ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ نے کہا کہ عوام کی ستم ظریفی ہے کہ نااہل اور ناعاقبت اندیش حکمران عوام میں اپنی ڈوبتی ساکھ کو بچانے کیلئے پرامن عوامی آوازوں کو دبانے پر تل گئے ہیں، جبکہ وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ ان آمرانہ کارروائیوں سے عوامی نفرت مزید بڑھے گی نہ کہ کم ہو گی۔ اسلام ٹائمز۔ ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ سینیٹر راجہ ناصر عباس نے کہا ہے کہ مجاہد و مبارز عالم دین آغا سید علی رضوی پر سندھ انتظامیہ کی جانب سے بے بنیاد ایف آئی آرز بنیادی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے اور آئین پاکستان میں دیئے گئے آزادی اظہار کے حق کو دبانے کی مزموم کوشش ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اس ملک میں اب عوام کی ستم ظریفی ہے کہ نااہل اور ناعاقبت اندیش حکمران عوام میں اپنی ڈوبتی ساکھ کو بچانے کیلئے پرامن عوامی آوازوں کو دبانے پر تل گئے ہیں، جبکہ وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ ان آمرانہ کارروائیوں سے عوامی نفرت مزید بڑھے گی نہ کہ کم ہو گی۔

.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی

بھارت کی جانب سے 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو ‘فوری طور پر معطل’ کرنے کا اعلان جنوبی ایشیا کی سیاست میں ایک سنگین موڑ اور بین الاقوامی قانون کے مسلمہ اصولوں سے انحراف کا مظہر ہے۔

24 اپریل 2025 کو بھارت کی وزارت جل شکتی کی جانب سے پاکستان کو بھیجے گئے خط میں آبادی میں ہونے والی تبدیلیوں، صاف توانائی کی ضروریات اور سرحد پار دہشتگردی جیسے عوامل کا حوالہ دے کر اس فیصلے کو جواز بخشنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن قانونی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ اقدام ایک ایسے معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کی کوشش ہے جو نہ صرف 2 ممالک کے درمیان دہائیوں سے جاری تعاون کی علامت ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کی مضبوط روایت کا بھی حصہ ہے۔

سندھ طاس معاہدہ، جو عالمی بینک کی ثالثی میں 1960 میں طے پایا، ایک تفصیلی اور مؤثر نظام فراہم کرتا ہے جس کے تحت دریاؤں کے پانی کی تقسیم، مشترکہ معائنے، معلومات کے تبادلے اور تنازعات کے حل کے طریقہ کار طے کیے گئے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ معاہدے میں کہیں بھی کسی فریق کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ اسے یکطرفہ طور پر معطل کرسکے۔ بھارت کی طرف سے معاہدے کے آرٹیکل XII(3) کا حوالہ کسی طور پر درست نہیں ہے کہ اس کی رو سے معاہدے میں ترامیم باہمی رضامندی سے کی جاسکتی ہیں۔ کسی ایک فریق کی طرف سے اسے یکطرفہ معطل کرنے کا قطعی طو پر کہیں ذکر نہیں ہے۔

بھارت کے اس اقدام کے پیچھے بین الاقوامی قانون میں موجود اصول rebus sic stantibus یعنی ‘حالات میں بنیادی تبدیلی کی بنیاد پر معاہدے کی منسوخی یا معطلی’ کا حوالہ ممکنہ طور پر دیا جاسکتا ہے۔

بین الاقوامی قانون کے عمومی اصول، جیسا کہ ویانا کنونشن 1969 میں واضح کیے گئے ہیں، اس اصول کو نہایت محدود حالات میں قابل اطلاق قرار دیتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حالات میں آنے والی تبدیلی غیر متوقع ہو اور وہ معاہدے کی اصل نوعیت اور ذمہ داری کو بنیادی طور پر بدل دے۔ بھارت کی طرف سے پیش کیے گئے دلائل جیسے آبادی، توانائی کی ضروریات یا سیکیورٹی خدشات، نہ تو غیر متوقع ہیں اور نہ ہی اس سطح کی بنیادی تبدیلی ہیں جو معاہدے کی سرے سے غیر مؤثر بنا دیتی ہو۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ اگرچہ سندھ طاس معاہدہ ویانا کنونشن سے پہلے کا ہے، لیکن ویانا کنونشن میں موجود اصول جیسے کہ pacta sunt servanda یعنی ‘معاہدے کی پابندی کی جاتی ہے’ اور معاہدے کی یکطرفہ معطلی کے خلاف ضابطے بین الاقوامی عرفی قانون (customary international law) کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس لیے ان اصولوں کا اطلاق بھارت اور پاکستان دونوں پر ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کی اپنی عدلیہ بھی بین الاقوامی معاہدوں کی تشریح کے لیے ویانا کنونشن کے اصولوں کو قابل قبول مان چکی ہے، جو اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ بھارت خود بھی ان اصولوں کو قانونی رہنمائی کے لیے تسلیم کرتا آیا ہے۔

