Daily Ausaf:
2025-11-03@18:56:45 GMT

لڑادے ممولے کو شہباز سے

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
دوسری جانب امریکی صدرجوبائیڈن نے بھی نائب صدرکملاہیرس اوروزیرخارجہ انتھونی بلنکن کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے کہاہے کہ اس معاہدے کے بعدغزہ میں لڑائی رک سکے گی،فلسطینی شہریوں کوانسانی امدادکی فراہمی ممکن بنائی جائے گی اوریرغمالیوں کوان کے خاندانوں کے ساتھ 15ماہ کی قیدکے بعدملنے کاموقع ملے گا۔ جوبائیڈن کے مطابق اس معاہدے تک پہنچناآسان نہیں تھااوریہ سب سے مشکل مذاکرات میں سے ایک تھے۔
ان کے مطابق ’’ایران گزشتہ دہائیوں کے مقابلے میں خاصا کمزورہے اورحزب اللہ بھی ’’بری طرح کمزورہوچکاہے‘‘جبکہ حماس نے بھی اپنے متعددسینئر رہنماؤں اور فدائیوں کی ہلاکت کے بعداس معاہدے پر اتفاق کیاہے‘‘۔تاہم اب بھی بہت سے اہم نکات موجودہیں جواسے مستقل جنگ بندی کا معاہدہ بننے سے روک سکتے ہیں۔اس معاہدے کی تفصیلات کاتاحال باضابطہ طورپراعلان تونہیں کیاگیالیکن مذاکرات سے جڑے اہلکاروں نے معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کیاہے۔
معاہدے کامسودہ تین مراحل پرمشتمل ہے جس کے بارے قطری وزیرِاعظم کوامیدہے کہ یہ ’’مستقل جنگ بندی کاپیش خیمہ ثابت ہو گا۔ایک فلسطینی عہدیدار کے مطابق مجوزہ امن منصوبے کاپہلامرحلہ 42دن یا 60دن تک جاری رہنے والی جنگ بندی ہے۔حماس معاہدے کے پہلے مرحلے میں33 یرغمالیوں کو رہا کرکے اسرائیل واپس بھیجاجائے گاجس میں بچے، خواتین بشمول خواتین فوجی، 50 سال سے زائدعمرکے مرد،زخمی اوربیمارافرادشامل ہوں گے۔اس کے بعدآئندہ ہفتوں میں مزیدیر غمالیوں کی رہائی کاعمل روک دیا جائے گا۔ جنگ بندی کے پہلے روزحماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے3افرادکوفوری طورپررہاکیاجائے گا۔
اسرائیل کامانناہے کہ ان یرغمالیوں میں سے زیادہ ترزندہ ہیں لیکن حماس کی جانب سے ان کے بارے میں کوئی باضابطہ تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ان میں سے94غزہ میں موجود ہیں جن میں سے34ہلاک ہوچکے ہیں۔4اسرائیلی ایسے بھی ہیں جنہیں جنگ سے پہلے اغواکیاگیاتھا،جن میں سے دوہلاک ہوچکے ہیں۔ جنگ بندی سے متعلق تجویزکردہ مسودے میں کہاگیاہے کہ جنگ بندی کے 16ویں دن اسرائیل اورحماس امن منصوبے کے دوسرے اورتیسرے مرحلے پر مذاکرات شروع کریں گے۔اس میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے باقی تمام زندہ یرغمالیوں کی واپسی شامل ہوگی۔اسرائیل شمالی غزہ میں بے گھرہونے والے رہائشیوں کو علاقے کے جنوب سے واپس آنے کی اجازت دے گا بشرطیکہ ہتھیاروں کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔پیدل سفرکرنے والے افرادکو ساحلی روڈکے ذریعے غزہ میں اپنے گھروں تک جاناہوگا۔جولوگ گاڑیوں کے ذریعے سفرکریں گے انہیں صلاح الدین روڈکے ذریعے وسطی غزہ میں داخلے کی اجازت ہوگی۔
یادرہے کہ غزہ کی23لاکھ آبادی میں سے تقریبا تمام کواسرائیلی انخلاکے احکامات،اسرائیلی حملوں اورجنگ کی وجہ سے اپناگھر بارچھوڑنے پڑے ہیں۔ جنگ بندی کے آغازکے چندروزبعداسرائیلی فوجی غزہ کی پٹی سے مرحلہ وارانخلاکے حصے کے طورپر وسطی غزہ میں نیٹزاریم کوریڈورسے نکلناشروع کردیں گے۔تاہم اسرائیل مصرکے ساتھ غزہ کی جنوبی سرحد کے ساتھ فلاڈیلفیا کوریڈورمیں کچھ فوجی رکھے گا۔مصراورغزہ کے درمیان رفح کراسنگ کوآہستہ آہستہ بیماراورزخمی افرادکے علاج کے لئے علاقہ چھوڑنے کے لئے کھول دیاجائے گااور مزید انسانی امدادکی اجازت دی جائے گی۔
جنگ بندی کے دوسرے فیزمیں زندہ مرد فوجیوں اورشہریوں کواسرائیل کے حوالے کیاجائے گا، جبکہ مارے جانے والے یرغمالیوں کی لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کی جائیں گی۔
اسرائیل کاکہناہے کہ غزہ میں اس وقت 94یرغمالی موجودہیں جن میں سے34افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔اس کے علاوہ غزہ میں چار مزید اسرائیلی شہری بھی موجودہیں جنہیں جنگ کے شروع ہونے سے قبل اغواکیاگیاتھا۔اطلاعات کے مطابق حماس کے جن فدائیوں نے7اکتوبر2023ء کو اسرائیل پرحملہ کیاتھاانہیں رہانہیں کیاجائے گا۔ اسرائیل نے کہاہے کہ وہ تمام یرغمالیوں کی رہائی کے بعدہی اپنے فوجیوں کومکمل طورپرواپس بلالے گا۔اس کے بعدیہ مبینہ طور پرغزہ کے مشرقی اورشمالی اطراف میں800میٹر چوڑے بفرزون برقراررکھے گاجواسرائیل کی سرحدسے متصل غزہ پر سیکورٹی کنٹرول برقراررکھے گا۔جنگ بندی کے معاہدے کاتیسرافیزغزہ کی تعمیرنوسے متعلق ہے۔خیال رہے کہ حماس اور اسرائیل کی جنگ کے دوران غزہ کابڑاحصہ ملبے کاڈھیربن چکاہے لہذااس مرحلے یعنی تعمیرنوکے کام میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
