معیشت کی ترقی کیلیے اسٹیٹ بینک 5 فیصد تک شرح میں کمی کرے
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) معیشت کی ترقی کے لیے اسٹیٹ بینک 5 فیصد تک شرح سود میں کمی کرے‘ بینک قرضوں میں اضافہ اور سرمائے کی کمی ختم ہو گی‘ مہنگائی میں کمی آئی ہے اور حکومتی پالیسی کی وجہ سے اقتصادی حالت بتدریج بہتر ہو رہی ہے ‘ معیشت کو درست سمت میں لانے اور نئی صنعتکاری کے رحجان کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔ ان خیالات کا اظہار صنعتکار زبیرطفیل ،ایف پی سی سی آئی کے سابق سینئرنائب صدر سید مظہر علی ناصر،ایف پی سی سی آئی کے رکن ندیم احمدکشتی والااورفیڈریشن چیمبر آف کامرس کی انرجی کمیٹی کے کنوینر ملک خدا بخش نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’ شرح سود کتنے فیصد کم کرنے سے معیشت ترقی کر ے گی ؟‘‘ صنعتکار زبیرطفیل نے کہا کہ اگر واقعی مہنگائی میں کمی آئی ہے تو ملک کے مرکزی بینک کو بغیر کسی شرط کے شرح سود میں کمی کرنی چاہیے‘ کم شرح سود سے اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھانے میں مدد دے گی‘ بینکوں سے قرضوں میں اضافہ ہوگا اور سرمائے کی کمی دور کرنے میں مدد ملے گی‘ مرکزی بینک کو ہر 15 دن بعد مانیٹری پالیسی کمیٹی کا
اجلاس بلانا چاہیے تاکہ مہنگائی کی شرح کا جائزہ لیا جا سکے اور شرح سود کو سنگل ڈیجٹ تک لانے کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔ سید مظہر علی ناصر نے مہنگائی میں کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ تک کم کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ کم شرح پر قرضوں کی فراہمی مقامی صنعتوں کے لیے بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے‘ اسٹیٹ بینک کوتاجر برادری کے اس مطالبے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے تاکہ صنعتی شعبہ کم پیداواری لاگت کے ذریعے بین الاقوامی مارکیٹ میں غیر مسابقتی ہونے جیسے مسائل کا مؤثر طریقے سے حل نکال سکے۔ ندیم احمدکشتی والا نے کہا کہ حکومت شرح سود کو 23فیصد سے کم کرکے 13فیصد پر لائی ہے جو اب بھی بہت زیادہ ہے اور اس میں کافی کمی کی گنجائش ہے کیونکہ مہنگائی میں کمی کا سلسلہ بدستور جاری ہے، اس کے باوجود یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ تک کیوں نہیں پہنچایا، پیر کو ہونے والی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں شرح سود کو 4 فیصد تک کم کرنے سے قومی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور بینکوں سے قرض لینے کا رجحان بڑھنے میں مدد ملے گی جبکہ سرمائے کی کمی کو دور کیا جا سکے گا اور صنعتی سرگرمیاں دوبارہ معمول پر آ جائیں گی۔ ملک خدا بخش نے کہا کہ تاجر برادری شرح سود میں کمی کا خیرمقدم کرے گی کیونکہ وہ اس وقت شدید اقتصادی بحران اور بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کی وجہ سے زیادہ شرح سود پر قرضہ حاصل کرنے سے قاصر ہیں‘ مہنگائی کی شرح میں کمی کے پیش نظر پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ تک لانا وقت کی اہم ضرورت ہے‘ شرح سود میں کمی سے کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور معیشت کو درست سمت میں لایا جائے گااور نئی صنعتکاری کے لیے رحجان پیدا ہوگا‘ موجودہ حکومت معیشت کے استحکام کے لیے جو کامیاب کوششیں کررہی ہے ایسے میں اسٹیٹ بینک شرح سود میں مزید 4 فیصد تک کی کمی کرکے حکومتی کوششوں کو تقویت پہنچا سکتی ہے اور اس اقدام سے کاروباری اور صنعتی سرگرمیاں دوبارہ زندہ ہو جائیں گی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مہنگائی میں کمی اسٹیٹ بینک فیصد تک کی کمی کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-16
