غیرملکی تارکین وطن کی واپسی کے لیے بھارت اور امریکا کے درمیان رابطے
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
واشنگٹن/نئی دہلی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 جنوری ۔2025 ) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے بعد غیر قانونی تارکین وطن کے سلسلے میں ان کے سخت موقف سے بھارت میں تشویش پیدا ہو گئی ہے نئی دہلی کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا نظر آتا ہے.
(جاری ہے)
امریکی جریدے”بلومبرگ“ کی رپورٹ کے حوالے سے بھارتی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ نئی دہلی نے امریکہ میں موجود غیر قانونی بھارتی تارکین وطن کو واپس لانے کے سلسلے میں ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کر دیا ہے اس کا مقصد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مطمئن کرنا اور کسی بھی ممکنہ تجارتی تنازع سے بچنا ہے تاہم بھارتی حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے.
رپورٹ کے مطابق دونوں ملکوں نے 18000 غیر قانونی بھارتی تارکین وطن کی شناخت کی ہے بلومبرگ نے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس معاملے پر بھارت اور امریکہ کے درمیان نجی طور پر تبادلہ خیال ہو رہا ہے اسی لیے اسے ابھی عام نہیں کیا گیا ہے امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد سات سے آٹھ لاکھ تک بتائی جاتی ہے اور صدر ٹرمپ کی انتظامیہ غیر قانونی تارکین وطن کو واپس اپنے ملکوں میں بھیجنے کے لیے پرعزم ہے. مبصرین کے مطابق اس معاملے پر امریکہ میں بحث شروع ہو گئی ہے جبکہ بیش تر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اقدام ٹرمپ کے ”میک امریکہ گریٹ اگین“ کی مہم کو آگے بڑھانے کے لیے کیا گیا ہے دیگر ممالک کے مانند بھارت بھی ٹرمپ انتظامیہ کو خوش رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ پس پردہ گفت و شنید جاری رکھے ہوئے ہے بھارت کا خیال ہے کہ اس کے اس قدم کے عوض ٹرمپ انتظامیہ امریکہ میں قانونی طریقے سے قیام پذیر بھارتی شہریوں بالخصوص ایچ ون ویزا پر جانے والے طلبہ اور ہنر مند کارکنوں کا تحفظ کرے گی. بھارتی نشریاتی ادارے ”این ڈی ٹی وی“ کے مطابق امیگریشن کے ایشو پر امریکہ کے ساتھ تعاون کا بھارت کا مقصد اس کے ساتھ مضبوط تعلقات کو برقرار رکھنا ہے جو کہ اس کے اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات کے لیے بہت اہم اور ضروری ہے یاد رہے کہ بھارت کی نریندر مودی حکومت تائیوان، سعودی عرب، جاپان اور اسرائیل سمیت متعدد ملکوں کے ساتھ مائیگریشن معاہدہ کرنے کے لیے متحرک ہے رپورٹ کے مطابق غیر ملکوں میں علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں نے بھی بھارت کو امیگریشن ایشو پر امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور کیا ہے بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے قبل ازیں ایک پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ بھارت اور امریکہ غیر قانونی تارکین وطن کو روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں اس کا مقصد امریکہ میں قانونی طریقے سے نقل مکانی کی حوصلہ افزائی اور مواقع پیدا کرنا ہے امید ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہو جائیں گے. امریکی ”کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن“ کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں مجموعی طور پر جو غیر قانونی تارکین وطن ہیں ان میں بھارتی شہری زیادہ نہیں ہیں تین فیصد بھارتی شہری مالی سال 2024 میں غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوئے تھے عالمی امور کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکن امیگریشن کونسل(اے آئی سی) کے مطابق غیر قانونی تارکینِ وطن کو امریکہ سے نکالنے کے لیے 30 ہزار نئے ایجنٹس اور اسٹاف کی ضرورت پڑے گی اور اس پر 315 ارب ڈالر سے لے کر ایک کھرب ڈالر تک کا خرچ ہو سکتا ہے ”وائس آف امریکہ “سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ براک اوباما اور جو بائیڈن کے اداور میں جتنے غیر قانونی تارکین وطن ملک سے نکالے گئے تھے ٹرمپ کے پہلے دور میں نکالے جانے والوں کی تعداد اس سے کم تھی ان کے خیال میں ایسے غیر قانونی تارکین وطن کی نشان دہی کی جا سکتی ہے جن پر کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے کا الزام ہو وہ امریکن امیگریشن کونسل کے حوالے سے کہتے ہیں کہ جو غیر ملکی گزشتہ دس بیس سال سے وہاں رہ رہے ہیں ان کے پاس سوشل سیکیورٹی کارڈ اور سوشل سیکیورٹی نمبر موجود ہیں وہ ٹیکس دیتے ہیں اور طبی امداد بھی لیتے ہیں بہت سے ذاتی مکان یا کرائے کے مکان میں رہتے ہیں ایسے لوگوں کی شناخت آسان نہیں تاہم امریکہ میں کتنے بھارتی غیر قانونی طریقے سے رہ رہے ہیں اس کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا. نئی دہلی کے جریدے’ ’ٹائمز آف انڈیا“ نے گزشتہ سال اکتوبر میں ”یو ایس کسٹم اینڈ بارڈر پروٹیکشن“ کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ یکم اکتوبر 2023 سے 30 ستمبر 2024 تک میکسیکو اور کینیڈا کی طرف سے امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی کوشش میں 29 لاکھ افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جن میں سے 90 ہزار سے زائد بھارتی تھے امریکہ کے ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی نے گزشتہ سال دسمبر میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ 2022 کے بعد سے اب تک وہاں 220000 غیر قانونی بھارتی تارکین وطن رہ رہے ہیں اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بھارتی غیر قانونی تارکین وطن میں 50 فیصد تعداد گجراتی شہریوں کی ہے رپورٹ کے مطابق ایسے بیشتر افراد کینیڈا اور میکسیکو کے راستے جانے کو ترجیح دیتے ہیں. امریکی تھنک ٹینک ”پیو ریسرچ“ کی رپورٹ کے مطابق میکسیکو اور سلواڈوران کے بعد امریکہ میں غیر دستاویزی بھارتی تارکین وطن تیسرا سب سے بڑا گروپ ہیں بائیڈن انتظامیہ نے 2024 میں 1500 بھارتی شہریوں کو واپس بھیجا تھا مبصرین کے مطابق سابق صدور جو بائیڈن، براک اوباما اور جارج بش کی نرم پالیسیوں کی وجہ سے بھی وہاں غیر قانونی تارکین وطن کی آمد میں اضافہ ہوا اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد تمام غیر قانونی تارکین وطن کی نصف ہے عالمی امور کے تجزیہ کاروں کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن کو نکال باہر کرنے کے امریکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے یہ لوگ امریکی ورک فورس کا تین سے پانچ فیصد ہیں امریکی جی ڈی پی میں ان کا تعاون 4.2 سے 6.8 فی صد تک ہے غیر قانونی تارکین وطن کے علاوہ ایچ ون ویزا معاملے پر بھی بھارت میں تشویش پیدا ہو گئی ہے اپنے پہلے دورحکومت میں بھی ٹرمپ نے اس معاملے پر سخت پالیسی اپنائی تھی اس بار وہ اس قانون میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں واضح رہے کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھارتی طلبہ اٹھاتے ہیں سخت فیصلے کا ان پر منفی اثر پڑے گا.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے غیر قانونی تارکین وطن کی بھارتی تارکین وطن رپورٹ کے مطابق تارکین وطن کو کے حوالے سے امریکہ میں معاملے پر پر امریکہ امریکہ کے نئی دہلی رہے ہیں کے ساتھ کے لیے اور اس ہیں کہ تھا کہ
پڑھیں:
ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر
اسلام ٹائمز: ایران کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں نمایاں پیشرفت پر قابو نہیں پایا جاسکا اور آج اسکی طاقت کا لوہا دنیا مان رہی ہے۔ مذاکرات تو امن کے قیام کیلئے ضروری ہیں۔ مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیئے۔ مگر ایران کبھی امریکی آمرانہ فیصلوں کو قبول نہیں کریگا، کیونکہ اسکے پاس ایک شجاع اور دوراندیش قیادت موجود ہے۔ جوہری افزودگی کو روکنے کے بہانے ایران کی سائنسی پیشرفت کو کنٹرول کرنے کی کوشش نئے مسائل کا سبب بن سکتی ہے، اس لئے امریکہ کو ایران کی سرخ لکیر کو عبور نہیں کرنا چاہیئے۔ تحریر: عادل فراز
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان مسلسل کشیدگی رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ایران میں اسلامی حکومت کا قیام تھا۔ شاہ ایران امریکہ کا حلیف اور اس کا قابل اعتماد آلۂ کار تھا، جس نے ایران میں امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ مثال کے طور پر اسرائیل کے قیام کے بعد ایران بھی ان ملکوں میں شامل تھا، جس نے اس کے ناجائز وجود کو تسلیم کیا تھا۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کے موقف میں واضح تبدیلی آئی اور امام خمینیؒ نے اسرائیل کے وجود کو ناجائز قرار دیتے ہوئے فلسطین کے استقلال اور قبلۂ اول کی بازیابی کے لئے آواز بلند کی۔ انہوں نے مسئلۂ فلسطین کو عالمی سطح پر منعکس کیا اور آج پوری دنیا اگر مسئلۂ فلسطین پر متوجہ ہے تو یہ امام خمینیؒ کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ ہے۔
