Daily Ausaf:
2025-11-03@05:18:08 GMT

کشتی کا حادثہ اور انسانی اسمگلرز

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

انسانی اسمگلرز ایک بار پھر متحرک ہوگئے ہیں۔ حال ہی میں ایک کشتی جو کچھ پاکستانیوں کو لے کر یونان کے کسی جزیرے پر جارہی تھی کہ راستے میں کشتی خراب ہوگئی اور پھر اچھے روزگار کے خوابوں کو لئے بیشتر مسافر سمندر برد ہوگئے۔ یہ اپنی جگہ بہت بڑا المناک حادثہ ہے۔ جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے‘ بے روزگار نوجوانوں کو اچھی نوکری کی لالچ دیکر پاکستان سے باہر لے جانے کے لئے پانچ‘ دس لاکھ روپے معاوضہ لیتے ہی بلکہ منزل سے پہلے ہی سمندر کی خوفناک موجوں کے حوالے بھی کردیتے ہیں۔ ہرچند کہ یہ غیر قانونی غیر اخلاقی سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ حکومت کے اہلکار ایسے عناصر کی تادیب نہیں کرتے ہیں‘ بلکہ صرف نگاہ کرکے بلواسطہ ان کی اس غیر قانونی کام میں معاونت بھی کرتے ہیں۔ اس طرح جہاں انسانی جانیں بغیرکسی وجہ کے تلف ہوجاتی ہیں وہیں پاکستان کی بدنامی بھی ہوتی ہے۔ لیکن ایف آئی اے یا دیگر ادارے جواس غیر قانونی غیر اخلاقی کام کا سدباب کرنے کے ذمے دار ہوتے ہیں وہ بھی ’’ حرکت‘‘ میں نہیں آتے ہیں لیکن جب حادثہ ہوجاتاہے تب یہ جاگتے ہیں وہ بھی حکومت وقت کی ناراصگی کی وجہ سے ورنہ انہیں گرفتار کرنے والے خود اس بزنس میں مبینہ طور پر ملوث پائے گئے ہیں۔
چنانچہ اب وقت آگیاہے کہ ایسے عناصر کی سخت ترین انداز میں تادیب کی جائے۔ اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے‘ قانون کے ذریعے تاکہ دوسروں کو بھی اس ضمن میں عبرت حاصل ہوسکے۔ تاہم پاکستان میں انسانی اسمگلرز کا یہ دھندا ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ اس دھندے کا اصل مرکز پنجاب کے بعض گائوں ہیں جہاں یہ لوگ گائوں کے سیدھا سادھے لوگوں کو اچھے روزگار اور معقول پیسوں کا جھانسہ دے کر غیر قانونی طور پر باہر بھیجنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان پاکستانی انسانی اسمگلروں کا کام صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کا نیٹ ورک باہر بھی ہے۔ یونان کے بعض بدمعاش عناصر بعض پاکستانیوں کے ساتھ مبینہ طور پر مل کر یہ کام ایک عرصہ دراز سے کررہے ہیں۔ جب پکڑے جاتے ہیں اور اخبارات بھی خبریں شائع ہوتی ہیں تو یہ عناظر کچھ عرصے کے لئے زیر زمین چلے جاتے ہیں‘ لیکن جیسے ہی حالات ان کے موافق ہوجاتے ہیں یہ دوبارہ متحرک اور فعال ہوکر یہ دھندا شروع کردیتے ہیں۔ اس سلسلے میں کروڑوں روپے کا لین دین ہوتاہے۔ بلکہ اتنی بڑی رقم انسانی اسمگلروں کو دینے کے باوجود نہ تو نوکری کا کوئی معقول انتظام ہوتاہے اور نہ ہی یہ ضمانت دی جاسکتی ہے کہ انہیں صحیح سلامت منزل مقصود تک پہنچادیاجائے گا۔ ان تمام غیر قانونی کاموں میں حکومت کے اپنے کچھ کارندے شامل ہیں جن کی مدد اور تعاون کے بغیر یہ کام انجام نہیں دیاجاسکتا ۔ ہرچند کہ حکومت ایسے غلط کاموں کو روکنے کے سلسلے میں کام کررہی ہے‘ لیکن اس کے نتائج نہیں نکل سکے۔ انسانی اسمگلنگ جاری ہے۔ غریب آدمی نوکری کی تلاش میں مسلسل سمندر بورد ہورہے ہیں۔ لیکن اس المیے کے باوجود یہ غیر قانونی کام جاری ہے۔ جس میں بقول شیخے حکومت کے بعض ارکان بھی شامل ہیں۔
حالانکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ حکومت نے مین پاور ایکسپورٹ کے متعلق ایک ادارہ کام کررہاہے‘ جبکہ بعض باشعور افراد اپنے ہی ادارے کے ذریعے باہر نوکریوں کی تلاش میں جاتے ہیں۔ جہاں انہیں باعزت نوکری مل جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان میں انسانی اسمگلروں سے متعلق کام کرنے والے نہ صرف یہ غیر قانونی کام کررہے ہیں بلکہ پکڑے جانے کی صورت میں اور جیل کی سزا کاٹنے کے بعد یہ عناصر دوبارہ اس ہی کام میں شامل ہوکر سادا مزاج لوگوں کو لوٹنے سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے۔ جس میں مبینہ طور پر ایف آئی اے کے بعض افسران بھی شامل ہیں۔ایسے تمام عناصر کو جو یہ غیر قانونی کام کررہے ہیں‘ انہیں نہ تو پاکستان کی عزت کاخیال ہے اور نہ ہی اپنی ۔ انہیں صرف پیسے سے سروکار ہے۔
دراصل حکومت پاکستان کی کمزور پالیسیوں کی وجہ سے انسانی اسمگلرز کا دھندا جاری ہے۔ ورنہ اگر حکومت اس ضمن میں سخت تادیبی کارروائی اختیار کرکے اور ملزمان کو سخت سزائیں دے تو حالات بدل سکتے ہیں۔ کیونکہ قانون کی گرفت سے بہت سے برے کام بھی ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں حکومت کو انسانی اسمگلرز کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اور سزائیں بھی دینے کی ۔لیکن ایسا نظرنہیں آتاہے۔ کیونکہ انسانی اسمگلرز مالی طور پر طاقتور ہوتے ہیں جو حکومت کے متعلقہ محکموں کو رشوت دیکر اس ناجائز کام کو جاری وساری رکھتے ہیں۔
دراصل پاکستان کو انسانی اسمگلنگ روکنے کے لئے ملک کے اندر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری لانی ہوگی جس کی مدد سے روزگار کے ذرائع پیدا ہوسکیں۔ انسانی اسمگلنگ صرف ان ممالک میں کامیاب نظر آتی ہے جہاں دولت کی تقسیم انتہائی غیر منصفانہ ہے۔ اور روزگار کے ذرائع بھی کم ہیں اس لئے پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسی پالیسیاں وضع کرے جس کی روشنی میں سرمایہ دار ملک کے اندرسرمایہ کاری کرکے روزگار کے ذریعے پیدا کرکے وہیں کی فاضل مین پاور کوبامقصد کاموں میں استعمال کرکے انہیں مالی ومعاشی طور پر خوشحال اور خودکفیل بناسکتی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں بے روزگارلوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ صرف حکومت کی جانب ایسے پالیسیوں تشکیل دینی چاہیے جس کی مدد سے سرمایہ کاری وافر مقدار میں ممکن ہوسکے اور روزگار بھی بہ آسانی میسر آسکے۔ بعض ترقی پذیر ملکوں نے حال ہی میں ایسی پالیسیاں بنائی ہیں جس کی وجہ سے بے روزگار ی ختم ہوئی ہے اور سرمائے کااستعمال بھی عوام دوست بنیاد پر استعمال ہوا ہے۔ عوام کی اکثریت کو بے روزگار رکھ کر تو ملک ترقی کرسکتاہے اور نہ ہی معاشی ترقی ممکن ہوسکے گی۔ ذرا سوچیئے!

