Daily Ausaf:
2025-07-26@00:48:40 GMT

پاک بنگلہ دیش،دفاعی تعاون کی اہمیت

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

ہمارے خطے میں سیاست کایہ چلن ہوگیاہےکہ لوگوں کومذہب کی آڑمیں اس قدربزدل بنادوکہ وہ محرومیوں کوقسمت اورظلم کو آزمائش سمجھ کر صبر کرلیں۔ حقوق کے لئے آوازاٹھاناگناہ سمجھیں،غلامی کواللہ کی مصلحت قراردیں اورقتل کوموت کادن معین سمجھ کرچپ رہیں۔یہی وجہ ہےکہ غلام قومیں بدکرداروں کوبھی دیوتامان لیتی ہیں اورآزاد قومیں عمربن خطاب جیسے بے مثل حکمرانوں کابھی محاسبہ کرتی ہیں۔
جس دن ہم نےاپنے بچوں کویہ ذہن نشین کرادیاکہ ہمارے ہیرو وہ نہیں جوجنگ وجدل اورخون بہانے کی دھمکیاں دیتےرہتے ہیں بلکہ ہمارے ہیروتووہ ہیں جوانسانی وحیوانی زندگی کااحترام اپنےرب کے خوف کاحکم سمجھ کر خودپرفرض کرلیتے ہیں،اوران کی راتیں اللہ کے خوف سے سجدوں میں جھکی رہتی ہیں اورظلم کے خلاف سینہ سپرہوکراللہ کی ودیعت کردہ قوت کے ساتھ اس ظلم کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیواربن کرکھڑے ہوجاتے ہیں۔یہ ہیرو ہمارے سائنسدان ،قلمکار اوراعلیٰ تعلیم یافتہ افرادہمارے استاد بنیں گے توپھرہی معاشرے سے ہمارے بچےجرائم اورتشددسےنفرت کرناسیکھیں گے۔ اس لئے اپنےبچوں کوحق اورباطل میں فرق سمجھاتے ہوئےایسی زندگی سےمحبت سکھائیں جوہمیشہ کی اخروی زندگی کا زادِہ راہ بن سکے۔
اس کی حالیہ مثال یوں ہےکہ صرف دوہفتے قبل2جنوری کومیرے آرٹیکل’’خوش گمانی یابدگمانی‘‘ میں بنگلہ دیش کی ظالم ترین مفرورحسینہ کی سگی بھانجی ٹیولپ صدیق کی مبینہ بدعنوانی کا ذکرکیا تھا اورآج تمام عالمی میڈیامیں یہ خبر وائرل ہورہی ہے کہ برطانوی کابینہ کی رکن ٹیولپ صدیق نےبنگلہ دیش میں اپنےخلاف بدعنوانی کے مقدمے کی تحقیقات کی وجہ سے استعفیٰ دےدیا ہے۔42سالہ ٹیولپ صدیق برطانوی وزارت خزانہ میں اقتصادی وزیرتھیں اوروہ بنگلہ دیش میں گزشتہ برس عوامی احتجاج کےبعدحکومت چھوڑنے والی سابق وزیر ِاعظم شیخ حسینہ واجدکی بھانجی ہیں۔
ٹیولپ صدیق پرالزام ہےکہ انہوں نے2013ء میں بنگلہ دیش اورروس کے درمیان ایک معاہدہ کروایاجس کے باعث بنگلہ دیش میں نیوکلیئرپاورپلانٹ کی کل قیمت میں اضافہ ہوا ۔ ٹیولپ صدیق کانام بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے دوران بدعنوانی کی تحقیقات کے حوالے سے سامنے آیاہے اورالزام ہےکہ بنگلہ دیش میں ان کاخاندان مبینہ طور پر تین اعشاریہ نوارب پائونڈکی خوردبرد میں ملوث ہے۔برطانوی وزیرکے طور پر خدمات انجام دینے کے دوران،ٹیولپ کاکام ملک کی مالیاتی منڈیوں میں ہونے والی بے ضابطگیوں سے نمٹنا بھی تھا۔ بنگلہ دیشی نژادوزیرکی جانب سےوزارت چھوڑنےکافیصلہ بنگلہ دیش میں بدعنوانی کی ایک اور تحقیقات میں شامل کیےجانے کے بعد کیا گیا ہے۔