خطے میں موجود مزاحتمی محاذ کی تقویت میں بھی ایران کا کلیدی کردار رہا ہے، جس کا اعتراف پوری دنیا کرتی رہی ہے۔ البتہ مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور استعمار نوازی نے مسئلۂ فلسطین کے حل کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ غزہ کی تباہی اور مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کے لئے بھی مسلم حکمرانوں کو سبکدوش نہیں کیا جاسکتا، جو امریکہ نوازی میں انتفاضہ القدس سے بے پرواہ اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لئے کوشاں ہیں۔ اس کا مشاہدہ ٹرمپ کے حالیہ دورۂ مشرق وسطیٰ کے دوران بھی کیا گیا۔ مسلم حکمران ٹرمپ نوازی میں مرے جا رہے تھے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر ہے، اس لئے ان سے مسئلۂ فلسطین یا عالم اسلام کے زندہ موضوعات پر کسی دلیرانہ موقف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
ایران کے ساتھ مذاکرات کا نیا دور عمان کے تعاون سے شروع ہوا تھا۔ البتہ امریکہ کی ظاہری اور باطنی پالیسیوں میں نمایاں فرق موجود ہے۔ ظاہری طور پر ٹرمپ ایران کو دھمکا کر دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ ایران امریکہ سے خوف زدہ ہوکر مذاکرات کی میز پر آیا ہے، جبکہ باطنی طور پر ٹرمپ ایران سے تصادم نہیں چاہتا اور سفارتی طور پر ایران سے نمٹنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ایران کی حکمت عملی ہمیشہ امریکی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لانا رہی ہے۔ مذاکرات سے پہلے اور بعد میں بھی امریکہ کے تئیں ایران کا موقف واضح ہے۔ ایران کے صدر مسعود پزشکیان اور وزیر خارجہ عباس عراقچی نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ایران کو دھمکایا نہیں جاسکتا اور اگر ہم پر حملہ کیا گیا تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، جبکہ ٹرمپ نے زمام اقتدار سنبھالتے ہی ایران کو دھمکانا شروع کر دیا تھا کہ اگر مذاکرات نہیں ہوئے تو ایران کو فوجی کارروائی کے لئے تیار رہنا چاہیئے۔
جبکہ ٹرمپ بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران پر حملے کے لئے ہزار بار نہیں لاکھوں بار سوچنا پڑے گا، کیونکہ یہ حملہ نئی علاقائی جنگ کا باعث بنے گا، جس کی اجازت علاقائی ممالک بھی نہیں دیں گے۔ ایران پر حملے سے دنیا کو ناقابل بیان اقتصادی نقصان پہنچے گا، کیونکہ پہلی فرصت میں آبنائے ہرمز کو بند کر دیا جائے گا، جہاں سے دنیا کی ضرورت کا بیس فیصد تیل گذرتا ہے۔ گویا کہ ایران کے ساتھ جنگ عالمی سطح پر نئے اقتصادی بحران کا سبب بنے گی، جس کی اجازت امریکی حلیف طاقتیں بھی نہیں دیں گی۔ عالمی معیشت یوں بھی روبہ زوال ہے اور امریکہ نت نئے ٹیرف عائد کرکے اپنی ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دینے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔ ایسی ناگفتہ بہ صورت حال میں امریکہ کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
ایران کے ساتھ جب بھی مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو استعماری میڈیا کے ذریعے ایران پر نفسیاتی دبائو کے لئے حملے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ سی این این سمیت تمام میڈیا اداروں نے یہ خبر نشر کی کہ اسرائیل عنقریب ایران پر حملہ کرنے والا ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے گا، جس کی تیاری اسرائیل کر رہا ہے۔ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ جنگ کی یہ دھمکیاں صرف نفسیاتی دبائو کے لئے ہیں، جن کا ایران پر کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے۔ ایران تو ایک مدت سے جنگ کے محاذ پر ہے۔ گو کہ ابھی ایران کے ساتھ براہ راست فوجی جنگ شروع نہیں ہوئی، مگر اقتصادی اور نفسیاتی جنگ تو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد چھیڑ دی گئی تھی۔ لہذا ایران کو استعماری طاقتوں کے خلاف لڑنے کا ایک طویل تجربہ ہے۔ اس پر رہبر انقلاب اسلامی کا امریکہ کے خلاف صریح موقف عالمی استکبار کے لئے پریشان کن ہے۔
