ظلم کی سیاہ رات ڈھلی نہیں؛ غزہ سے 120 بوسیدہ لاشیں برآمد، مغربی کنارے میں بھی 10 فلسطینی شہید
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
اسرائیلی فوج نے غزہ جنگ بندی کے بعد منظم ہوکر مغربی کنارے میں اپنی عسکری کارروائیاں بڑھا دیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے کو غزہ کی طرح نشانہ بنانا شروع کردیا۔
اسرائیلی فوج نے آج مسلسل دوسرے روز بھی مغربی کنارے کے شہر جنین میں ملٹری آپریشن کیا جس کے دوران 10 فلسطینی شہید ہوگئے۔
فسطینی اتھارٹی کے محکمہ صحت نے بتایا کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی بربریت میں درجن سے زائد فلسطینی نوجوان زخمی بھی ہوئے۔
ادھر سول ڈیفنس کے عملے نے انکشاف کیا ہے کہ جنگ بندی کے بعد عمارتوں کا ملبہ ہٹانے کے دوران دو روز میں 120 لاشیں برآمد کی گئی ہیں۔
یہ لاشیں مسخ اور بوسیدہ ہوکر ناقابلِ شناخت ہیں۔ جنھیں فرانزک لیب بھیجا جائے گا۔ ان میں زیادہ تر خواتین اور بچوں کی لاشیں ہیں۔
یاد رہے کہ غزہ پر 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیل بمباری میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 47 ہزار 107 ہے جب کہ 1 لاکھ 11 ہزار 139 زخمی ہیں۔
شہید اور زخمی ہونے والوں میں نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جب کہ لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے اور پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج
پڑھیں:
مشرق وسطیٰ اور متعدد مغربی ممالک میں عید کی خوشیاں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جون 2025ء) مشرق وسطی اور متعدد مغربی ممالک میں عید الاضحیٰ جمعے کے دن روایتی جوش و خروش اور عقیدت سے منائی جا رہی ہے۔ شدید گرم موسم کے پیش نظر اس بار حج کے موقع پر خصوصی انتظامات کیے گئے۔ جمعرات کے روز سولہ لاکھ سے زائد حاجیوں نے حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ ادا کیا، اس موقع پر فلسطینیوں کے لیے خصوصی دعا کی گئی۔
جمعے کے دن فجر سے پہلے ہی حجاج نے مکہ مکرمہ کے نواح میں وادی منیٰ میں واقع تین کنکریٹ کی دیواروں پر سات سات کنکریاں مارنے کا عمل شروع کر دیا تھا۔ ان دیواروں کو شیطان کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔
یہ رسم ابراہیمی مذاہب کے مطابق اس واقعے کی یادگار ہے، جب ابراہیم نے شیطان کو تین مقامات پر کنکریاں مار کر بھگا دیا تھا کیونکہ شیطان نے انہیں اپنے بیٹے کی قربانی دینے کے حکم الٰہی سے روکنے کی کوشش کی تھی۔
(جاری ہے)
جمعرات کو حجاج جبل عرفات پر جمع ہوئے تھے، جہاں وہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی تلاوت اور دعا میں مشغول رہے۔ یاد رہے کہ ستر میٹر بلند اس پہاڑی پر پیغمبراسلام نے اپنا آخری خطبہ دیا تھا۔
شدید گرمی کے باوجود بہت سے حجاج نے پہاڑ پر چڑھنے کی ہمت کی تاہم دوپہر تک حکام کی جانب سے دس بجے سے چار بجے کے درمیان خیموں میں رہنے کی ہدایت کے بعد حجاج کی تعداد میں واضح کمی ہو گئی۔
حج کے لیے خصوصی اقداماتاس سال حج کے دوران حکام نے گرمی سے بچاؤ کے خصوصی انتظامات کے ساتھ غیر قانونی طریقے سے آنے والے حجاج کے خلاف سخت کارروائی بھی کی، جس کے نتیجے میں مکہ اور مسلمانوں کے دیگر مقدس مقامات پر بھیڑ نسبتاً کم رہی۔ اس دوران سکیورٹی کا سخت انتظام بھی نظر آیا۔
یہ اقدامات پچھلے سال پیش آنے والے ایسے واقعے کے پیش نظر کیے گئے تھے، جب درجہ حرارت 51.8 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچنے کی وجہ سے تیرہ سو سے زائد حجاج مارے گئے تھے۔
سعودی حکام کے مطابق زیادہ تر اموات اُن افراد کی ہوئیں، جو غیر قانونی طور پر مکہ میں داخل ہوئے اور انہیں رہائش اور گرمی سے بچاؤ کی سہولتیں میسر نہ تھیں۔
گزشتہ سال سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اٹھارہ لاکھ مسلمانوں نے حج کیا تھا۔
کورونا کی عالمی وبا کے برسوں کے علاوہ گزشتہ تیس سال کے بعد پہلی مرتبہ سب سے کم تعداد میں عازمین حج کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔
حج کے اجازت نامے ہر ملک کو کوٹے کے حساب سے دیے جاتے ہیں اور افراد کو قرعہ اندازی کے ذریعے الاٹ کیے جاتے ہیں۔ لیکن زیادہ اخراجات کے باعث کئی لوگ اجازت نامے کے بغیر حج کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ایسے افراد کو گرفتاری اور ملک بدری کا خطرہ رہتا ہے۔
وادی منیٰ میں سن 2015 میں ایک جان لیوا بھگدڑ کے نتیجے میں تیئس سو سے زائد حاجی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے کو حج کی دوران ہونے والے بدترین حادثات میں سے ایک قرار دیا جاتا تھا۔ سعودی عرب ہر سال حج اور عمرہ سے اربوں ڈالر کماتا ہے۔
ادارت: رابعہ بگٹی