صرف سکول بنا دینا ہی کافی نہیں ہوتا انھیں گھر سے سکول نقل و حمل کے لئے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا شاید حکومت کو اندازہ ہی نہیں۔ خصوصی افراد کے لئے ٹرانسپورٹ سسٹم فریندلی ہونا ضروری ہے۔

اگر وہ خوش قسمتی اور کڑی محنت سے تعلیم حاصل کر لیں تو نوکری کے لئے ذلالت الگ سے اٹھانی پڑتی ہے۔دیکھا جائے تو معذوری کے باوجود اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے افراد کو ترجیحی بنیادوں پر بغیر کسی امتحان کے حاصل کردہ ڈگری پر ملازمت مل جانی چاہیئے۔ کیونکہ کسی معذور شخص کی وہ ڈگری خود اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ اہلیت رکھتا ہے۔ اور حکومت کو چاہیئے کہ وہ معذور افرادکو معاشی طور پر مستحکم بنانے کے لئے پیشہ ورانہ تعلیم پر توجہ دیں اور جو لوگ بالغ ہو چکے ہیں۔

ان کو ہنر سیکھانے کا بندوست کیا جائے تاکہ وہ اپنی ضروریات کے لئے کسی کے محتاج نہ ہوں۔ اس کے علاوہ بھی معذور افراد کو ایک نارمل انسان کی طرح معاشرتی حقوق اور سرگرمیوںمیں حصہ لینے کے لیے سازگار ماحول میسر نہیں، مثلاً ایک معذور شخص قابلیت ہونے کے باوجود سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا ، الیکشن میں حصہ لے کر لیڈر نہیں بن سکتا کیونکہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں معاشرہ طنزو مزاح کا نشانہ بناتا ہے،آوازیںکستا ہے۔

سیاست تو دور کی با ت معذور افراد کے لیے اپنی فطری ضروریات کو پورا کرنا بھی ناممکنات میں شمار ہونے لگتا ہے۔خصوصی افراد کے لئے شادی کرنا ایک معیوب بات سمجھی جاتی ہے اور سمجھا یہ جاتا ہے کہ معذور افراد اپنے جیسے ہی کسی سے شادی کریں۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے ہے کہ کوئی بھی پیدائشی یا حادثاتی معذوری کسی شخص کو اس کی فطری ضروریات سے محروم نہیں کرتی ہاں ان ضروریات کے پورا ہونے یا کرنے کے عمل میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔ جس کا بڑا سبب عموماً معاشرتی رویے ہیں۔اس کی ایک بڑی وجہ تربیت کی کمی بھی ہے۔

ہمارے ہاں لوگوں کی معذوری کو لے کر مذاق اڑانے کارواج عام ہے کسی کو بھولا کہنا، اندھا کہنا ، لنگڑا کہہ کر مذاق اڑانا بڑی معمولی سی بات سمجھی جاتی ہے۔ یہ احساس کئے بنا کہ وہ شخص اپنی مرضی سے معذور نہیں ہوا۔ والدین کو خصوصاً اس طرح کے تضحیک آمیز رویوں سے اپنے بچوں کو روکنا چاہیے اور خصوصی افراد کے ساتھ مشفقانہ سلوک روا رکھنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ دین اسلا م نے بھی معذور افراد کے ساتھ صلح رحمی سے پیش آنے کی تلقین کی ہے۔ یہاں تک کہ قران پاک کی ایک سورہ عبس میں نابینا اور دیگر معذوروں کے حوالے سے نرمی اور رحم دلی کی تلقین کی گئی ہے۔

دین اسلام میں کسی بھی شخص کی جسمانی کمزوری کو وجہ بنا کر اس کی عزت و توقیر میں کمی کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔بلکہ نبی کریمؐ کی سیرت سے ہمیں بیشتر ایسی مثالیں اور واقعات ملتے ہیں جو معذوروں اور لاچاروں سے شفقت و محبت کی اعلٰی مثال پیش کرتے ہیں۔

حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اس بات کا ترجیحی بنیادوں پر اہتمام کیا کہ کوئی شخص فقرو فاقہ میں مبتلا نہ ہو اور حکم جاری کیا کہ مفلوج اور اپاہج افراد کو بیت المال سے ماہانہ وظیفہ دیا جائے گا۔ریاست کی حیثیت ماں کی سی ہوتی ہے اور وہ اپنے سارے بچوںکو اپنی آغوش میں لیتی ہے خواہ وہ مکمل ہوں یا ادھورے۔ تو معذور افراد بھی اس ریاست کا حصہ ہیں اور اس کا تقاضا ہے کہ انھیں بھی تمام حقوق دیئے جائیں اور ان کو بھی ریاست ماں کی طرح اپنی آغوش میں لے! 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں معذور افراد پاکستان میں کوئی بھی حوالے سے افراد کی کے ساتھ جاتا ہے ہیں اور بھی شخص کسی بھی ہے اور اور ان اور اس

پڑھیں:

مہمان خصوصی کاحشرنشر

یہ الگ بات ہے کہ ہم دانا دانشوروں ، برگزیدہ قسم کے تجزیہ کاروں اورکالم نگاروں، مقالہ نگاروں کے نزدیک کسی شمارقطار میں نہیں ہیں بلکہ صحافیوں میں بھی ایویںایویں ہیں اور شاعروں، ادیبوں یاایوارڈزدینے والوں کے خیال میں بھی پرائے ہیں لیکن ابھی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سب سے نیچے ہی سہی ہمارا نام بھی لے لیتے ہیں ۔

اہل ورع کے جملہ میں ہرچند ہوں ذلیل

 پرغاصبوں کے گروہ میں ہیں برگزیدہ قبول

 چنانچہ ایک گاؤں کی ایک ادبی تنظیم کا ایک وفد ہمارے پاس آیا کہ ہماری تنظیم نے معروف شاعروں، ادیبوں کے ساتھ شامیں منانے کاسلسلہ شروع کیا ہے، اب تک ہم تیس چالیس سے اوپر شخصیات کو یہ اعزاز بخش چکے ہیں اوراب قرعہ فال آپ کے نام نکلا ہے۔ ہم خوش ہوئے، ہم مسکرادیے، ہم ہنس دیے اورفخر سے پھول کر حامی بھرلی۔

مقررہ دن اوروقت کو ہم نے پانچ سوروپے حق حلال کے، مال حرام کی طرح خرچ کرکے ٹیکسی لی اورمقام واردات پر پہنچ گئے ،کمرہ واردات میں تیس چالیس لوگ فرش پر بیھٹے تھے، ہمارے گلے میں ہار ڈالا گیا جو رنگین ریشوں پر مشتمل تھا جو عام طور پر سائیکل کے پہیوں میں یاختنے کے بچوں کے گلے میں ڈالا جاتا ہے اورڈیڑھ دوروپے کی گراں قیمت میں مل جاتا ہے ۔ ہمیں کونے مں ایک صوفے پر بٹھا دیا گیا اوربیٹھے ہوئے لوگ قطار میں آکر ہمیں مصافحے کاشرف عطا کرنے لگے۔

یہ سلسلہ ختم ہوا تو تنظیم کے سیکریٹری نے کھڑے ہوکر اپنی تنظیم کی ’’عظیم الشان‘‘ سرگرمیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ آج ہم اس سلسلے کی اٹھائیسویں شام ان جناب کے ساتھ منارہے ہیں ، نام تو آپ نے ان کا سنا ہوگا ، اب میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے بارے میں تفصیل سے بتائیں ۔جھٹکا تو زورکا لگا کہ عام طورپر تو ایسی تقاریب میں یوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ’’مہمان ‘‘ کے بارے میں مقالے وغیرہ پڑھتے ہیں، نظم ونثرمیں اس کی صفات اورکارناموں کی تفصیل بتاتے ہیں، اس کے بعد آخر میں مہمان کو بولنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن یہاں گیند ابتداء ہی سے براہ راست میرے کورٹ میں ڈال دی گئی بلکہ دے ماری گئی ، اس لیے میں نے بھی اٹھ کر ان کے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے کہا کہ نام تو میرا جناب سیکریٹری موصوف نے آپ کو بتادیا ہے ، والد کانام فلاں اوردادا کا نام فلاں ہے ، میرے جد امجد فلاں ہیں۔میرے دو چچا، تین ماموں اورچاربھائی ہیں ، اولادوں کی تعداد آٹھ ہے ، چار لڑکیاں اورچارلڑکے ۔لڑکیاں ساری کی ساری بیاہی جاچکی ہیں ، بیٹوں میں تین کی شادیاں ہوچکی ہیں ، ایک باقی ہے ،انشاء اللہ اگلے ستمبر میں اس کی بھی ہوجائے گی۔

