ہم جو ججز نامزد کرتے ہیں انہیں تو ایک ہی ووٹ ملتا ہے وہ بھی ہمارا ہوتا ہے،باقیوں کو گیارہ گیارہ ووٹ پڑ جاتے ہیں،جسٹس منصور علی شاہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ میں ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم جو ججز نامزد کرتے ہیں انہیں تو ایک ہی ووٹ ملتا ہے وہ بھی ہمارا ہوتا ہے،باقیوں کو گیارہ گیارہ ووٹ پڑ جاتے ہیں۔
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 2رکنی بنچ نے سماعت کی،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں تو جوڈیشل کمیشن کا بھی ممبر ہوں،احسن بھون نے کہاکہ جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ججز بھی لگائے جارہے ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ہم جو ججز نامزد کرتے ہیں انہیں تو ایک ہی ووٹ ملتا ہے وہ بھی ہمارا ہوتا ہے،باقیوں کو گیارہ گیارہ ووٹ پڑ جاتے ہیں،یہ تو گپ شپ لگتی رہے گی،احسن بھون نے کہاکہ ماضی میں کچھ فیصلے ہوئے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ماضی کیا حالیہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ ابھی پڑا ہے،ماضی میں اتنا نہ جائیں،آپ ہمارے یونیورسٹی کے دوست بھی ہیں،احسن بھون نے کہاکہ ماضی میں تشریح کے نام پر آئینی آرٹیکل کوغیرموثر کیا گیا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آج کل تو ایسا کچھ نہیں ہوا، حال میں تو سب ٹھیک ہے،احسن بھون نے کہاکہ حال تو مائی لارڈ اب لکھیں گے،ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں کوئی فیصلہ نہ کیا جائے۔
چیمیئنزٹرافی کیلئے سکواڈ فائنل ،صائم ایوب آؤٹ،اہم بلے باز کی انٹری
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ہم تو آئینی بنچ میں نہیں ہیں، ہم نے کیا کرنا ہے،ہم تو ویسے ہی گپ شپ کررہے ہیں،احسن بھون نے کہاکہ اس لئے ہم چاہتے تھے آئینی عدالت بنے،جسٹس منصور شاہ نے کہاکہ تھوڑادھکا اور لگا کر آئینی عدالت بنا لیتے،احسن بھون نے کہاکہ دھکا تو ہم نے لگایاتھا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ہم نے آرٹیکل 191اے کا جائزہ لینا تھا،جائزے کے دوران کیس بنچ سے واپس لے لیا گیا،احسن بھون نے کہاکہ مجھے گزارش تو کرنے دیں،بنچ پریکٹس پروسیجر کمیٹی نے بنایا تھا،جسٹس عقیل عباسی نے کہاکہ اصل میں ساری شرارت ہمارے آرڈر کی ہے،ویسے تو ہمارا کوئی لینا دینا نہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا دنیا میں ایسا ہوتا کہ ایگزیکٹو بنچ بنائے،احسن بھون نے کہایہ قانون پارلیمنٹ نے بنایا ہے،جب تک آئین میں شامل ہے تو وہ دستور کا حصہ ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا ہم آرٹیکل 191اے کا جائزہ بھی نہیں لے سکتے؟احسن بھون نے کہاکہ آپ جائزہ نہیں کیس کو آئینی بنچ کو ریفر کریں گے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آئینی بنچ تو 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے بنا، کیا چلتا کیس کمیٹی واپس لے سکتی ہے،احسن بھون نے کہاکہ یہ آئینی منشا ہے،جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ اگر ہم آرڈر کرتے تو غیرآئینی ہوتا، جوٖڈیشل آرڈر عدالتی حکم سے ہی ختم ہو سکتا ہے،احسن بھون نے کہاکہ اگر معاملہ آئینی وقانونی حیثیت کا ہو تو کمیٹی آئینی بنچ کو بھیج سکتی ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو آج ہی سنیں گے،کوشش کریں گے آج ہی سماعت مکمل ہو جائے۔
خانیوال؛بس کی موٹر سائیکل کو ٹکر، میاں بیوی اور 2بچے جاں بحق
