پاکستان کے تعلیمی نظام میں یونیورسٹی آف لندن کا اہم کردار رہا ہے ،عطاتارڑ
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے )وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے کہا کہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں یونیورسٹی آف لندن کا اہم کردار رہا ہے، یونیورسٹی آف لندن سے سند یافتہ افراد آج ملک میں عدلیہ، قانون، سیاست سمیت اہم شعبوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، یونیورسٹی آف لندن کا تعلیمی نظام سیکھنے کا بہترین تجربہ فراہم کرتا ہے۔ان خیالات کااظہار وفاقی وزیر اطلاعات نے یونیورسٹی آف لندن کے المنائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی آف لندن کے المنائی سے ملاقات باعث مسرت ہے۔عطااللہ تارڑ نے کہا کہ یونیورسٹی آف لندن سے بطور ٹیوٹر اپنے کیریئر کا آغاز کیا، پاکستان میں قانون کی تعلیم کا معیار بلند کرنے میں یونیورسٹی آف لندن نے اہم کردار ادا کیا۔وفاقی زیر اطلاعات نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے لیے انمول شراکت داری پر یونیورسٹی آف لندن کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، یونیورسٹی آف لندن سے سند یافتہ افراد آج ملک کے اہم شعبوں میں کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیں۔عطااللہ تارڑ نے کہا کہ پاکستان کی ترقی اور قانون کے شعبے میں ان کا کلیدی کردار ہے، یونیورسٹی آف لندن کے المنائی کا نیٹ ورک گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل ترقی کر رہا ہے اور امید ہے کہ یہ مستقبل میں بھی ترقی کی منازل طے کرے گا۔ وفاقی زیر اطلاعات کا یہ بھی کہنا تھا کہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح اور عظیم مفکر و فلسفی شاعر علامہ محمد اقبال نے برطانیہ کے عظیم الشان ادارے لنکنز ان سے تعلیم حاصل کی، ان دونوں عظیم شخصیات نے اپنی قانونی مہارت اور سیاسی بصیرت کے ذریعے پاکستان کے قیام اور اس کے مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
لندن ہائیکورٹ میں بیان: آئی ایس آئی کا اغوا، تشدد یا صحافیوں کو ہراساں کرنے سے کوئی تعلق نہیں، بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر
سابق پاکستانی فوجی افسر بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر نے برطانیہ کی ہائیکورٹ میں گواہی دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) اور فوج کا ملک میں اغوا، تشدد یا صحافیوں کو دھمکانے جیسے کسی بھی عمل سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ بیان انہوں نے پاکستانی فوج کے سابق میجر عادل راجہ کے خلاف دائر ہتکِ عزت کے مقدمے کی سماعت کے دوسرے روز عدالت میں دیا۔ راشد نصیر کا مؤقف ہے کہ عادل راجہ نے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر بے بنیاد اور جھوٹے الزامات عائد کیے، جن سے نہ صرف ان کی ساکھ متاثر ہوئی بلکہ ان کی زندگی اور خاندان کو بھی خطرات لاحق ہوئے۔
مقدمے کا دائرہ پاکستانی سیاست نہیں: عدالتمیڈیا رپورٹ کے مطابق سماعت کے آغاز پر ڈپٹی ہائیکورٹ جج رچرڈ اسپیئر مین کے سی نے واضح کیا کہ یہ مقدمہ پاکستان کی سیاسی صورتحال یا فوجی اداروں کے کردار سے متعلق نہیں، بلکہ یہ صرف بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کی ذاتی ساکھ پر لگنے والے الزامات کا جائزہ لینے کے لیے ہے۔
یہ بھی پڑھیے فوج سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، ترجمان پاک فوج
جج کے استفسار پر عادل راجہ کے وکیل نے تسلیم کیا کہ ان کے پاس الزامات کے حق میں کوئی ’ثبوت یا حقائق پر مبنی دفاع‘ موجود نہیں، جس کے بعد عادل راجہ نے یہ دفاع واپس لے لیا۔ اب ان کی واحد دفاعی پوزیشن یہ ہے کہ ان کی اشاعتیں ’عوامی مفاد‘ میں تھیں۔
