سوئی سدرن میں اربوں روپے کی گیس چوری کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
ایس ایس جی سی ایل میں اربوں روپے کی گیس چوری کا انکشاف ہوا ہے ، انتظامیہ 8؍ارب 55 کروڑ روپے کی گیس چوری کرنے والوں کا پتا لگانے میں ناکام ہو گئی اور وصولی بھی نہیں کر سکی۔ جرأت کی رپورٹ کے مطابق سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ میں گیس کی چوری ان اکائونٹڈ فار گیس کا سب سے بڑا سبب ہے اور یو ایف جی( ان اکاؤنٹڈ فار گیس) میں گیس چوری کا حصہ 47 فیصد ہے ، 10سال کے دوران دو لاکھ 63 ہزار 2 سو ایم ایم سی ایف گیس چوری ہوئی جس کی مالیت ایک کھرب 51 کروڑ روپے ہے جس میں سے سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ انتظامیہ نے 35 ہزار 5 سو 76 ایم ایم سی ایف گیس چوری کرنے والے چور پکڑے جس کی مالیت 9 ارب 64 کروڑ روپے ہے جس میں 7 ارب گھریلو صارفین اور سوا 2 ارب صنعتی و کمرشل صارفین نے گیس چوری کی جو کہ 10 سال کے دوران ہونے والی گیس چوری کا صرف 12 فیصد ہے ، ایس ایس جی سی ایل میں گیس چوری کرنے والوں سے وصول صرف 61 کروڑ روپے کئے گئے لیکن گیس چوری کرنے والوں کا پتا لگانے پر 85 کروڑ روپے خرچ کئے گئے جو کہ وصول ہونے والی رقم کا 139 فیصد ہے ۔ سوئی سدرن میں رجسٹرڈ صارفین نے ایک ارب 23 کروڑ روپے کی گیس چوری کی اور ان کے خلاف کیسز درج کئے گئے اور ان سے وصول 46 کروڑ روپے کئے ۔ جبکہ ایس ایس جی سی ایل میں 5لاکھ 53 ہزار غیر رجسٹرڈ صارفین کے خلاف 6 ارب 40کروڑ روپے کی گیس چوری کے کیسز درج کئے لیکن ایک روپیہ بھی وصول نہیں کیا گیا، اس طرح گھریلو صارفین سے گیس چوری کے 7ارب 17کروڑ روپے وصول نہیں کئے گئے ، گیس چوری کرنے والوں سے مجموعی طور پر 8ارب 55کروڑ روپے وصول نہیں ہو سکے ۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: گیس چوری کا کروڑ روپے
پڑھیں:
10سال میں 23 سرکاری اداروں سے قومی خزانے کو 55 کھرب روپے کے نقصان کا انکشاف
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ملک کے 23 سرکاری اداروں (اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائزز) نے گزشتہ 10 سال کے دوران قومی خزانے کا 55 کھرب روپے (5.19 ارب ڈالرز) کا نقصان کیا ہے اور اس میں اگر صرف قومی ائیرلائن پی آئی اے کی بات کی جائے تو اسے 700 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
یہ ایک ایسا انکشاف ہے جس نے احتساب اور نجکاری کی ضرورت کو ایک مرتبہ پھر اجاگر کیا ہے۔ بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس میں وزیراعظم کے مشیر برائے امور نجکاری محمد علی کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار سرکاری شعبہ جات میں کئی دہائیوں سے پائی جانے والی نا اہلی اور بد انتظامی پروشنی ڈالتے ہیں۔
محمد علی کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال نہ صرف ناپائیدار ہے بلکہ ہر ٹیکس دہندہ پر بوجھ ہے۔ رکن قومی اسمبلی فاروق ستار کی زیر صدارت ہوئے اجلاس میں بتایا گیا کہ رواں ماہ مزید ایک ہزار یوٹیلیٹی اسٹورز بند کیے جائیں گے، سینکڑوں ملازمین فارغ ہو جائیں گے۔ اس صورتحال سے ملازمین کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے۔
کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ موجودہ 5500 میں سے صرف 1500 یوٹیلیٹی اسٹورز ہی فعال رہیں گے، جبکہ مالی لحاظ سے بہتر حالات والے اسٹورز کی نجکاری کا منصوبہ موجود ہے۔
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ملازمتوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ان اقدامات کی وجہ سے ملازمین کا مستقبل نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ اسٹورز کے 2237 ملازمین کو فارغ کیا جا چکا ہے، گزشتہ مالی سال کے دوران 38 ارب روپے کی سبسڈی کے باوجود یوٹیلیٹی اسٹورز کو رواں سال مختص کردہ 60 ارب روپے نہیں دیے گئے۔
پاور ڈویژن کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ خسارے کا شکار بجلی کی تین تقسیم کار کمپنیاں (سیپکو، حیسکو اور پیسکو) کی نجکاری کیلئے ورلڈ بینک کے ساتھ مشاورت جاری ہے۔
نوازشریف کا فوری پاکستان واپس آنے کا فیصلہ