WE News:
2025-11-04@04:25:27 GMT

شی جن پنگ اور پوٹن کی ڈیڑھ گھنٹہ میٹنگ، کیا کچھ زیربحث آیا؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

شی جن پنگ اور پوٹن کی ڈیڑھ گھنٹہ میٹنگ، کیا کچھ زیربحث آیا؟

چینی رہنما شی جن پنگ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے چند گھنٹوں بعد منگل کے روز اپنے ہم منصب روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ایک ویڈیو کانفرنس میں اس سال روس کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کو نئی سطح پر لے جانے کا عزم کیا ہے۔

دونوں رہنماؤں نے نئے سال کے موقع پر گفتگو کو تقریباً ایک سالانہ روایت بنا رکھا ہے، قریبی ذاتی تعلقات کی ایک خصوصیت جس نے ان کے ممالک کے درمیان شراکت داری کو مضبوط بنانے میں مدد کی ہے، جو خصوصیت کے ساتھ پوٹن کے یوکرین کے خلاف جنگ کے دوران پروان چڑھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:چین پیوٹن پر دباؤ ڈالے کہ وہ یوکرین میں ‘جنگی جرائم’ فوری بند کرے، امریکا

چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے ایک اعلامیے کے مطابق صدر شی جن پنگ نے چین روس تعلقات کو ایک نئی بلندی پر لے جانے اور بیرونی غیر یقینی صورتحال کا جواب چین روس تعلقات کے استحکام اور لچک” کے ساتھ دینے کے لیے اپنی تیاری کا اظہار کیا۔

کانفرنس کال کے دوران بیجنگ کے عظیم ہال آف دی پیپل میں ایک بڑی اسکرین پر ویڈیو لنک کے ذریعے نمودار ہونے کے بعد صدر شی جن پنگ نے روسی صدر کو بتایا کہ دونوں ممالک کو تذویراتی رابطے اورعملی تعاون کو گہرا کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کی مضبوطی سے حمایت کرنی چاہیے۔

مزید پڑھیں:برکس سمٹ: کیا امریکا کے قائدانہ کردار کو مسابقت درپیش ہے؟

دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ ویڈیو کال اس وقت ہوئی جب دونوں ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی کو قریب سے دیکھ رہے ہیں، حلف اٹھانے والے نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے اوائل میں دونوں رہنماؤں سے ملاقات یا بات چیت میں دلچسپی کا عندیہ دیا ہے۔

تاہم، عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے چین کو ملنے والے محصولات کی دھمکیاں بھی جاری رکھی ہیں اور پیوٹن کے بارے میں آج تک کے اپنے کچھ انتہائی تنقیدی تبصرے کیے ہیں، کیونکہ وہ یوکرین پر روس کے حملے کو ختم کرنے کے خواہاں ہیں۔

مزید پڑھیں:روسی صدر ولادیمیر پوٹن چین پہنچ گئے، کل ’پیارے دوست‘ سے ملیں گے

بدھ کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی کہ اگر یوکرین میں روس کی ’مضحکہ خیز جنگ‘ جلد ختم نہ ہوئی تو وہ امریکا میں فروخت ہونے والی روسی مصنوعات پر اعلی سطح کے ٹیکس، محصولات اور پابندیاں لگائیں گے۔

تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اور امریکی اتحادیوں کی طرف سے برسوں کی بھاری پابندیوں کے پیش نظر، مزید اقدامات کا کیا اثر ہوسکتا ہے، جو پہلے ہی روسی معیشت پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔

تعلقات کی ازسرِنوترتیب

صدر پوٹن اور شی جن پنگ نے عوامی طور پر نئی امریکی انتظامیہ کے تحت امریکا کے ساتھ کشیدہ تعلقات کو بحال کرنے کی امید ظاہرکی ہے، صدرشی اور ٹرمپ نے جمعہ کو حلف برداری سے قبل کال کی، جسں ژی میں امریکا اور چین کے تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک نئے نقطہ آغاز کی وکالت کی۔

بات چیت میں یوکرین کی جنگ سمیت متعدد موضوعات پر بات کی گئی، بعد میں صدر ٹرمپ نے  اسے ’بہت اچھی‘  کال قرار دیا، کریملن کے معاون یوری اوشاکوف کے مطابق چینی صدر نے منگل کو دونوں رہنماؤں کی 90 منٹس سے زائد بات چیت کے دوران پوٹن کو اس فون کال کے بارے میں بھی بتایا۔

مزید پڑھیں: 2024 انتخابات کا سال، عالمی سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا؟

