پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، اپوزیشن نے ایوان کو مچھلی بازار بنا دیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کے احتجاج کے سبب ایوان کا ماحول شدید ہلچل کا شکار رہا، صدر مملکت نے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی ہدایت پر آج پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا تھا۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر نے کہا کہ حکومت نے ایجنڈے میں آٹھ بل شامل کیے ہیں، تاہم ان کا پارٹی اجلاس میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس تقریباً ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہونے کے بعد صرف 18 منٹ تک جاری رہا، اپوزیشن لیڈر نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کی درخواست کی، لیکن اسپیکر نے انہیں بات کرنے کی اجازت نہ دی۔
اس پر اپوزیشن ارکان نے اپنے نشستوں پر کھڑے ہو کر شدید احتجاج کیا اور پیکا ایکٹ نامنظور اور صحافیوں پر ظلم کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ اس دوران اپوزیشن نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔
اپوزیشن کے شور شرابے کے باعث ایوان کا منظر مچھلی منڈی کا سا ہو گیا، لیکن اسپیکر نے ایوان کی کارروائی جاری رکھی اور حکومتی قانون سازی کے عمل کو آگے بڑھایا۔
اجلاس کے دوران قومی اسمبلی نے اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود تجارتی تنظیمات ترمیمی بل 2021، درآمدات و برآمدات انضباط ترمیمی بل، قومی ادارہ برائے ٹیکنالوجی بل 2024 اور نیشنل ایکسیلنس انسٹیٹیوٹ بل 2024 کو منظور کر لیا۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں چند بل مؤخر بھی کیے گئے، جن میں قومی کمیشن برائے انسانی ترقی ترمیمی بل 2023 اور این ایف سی ادارہ برائے انجینئرنگ و ٹیکنالوجی ملتان ترمیمی بل 2023 شامل ہیں۔
اسی طرح، نیشنل اسکلز یونیورسٹی اسلام آباد ترمیمی بل 2023 اور وفاقی اردو یونیورسٹی برائے آرٹس، سائنس و ٹیکنالوجی اسلام آباد ترمیمی بل 2023 بھی مؤخر کر دیے گئے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
اغوا برائے تاوان
کراچی میں عشروں سے جاری اغوا برائے تاوان، ڈکیتیوں، چوری و اسٹریٹ کرائم، ہر قسم کے جرائم کی سرپرستی کے لیے پولیس بدنام تھی ہی جن میں کہا جاتا تھا کہ باوردی اہلکاروں کے علاوہ ایسے جرائم پیشہ بھی شامل ہوگئے تھے جو پولیس کی جعلی وردی استعمال کرتے تھے۔ کراچی پولیس بے نظیر بھٹو دور میں ماورائے عدالت قتل میں بھی بہت مشہور ہوئی تھی جب 1991 میں کراچی آپریشن کے نام پر سیاسی بنیاد پر پولیس مقابلے ہوئے۔
الزام لگایا جاتا ہے کہ ان پولیس مقابلوں میں حقیقی مجرم برائے نام اور بے گناہ افراد زیادہ تھے ،بعدازاں آپریشن میں شریک اکثر پولیس افسروں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بننا پڑا تھا۔ کراچی کے سیاسی دہشت گردوں اور مختلف کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے بڑے دہشت گرد گرفتار بھی ہوئے تھے جن کے ساتھیوں نے اپنی دہشت گردی سے ایس ایس پی چوہدری اسلم سمیت متعدد پولیس افسروں کو شہید کیا تھا۔ چوہدری اسلم دہشت گردوں کی سرکوبی اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پولیس مقابلوں میں ملک بھر میں مشہور ہوئے تھے۔
کراچی کی پولیس مکمل سیاسی تو عشروں پہلے ہی ہو گئی تھی جس کے افسران مخصوص سیاسی پارٹیوں سے تعلق میں مشہور تھے۔ کراچی پولیس میں اندرون سندھ سے سیاسی بنیاد پر بڑے پیمانے پر بھرتیاں ہوئی تھیں۔