بڑا بیٹا تین بچوں کا باپ ہے اوردبئی میں ہے ، دوسرا یہاں کے ایک محکمے میں جونئر کلرک ہے، تیسرا بے روزگار ہے لیکن دیہاڑی کرنے جاتا ہے اورچوتھا ابھی پڑھ رہا ہے ، بیوی بقیدحیات ہے اورمیں اس کی بقید ہوں ، بیچاری کو گھٹنوں کی بیماری لاحق ہے لیکن زبان ہرلحاظ سے صحت مند ہے ۔ میرا قد پانچ فٹ پانچ انچ ، وزن اسی کلوگرام ہے اورشناختی نشانیاں کٹی ہوئی ناک ہے، تعلیم صبح آٹھ بجے سے دوپہر گیارہ بچے تک ہے ، صبح آٹھ بجے والد نے اسکول میں داخل کرایا اورگیارہ بجے میں بھاگ کر گھر آگیا، باقی تعلیم محلے کے سینئر نکموں نکھٹؤں سے حاصل کی ہے ، شاعری کے انیس مجموعے چھپ چکے ہیں اوربیسواں طباعت کے مرحلے میں ہے ، پھر ایک لمبا وقفہ دینے کے بعد اچانک شکریہ کہہ کر بیٹھ گیا۔ میراخیال تھا کہ اپنے بارے میں اتنی قیمتی معلومات دینے پر کوئی اعتراض کرے گا ، تبصرہ کرے گا یا سوالات اٹھائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اورسیکریٹری نے اٹھ کر مشاعرے کااعلان کردیا اوراپنی بیالیس بندوں والی نظم سنائی ۔

اب تک میرا خیال تھا کہ بیٹھے ہوئے لوگ غیر مسلح ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ سب کے سب نظموں کی تلواروں ، غزلوں کے خنجروں ، چاربیتوں کے نیزوں سے مسلح ہیں ، اس کے بعد دو گھنٹے وہ گھمسان کارن پڑا کہ مجھے اندر باہر، آگے پیچھے اورنیچے سے لہولہان کر دیاگیا ۔

کرے فریاد امیر اے دست رس کس کی

کہ ہردم کھینچ کر خنجر سفاک آتے ہیں

 آخر کار سیکریٹری نے مشاعرہ ختم ہونے اورچائے کااعلان کیا ، کونے میں پڑی ہوئی تھرماسیں متحرک ہوئیں ، چائے کے ذائقے رنگ اوربدبو سے پتہ چلا کہ سب کی بیویاں بڑی ’’سلیقہ شعار‘‘ تھیں، یہ سوچ کر کہ بعد میں وقت ملے نہ ملے ، چولہا جلے نہ جلے ، اس لیے صبح ہی چائے تیار کرکے تھرماسوں میں ذخیرہ کی گئی تھی اورمٹھائی بھی احتیاطاً دو ماہ پہلے ہی خریدی گئی تھی ۔

وہ رنگین پلاسٹک کے ریشوں کاہار ہم نے سامنے دیوار پر ٹانک دیا ہے تاکہ ہمیں بتاتا رہے کہ خبردار اگر پھر ایسی غلطی کی تو میں گلے پڑ جاؤں گا۔

ویسے احتیاطاً میں نے ایک ماہرسے ایک ایسا گتا بھی خرید کر رکھ لیا ہے جو شاعر شناسی میں بڑا تیز ہے اورانھیں بھگانے میں ’’غپ طولیٰ‘‘ رکھتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • خصوصی افراد کو ڈرائیونگ کی تربیت اور لائسنس دینے کا فیصلہ
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • مہمان خصوصی کاحشرنشر
  • بدترین سیلاب، بروقت انخلا سے 25 لاکھ انسانی زندگیوں کو محفوظ بنایا گیا
  • بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز
  • موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ دنیا بھر کو درپیش ہے، وزیر بلدیات سندھ
  • ایشیا کپ: بنگلا دیش کو آج افغانستان کیخلاف کرو یا مرو کا چیلنج درپیش
  • مغربی یورپ سے ہمیں چیلنج درپیش ہے، قطر اور دیگر ممالک نے اسرائیل کو تنہاء کر دیا ہے، نیتن یاہو
  • وزیراعظم  اور سعودی ولی عہد کی اہم ملاقات، خطے کی تازہ صورتحال اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال
  • اکثر افراد کو درپیش ’دماغی دھند‘ کیا ہے، قابو کیسے پایا جائے؟