بالی وڈ کے نامور ہدایتکار رام گوپال ورما کو 3 ماہ قید کی سزا
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
بالی وڈ کے نامور ہدایتکار رام گوپال ورما کو 3 ماہ قید کی سزا سنا دی گئی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ممبئی کی اندھیری مجسٹریٹ کورٹ نے فلم ساز رام گوپال ورما کو 7 سال پرانے چیک باؤنس کیس میں 3 ماہ قید کی سزا سنائی۔
‘ستیہ’ اور ‘رنگیلا’ جیسی مشہور فلموں کے ہدایتکار رام گوپال ورما سماعت کے دوران عدالت میں موجود نہیں تھے، جس کے باعث عدالت نے ان کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے۔
عدالت نے رام گوپال ورما کو شکایت کنندہ “شری” نامی کمپنی جو ( ہارڈ ڈسک کا کاروبار کرتی ہے)کو 3 لاکھ 72 ہزار 219 بھارتی روپے ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔
شری کمپنی کے وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ تنازعہ 2018 میں شروع ہوا جب کمپنی نے رام گوپال ورما کی پروڈکشن کمپنی کی درخواست پر ہارڈ ڈسک فراہم کیں۔ فروری اور مارچ 2018 کے درمیان 2 لاکھ 38 ہزار 220 روپے کے ٹیکس انوائسز جاری کیے گئے۔
شکایت کنندہ کے مطابق رام گوپال ورما کی کمپنی کی جانب سے 1 جون 2018 کو ایک چیک جاری کیا گیا لیکن ناکافی فنڈز کی وجہ سے یہ چیک باؤنس ہو گیا۔ اس کے بعد کمپنی نے 22 اگست 2018 کو دوسرا چیک جاری کیا، یہ یقین دہانی کراتے ہوئے کہ ادائیگی کی جائے گی۔ تاہم، یہ چیک بھی باؤنس ہو گیا۔
کمپنی نے رقم کی وصولی کے لیے مختلف کوششیں کیں اور رام گوپال ورما کو قانونی نوٹسز بھی بھیجے۔
اس معاملے پر رام گوپال ورما نے بھی ایک وضاحتی بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ 7 سال پرانا کیس ہے جس میں 2 لاکھ 38 ہزار روپے کی رقم کا معاملہ ایک سابق ملازم سے جڑا ہوا ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ریاست آسام میں بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ آف انڈیا برہم، توہین عدالت کا نوٹس جاری
ریاستی انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع، قانونی کارروائی یا متبادل بندوبست کے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست آسام کے گولپاڑہ ضلع کے ہسیلا بیلا گاؤں میں مبینہ طور پر غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کی گئی بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ریاست کے چیف سکریٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا ہے۔ یہ نوٹس اس وقت جاری کیا گیا جب اس کارروائی سے متاثرہ افراد کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع، قانونی کارروائی یا متبادل بندوبست کے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ درخواست گزاروں کے وکیل عدیل احمد نے عدالت کو بتایا کہ 13 جون 2025ء کو انتظامیہ نے ایک عمومی نوٹس جاری کیا تھا، جس میں 15 جون تک علاقہ خالی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی، تاہم نہ تو کسی کو ذاتی طور پر مطلع کیا گیا اور نہ ہی کوئی سنوائی کا موقع دیا گیا۔ 667 خاندانوں کے گھروں اور 5 اسکولوں کو منہدم کر دیا گیا، جس سے بچوں کے بنیادی تعلیمی حقوق بھی متاثر ہوئے۔
وکیل نے مزید کہا کہ یہ کارروائی سپریم کورٹ کے 13 نومبر 2024ء کے اس حکم کی صریح خلاف ورزی ہے، جس میں بلڈوزر کارروائی سے قبل قانونی ضابطوں کی مکمل تعمیل پر زور دیا گیا تھا۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 60 برسوں سے اس علاقے میں آباد ہیں اور ان کے آبا و اجداد دریائے برہم پتر کے کٹاؤ کے سبب اپنی زمینیں کھو چکے تھے۔ لہٰذا وہ سبھی بے دخل شدہ افراد "پرانے باشندے" اور بازآبادکاری کے مستحق ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے جمعرات کو اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے آسام کے چیف سکریٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا اور آئندہ سماعت میں جواب طلب کیا۔
درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جن افسران نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی، ان کے خلاف کارروائی کی جائے، متاثرہ خاندانوں کو مناسب معاوضہ اور متبادل رہائش فراہم کی جائے، نیز منہدم شدہ اسکولوں کی فوری تعمیر نو کا حکم دیا جائے۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہے اور آئندہ سماعت میں حکومت آسام کو اس کارروائی کی وضاحت دینی ہوگی کہ آخر کس بنیاد پر بغیر مناسب ضابطے کی تکمیل کے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو بے دخل کیا گیا۔ اس کارروائی کو لے کر انسانی حقوق کے ادارے بھی سوال اٹھا رہے ہیں اور سیاسی سطح پر بھی اس پر تنقید جاری ہے۔