صدیق لندن کی ہیمپسٹڈاورہائی گیٹ سیٹ سے لیبرپارٹی کے رکن پارلیمنٹ ہیں۔اس سے قبل وہ شیخ حسینہ سے وابستہ افرادکی جانب سے لندن میں جائیدادوں کے استعمال پربھی تحقیقات کی زدمیں آچکی تھیں۔برطانوی اخبارفنانشل ٹائمزنے اپنی ایک رپورٹ میں دعوی کیاتھاکہ شیخ حسینہ کی حکومت سے وابستہ ایک شخص نے ٹیولپ کوکنگزکراس کے علاقے میں فلیٹ دیاتھا۔میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق ٹیولپ نے2022ء میں یہ فلیٹ بطورتحفہ حاصل کرنے کی خبروں کومستردکرتے ہوئےکہاتھاکہ یہ فلیٹ ان کے والدین نےخریدا ہے۔انہوں نے اخبارکوخبرشائع کرنے پرقانونی کارروائی کی دھمکی بھی دی تھی لیکن پھرلیبرپارٹی سے وابستہ ذرائع نےاخبارکوبتایاتھاکہ یہ فلیٹ ٹیولپ صدیق کوایک پراپرٹی ڈویلپر نے تحفے میں دیاتھا،جس کے مبینہ طورپران کی خالہ شیخ حسینہ سےروابط تھے۔
برطانوی وزیراعظم کے مشیرسرلاری میگنس نے ایک ہفتے تک اس معاملے کی تحقیقات کیں۔ سرلاری نے تحقیقات کے بعد اپنے خط میں کہاکہ ’’ٹیولپ صدیق نے اعتراف کیاکہ وہ نہیں جانتی تھیں کہ کنگزکراس میں ان کے فلیٹ کااصل مالک کون ہے۔ ٹیولپ یہ فرض کررہی تھیں کہ ان کے والدین نےیہ فلیٹ اس کے سابقہ مالک سے خریدکرانھیں تحفتاً دیا تھا اوریوں انہوں نے نادانستہ طورپرعوام کو فلیٹ دینے والے فردکی شناخت کے بارے میں گمراہ کیا۔‘‘
ان کے ناناشیخ مجیب الرحمان بنگلہ دیش کے پہلے صدرتھے۔1975ء میں جب ڈھاکہ میں فوجی بغاوت ہوئی تومجیب الرحمان اوران کے خاندان کے بیشترافرادمارے گئے تاہم ٹیولپ کی والدہ ریحانہ اوران کی بہن شیخ حسینہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے بچ گئی تھیں۔ان کی والدہ کوبرطانیہ نے اس وقت سیاسی پناہ دی جب وہ بہت چھوٹی تھیں۔ان کے والد ڈھاکہ میں ایک یونیورسٹی کے پروفیسر تھے اوران کی ٹیولپ کی والدہ سے لندن میں ملاقات ہوئی تھی جہاں انہوں نے شادی کرلی اوراپنے خاندان کولندن منتقل کردیا۔
2017ء میں چینل4کے ایک انٹرویوکے دوران میزبان نے ٹیولپ صدیق سے پوچھاتھاکہ انہوں نے بنگلہ دیش میں کبھی اپنی خالہ کو چیلنج کیوں نہیں کیاجن پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کاالزام ہے۔ اس بحث کے بعدپروگرام کے ایڈیٹرنے شکایت کی تھی کہ ٹیولپ صدیق کارویہ ایک حاملہ پروڈیوسرکے ساتھ ’’دھمکی آمیز‘‘تھا،بعدازاں ٹیولپ صدیق نے اپنے رویے پرمعافی مانگ لی تھی۔
ادھرشیخ حسینہ کی اقتدارسے علیحدگی کے بعدحالیہ دنوں میں پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے اور سفارتی سطح پربہت سی پیشرفت ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی اورتجارتی تعلقات میں تیزی سے قربت بڑھ رہی ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں کی دیواریں منہدم ہوناشروع ہوگئی ہیں اورملکی تجارت میں ایک بہترین اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی بنگلہ دیش کاسب سے بڑاتعلیمی ادارہ ہے۔