اسرائیل اورحماس کے درمیان جنگ بندی کے دوسرے اورتیسرے مرحلے پرکوئی معاہدہ نہیں ہواہے۔ان کے بارے میں مذاکرات ابتدائی جنگ بندی کے16ویں دن شروع ہوں گے لیکن اب بھی کچھ سوالات موجودہیں۔یہاں سب سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ:غزہ کے انتظامی امورکس کے ہاتھ میں ہوں گے؟اسرائیل غزہ کاانتظام حماس کودینے کے حق میں نہیں ہے اوراس نے اس کے اتنظامی امورفلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے سے بھی انکارکردیاہے جوکہ غربِ اردن میں اسرائیل کے قبضے میں موجودمتعدد علاقوں کا انتظام سنبھالتی ہے۔
اسرائیل موجودہ تنازع کے اختتام کے بعدبھی غزہ کی سکیورٹی کنٹرول اپنے ہاتھ میں چاہتاہے تاہم اسرائیل امریکااورمتحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کرغزہ میں ایک عبوری انتظامیہ تشکیل دینے کے منصوبے پرکام کررہاہے جوفلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات ہونے تک غزہ کاانتظام چلائے گی۔اس وقت حماس شائداس پریشانی کابھی شکارہوکہ کہیں جنگ بندی کاپہلافیزمکمل ہونے کے بعد اسرائیل کسی مستقل معاہدے سے انکارہی نہ کردے۔اگر اسرائیلی وزیراعظم حماس کے ساتھ کسی امن عمل کے لئے راضی بھی ہوجاتے ہیں تب بھی ہوسکتاہے کہ شایدوہ اپنی کابینہ کواس بات پرراضی نہ کرسکیں۔
اسرائیلی وزیرِخزانہ بتسلئیل سموتریش اورقومی سلامتی کے وزیریتماربن غفیرایسے کسی بھی معاہدے کے مخالف ہیں۔سموتریش نے سوشل میڈیاپرلکھاکہ ایساکوئی بھی معاہدہ اسرائیل کی قومی سلامتی کے لئے ’’قیامت خیز‘‘ثابت ہوگااوروہ اس کی حمایت نہیں کریں گے۔حماس کومبینہ طورپرخدشہ ہے کہ اسرائیلی حکومت ان یرغمالیوں کی واپسی کے بعد ایک مرتبہ پھرسے غزہ پرحملے شروع کرسکتاہے جنہیں امن منصوبے کے پہلے مرحلے کے دوران واپس لایاجاناہے۔دیگرتفصیلات بھی ہیں جواس معاہدے کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔اسرائیل تمام یرغمالیوں کی واپسی چاہتاہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ کون سے یرغمالی زندہ ہیں یامرچکے ہیں اورممکن ہے کہ حماس کے پاس ان میں سے کچھ کاسراغ تک نہ ہو۔اسرائیل ان قیدیوں کورہاکرنے سے بھی انکارکررہاہے جنہیں حماس رہاکروانا چاہتی ہے۔ان میں مبینہ طورپروہ لوگ بھی شامل ہیں جو7اکتوبرکے حملوں میں ملوث تھے اوریہ معلوم نہیں ہے کہ اسرائیل غزہ کی سرحدوں پرمجوزہ بفرزون سے اپنے فوجیوں کوکب نکالے گایاانہیں مستقل طورپروہاں رکھے گا۔
تاہم اس حیران کن حملے کی برق رفتاری اور اس سے ہونے والے نقصان نے اسرائیل اوراس کے تمام حواریوں کوحیران کردیاہے کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا، ایک ایساسوال ہے جوکئی برسوں تک پوچھاجاتارہے گالیکن یہ معمہ بھی ابھی تک حل نہیں ہوسکاکہ اسرائیل کی موسادجیسی خفیہ ایجنسی جویہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہمیں چڑیاکی چونچ میں پتھرکی منزل کی بھی خبرہوتی ہے،وہ حماس کی اس منصوبہ بندی سے کیسے غافل رہی؟کیا ایساتونہیں کہ گریٹراسرائیل کے قیام کے لئے اس کی اجازت دی گئی اورحماس کے ساتھ ان کی پشت پناہی کرنے والی قوتوں کوبھی ختم کرنے کامنصوبہ تیارکیاگیا۔
یادرہے کہ1982ء میں قیام میں آنے والی حزب اللہ نے2000ء میں اسرائیلی جارحیت کوبری طرح پسپائی پرمجبورکردیاتواسرائیل کے تمام اتحادی بھی ششدررہ گئے اوراسی دن سے باقاعدہ ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت یہ فیصلہ کرلیاگیاکہ خطے میں اسرائیلی برتری کے لئے جہاں’’عرب بہار‘‘کے نام پرلیبیا اور دیگر ملکوں کوتاراج کیاجائے گاوہاں خطے کی عرب بادشاہتوں کوبھی واضح پیغام دیاجائے گااوریہ مانناپڑے گاکہ خطے کے حکمرانوں کی کمزوریوں کواستعمال کرتے ہوئے ’’حماس‘‘ کو تنہاکرنے کے لئے بتدریج کام شروع کیاگیا اور حماس نے15ماہ تک جس شجاعت ، سرفروشی سے قربانیوں کی مثال قائم کی ہے،تاریخ اسے کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔بابا اقبالؒ ’’ساقی نامہ‘‘میں کیاخوب فرماگئے:
رکے جب توسِل چِیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چِیر دیتی ہے یہ
اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: یرغمالیوں کی جنگ بندی کے اسرائیل کے اسرائیل کی اس معاہدے معاہدے کے کے مطابق کی اجازت حماس کے جائے گا کے ساتھ کے لئے غزہ کی ہیں جن