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: نے کہاکہ ا
پڑھیں:
عمران کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: سپریم کورٹ
اسلام آباد(خصوصی رپورٹر +نوائے وقت رپورٹ)سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر حکومت پنجاب کی اپیلیں نمٹا دیں جب کہ دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دائر حکومت پنجاب کی اپیلوں پر سماعت کے دوران کہا کہ پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، بانی پی ٹی آئی کے وکلا دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے کہا کہ ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں، جسمانی ریمانڈ کی تھی۔ جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ کسی عام قتل کیس میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ڈیڑھ سال بعد جسمانی ریمانڈ کیوں یاد آیا، اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے مؤقف اپنایا کہ ملزم بانی پی ٹی آئی نے تعاون نہیں کیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ جیل میں زیر حراست ملزم سے مزید کیسا تعاون چاہیے، میرا ہی ایک فیصلہ ہے کہ ایک ہزار سے زائد سپلیمنٹری چلان بھی پیش ہو سکتے ہیں، ٹرائل کورٹ سے اجازت لیکر ٹیسٹ کروا لیں۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ استغاثہ قتل کے عام مقدمات میں اتنی متحرک کیوں نہیں ہوتی۔اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے استدلال کیا کہ 14 جولائی 2024 کو ٹیم بانی پی ٹی آئی سے تفتیش کرنے جیل گئی لیکن ملزم نے انکار کردیا، ریکارڈ میں بانی پی ٹی آئی کے فیس بک، ٹیوٹر اور اسٹاگرام پر ایسے پیغامات ہیں جن میں کیا گیا اگر بانی پی ٹی کی گرفتاری ہوئی تو احتجاج ہوگا۔جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ اگر یہ سارے بیانات یو ایس بی میں ہیں تو جاکر فرانزک ٹیسٹ کروائیں، اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے مؤقف اپنایا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں ہمارے ساتھ تعاون کیا جائے۔عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے، 26 گواہان کے بیانات قلمبند ہو چکے ہیں۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اگر ہم نے کوئی آبزرویشن دیدی تو ٹرائل متاثر ہوگا، ہم استغاثہ اور ملزم کے وکیل کی باہمی رضامندی سے حکمنامہ لکھوا دیتے ہیں۔ذوالفقار نقوی نے کہا کہ میں اسپیشل پراسیکیوٹر ہوں، میرے اختیارات محدود ہیں، میں ہدایات لیے بغیر رضامندی کا اظہار نہیں کر سکتا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ چلیں ہم ایسے ہی آرڈر دے دیتے ہیں، ہم چھوٹے صوبوں سے آئے ہوئے ججز ہیں، ہمارے دل بہت صاف ہوتے ہیں، پانچ دن پہلے ایک فوجداری کیس سنا، نامزد ملزم کی اپیل 2017 میں ابتدائی سماعت کیلئے منظور ہوئی۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ کیس میں نامزد ملزم سات سال تک ڈیتھ سیل میں رہا جسے باعزت بری کیا گیا، تین ماہ کے وقت میں فوجداری کیسز ختم کر دیں گے۔عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر کی گئی اپیلیں دو بنیادوں پر نمٹائی جاتی ہیں، استغاثہ بانی پی ٹی آئی کے پولی گرافک ٹیسٹ، فوٹو گرافک ٹیسٹ اور وائس میچنگ ٹیسٹ کیلئے ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے میں آزاد ہے۔حکمنامہ کے مطابق بانی پی ٹی کی قانونی ٹیم ٹرائل کورٹ میں ایسی درخواست آنے پر لیگل اور فیکچویل اعتراض اٹھا سکتی ہے۔