اب بنگلہ دیش نے پاکستانی طلباکوڈھاکہ یونیورسٹی میں داخلہ لینےکی اجازت بھی دے دی ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے بھی بنگلہ دیشی شہریوں اور طلبا کے لئے ویزا حاصل کرنے کے عمل کو خاصا آسان بنادیاہے اوربنگلہ دیشی طلباکوپاکستان کے تمام تعلیمی اداروں میں داخلے کے لئے بہترین سہولتوں کا اعلان کردیاہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کی پرووائس چانسلرپروفیسرسائمہ حق بیدیشہ نے بتایاکہ یہ فیصلہ13نومبرکووائس چانسلر پروفیسر نیازاحمدخان کی صدارت میں منعقدہ سنڈیکیٹ اجلاس میں کیاگیا۔نئی پالیسی کےمطابق پاکستانی طلباڈھاکہ یونیورسٹی میں داخلہ لے سکیں گے اوربنگلہ دیشی طلباء پاکستان میں تعلیم حاصل کرسکیں گے۔اس فیصلے کے بعد کہا جارہاہےکہ شیخ حسینہ کےاقتدارسے باہرہونے کے بعد پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان مختلف سطحوں پرقربت مسلسل بڑھ رہی ہے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعدپہلی بارپاکستان کابنگلہ دیش کے ساتھ سمندری رابطہ بحال ہواجب ایک پاکستانی مال بردارجہازکراچی سے بنگلہ دیش کےجنوب مشرقی ساحل پرواقع چٹاگانگ کی بندرگاہ پرپہنچا۔اس سے پہلے دونوں ممالک کےدرمیان بحری تجارت سنگاپوریاکولمبوکےذریعےہواکرتی تھی۔پروفیسرسیماحق بیدیشہ نے بنگلہ دیش کےانگریزی اخبارڈھاکہ ٹریبیون کوبتایاکہ ’’پاکستان کے ساتھ تعلقات کئی سطحوں پراچھےنہیں تھے جسکی وجہ حسینہ کاپاکستان دشمنی اور ہندوستان کادباؤ تھالیکن ڈھاکہ یونیورسٹی ایک تعلیمی ادارہ ہے۔ہمارے بہت سے طلباسکالرشپ پرپاکستان جاناچاہتےہیں۔کئی لوگ تعلیمی کانفرنسوں میں شرکت کرناچاہتے ہیں۔ہم نے اس مسئلے کوبات چیت کے ذریعے حل کرلیاہے۔اس معاملے میں پاکستان کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کردیے گئے ہیں،اب دوسرے اداروں کوبھی بڑھ کرملکی مفادکے لئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس کی داغ بیل ہم نے ڈال دی ہے‘‘۔
ڈھاکہ یونیورسٹی نے بنگلہ دیش کی تاریخ میں ایک اہم کرداراداکیاہے۔بنگلہ دیش میں حکومتوں کےخلاف احتجاج کی آوازبھی اسی یونیورسٹی سے اٹھی ہے۔ اس سال جولائی ، اگست میں شیخ حسینہ کے خلاف تحریک کاآغازبھی ڈھاکہ یونیورسٹی سے ہوا۔یادرہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں بالخصوص’’را‘‘نےاسی یونیورسٹی سے1971کی جنگ میں بھی اہم کردار ادا کیاتھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا اوراساتذہ کوپاکستان کے فوجی آپریشن سرچ لائٹ کے دوران نشانہ بنانے کاجھوٹا پروپیگنڈہ کرکے بنگالی عوام کواشتعال دلانے میں اہم کردار اداکیاتھا۔حسینہ واجد نے اپنے بھارتی آقاؤں کی مددسے ڈھاکہ یونیورسٹی کو پاکستان مخالف تحریک کی جائے پیدائش کےطورپراستعمال کرتےہوئےخوب شہرت پائی اورشیخ حسینہ کی حکومت کےدوران یونیورسٹی میں یہ مطالبہ کیاگیاکہ پاکستان1971ء میں مشرقی پاکستان میں نسل کشی پرمعافی مانگے۔(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بنگلہ دیش میں اوربنگلہ دیش شیخ حسینہ کی بنگلہ دیش کے بنگلہ دیشی ٹیولپ صدیق پاکستان کے کے درمیان انہوں نے کے دوران کے ساتھ کے بعد کے لئے