امسال انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینیؒ کی برسی کے موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں جوہری توانائی کی افزودگی پر امریکی مطالبے کو یکسر مسترد کر دیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ کے لئے ہمارا پیغام یہ ہے کہ ایرانی قوم کا انتخاب اس کے اختیار میں ہے۔ امریکہ کون ہوتا ہے، جو ہماری خود مختاری اور جوہری افزودگی میں رکاوٹ بن رہا ہے اور کس قانون کے تحت وہ یہ کام کر رہا ہے۔ آخر امریکہ کو دوسرے ملکوں کی جوہری صلاحیت کا تعین کرنے کی ذمہ داری کس نے دی ہے۔؟ اس کے پاس تو دنیا میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں تو اس کی قانونی یا اخلاقی حیثیت کیا ہے کہ وہ دوسروں کے جوہری پروگرام کے بارے میں رائے پیش کرے۔؟ انہوں نے امریکی جنگی جرائم اور عالمی نقض امن پر دوٹوک انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ "امریکہ کس منہ سے امن کی بات کرسکتا ہے، جبکہ بیسویں صدی میں جنگوں اور بغاوتوں کو سب سے بڑا جنم دینے والا وہ خود ہے۔"
آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی چودھراہٹ پر ضرب لگاتے ہوئے کہا کہ "ایران کو امریکہ سے (جوہری پروگرام پر) اجازت کیوں لینی چاہیئے؟ کیا صہیونی حکومت اپنے جوہری ہتھیاروں اور حالیہ جاری نسل کشی کے حوالے سے ہر طرح کی نظارت سے مستثنیٰ ہے۔؟" ان کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ ایران نہ تو امریکی چودھراہٹ کو قبول کرتا ہے اور نہ اپنی خود مختاری میں کسی مداخلت کو برداشت کرے گا۔ ان کا یہ کہنا کہ "ایرانی قوم کی خود مختاری ان کے ہاتھ میں ہے" امریکی منصوبوں پر پانی پھیر دیتا ہے، کیونکہ امریکہ ایران کی خود مختاری پر ضرب لگانا چاہتا ہے، جس کو رہبر انقلاب نے مسترد کرتے ہوئے امریکی چودھراہٹ پر ہی سوال اٹھا دیا۔ انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام پر بھی ایران کے موقف کو واضح کر دیا، جس کے بعد اب مذاکرات میں جوہری پروگرام کو ختم یامحدود کرنے پر کوئی بات نہیں کی جائے گی۔
جوہری افزودگی ہر ملک کا بنیادی حق ہے، جس کو امریکہ سلب نہیں کرسکتا، جبکہ امریکہ نے حالیہ مذاکرات میں ایک تجویز پیش کی ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی میں ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی شراکت سے علاقائی کنسورشیم تشکیل دیا جائے۔ اس تجویز میں جو امریکہ کی طرف سے عمان کے ذریعے ایران کو موصول ہوچکی ہے، کے مطابق امریکہ نے ایرانی سرزمین پر جوہری افزودگی کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی تجویز، جس کو رہبر انقلاب اسلامی نے مسترد کر دیا ہے، اس کو دو حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ ایک کنسورشیم کی تشکیل سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ جوہری افزودگی کو روکنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جوہری توانائی کو روک کر باہر سے کنسورشیم کے ذریعے یورینیم کو حاصل کرنے کی تجویز ایران کبھی قبول نہیں کرے گا، کیونکہ اس طرح ایران اپنے پاور پلانٹس کو چلانے کے لئے جوہری ایندھن کی فراہمی کے لئے دوسرے ملکوں پر منحصر ہو جائے گا۔
گویا کہ اس تجویز کا مقصد ایران کو خود کفیل بننے سے روکنا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ امریکہ ایران کی ترقی سے خوف زدہ ہے۔ اس کا مقصد جوہری مذاکرات کے ذریعے ایران کے جوہری افزودگی کے منصوبے کو روکنا نہیں بلکہ ایران کی ترقی اور خود کفیل بننے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہے، جس کو ایرانی قیادت بخوبی سمجھ رہی ہے۔ ایران پر مسلسل بڑھتی ہوئی اقتصادی پابندیوں کا راز بھی یہی ہے۔ اس کے باوجود ایران کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں نمایاں پیش رفت پر قابو نہیں پایا جاسکا اور آج اس کی طاقت کا لوہا دنیا مان رہی ہے۔ مذاکرات تو امن کے قیام کے لئے ضروری ہیں۔ مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیئے۔ مگر ایران کبھی امریکی آمرانہ فیصلوں کو قبول نہیں کرے گا، کیونکہ اس کے پاس ایک شجاع اور دوراندیش قیادت موجود ہے۔ جوہری افزودگی کو روکنے کے بہانے ایران کی سائنسی پیش رفت کو کنٹرول کرنے کی کوشش نئے مسائل کا سبب بن سکتی ہے، اس لئے امریکہ کو ایران کی سرخ لکیر کو عبور نہیں کرنا چاہیئے۔