بھارت کی جانب سے پاکستان پر دہشتگردی کی پشت پناہی کا الزام اگرچہ سیاسی طور پر سنگین ہے مگر قانونی طور پر یہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا کوئی جواز فراہم نہیں کرتا۔  ہندوستان نے ان الزامات کے لیے کوئی قابل اعتبار شواہد فراہم نہیں کیے اور اس بنیاد پر معاہدے کو معطل کرنے میں غیر معمولی عجلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ گویا کہ یہ فیصلہ پہلے سے مطلوب تھا اور اب صرف ایک بہانہ درکار تھا۔

اگر پاکستان نے واقعی کسی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہوتا تو بین الاقوامی قانون کی رو سے بھارت کو چاہیے تھا کہ وہ معاہدے میں موجود باقاعدہ طریقہ کار یعنی مشترکہ کمیشن، غیر جانبدار ماہرین اور ثالثی کے فورم وغیرہ کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتا، لیکن بھارت نے ان تمام قانونی ذرائع کو نظرانداز کیا۔

قانونی ماہرین نے دنیا میں دیگر تنازعات، جیسے کہ روس کی جانب سے امریکا کے ساتھ نیو اسٹارٹ معاہدے کی معطلی کے تناظر میں متنبہ کیا ہے کہ کسی معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنا، جب تک کہ اس کی اجازت معاہدے میں نہ دی گئی ہو یا کوئی سنگین خلاف ورزی ثابت نہ ہو، بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ سیکیورٹی خدشات خواہ کتنے ہی شدید ہوں، وہ معاہدہ معطل کرنے کا خودکار قانونی اختیار پیدا نہیں کرتے۔ یہی اصول یہاں بھی لاگو ہوتا ہے۔

بھارت کا یہ اقدام محض ایک سفارتی یا تزویراتی چال نہیں بلکہ ایک ایسے قانونی نظام کے لیے خطرہ ہے جو دہائیوں سے جنوبی ایشیا میں آبی تنازعات کو منظم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اگر ایک فریق محض اپنی مرضی سے کسی معاہدے کو معطل کردے تو یہ نہ صرف اس معاہدے کی ساکھ کو مجروح کرتا ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کے سارے ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ اس عمل سے دوسرے معاہدے بھی غیر محفوظ ہوجائیں گے اور عالمی سطح پر معاہدوں کا احترام کمزور پڑ جائے گا۔

سندھ طاس معاہدہ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود خطے کے امن اور تعاون کا ستون رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے اسے بلاجواز اور غیر قانونی طور پر معطل کرنا نہ صرف دو طرفہ اعتماد کو مجروح کرتا ہے بلکہ اس اصول پر بھی سوال اٹھاتا ہے کہ کیا بین الاقوامی معاہدے اب بھی واقعی قابل بھروسہ ہیں؟ اس معاہدے کو ‘معطل’ کرکے بھارت نے شاید صرف دریا کا بہاؤ نہیں روکا بلکہ قانون کی روانی کو بھی روک دیا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر عزیز الرحمان

ڈائریکٹر اسکول آف لاء قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد

متعلقہ مضامین

  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی
  • غزہ میں فلسطینیوں کیخلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہئے، ترکیہ
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی کھلی جارحیت ہے، شرجیل میمن
  • بھارت کا سندھ طاس معاہدہ معطل کرنا امن کیلئے سنگین خطرہ ہے: شرجیل میمن
  • بھارت کی سندھ طاس معاہدے کی معطلی امن کیلئے سنگین خطرہ ہے: شرجیل میمن
  • بُک شیلف
  • غیر قانونی کینالز منظور نہیں، سندھو دریا و حقوق کا دفاع کرینگے، علامہ مقصود ڈومکی
  • بھارت میں حقوق کیلیے احتجاج کرنا جرم قرار؛ پولیس کا مسلمانوں کیخلاف کریک ڈاؤن
  • ہمارے ڈرونز اور نام کیوجہ سے نتین یاہو کا مشتعل ہونا ہمارے لئے باعث خوشحالی ہے، انصار الله
  • پاراچنار کی طویل مشکلات کے ردعمل میں سابق سینیٹر علامہ سید عابد الحسینی کا اہم اعلان