 امریکا کے ساتھ دونوں ممالک کے تعلقات کے مسائل بھی اٹھائے گئے، روسی سرکاری خبر رساں ایجنسی تاز کے مطابق، اوشاکوف نے کہا کہ اس تناظر میں، رہنماؤں نے قدرتی طور پر، امریکی انتظامیہ کے ساتھ ممکنہ رابطوں کی ترقی کے بعض پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیاگیا تھا۔

صدرپوٹن نے شی جنگ پنگ سے اپنے ریمارکس میں دونوں ممالک کی بڑھتی ہوئی تجارت کو بھی سراہا ، چینی اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ پچھلے سال ریکارڈ فصلیں ہوئی تھیں، اوراپنے مشترکہ عزائم کی طرف اشارہ کیا کہ وہ عالمی نظم کو نئی شکل دینے کے لیے کوشاں ہیں، جسے وہ غیر منصفانہ طور پر امریکا کے زیر تسلط دیکھتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ’اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے‘، امریکا گاڑیوں میں چین اور روس کے پرزوں سے خائف

کریملن کے اعلامیے کے مطابق، صدر پوٹن نے کہا کہ وہ ایک زیادہ منصفانہ کثیر قطبی عالمی نظام کی وکالت میں متحد ہیں اور یوریشیائی خطے سے عالمی سطح تک ناقابل تقسیم سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ماسکو اور بیجنگ کی مشترکہ کوششیں معروضی طور پر بین الاقوامی معاملات میں ایک اہم استحکام کا کردار ادا کرتی ہیں۔

ایک سفارتی مثلث؟

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ اس تنازعہ کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتے ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی حالیہ کال کے دوران چینی رہنما پر زور دیا کہ وہ اسے قضیہ کو حل کرلیں۔

یورپی رہنماؤں کو طویل عرصے سے امید تھی کہ چینی صدر اپنے ہم منصب پوٹن کو یوکرین کی امن کی شرائط کو قبول کرنے کی مد میں ایک کردار ادا کرسکتے ہیں، لیکن صدر ٹرمپ کے جنگ کے خاتمے کے لیے ان کی بیان کردہ مہم نے چین کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے کے امکانات کو مزید روشن کیا ہے۔

مزید پڑھیں:یوکرین جنگ روس کو مہنگی پڑگئی ہے، شکریہ چین

یہ بیجنگ کے لیے ایک نازک توازن قائم کرسکتا ہے، صدر شی نے طویل عرصے سے تنازع میں چین کو ایک ممکنہ امن کے سفیر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، باوجودیکہ امریکا اور اس کے اتحادی بیجنگ پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ دوہرے استعمال کی اشیا برآمد کرتے ہوئے روسی جنگی کوششوں کو ہوا دے رہا ہے، جس کی بیجنگ تردید کرتا رہا ہے۔

چین میں اقتصادی کمزوری کے پیش نظر صدرشی جن پنگ کوممکنہ طورپرنقصان دہ ٹیرف سے بچنے کے لیے صدر ٹرمپ کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے خواہشمند کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:خلیج عمان چین، ایران اور روسی افواج کی مشترکہ بحری مشقوں کا آغاز

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا بائیڈن انتظامیہ پوٹن پوسٹ چین ڈونلڈ ٹرمپ روس سوشل میڈیا شی جن پنگ محصولات مضحکہ خیز جنگ ہال آف دی پیپل یوکرین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا بائیڈن انتظامیہ پوٹن پوسٹ چین ڈونلڈ ٹرمپ سوشل میڈیا محصولات مضحکہ خیز جنگ یوکرین صدر ڈونلڈ ٹرمپ مزید پڑھیں تعلقات کو امریکا کے کے مطابق کے دوران کے ساتھ کرنے کے جنگ کے کے لیے

پڑھیں:

’عیسائیوں کا قتلِ عام‘: ٹرمپ کی نائجیریا کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نائجیریا میں عیسائیوں کے قتلِ عام پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر نائجیریا کی حکومت نے فوری طور پر کارروائی نہ کی تو امریکا تیزی سے فوجی ایکشن لے گا۔

ٹرمپ نے ہفتے کی رات اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹروتھ سوشل“ پر بیان میں کہا کہ انہوں نے امریکی محکمہ دفاع کو حکم دیا ہے کہ وہ تیز اور فیصلہ کن فوجی کارروائی کی تیاری کرے۔ ٹرمپ کے مطابق، امریکا نائجیریا کو دی جانے والی تمام مالی امداد اور معاونت فی الفور بند کر دے گا۔