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر ) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد سلیم میمن نے وزیرِاعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی جانب سے صنعت و زراعت کے شعبوں کے لیے ’’روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج‘‘ کے اعلان کو قابلِ تحسین اور خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام ملک کی صنعتی بحالی کی سمت ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ صنعتوں کی حقیقی بقا، روزگار کے تحفظ اور پاکستان میں کاسٹ آف پروڈکشن کو یقینی بنانے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بنیادی سطح پر کمی ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے صنعتی و زرعی صارفین کے لیے اضافی بجلی کے استعمال پر 22.98 روپے فی یونٹ کا رعایتی نرخ ایک اچھا آغاز ہے، مگر ان ریٹوں پر بھی صنعتی طبقہ اپنی لاگتِ پیداوار کو کم نہیں کر پا رہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگی بجلی کی اصل وجوہات ’’کپیسٹی چارجز‘‘ اور سابق معاہدے ہیں، جب تک ان پر نظرِثانی نہیں کی جاتی، بجلی کی حقیقی لاگت کم نہیں ہو سکتی اور کاروبار کرنا دن بہ دن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔صدر چیمبر سلیم میمن نے کہا کہ کاسٹ آف پروڈکشن مسلسل بڑھنے سے نہ صرف ملکی صنعت متاثر ہو رہی ہے بلکہ برآمدی مسابقت بھی کم ہو رہی ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی صارفین کے لیے بجلی اور گیس دونوں کے نرخ کم از کم ممکنہ سطح تک لائے اور ان تجاویز پر عمل کرے جو حیدرآباد چیمبر اور دیگر کاروباری تنظیموں نے پہلے بھی حکومت کو پیش کی تھیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک کپیسٹی چارجز اور غیر ضروری معاہداتی بوجھ ختم نہیں کیے جاتے، بجلی سستی نہیں ہو سکتی۔ اس صورتحال میں پاکستان میں کاروبار چلانا دن بدن ناممکن ہوتا جا رہا ہے، لہٰذا حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر صنعتی شعبے کے لیے ریلیف فراہم کرنا چاہیے تاکہ روزگار کے مواقع برقرار رہیں اور چھوٹی و درمیانی صنعتیں بند ہونے سے بچ سکیں۔صدر حیدرآباد چیمبر نے مزید کہا کہ حکومت اگر صنعتی علاقوں میں (جہاں بجلی چوری کا تناسب انتہائی کم ہے) سب سے پہلے رعایتی نرخوں کا نفاذ کرے، تو یہ زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔ اس سے نہ صرف بجلی کی طلب بڑھے گی بلکہ وہ صارفین جو متبادل ذرائعِ توانائی کی طرف جا رہے ہیں، دوبارہ قومی گرڈ سے منسلک ہو جائیں گے۔ اس طرح حکومت کا ریونیو بھی بڑھے گا اور اضافی 7000 میگاواٹ پیداواری گنجائش کو بہتر طریقے سے استعمال میں لایا جا سکے گا۔انہوں نے باورکروایا کہ اگر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہ کی گئی تو کاروباری طبقہ مجبورا سستے متبادل توانائی ذرائع کی طرف منتقل ہوتا جائے گا، جس سے حکومت کے لیے کپیسٹی چارجز کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت ان پالیسیوں پر عمل کرے جو ماضی میں کیے گئے غیر متوازن معاہدوں کی اصلاح کی طرف جائیں تاکہ توانائی کا شعبہ ایک پائیدار صنعتی ماڈل میں تبدیل ہو سکے۔انہوں نے وزیرِاعظم پاکستان، وفاقی وزیرِتوانائی اور اقتصادی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام یقیناً ایک مثبت آغاز ہے۔