Jasarat News:
2025-07-25@13:07:12 GMT

جنگ بندی

اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT

جنگ بندی

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بالآخر جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا ہے، جو ہفتوں کی تباہ کن جنگ کا خاتمہ لے کر آیا۔ یہ جنگ، ماضی کی جنگوں کی طرح اپنے پیچھے تباہی کے آثار، بے پناہ انسانی تکالیف اور گہرے سیاسی و سماجی زخم چھوڑ گئی ہے۔ دونوں فریق اپنی کارروائیوں کے جواز کے دعوے کرتے ہیں، لیکن انسانی جانوں اور بنیادی ڈھانچے پر اس جنگ کے اثرات انتہائی شدید ہیں، اور ان کے اثرات دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔فلسطین میں نقصان انتہائی تباہ کن رہا۔ ہزاروں شہری، جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں، اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پوری کی پوری بستیاں ملبے کا ڈھیر بن گئیں کیونکہ فضائی حملوں اورتوپ خانے کی گولہ باری نے رہائشی علاقوں، بازاروں اور پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا۔ طبی سہولیات،بشمول اسپتال اور کلینکس، شدید نقصان یا مکمل تباہی کا شکار ہوئیں، جس کی وجہ سے زخمیوں کو مناسب علاج میسر نہیں آ سکا۔ اسکولوں کو بھی تباہ کر دیا گیا، جس سے بچوں کو تعلیم اور تحفظ سے محروم کر دیا گیا۔ اقتصادی نقصان بھی شدید ہے، اور تخمینے کے مطابق یہ اربوں ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔ پانی کے نظام، بجلی کے گرڈز، اور نقل و حمل کے نیٹ ورک جیسی بنیادی ضروریات تباہ ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے کئی علاقے انسانی بحران کا شکار ہیں۔اسرائیل نے بھی نقصانات کا سامنا کیا، اگرچہ پیمانہ فلسطین کے مقابلے میں کم تھا۔ فلسطینی گروپوںکے راکٹ حملوں سے شہریوں میں ہلاکتیں اور زخمی ہونے کے واقعات پیش آئے، اور لوگ مستقل خطرے کے ماحول میں رہنے کے ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے۔ رہائشی عمارتوں اور عوامی بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا، اگرچہ غزہ کے مقابلے میں یہ نقصان کم رہا۔ اسرائیلی حکومت نے اپنی فوجی کارروائیوں اور شہری دفاع پر بہت زیادہ وسائل خرچ کیے، جس سے قومی معیشت پر دباؤبڑھا۔ دونوں طرف ہزاروں زخمی ہوئے، جن میں سے کئی جسمانی اور ذہنی زخموں کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔ دونوں طرف گھروں، اسپتالوں، اسکولوں اور عبادت گاہوں کی تباہی جدید جنگوں کی بے رحم فطرت کی عکاسی کرتی ہے۔ تاہم، تباہی میں عدم مساوات دونوں فریقوں کی طاقت اور کمزوریوں کے فرق کو ظاہر کرتی ہے۔احتساب اور انصاف کے سوالات زور پکڑ رہے ہیں۔ بین الاقوامی قوانین شہریوں اور شہری بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے کی ممانعت کرتے ہیں، اور دونوں فریقوں پر جنگی جرائم کے الزامات عائدکیے گئے ہیں۔ کیا بین الاقوامی برادری مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی؟ تاریخ بتاتی ہے کہ عالمی طاقتیں اکثر انصاف کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دیتی ہیں، اور جنگی جرائم کی تحقیقات سیاسی مصلحتوں کے باعث ملتوی یا ترک کر دی جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایک بار پھر تنقید کا سامنا ہے کہ وہ تنازع کو روکنے اور شہریوں کے تحفظ میں ناکامرہے۔کیا یہ جنگ بندی مستقبل میں ایسی جنگوں کے اعادے کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات شامل کرے گی؟ بدقسمتی سے، معاہدہ تنازع کی بنیادی وجوہات جیسے کہ علاقائی تنازعات، سیاسی کشیدگی، اور غزہ کی ناکہ بندی کو حل کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے واضح اور قابل عمل میکانزم کے بغیر، یہ جنگ بندی محض ایک عارضی وقفہ ثابت ہو سکتی ہے۔کیا جنگ واقعی مسائل کا حل ہے؟ یہ تنازع ہمیں ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ جنگ صرف تفریق کو گہرا کرتی ہے، زندگیاں تباہ کرتی ہے، اور مصائب کے سلسلے کو جاری رکھتی ہے۔ ہر جنگ اپنے پیچھے نہ ختم ہونے والے زخم اور حل نہ ہونے والے تنازعات چھوڑ جاتی ہے۔ سفارتی کوششیں اور پرامن مذاکرات ہی دیرپا حل کا واحد راستہ ہیں، لیکن ان راستوں کو اکثر فوجی طاقت کے تباہ کن فریب کی وجہ سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی اس جنگ کو روکنے اور اس کے اثرات کو کم کرنے میں ناکامی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی حکمرانی میں اصلاحات کی فوری ضرورت ہے تاکہ تنازعات کو روکا جا سکے، جارحیت کرنے والوں کو جوابدہ ٹھہرایا جا سکے، اور متاثرین کو انصاف فراہم کیا جا سکے۔ امن کا راستہ طویل اور مشکلات سے بھرا ہوا ہے۔ دونوں فریقوں کو بنیادی مسائل کو حل کرنے اور اعتماد کی تعمیر کے لیے بامعنی مکالمے میں شامل ہونا ہوگا۔ عالمی برادری کو امن کی کوششوں میں ثالثی اور معاونت کا فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ فلسطین میں تعمیر نو کو ترجیح دی جانی چاہیے، اورشفاف طریقہ کار کے ذریعے یہ یقینی بنانا چاہیے کہ امداد مستحق افراد تک پہنچے۔ آخر کار، اس جنگ کی اصل قیمت محض اعداد و شمار میں نہیں ماپی جا سکتی۔ جانوں کے نقصان،زخمیوں، اور عمارتوں کی تباہی کے علاوہ، نفسیاتی صدمے، اعتماد کے نقصان، اور برادریوں کے درمیان گہری تقسیم ناقابل پیمائش ہیں۔ اس جنگ بندی کو ایک اختتام کے بجائے ایک آغاز کے طورپر دیکھا جانا چاہیے تاکہ ان بنیادی مسائل کو حل کیا جا سکے جو تشدد کی طرف لے جاتے ہیں۔ دنیا کو اجتماعی طور پر اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ آیا وہ جنگوں کو نسلوں کی تباہی کا باعث بننے دے گی یا پھر ایک ایسا مستقبل تعمیر کرے گی جہاں مکالمہ اور انصاف تباہی پر غالب ہوں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی تباہ کرتی ہے کر دیا اور ان جا سکے