انہوں نے لکھا کہ اگر امریکا نے کارروائی کی تو وہ “گنز اَن بلیزنگ” یعنی پوری طاقت سے ہوگی تاکہ اُن دہشت گردوں کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکے جو عیسائیوں کے خلاف ہولناک مظالم کر رہے ہیں۔

ٹرمپ نے نائجیریا کی حکومت کو “بدنام ملک” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر اس نےجلدی ایکشن نہ لیا تو نتائج سنگین ہوں گے۔

ٹرمپ نے کہا کہ ، ”اگر ہم حملہ کریں گے تو وہ تیز، سخت اور میٹھا ہوگا، بالکل ویسا ہی جیسا یہ دہشت گرد ہمارے عزیز عیسائیوں پر کرتے ہیں!“

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق، امریکی محکمہ دفاع نے اس بیان پر کوئی تفصیلی تبصرہ نہیں کیا اور وائٹ ہاؤس نے بھی فوری ردعمل دینے سے گریز کیا۔ تاہم امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ”وزارتِ جنگ کارروائی کی تیاری کر رہی ہے۔ یا تو نائجیریا کی حکومت عیسائیوں کا تحفظ کرے، یا ہم ان دہشت گردوں کو ماریں گے جو یہ ظلم کر رہے ہیں۔“

خیال رہے کہ حال ہی میں ٹرمپ انتظامیہ نے نائجیریا کو دوبارہ اُن ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جن پر مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا الزام ہے۔ رائٹرز کے مطابق اس فہرست میں چین، میانمار، روس، شمالی کوریا اور پاکستان بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب، نائجیریا کے صدر بولا احمد تینوبو نے ٹرمپ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک مذہبی رواداری پر یقین رکھتا ہے۔ اُن کے مطابق، “نائجیریا کو مذہبی طور پر متعصب ملک قرار دینا حقیقت کے منافی ہے۔ حکومت سب شہریوں کے مذہبی اور شخصی حقوق کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔”

نائجیریا کی وزارتِ خارجہ نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ ملک دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف پرعزم ہے، اور امریکا سمیت عالمی برادری سے تعاون جاری رکھے گا۔

وزارت نے کہا کہ “ہم نسل، مذہب یا عقیدے سے بالاتر ہو کر ہر شہری کا تحفظ کرتے رہیں گے، کیونکہ تنوع ہی ہماری اصل طاقت ہے۔:

یاد رہے کہ نائجیریا میں بوکوحرام نامی شدت پسند تنظیم گزشتہ 15 سال سے دہشت گردی کر رہی ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کے ماہرین کے مطابق، بوکوحرام کے زیادہ تر متاثرین مسلمان ہیں۔

تاہم ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ “ہزاروں عیسائیوں کو نائجیریا میں شدت پسند مسلمان قتل کر رہے ہیں”۔ لیکن انہوں نے اس الزام کے کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔

ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد امریکی کانگریس میں موجود ری پبلکن اراکین نے ان کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نائجیریا میں “عیسائیوں پر بڑھتے مظالم” عالمی تشویش کا باعث ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق، اگر ٹرمپ کا یہ فوجی دھمکی نما بیان عملی جامہ پہنتا ہے تو افریقہ میں امریکا کی نئی فوجی مداخلت کا آغاز ہو سکتا ہے، ایک ایسے وقت میں جب خطے میں پہلے ہی امریکی اثر و رسوخ کمزور ہو چکا ہے۔

نائجیریا کی حکومت نے فی الحال امریکی صدر کے اس دھمکی آمیز بیان پر کوئی سرکاری ردعمل نہیں دیا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور امریکہ میں تعلقات کی نئی راہیں کھل رہی ہیں،ملک خدا بخش
  •  امریکا کا یوٹرن‘ یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے سے انکار
  • وینزویلا صدر کے دن گنے جاچکے، ٹرمپ نے سخت الفاظ میں خبردار کردیا
  • کراچی، ندی میں ڈوبنے والی خاتون ڈاکٹر کا ڈیڑھ ماہ بعد بھی سراغ نہ لگایا جاسکا
  • وینیزویلا سے جنگ کا امکان کم مگر صدر نکولس مادورو کے دن گنے جاچکے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکا ایٹمی دھماکے نہیں کر رہا، وزیر توانائی نے ٹرمپ کا دعویٰ غلط قرار دیا
  • فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال
  • ’عیسائیوں کا قتلِ عام‘: ٹرمپ کی نائجیریا کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی
  • سفیر پاکستان رضوان سعید شیخ کا پاک امریکا معاشی تعلقات مضبوط بنانے پر زور
  • نائیجیریا میں عیسائیوں کا قتل عام نہ رُکا تو فوجی کارروائی کریں گے، ٹرمپ کی دھمکی