جامعات فنڈ کی کمی کا شکار ہیں،طلبہ ڈگری سے نوکری چاہتے ہیں،تحقیق نہیں
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
کراچی (رپورٹ: حماد حسین) جامعات فنڈ کی کمی کاشکار ہیں‘طلبہ ڈگری سے نوکری چاہتے ہیں،تحقیق نہیں ‘طلبہ جدید تکنیک سے لاعلم ہیں‘ جدید لیبارٹریز، سافٹ ویئر نہیں‘ ہرسال کئی سو پی ایچ ڈی اور کئی ہزار ایم فل کے مقالہ جات لکھے جانے کا معاشرے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا‘ جامعات اور مقامی انڈسٹری کے درمیان رابطہ نہیں‘ اساتذہ کا زیادہ وقت ایڈمنسٹرٹیو کاموں میں صرف ہوتا ہے‘جامعات فکری جمود کا شکار ہیں۔ ان خیالات کا اظہار راولپنڈی ویمن یونیورسٹی میں شعبہ میڈیا سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نعمان احمد انصاری اور وفاقی اردو یونیورسٹی کراچیمیں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’پاکستان کی جامعات میں معیاری تحقیق کیوں نہیں ہو رہی ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نعمان احمد انصاری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جب بھی تعلیمی نظام کے انحطاط کی بات ہوتی ہے تو یہ ذکر بھی لازمی نکلتا ہے کہ پاکستانی جامعات میں معیاری اور معاشرے کی ضرورتوں کے مطابق تحقیق کیوں نہیں ہو رہی جبکہ ہر سال ان جامعات میں کئی سو پی ایچ ڈی اور کئی ہزار ایم فل کے مقالہ جات لکھے جا رہے ہیں‘ اس پیچیدہ مسئلے کی کچھ بنیادی وجوہات ہیں‘ پاکستان میں تحقیق کو صرف اس حد تک سمجھا اور کیا جاتا ہے کہ اس کی مدد سے ڈگری حاصل ہوجائے‘ تحقیق کے ذریعے معاشرے کے مسائل حل کرنے کی طرف نہیں دیکھا جاتا نہ ایسی تحقیق کی جاتی ہے جس سے معاشرے کو کوئی فائدہ پہنچے‘ دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ طلبہ تحقیق کے لیے مناسب موضوع نہیں ڈھونڈ پاتے کیونکہ نہ تو وہ دور جدید کی تحقیق کی تکنیک کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی تحقیق کے مضمون میں ان کی کوئی ذاتی دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں پیشہ ورانہ تحقیق کے لیے اعلیٰ درجے کی لیبارٹریاں اور سوفٹ ویرز دستیاب ہیں‘ ایک اور اہم وجہ معیاری تحقیق کے نہ ہونے کی یہ ہے کہ تحقیق جامعات کے اساتذہ کو کرانی ہوتی ہے لیکن ہماری جامعات میں اساتذہ کا زیادہ وقت ایڈمنسٹریٹو کاموں میں صرف ہوتا ہے اور جو ان کا اصل کام ہے یعنی ٹیچنگ اور اپنے زیر نگرانی طلبہ کو تحقیق کرانا اس پر وہ توجہ ہی نہیں دے پاتے جتنی کے اساتذہ کو دینی چاہیے‘ نتیجتاً طلبہ کی جو سمجھ میں آتا ہے وہ ویسا کام ڈگری لینے کے لیے جمع کرادیتا ہے اور اگر اتفاق سے کوئی طالب علم ذاتی دلچسپی سے کوئی اہم اور معاشرے کی ضرورت کے مطابق کوئی تحقیق کرنا چاہتا ہے تو جامعات کے پاس نہ اتنے وسائل ہوتے ہیں اور نہ فنڈ کے اس تحقیق کو مکمل کیا جاسکے‘ آخری اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جامعات اور مقامی انڈسٹری کے درمیان کوئی رابطہ نہیں اس لیے نہ اکیڈیمیا کو پتا ہوتا ہے کہ انڈسٹری کی کیا ڈیمانڈ ہے اور نہ انڈسٹری نے کبھی اس بات کی کوشش کی کہ وہ جامعات کو بتائے کہ انہیں کس قسم کی تحقیق اکیڈیمیا کی مدد درکار ہے حالانکہ دنیا بھر میں جامعات انڈسٹری کی ضرورت کے مطابق تحقیق کراتی ہیں لیکن پاکستان میں یہ سفر علیحدہ علیحدہ سمتوں میں جاری ہے۔ڈاکٹر رضوانہ جبیں کا کہنا تھا کہ پاکستانی جامعات فکری جمود کا شکار ہیں‘ تعلیمی نظام غیر معیاری ہونے کی سب سے بڑی وجہ اس وقت جامعات کا تعلیمی بجٹ ہے‘ تقریباً تمام جامعات معاشی بحران کا شکار ہیں جس کا براہِ راست اثر تعلیم و تحقیق پر پڑ رہا ہے‘ بجٹ کی کمی کی وجہ سے اساتذہ کو وقت پر تنخواہیں نہ ملنا، سائنسی علوم کی تحقیق کے لیے لیبارٹری میں کیمیکلز کی عدم دستیابی اور لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے دیگر لوازمات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ ایسی صورت حال میں وہ طالب علم جو تحقیق کی طرف جانا چاہتا ہے اس کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ تحقیق کے بغیر کس طرح تعلیم حاصل کرے‘ سماجی علوم کا بھی یہی حال ہے جامعات سے سالانہ ہزاروں طلبہ ڈگری حاصل کر کے فارغ التحصیل ہو رہے ہیں لیکن کوئی بھی یونیورسٹی عالمی جامعات کی درجہ بندی میں اپنا نام درج نہیں کرا سکی ہے جس کی بنیادی وجہ ناقص معیار تحقیق ہے‘ مصنوعی ذہانت کے آنے کے بعد سماجی تحقیق میں چیٹ جی پی ٹی کے استعمال نے سماجی علوم کی تحقیق کو مزید نقصان پہنچایا ہے‘ ہمارے طالب علموں کا مقصد ڈگری کے ذریعے صرف نوکری حاصل کرنا ہے‘ اس رویے نے تحقیق کو شدید نقصان پہنچایا ہے لہٰذا تعلیمی نظام میں ایک انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ تحقیق کے میدان میں جدیدیت کے ذریعے آگے بڑھ سکیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کا شکار ہیں جامعات میں کی تحقیق تحقیق کے تحقیق کو تحقیق کی ہے اور اور نہ کے لیے
پڑھیں:
3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور:3 برس میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملک کو خیرباد کہہ گئے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاو ¿نٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔
پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاو ¿نٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔ باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