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: انسانی اسمگلرز غیر قانونی کام یہ غیر قانونی پاکستان کی روزگار کے بے روزگار حکومت کے کرتے ہیں جاری ہے ہے اور کے بعض

پڑھیں:

سوڈان میں خونیں کھیل

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-3

 

سوڈان ایک بار پھر خون میں نہا رہا ہے۔ شہر الفشر میں گزشتہ ہفتے سے جو مناظر سامنے آرہے ہیں، وہ انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہیں۔ فوجی انخلا کے بعد سے ریپڈ سپورٹ فورسز نے شہر پر قبضہ کر کے ایک ایسا قتل عام شروع کیا ہے جس نے دارفور کے پرانے زخم پھر سے تازہ کر دیے ہیں۔ صرف چار دن میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک اور پچیس ہزار سے زیادہ شہری نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، الفشر کے اطراف میں ایک لاکھ سترہ ہزار کے قریب لوگ پھنسے ہوئے ہیں، بغیر خوراک، پانی یا طبی سہولت کے۔ اس المناک صورتحال کی جڑیں آج کی نہیں بلکہ ایک دہائی پرانی پالیسیوں میں پیوست ہیں۔ 2013ء میں جب دارفور میں بغاوت کے شعلے بھڑکے، تو خرطوم نے روایتی فوج کی ناکامی کے بعد ایک نئی ملیشیا بنائی، ریپڈ سپورٹ فورس۔ مقصد یہ تھا کہ تیز رفتار کارروائیوں کے ذریعے شورش کو ختم کیا جائے۔ لیکن جیسا کہ تاریخ گواہ ہے، ’’ایک ملک میں دو فوجیں کبھی ساتھ نہیں رہ سکتیں‘‘۔ اس ملیشیا کو وسائل، اختیار اور تحفظ دیا گیا، مگر اس کے ساتھ وہ خود مختاری بھی ملی جس نے بالآخر ریاستی ڈھانچے کو کمزور کر دیا۔ ماضی میں دیکھا جائے تو جب 2019ء میں عمرالبشیر کی حکومت کا خاتمہ ہوا، تو یہی ملیشیا اقتدار کی کشمکش میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے لگی۔ ریپڈ فورسز نے فوجی اقتدار کے عبوری دور میں بھی اپنے اثر و نفوذ میں اضافہ جاری رکھا۔ پھر 2023ء میں وہ لمحہ آیا جب جنرل برھان کی فوج اور جنرل حمیدتی کی فورس کے درمیان تصادم نے سوڈان کو مکمل خانہ جنگی میں دھکیل دیا۔ آج الفشر میں جو خون بہہ رہا ہے، وہ دراصل انہی غلط فیصلوں اور طاقت کے بے لگام استعمال کا نتیجہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ سوڈان کی صورت حال اب انسانی المیے کی بدترین شکل اختیار کر چکی ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر، معیشت تباہ، اسپتال ملبے میں تبدیل، اور عورتیں و بچے عدم تحفظ کے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن عالمی طاقتوں کی خاموشی مجرمانہ ہے۔ وہی مغربی دنیا جو یوکرین یا اسرائیل کے لیے ہمدردی کے بیانات دیتی ہے، سوڈان کے جلتے ہوئے شہروں پر آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔ سوڈان کا المیہ صرف ایک ملک کا نہیں بلکہ یہاں بھی عالمی بے حسی صاف نظر آتی ہے۔ جب کسی ریاست کے اندر طاقت کے دو مراکز قائم ہو جائیں، جب اقتدار ذاتی مفاد کے تابع ہو جائے، جب بین الاقوامی طاقتیں اپنے سیاسی ایجنڈے کی اسیر ہوجائیں تو ایسے ہی حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس وقت سوڈان کو فوری طور پر جنگ بندی، غیر جانب دار انسانی رسائی، اور ایک جامع سیاسی عمل کی ضرورت ہے، جس میں فوج، ریپڈ فورس اور سول سوسائٹی سب شامل ہوں۔ بین الاقوامی برادری کو بھی اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ صرف تماشائی بنے رہنا چاہتی ہے یا واقعی انسانی حقوق کے اصولوں پر قائم ہے۔

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • فیصل آباد، پولیس وین کو حادثہ، ایک اہلکار جاں بحق، 8 زخمی
  • لاہور میں ٹریفک حادثہ: بوتلوں سے بھرا ٹرک رکشے پر الٹ گیا، چار افراد جاں بحق
  • سمندری کے قریب ملتان پولیس کی نفری کی گاڑی کو حادثہ، دو اہلکار جاں بحق، آٹھ زخمی
  • امریکی صدر کے حکم پر کیریبین میں منشیات بردار کشتی پر حملہ، 3 افراد ہلاک
  • کراچی میں دلخراش حادثہ، گھر میں آگ لگنے سے ماں بیٹی ہلاک
  • کیریبین میں مبینہ منشیات سے بھری کشتی پر امریکا کا حملہ، 3 افراد ہلاک
  • تلاش
  • سوڈان میں خونیں کھیل
  • حکومت نے نوجوانوں کا روزگار چھینا اور ملک کی دولت دوستوں کو دے دی، پرینکا گاندھی
  • جاپان: بے روزگار شخص نے فوڈ ڈیلیوری ایپ سے 1000 سے زائد کھانے مفت حاصل کرلیے