پڑھیں:

فی الحال کسی فوری کلاؤڈ برسٹ کا خطرہ نہیں، محکمہ موسمیات

پاکستان میں کلاؤڈ برسٹ کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہورہا ہے، جس سے گلگت بلتستان، چترال، سوات اور شہری علاقوں جیسے اسلام آباد و راولپنڈی شدید متاثر ہو رہے ہیں، محکمہ موسمیات (PMD) نے اس رجحان کو موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

کلاؤڈ برسٹ ایک شدید موسمیاتی واقعہ ہوتا ہے جس میں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں 100 ملی میٹر سے زائد بارش ہوتی ہے، جو عموماً سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وادی جہلم میں کلاؤڈ برسٹ، ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے نقصان کی تفصیل جاری کردی

نیشنل ویدر فورکاسٹ سینٹر کے ڈائریکٹر محمد عرفان ورک نے سرکاری خبررساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ آئندہ دنوں میں ملک کے مختلف حصوں میں شدید بارشوں کا امکان ہے، تاہم فی الحال کسی فوری کلاؤڈ برسٹ کا خطرہ نہیں۔

انہوں نے شہریوں، خصوصاً سیاحوں کو پہاڑی علاقوں کا سفر مؤخر کرنے اور دریاؤں کے قریب رہائش پذیر افراد کو عارضی طور پر محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت کی۔

عرفان ورک نے سیلابی پانی کے بہاؤ کو روکنے اور نقصان کم کرنے کے لیے گھروں میں نکاسی آب کے بہتر انتظامات اور کسانوں کو فصلوں کی منصوبہ بندی میں تبدیلی کی بھی تجویز دی۔

یہ بھی پڑھیں: بروقت اقدامات سے بڑے نقصان سے بچ گئے، مزید کلاؤڈ برسٹس کا اندیشہ ہے، وزیراعظم

کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کے ماہر حیاتیات ڈاکٹر غلام عباس کے مطابق بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت سے فضا میں نمی کی مقدار بڑھ جاتی ہے، جو کسی مقام پر اچانک خارج ہوکر طوفانی بارش کا سبب بنتی ہے۔ ان کے مطابق ہنزہ، اسکردو، مری، چترال، اسلام آباد، پشاور اور راولپنڈی آئندہ برسوں میں زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں شامل ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بے قابو شہری پھیلاؤ، جنگلات کی کٹائی، غیر متوازن مون سون پیٹرن اور ناقص نکاسی آب کے نظام نے صورتحال کو مزید سنگین بنادیا ہے۔

یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں۔ بھارت، نیپال، چین اور امریکا جیسے ممالک بھی کلاؤڈ برسٹ کے جان لیوا اثرات کا سامنا کرچکے ہیں۔ 2013 میں بھارت میں اتراکھنڈ میں آنے والے کلاؤڈ برسٹ میں 5000 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ چین کے گانسو صوبے میں 2010 میں 1100 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئندہ دنوں میں کن اہم سیاحتی مقامات میں بارشیں اور سیلاب متوقع ہے؟ محکمہ موسمیات نے بتا دیا

ماہرین نے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ریڈار اور سیٹلائٹ پر مبنی ابتدائی وارننگ سسٹمز، مضبوط ڈرینیج انفراسٹرکچر، جنگلات کی بحالی اور ماحول دوست منصوبہ بندی پر زور دیا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے اس نئے چیلنج سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو نہ صرف قومی سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے بلکہ عالمی تعاون بھی ناگزیر ہوگیا ہے تاکہ انسانی جانوں، زراعت، اور بنیادی ڈھانچے کو بچایا جاسکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news بارش بارشیں پاکستان عرفان ورک محکمہ موسمیات مون سون

متعلقہ مضامین

  • فی الحال کسی فوری کلاؤڈ برسٹ کا خطرہ نہیں، محکمہ موسمیات
  • راولپنڈی بڑی تباہی سے بچ گیا، فتنہ الخوارج کا انتہائی خطرناک دہشت گرد گرفتار
  •   راولپنڈی میں  بڑی تباہی کا منصوبہ ناکام ، خطرناک دہشت گرد گرفتار
  • راولپنڈی بڑی تباہی سے بال بال بچ گیا، خطرناک دہشت گرد گرفتار
  • غزہ میں جنگ کی وجہ سے شدید ماحولیاتی تباہی، جنگ کے مضر اثرات نسلوں تک پھیلنے کا خدشہ
  • سبی میں ریلوے ٹریک دھماکے سے تباہ، بولان ایکسپریس بڑی تباہی سے بچ گئی
  • سبی: بختیار آباد کے قریب ریلوے ٹریک دھماکے سے تباہ، بولان میل متاثر
  • گلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ ،مون سون کی تباہی، لیکن ذمہ دار کون؟
  • کم عمری میں اسمارٹ فون کا استعمال ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ، تحقیق
  • مون سون کا چوتھا اسپیل یا تباہی؟تحریر عنبرین علی