فیک نیوز کے تدارک کیلیے دنیا بھر میں سزائیں ہوتی ہیں، محسن بیگ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
لاہور:
تجزیہ کار عامر الیاس رانا کا کہنا ہے کہ جب عمران خان چاہ رہے تھے ایک کروڑ روپے جرمانہ ، پتہ نہیں کتنا کرنے کا اور سارا سب کچھ تو اس وقت سب مالکان نے اس کی مزاحمت کی تھی.
مجھے یاد ہے کہ ایک نے کہا کہ آج آپ ہیں، آج آپ ہمیں نہیں پکڑیں گے، تو کل تو ہم ضرور پکڑے جائیں گے، وہ اس وقت فیک نیوز پھیلانے میں بہت ماسٹر تھے، اور آج اس فیک نیوز کے ہاتھ ہم سب پھنسے ہوئے ہیں۔
ایکسریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کیا یہ ضروری ہے کہ جو بھی قانون بنے ہم صحافتی ادارے آزادی کے نام پر اس کی مخالفت ضرور کریں، کہیں یہ بھی بات کرنی چاہیے کہ جن لوگوں کا کاروبار ، بزنس ہی فیک نیوز ہے ان کے اوپر کیا ہو گا، یہ بھی تو سوچنا چاہیے.
تجزیہ کار محسن بیگ نے کہا کہ بنیادی طور پر تو بہت سارے قانون تو پہلے ہی موجود ہیں، ان کا اطلاق کیسے کیا جائے، یہ جو فیک نیوز ہے اس کوکٹہرے میں لایا جائے، نیچرلی باہر کی دنیا میں بھی فیک نیوز کے تدارک کے لیے قوانین ہیں ، وہ اطلاق بھی کرتے ہیں اور فوری طورپر سزائیں بھی ہوتی ہیں، یہاں پراسیکیوشن یا حکومت اگر کسی سے ویسے ہی انتقام لینا ہو تو یہ قوانین لگا دیتے ہیں، ورنہ یہاں کی پراسیکیوشن اتنی کمزور ہوتی ہے کہ وہ پراسیکیوٹ نہیں کر پاتی۔
تجزیہ کار نصر اللہ ملک نے کہا کہ سوشل میڈیا آنے کے بعد بہت سے معاملات ایسے ہیں کہ جو عدالتیں بھی کہتی ہیں کہ ہماری ڈومین میں نہیں آتے، یہ مسئلہ آج کا نہیں بڑا پرانا ہے کہ آپ جھوٹی خبریں پھیلا کر ، پراپیگنڈا کر کرکے پورے معاشرے کو ہیجانی کیفیت میں لے جاتے ہیں، یہ جو ایجنڈا رہا ہے، ماضی میں بھی، جھوٹے پراپیگنڈے کے ذریعے اداروں کو تباہ کیا، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ قانون سازی بھی ہو، اس کا اطلاق بھی ہو، تمام صحافتی تنظیمیں اپنا ان پٹ بھی دیں لیکن کہیں نہ کہیں تو آپ کو بند تو باندھنا پڑے گا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ فیک نیوز نیوز کے
پڑھیں:
دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، مولانا فضل الرحمن
ملتان میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر مدارس کے خلاف رویہ تبدیل نہ کیا گیا تو علما اپنی حریت اور دینی اقدار کے تحفظ کے لیے اسلام آباد کا رخ کریں گے، پاکستان کے آئین کے مطابق اسلام مملکتِ پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ خیر المدارس ملتان میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیراہتمام جنوبی پنجاب کے ملحقہ دینی مدارس کا عظیم الشان اجتماع خدماتِ تحفظِ مدارسِ دینیہ کنونشن کے عنوان سے منعقد ہوا۔ اجلاس میں جنوبی پنجاب کے چار ہزار سے زائد مدارس و جامعات کے مہتممین اور ذمہ داران نے شرکت کی۔ کنونشن میں کہا گیا کہ مدارس کے خلاف ہتھکنڈے بند کریں ورنہ کفن پہن کر اسلام آباد کا رخ کرلیں گے، اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے امیر اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سرپرست مولانا فضل الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اسلامی نظام کے لئے پنجاب والے اٹھیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں مجبور نہ کیا جائے ہم سڑکوں پر آکر اسلام آباد کی طرف رخ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، جس کا مقصد نوجوانوں کو ریاست کے خلاف بھڑکانا ہے۔ لیکن وفاق المدارس اور جمعیت علمائے اسلام نے نوجوانوں کو امن و استحکام کا پیغام دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بیرونی طاقتیں ان اداروں سے خائف ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ پاکستان کے آئین کے مطابق اسلام مملکتِ پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا، لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر آج تک قانون سازی نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ کچھ قوتیں ملک میں ایسے ماہرینِ شریعت نہیں دیکھنا چاہتیں جو شریعت کے مطابق قانون سازی کر سکیں۔ انہوں نے حقوقِ نسواں، نکاح کی عمر، گھریلو تشدد، اور وقف قوانین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب بیرونی دباو کے نتیجے میں بنائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے حکومت پنجاب کے آئمہ کرام کو دیے جانے والے 25 ہزار روپے ماہانہ وظیفے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ رقوم ضمیر خریدنے کی کوشش ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے خبردار کیا کہ اگر مدارس کے خلاف رویہ تبدیل نہ کیا گیا تو علما اپنی حریت اور دینی اقدار کے تحفظ کے لیے اسلام آباد کا رخ کریں گے۔