اٹامک انرجی کمیشن ملازمین کا اغوا، ایک کی لاش دور افتادہ علاقے ظریف وال سے برآمد
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
سوشل میڈیا پر زیر گردش ایک ویڈیو میں مسلّح عمائدین اور پہاڑی علاقے کے رہائشی نظر آرہے ہیں، جب کہ بزرگ نے انکشاف کیا کہ اغوا کاروں نے ریحان اللہ (مغوی اہل کار) کی لاش عمائدی کے حوالے کردی تھی، جسے بعد میں گورنمنٹ سٹی اسپتال منتقل کردیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ ملک کے حساس ترین ادارے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی) کے مغوی کنٹریکٹ ملازم کی لاش ضلع لکی مروت کے دور افتادہ اور دشوار گزار علاقے ظریف وال سے برآمد کرلی گئی۔ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایک بزرگ نے بتایا کہ مقامی عمائدین، یرغمالیوں کے رشتے دار اور شہری تنظیموں کے مسلح ارکان مغوی ملازمین کی تلاش میں علاقے میں داخل ہوئے تھے۔ بزرگ کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جمعہ کو سیکیورٹی فورسز کی جانب سے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر گولہ باری کی اطلاعات سننے کے بعد وہاں گئے۔ تاہم، اس آپریشن کی سرکاری طور پر کوئی تصدیق نہیں کی گئی اور نہ ہی پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ان ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے کوئی بیان جاری کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر زیر گردش ایک ویڈیو میں مسلّح عمائدین اور پہاڑی علاقے کے رہائشی نظر آرہے ہیں، جب کہ بزرگ نے انکشاف کیا کہ اغوا کاروں نے ریحان اللہ (مغوی اہل کار) کی لاش عمائدی کے حوالے کردی تھی، جسے بعد میں گورنمنٹ سٹی اسپتال منتقل کردیا گیا۔ انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ عمائدین نے کوچ ڈرائیور نواز خان کی رہائی کو یقینی بنایا، جسے 9 جنوری کو پی اے ای سی کے کنٹریکٹ ملازمین کے ساتھ اغوا کیا گیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عمائدین، عسکریت پسند رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں تاکہ یرغمالیوں کی بحفاظت رہائی ممکن بنائی جا سکے۔
اسپتال میں طبی و قانونی کارروائی کے بعد ریحان اللہ کی لاش لواحقین کے حوالے کردی گئی، جسے بعداز نماز جنازہ مقامی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا، جہاں ضلع بھر سے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دوسری جانب شاپ کیپرز یونین کے عہدیداروں نے گرینڈ جرگے کی کال پر پیر کے روز لکی مروت شہر میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تاجر برادری یرغمالیوں کی بحفاظت رہائی کو یقینی بنانے کے لیے عمائدین کی مکمل حمایت کرے گی، جب کہ تاجروں نے آئندہ احتجاجی مظاہروں میں شرکت کا بھی اعلان کردیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
گوگل نے 200 ملازمین کو فارغ کردیا، اتنے بڑے پیمانے پر برطرفیوں کی وجہ کیا بنی؟
اس سال اب تک آرٹیفیشل انٹیلیجنس یعنی مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی اور ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ نے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو اپنی تنظیمی ڈھانچے پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
لیکن اس تیزی کی قیمت بھی ادا کرنی پڑ رہی ہے، اور کئی کمپنیوں نے اپنے وسائل اے آئی پر مرکوز کرنے کے لیے ملازمین کو فارغ کر دیا ہے۔
گوگل بھی اپنے اے آئی منصوبوں، خصوصاً جیمنی اور اے آئی اوورویوز کو بہتر بنانے میں مصروف ہے، مگر دیگر بڑی کمپنیوں کے برعکس اس نے حال ہی میں ایک مختلف سمت اختیار کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گوگل کے جیمینی ’نینو بنانا ایپ‘ نے سوشل میڈیا پر دھوم مچادی
اطلاعات کے مطابق، گوگل نے محنت کشوں کے حقوق اور خراب کام کرنے کے حالات پر بڑھتے تنازع کے بیچ سینکڑوں اے آئی ورکرز کو برطرف کر دیا۔
امریکی جریدے وائرڈ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، اگست میں 200 سے زائد کنٹریکٹرز کو اچانک نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔
یہ ورکرز مختلف آؤٹ سورسنگ کمپنیوں کے ذریعے بھرتی کیے گئے تھے اور گوگل کے اے آئی منصوبوں میں بنیادی کردار ادا کر رہے تھے۔
مزید پڑھیں: گوگل جیمنی پہلی بار چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑنے میں کامیاب، یہ کام کیسے ہوا؟
ان کی ذمہ داریوں میں اے آئی کے جوابات کا تجزیہ کرنا، انہیں دوبارہ لکھنا، درجہ بندی کرنا اور سسٹم کو درست اور ہموار رکھنے کے لیے فیڈ بیک دینا شامل تھا۔
اہم کردار ادا کرنے کے باوجود ان میں سے بیشتر کو کم معاوضہ اور خراب کام کرنے کے حالات کا سامنا تھا، مثال کے طور پر، گلوبل لاجک کے ذریعے بھرتی ہونے والے ’سپر ریٹرز‘ کو فی گھنٹہ 28 سے 32 ڈالر دیے جاتے تھے۔
جبکہ اسی نوعیت کا کام کرنے والے دوسرے کنٹریکٹرز کو صرف 18 سے 22 ڈالر فی گھنٹہ ملتے تھے، ان میں سے کئی ملازمین نے شکایت کی کہ انہیں نہ تو ملازمت کی کوئی ضمانت تھی اور نہ ہی بنیادی سہولتیں میسر تھیں۔
مزید پڑھیں: ’گوگل اے آئی خلاصہ گلے پڑگیا‘، آن لائن ٹریفک متاثر ہونے پر ببلشرز کا احتجاج
صورتحال اس وقت مزید کشیدہ ہو گئی جب ورکرز نے خراب حالات کے خلاف آواز بلند کی اور یونین سازی پر غور شروع کیا۔ تاہم، گوگل نے اس پر ناپسندیدگی ظاہر کی اور سوشل میڈیا پر حالاتِ کار پر بات کرنے والے ملازمین کو وارننگ دی۔
جلد ہی اچانک برطرفیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، بعض ملازمین کو بتایا گیا کہ یہ فیصلے ’پروجیکٹ کم کرنے‘ کی وجہ سے کیے گئے ہیں، جبکہ ٹیم کے کچھ ارکان کا کہنا ہے کہ انہیں غیر حقیقی اہداف دیے جا رہے تھے جو دباؤ میں اضافے کا باعث بنے۔
گوگل کا موقف ہے کہ یومیہ ورکنگ کنڈیشنز کی نگرانی اس کے کنٹریکٹرز اور سب کنٹریکٹرز کی ذمہ داری ہے، تاہم متاثرہ ملازمین کا کہنا ہے کہ پالیسیوں نے انہیں کسی قسم کا تحفظ فراہم نہیں کیا۔
یہ برطرفیاں اس بات کو اجاگر کرتی ہیں کہ اے آئی کی صنعت اب بھی انسانی محنت پر انحصار کرتی ہے، مگر اس محنت کو اکثر وہ قدر نہیں دی جاتی جس کی وہ مستحق ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آرٹیفیشل انٹیلیجنس اے آئی ٹیکنالوجی گوگل