’آئی ایس آئی پرالزام لگانا فیشن بن چکا‘عدالت میں بیان دیتے ہوئے راشد نصیر نے کہا:
’میں نے انٹیلیجنس سروس میں طویل عرصے تک خدمات انجام دیں، لیکن کبھی کسی کو اغواء یا ہراساں نہیں کیا۔ نہ ہی مجھے کبھی ایسے احکامات دیے گئے۔ آج کل پاکستان میں آئی ایس آئی پر الزام لگانا ایک فیشن بن چکا ہے، خاص طور پر ان افراد کی جانب سے جو کئی برسوں سے پاکستان نہیں گئے۔‘
انہوں نے مزید کہا:
’میرا مقدمہ کسی کو خاموش کرانے کی کوشش نہیں، بلکہ یہ میری ذاتی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے متنازع یوٹیوبر عادل راجا کو دھچکا، برطانوی عدالت نے 10 ہزار پاؤنڈ جرمانہ کردیا
راشد نصیر نے بتایا کہ الزامات کے بعد ان کے برطانیہ میں مقیم قریبی رشتہ دار، بالخصوص بھتیجے اور بھانجی کو سیکورٹی خدشات لاحق ہوئے۔ ان کے مطابق:
خاندان کے بعض افراد، خاص طور پر پی ٹی آئی کے حمایتیوں نے ان الزامات کو درست سمجھا۔ برطانوی خفیہ اداروں میں ان کے پرانے رفقا، جن کے ساتھ وہ افغانستان اور یو اے ای میں انسداد دہشتگردی آپریشنز میں شریک رہے، ان کی ساکھ پر تشویش کا اظہار کرنے لگے۔ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کی وجہ سے ایک شخص نے انہیں قتل کرنے کی کوشش کی، جسے گرفتار کر لیا گیا۔ ملزم نے کہا کہ وہ عادل راجہ کی ٹویٹس سے متاثر ہوا تھا۔
’جذباتی حالت میں الزامات لگائے‘، عادل راجہ کا اعترافعادل راجہ نے عدالت میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہو کر کہا کہ انہوں نے الزامات صحافتی ذرائع اور اندرونی معلومات کی بنیاد پر لگائے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے ہمدرد رہے ہیں۔ انہوں نے بریگیڈیئر راشد پر سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر سنگین الزامات عائد کیے۔ وہ بعض اوقات جذباتی ہو گئے تھے اور توہین آمیز زبان استعمال کی۔ ان کی ویڈیوز کا مقصد بعض اوقات زیادہ ویوز حاصل کرنا اور خبریں وائرل کرنا بھی تھا۔
عادل راجہ نے کہا:
’میرے اثاثے ضبط ہوئے، میرے قریبی دوست ارشد شریف کو قتل کر دیا گیا، میرے اہلِ خانہ کو ہراساں کیا گیا۔ ایسی صورتحال میں مجھ سے بہترین اخلاق کی توقع نہ رکھی جائے۔‘
قانونی نکات اور الزامات کی نوعیت
مقدمہ 9 سوشل میڈیا اشاعتوں پر مشتمل ہے جن میں راشد نصیر کو صحافی ارشد شریف کے قتل، سابق وزیراعظم عمران خان پر حملے کی سازش، 2023 کے انتخابات میں دھاندلی جیسے سنگین الزامات کا نشانہ بنایا گیا، بغیر کسی دستاویزی یا ٹھوس ثبوت کے۔
راشد نصیر کے وکیل ڈیوڈ لیمر نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ عادل راجہ کی معلومات محدود تھیں کیونکہ وہ ایک میجر کے عہدے پر فوج سے سبکدوش ہوئے اور سینئر انٹیلیجنس سطح کی معلومات تک رسائی نہیں رکھتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے ہتک عزت کیس: برطانوی عدالت نے عادل راجا پر مزید جرمانہ عائد کردیا
عدالت میں یہ بھی زیر بحث آیا کہ عادل راجہ نے یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارمز پر جنرل باجوہ، عمران خان، جاوید چوہدری، اور عمران ریاض جیسے اہم شخصیات پر بھی بے بنیاد الزامات عائد کیے، جو زیادہ تر ذاتی رائے، قیاس آرائی اور مبالغہ آرائی پر مبنی تھے۔
قانونی ٹیمیں اور اگلی سماعتبریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کی نمائندگی ڈیوڈ لیمر (Doughty Street Chambers)، عشرت سلطانہ اور سعدیہ قریشی (Stone White Solicitors) کر رہے ہیں۔
عادل راجہ کی نمائندگی سائمن ہارڈنگ (Gunnercooke LLP) کر رہے ہیں۔ عدالت نے مزید سماعت تیسرے روز کے لیے مقرر کر دی ہے، جس میں عادل راجہ پر جرح کا سلسلہ جاری رہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی ایس آئی برطانوی ہائیکورٹ بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر میجر عادل راجہ