پڑھیں:

حماس جنگ بندی پر قائم رہنے کے لئے پرعزم ہے: ترک صدر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

استنبول: ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس جنگ بندی پر قائم رہنے کے لیے پُرعزم نظر آتی ہے جبکہ غزہ کی تعمیرِ نو میں مسلمان ممالک کا قائدانہ کردار ادا کرنا نہایت ضروری ہے۔

رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ حماس اس معاہدے پر قائم رہنے کے لیے کافی پُرعزم ہے۔یہ بات انہوں نے استنبول میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سالانہ اقتصادی اجلاس کے شرکا سے خطاب کے دوران کہی؛

اپنے خطاب میں ان انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم غزہ کی تعمیرِ نو میں قائدانہ کردار ادا کرے۔ اس موقع پر ہمیں غزہ کے عوام تک مزید انسانی امداد پہنچانے کی ضرورت ہے اور پھر تعمیرِ نو کا عمل شروع کرنا ہوگا کیونکہ اسرائیلی حکومت اس سب کو روکنے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہی ہے۔

اجلاس سے ایک روز قبل ترک وزیرِ خارجہ حکان فیدان نے حماس کے وفد سے ملاقات کی تھی، جس کی قیادت سینئر مذاکرات کار خلیل الحیہ کر رہے تھے۔

ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں قتلِ عام کو ختم کرنا ضروری ہے، صرف جنگ بندی کافی نہیں ہے، انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل-فلسطین تنازع کے حل کے لیے دو ریاستی حل ضروری ہے۔

مزید کہا کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ غزہ پر حکمرانی فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے اور ہمیں اس حوالے سے احتیاط کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔

ویب ڈیسک عادل سلطان

متعلقہ مضامین

  • حماس جنگ بندی پر قائم رہنے کے لئے پرعزم ہے: ترک صدر
  • حماس نے 3 یرغمالیوں کی لاشیں واپس کردیں، اسرائیلی حملے میں مزید ایک فلسطینی شہید
  • حماس نے غزہ امن معاہدے کے تحت مزید 3 قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں
  • حماس کا اسرائیل پر اسیر کی ہلاکت کا الزام، غزہ میں امداد کی لوٹ مار کا دعویٰ بھی مسترد
  • غزہ میں مسلسل اسرائیل کی جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، بلال عباس قادری
  • جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • غزہ سے موصول لاشیں قیدیوں کی نہیں ہیں، اسرائیل کا دعویٰ اور غزہ پر تازہ حملے
  • حماس کی جانب سے واپس کیے گئے اجسام یرغمالیوں کے نہیں،اسرائیل کا دعویٰ
  • اسرائیل نے 30 فلسطینی قیدیوں کی لاشیں واپس کردیں، بعض پر تشدد کے واضح آثار