کراچی کے رہنے والوں کا پولیس میں داخلہ سیاسی بنیاد پر ناممکن تھا البتہ سندھ کے ایک سابق وزیر داخلہ نے اندرون سندھ کے لوگوں کو بڑی تعداد میں کراچی کے ڈومیسائل پر بھرتی کرایا تھا اور اب سندھ اسمبلی کے پی اے سی اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ دیگر صوبوں کے ڈومیسائل پر 19 اہلکاروں کی بھرتی کا انکشاف ہوا تھا مگر انھیں برطرف کرنے کی بجائے صرف شوکاز نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ جعلی ڈومیسائل پر دوسرے صوبوں کے بھرتی صرف 19 اہلکاروں کے خلاف اب مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے وہ بھرتیاں1979 سے 2015 کے دوران ہوئی تھیں جو سندھ پولیس کے مختلف دفاتر سے 170405 ملین روپے تنخواہ مسلسل وصول کر رہے ہیںاور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
سندھ پولیس میں عشروں سے مختلف ریکارڈ قائم ہوئے ہیں جہاں 1977 میں ایک مڈل پاس افسر ڈی آئی جی لاڑکانہ بھی رہا ہے۔ کراچی پولیس میں بڑی تعداد اندرون سندھ کے لوگوں کی اور کراچی و حیدرآباد جیسے شہری علاقوں کی تعداد برائے نام ہے جس پر ایم کیو ایم سالوں سے شور بھی مچا رہی ہے مگر انھوں نے بھی اپنے دور میں اپنے کارکنوں کو بھرتی کرنے میں کسر نہیں چھوڑی تھی اور پیپلز پارٹی کے بقول ایم کیو ایم نے اپنے دہشت گرد پولیس میں بھر دیے تھے۔
آج سے تیس سال قبل ضلع جنوبی کے ایک تھانے پر میرے آبائی شہر شکارپور کے دوست ایس ایچ او تعینات ہوئے تھے جنھوں نے بتایا تھا کہ کراچی کے بعض ایس ایچ اوز اتنے بااثر ہیں کہ وہ ایس پیز کے تبادلے اپنی مرضی سے کراتے ہیں۔
سندھ میں 2008کے بعد سے سندھ میں حکومت پیپلز پارٹی کی ہے جسے سترہواں سال شروع ہو گیا ہے جس کے دور میں ملیر پولیس کا ایک ایسا کانسٹیبل بھی سامنے آیا ہے جس نے ملیر پولیس کے تین سپاہیوں اور علاقے کے جرائم پیشہ عناصر پر مشتمل گروپ بنا رکھا ہے جو سنگین جرائم کے ساتھ شارٹ کڈنیپنگ کی وارداتیں کراتا آ رہا تھا جو علاقے کے تھانوں کے ایس ایچ اوز اپنی مرضی سے تعینات کراتا تھا جس کے خلاف اندرون سندھ میں بھی مختلف مقدمات درج ہیں مگر کارروائی سے محفوظ رہتا ہے۔
حال ہی میں اس انتہائی بااثر سپاہی کے سیاسی اثر و رسوخ کی یہ حالت ہے کہ اس نے 28 مارچ کو کراچی کے ٹرانسپورٹر سمیت دو تاجروں کو اغوا کیا تھا اور ان سے رہائی کے لیے بڑے افسروں کے نام پر تین کروڑ تاوان مانگا تھا جو انھوں نے دینے سے انکار کیا تو انھیں گھنٹوں گاڑی میں گھمایا اور تشدد کا نشانہ ان کی اپنی مہنگی گاڑی میں بنایا گیا اورگاڑی میں لگے ٹریکر کی تلاش میں گاڑی کی سیٹیں ادھیڑ دی گئیں اور ساڑھے پانچ لاکھ روپے انھیں ضرور مل گئے۔
بااثر ٹرانسپورٹر کے عزیزوں کی پہنچ اور آئی جی پولیس اور اعلیٰ پولیس افسروں کی مداخلت پر رات گئے رہائی ملی تھی جس کے بعد ڈیڑھ ماہ کی سخت کوشش کے بعد ملزم کے خلاف ملیر میں اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کے الزامات میں مقدمہ تو درج ہوا۔ تین پولیس اہلکار معطل بھی ہوئے مقدمہ اے وی وی سی گارڈن منتقل ہونے کے بعد جے آئی ٹی بھی تین پولیس افسروں پر مشتمل بنی مگر ملزمان گرفتار نہیں کیے گئے اور انھوں نے دہشت گردی عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری بھی حاصل کرلی، بااثر پولیس اہلکار نے پہلے ضمانت کرائی جو بعد میں کنفرم بھی ہوگئی۔
درجنوں بے گناہ لوگ مارنے والے پولیس افسران کا سالوں میں کچھ ہوا نہ اب کچھ ہو گا۔ مدعی صلح پر مجبور کرا دیا جائے گا اور بااثر ملزم بھی بچ ہی جائے گا۔ عام لوگوں کے ساتھ سندھ میں جو ہو رہا ہے وہ تو وہی جانتا ہے جب کہ اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ بھی پولیس گردی سے محفوظ نہیں ہیں۔ سندھ پولیس میں اتنا مال، طاقت اور پولیس اثر و رسوخ ہے جب ہی تو ملک بھر سے جعلی ڈومیسائلوں پر کراچی پولیس میں بھرتی ہوا جاتا ہے اور 54 سال بعد حقائق منظر عام پر آتے ہیں۔