پڑھیں:

جنگلی حیات کی اہمیت و افادیت اجاگر کرنے کے لیے آگاہی مہم جاری

سینیئر صوبائی وزیر پنجاب مریم اورنگزیب اور سیکریٹری جنگلات ، جنگلی حیات وماہی پروری پنجاب مدثر ریاض ملک کی ہدایت پر پنجاب میں چیف وائلڈ لائف رینجر مبین الہی کی سربراہی میں عوام میں جنگلی جانوروں و پرندوں کی اہمیت و افادیت اجاگر کرنے کے لیے پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے باقاعدہ ایک آگاہی مہم چلائی جارہی ہے۔

اس تناظر میں آج ماحولیاتی توازن میں اہم کردار کے حامل ایک ممالیہ سیوٹ کیٹ جسے مقامی زبان میں مشک بلی کہا جاتا ہے، کے متعلق دلچسپ حقائق عوام کو بتائے جارہے ہیں تاکہ عوام اس عطیہ قدرت کو غیر قانونی شکار اور کاروبار سے محفوظ بنائیں۔

یہ بھی پڑھیں: صدیوں پرانی سیمابی آلودگی آرکٹک کی جنگلی حیات کے لیے خطرہ بن گئی

سیوٹ کیٹ بنیادی طور پر ایشیا اورافریقہ کے بعض حصوں میں پائی جاتی ہے ، بظاہریہ جانور بلی کی طرح نظر آتا ہے ،حقیقت میں یہ بلی سے مختلف ہے ۔مشک بلی کا جسم دبلا پتلا ، نوکیلی ناک ، چھوٹی ٹانگیں اور دم لمبی ہے ،عمومی طور پر اس کا وزن 1.5کلو گرام سے5 کلوگرام تک ہوتا ہے.

یہ ایک سبزی و گوشت خور جانور ہے جو پھل کے علاوہ کیڑے مکوڑے وغیرہ کھاتا ہے۔سیوٹ کیٹ کا مسکن جنگلات ، جھاڑیاں ، پہاڑی علاقے کے علاوہ انسانی آبادیوں کے قریب پائی جاتی ہے ،یہ زیادہ تر رات کو سرگرم ہوتی ہے ،یہ درختوں پر چڑھنے کی ماہر ہے ،اس کے جسم میں قدرتی طور پر ایک غدود ہوتا ہے جو خوشبو دار مادہ سیوٹون خارج کرتا ہے جسے پرفیوم بنانے میں استعمال کیاجاتا رہا، اکثر ممالک میں اسے مکمل قانونی تحفظ حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم محمد شہباز شریف کا جنگلی حیات کے عالمی دن 2025 کے موقع پر پیغام

پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس کی آبادی کو خطرات لاحق ہیں کیونکہ اس جانور کا غیرقانونی شکار اور ناجائز تجارت کی جاتی ہے مزید برآں اس کا قدرتی مسکن بھی تباہ ہوتا جارہا ہے ۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات نے اسے وائلڈلائف ایکٹ کے جدول تھری میں رکھا ہے جس مکمل تحفظ حاصل ہے تاہم عوام سے اپیل ہے کہ وہ سیوٹ کیٹ یا دیگر جنگلی حیات کی بابت شکایت کی صورت میں فوری 1107پر محکمہ کو اطلاع دے کر جنگلی حیات بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

Civet Cat we news افریقہ آگاہی مہم ایشیا پاکستان پنجاب حکومت جنگلی حیات سیوٹ کیٹ مریم اورنگزیب

متعلقہ مضامین

  • چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ساحر شمشاد سے تاجک جنرل کی ملاقات، دفاعی تعاون پر گفتگو
  • فیلڈ مارشل کی چینی سیاسی وعسکری قیادت سے ملاقاتیں، دفاعی تعاون کو وسعت دینے کا عزم
  • فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا دورہ چین، اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں، دفاعی تعاون پر اتفاق
  • پاکستان میں جدید AI ریسرچ سینٹرز کے قیام پر پیش رفت
  • جنرل ساحر شمشاد سے سعودی نیول چیف کی ملاقات، دفاعی تعاون بڑھانے کا عزم
  • محسن نقوی کی بنگلہ دیشی وزیر سے ملاقات‘  ایمپائرز ڈویلپمنٹ کیلئے تعاون پر اتفاق 
  • محسن نقوی کی بنگلہ دیشی وزیر کھیل سے ملاقات، کرکٹ و ایمپائرنگ تعاون پر اتفاق
  • جنگلی حیات کی اہمیت و افادیت اجاگر کرنے کے لیے آگاہی مہم جاری
  • پاکستانیوں کے لیے ایک اور ملک میں ویزا فری انٹری کی سہولت  
  • محسن نقوی کی بنگلہ دیش اہم ملاقات، ویزا فری انٹری سمیت سیکیورٹی تعاون پر اہم پیشرفت